چھٹے پارے کا خلاصہ ۔۔۔۔۔۔ علامہ ابتسام الہی ظہیر
Para # 6.png
قرآن پاک کے چھٹے پارے کے شروع میں اللہ تعالیٰ سورۃ النساء میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ غلط بات کو پسند نہیں کرتا‘ مگر یہ کہ اگر کوئی مظلوم شخص اپنے اوپر کیے جانے والے ظلم کے خلاف آواز اٹھائے تو اسے ایسا کرنے کی اجازت ہے۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے کافروں کے اس طرز عمل کا ذکر کیا ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول ؐکے درمیان تفریق کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی بات کو تو مانتے ہیں‘ لیکن رسول ﷺ کی بات کو نہیں مانتے یا دوسرے ترجمے کے مطابق اللہ کے بعض رسولوں کو مانتے ہیں اور بعض کا انکار کرتے ہیں یعنی موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام کو تو مانتے ہیں لیکن رسول اللہ ﷺ کا انکار کرتے ہیں۔ ایسے لوگ حق سے انکاری ہیں جبکہ مومنوں کا طرز ِعمل یہ ہوتا ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے فرامین کو بیک وقت مانتے ہیں یعنی اللہ کے تمام رسولوں کو مانتے ہیں۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ یہودی سیدہ مریم علیہا السلام کی کردار کشی کیا کرتے تھے حالانکہ وہ پارسا اور پاک دامن عورت تھیں۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اس امر کا بھی ذکر کیا کہ یہودی اپنی دانست میں عیسیٰ علیہ السلام کو شہید کرچکے تھے‘ جبکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام کو یقیناشہید نہیں کیا گیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو آسمانوں کی سمت اٹھا لیا۔ اسی طرح ان کو اللہ نے سودکھانے سے روکا تھا لیکن وہ اس غلط کام میں مسلسل ملوث رہے ۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کافروں کے لیے درد ناک عذاب کو تیار کر دیا تھا ۔لیکن اہل کتاب کے پختہ علم والے لوگ جو کہ قرآن اور سابقہ الہامی کتابوں پر ایمان لاتے ہیں اور نمازوں کو قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا شروع کر دیتے ہیں اور آخرت پر ایمان لے آتے ہیں ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے اجر عظیم تیار کر دیا ہے ۔اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو اپنی دلیل اور واضح روشنی قرار دیاہے اور ارشاد فرمایا کہ جو بھی قرآن مجید کو مضبوطی کے ساتھ تھامے گا اللہ تعالیٰ اس کو اپنے فضل اور رحمت میں داخل فرمائے گا اور اس کو صراط مستقیم پر چلائے گا ۔
اس کے بعد سورۃ المائدہ ہے اور اس کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو اپنے وعدے پورے کرنے کا حکم دیا ہے ۔ اور ان کو اس بات کی تلقین کی ہے کہ انہیں کامیابی اور بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔ گناہ اور ظلم کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون نہیں کرنا چاہیے ۔اس پارے میں اللہ نے یہ بھی ارشاد فرمایاکہ '' آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کر دی ہے اور اسلام کو بحیثیت دین تمہارے لیے پسند کر لیا ہے‘‘۔امام بخاری ؒ‘ امام مسلم ؒاور امام احمد ؒنے طارق بن شہابص سے روایت کی ہے کہ ایک یہودی حضرت عمرؓ بن خطاب کے پاس آیا اور کہا اے امیر المومنین آپ لوگ اپنی کتاب میں ایک ایسی آیت پڑھتے ہیں اگر وہ ہم پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو یوم عید بنا لیتے۔ انہوں نے پوچھا کہ وہ کونسی آیت ہے تو یہودی نے آیت مذکورہ بالا کا ذکر کیا۔
اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو مومنہ عورتوں کے ساتھ ساتھ اہلِ کتاب کی پاک دامن عورتوں سے بھی نکاح کی اجازت دی ہے ‘لیکن یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ سورۃ البقرہ اور سورۃالممتحنہ کے مطابق ‘مسلمان عورتوں کو صرف مسلمان مردوں ہی سے شادی کرنی چاہیے ۔ سورۃ المائدہ میں اللہ تعالیٰ نے عیسائیوں کے اس قول کو رد کیا کہ وہ معاذ اللہ عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ عیسیٰ علیہ السلام‘ ان کی والدہ مریم علیہا السلام اور زمین پر جو کوئی بھی موجود ہے ان کو فنا کے گھاٹ اتار دے تو اللہ تعالیٰ کو کون پوچھ سکتا ہے ۔اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کاواقعہ بیان فرمایا ہے کہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ '' اللہ نے تم پر جو انعامات کئے ہیں ان کو یاد کرو ۔تم میں انبیاء مبعوث کیے گئے اور تم کو بادشاہت عطا کی گئی اور تم کووہ کچھ عطا کیا جو کائنات میں کسی دوسرے کو نہیں ملا‘‘۔ اللہ کے احسانات کا احساس دلانے کے بعد حضرت موسیٰعلیہ السلام نے اپنی قوم کو کہا کہ اے میری قوم! تم لوگ ارضِ مقدس میں داخل ہو جاؤ۔ انہوں نے کہااگر تم لوگ ارضِ مقدس میں داخل ہو جاؤ گے تو یقینا تم غالب آؤ گے۔ اگر تم مومن ہو تو صرف اللہ پر بھروسہ رکھو۔ اس حوصلہ افزا بات کو سن کر بھی وہ بزدل بنے رہے اور کہنے لگے: '' اے موسیٰعلیہ السلام جب تک وہ لوگ وہاں رہیں گے ہم لوگ کبھی وہاں نہیں جائیں گے تم اور تمہارا رب جائے اور جنگ کرے ہم تو یہاں بیٹھے ہیں۔ موسیٰعلیہ السلام اس سارے منظر کو دیکھ کر بہت رنجیدہ ہوئے اور اللہ کی بارگاہ میں آکر کہنے لگے: '' اے میرے رب! مجھے اپنے اور اپنے بھائی کے علاوہ کسی پر کوئی اختیار حاصل نہیں پس تو ہمارے اور نافرمانوں کے درمیان فیصلہ کر دے ۔موسیٰعلیہ السلام کی نافرمانی کی وجہ سے بنی اسرائیل کے لوگ منزل سے بھٹک گئے اور چالیس برس تک دربدر کی ٹھوکریں کھاتے رہے ‘‘۔ آج ہمیں بھی اپنے حالات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہیں ہماری محرومیوں اور زوال کی وجہ اللہ اور اس کے رسولﷺکے راستے سے ہٹنا تو نہیں۔
اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے آدمعلیہ السلام کے دو بیٹوں کے اختلاف کا بھی ذکر کیا ہے کہ اللہ نے ایک بیٹے کی قربانی کو قبول کر لیا جبکہ دوسرے کی قربانی قبول نہ ہوئی۔ جس کی قربانی قبول نہیں ہوئی تھی اس نے اپنے بھائی کوحسد کا شکار ہو کربلا وجہ شہید کردیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آدم علیہ السلام کے بیٹوں کے واقعے کو بیان فرما کر انسان کے قتل کی شدید مذمت کی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جو ایک انسان کا ناحق قتل کرتا ہے‘ وہ ایک انسان کا قتل نہیں کرتا پوری انسانیت کا قتل کرتا ہے اور جو ایک کو زندہ کرتا ہے‘ وہ ایک کو زندہ نہیں کرتا پوری انسانیت کو زندہ کرتا ہے۔اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے زمین پر فساد پھیلانے والوں کے لیے سخت سزا کو تجویز کیا ہے کہ ان کو پھانسی دے دینی چاہیے یا ان کو قتل کردینا چاہیے یا ان کے ہاتھوں اور پیروں کو کاٹ دینا چاہیے یا ان کو جلا وطن کر دینا چاہیے ۔یہ دنیا میں ان کے کئے کی سزا ہے اور آخرت کا عذاب تو انتہائی درد ناک ہے۔ اس کی شان نزول کی بابت آتا ہے کہ عکل اور عرینہ قبیلے کے کچھ لوگ مسلمان ہو کر مدینہ آئے‘ انہیں مدینہ کی آب و ہوا راس نہ آئی تو نبی ﷺ نے انہیں مدینہ سے باہر‘ جہاں صدقے کے اونٹ تھے‘ بھیج دیا؛چنانچہ چند روز میں وہ ٹھیک ہوگئے لیکن اس کے بعد انہوں نے اونٹوں کے رکھوالے اور چروا ہے کو قتل کر دیا اور اونٹ ہنکا کر لے گئے۔ جب نبیﷺ کو اس امر کی اطلاع ملی تو آپﷺ نے ان کے پیچھے آدمی دوڑائے جو انہیں اونٹوں سمیت پکڑ لائے۔ نبیﷺنے ان کے ہاتھ پیر مخالف جانب سے کٹوائے ‘ ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھروائیں‘ (کیونکہ انہوں نے بھی چروا ہے کے ساتھ ایسا ہی کیا تھا) پھر انہیں دھوپ میں ڈال دیا گیا حتیٰ کہ وہیں مر گئے۔اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے یہود و نصاریٰ سے دوستی کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ جو ان سے دلی دوستی رکھتا ہے وہ انہی میں سے ہے۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے نبیﷺ کو اس امر کی تلقین کی ہے کہ اللہ کے نازل کردہ پیغامات کو پھیلائیں‘ آپ کے دشمن آپ کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتے۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کے ذات باری کے بارے میں منفی اقوال کو بھی پیش کیا کہ معاذ اللہ وہ کہتے ہیں کے اللہ کے ہاتھ تنگ ہیں۔ اللہ نے کہا کہ ان کے ہاتھ تنگ ہیں اور ان پر لعنت ہو اپنے اس قول کی وجہ سے۔ اللہ نے کہا کہ اس کے ہاتھ کھلے ہیں وہ جیسے چاہتا ہے خرچ کرتا ہے ۔اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ جناب دائود اور عیسیٰ علیہما السلام نے بنی اسرائیل کے کافروں پر لعنت کی اس لیے کہ وہ بُرائی کے کاموں سے روکنے کی بجائے خود اس میں ملوث ہو چکے تھے اور ان کا یہ کام انتہائی برا تھا ۔ہم مسلمانوں کو بھی برائی کے کام سے روکنے کا عمل جاری رکھنا چاہیے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں قرآن مجید فرقان حمید کوپڑھنے ‘ سمجھنے اور اس پرعمل کرنے کی توفیق دے۔ (آمین)