خود احتسابی ۔۔۔۔۔ طاہر جپہ
self accountabiltiy.jpg
ہمارے معاشرے میں اخلاقی قدریں، سماجی بندھن اور انسانی رویے بڑی تیزی سے زوال پذیر ہیں اور اس اخلاقی بحران اور معاشرتی انتشار کے کئی عوامل اور بے شمارمحرکات ہیں۔ کافی حد تک سسٹم کی خرابی، سیاسی عدم استحکام، معاشی تفاوت اور انصاف کی عدم فراہمی اس بگاڑ کے ذمہ دار ہیں مگر انفرادی سطح پر ہمارے اپنے اندر بھی بہت سی خرابیاں ہیں جنہیں ہم اس تنزلی کے سفر میں کہیں شمار نہیں کرتے بلکہ اپنی ان ساری وارداتوں، کج رویوں اور کوتاہیوں کو نظام کے کھاتے میں ڈال کر پتلی گلی سے نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ چاروں طرف لوٹ کھسوٹ، منافع خوری، گراں فروشی، ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی، رشوت ستانی، اقربا پروری، تشدد اور عدم برادشت کے نت نئے ریکارڈ بنتے اور ٹوٹتے نظر تو آتے ہیں مگر ان خرابیوں کی ذمہ داری انفرادی سطح پر کوئی بھی شخص اپنے کھاتے میں ڈالنے کیلئے تیار نہیں ہوتا۔ کم تولنے والا اور ملاوٹ شدہ اشیا تین گنا قیمت پر بیچنے والا بھی سب خرابیوں کی جڑ حکومتِ وقت کو ہی سمجھتا ہے اور حالات کا رونا رونے میں دیر نہیں لگاتا۔ اس افسوس ناک اخلاقی انحطاط میں ہمارے اس رویے اور طرزِ عمل کا بہت بڑا دخل ہے۔ ہمارے معاشرتی ڈھانچے میں ایک اور علت جسے ہم نے اپنے اندر سمو رکھا ہے اور جو ہماری روزمرہ زندگی کے اندر کینسر کی طرح سرایت کر چکی ہے‘ وہ ہے دوسروں کی زندگی میں غیر ضروری اور بے جا مداخلت، دوسروں کے معاملات میں خواہ مخواہ ٹانگ اڑانا بلکہ اس سلسلے میں اپنے قیمتی وقت‘ توانائیوں اور صلاحیتوں کو استعمال میں لا کر دوسروں کے بارے میں کھوج لگا کر، جاسوسی کر کے معلومات نہ صرف اکٹھی کی جاتی ہے بلکہ پھر اس کی تشہیر بھی کی جاتی ہے۔ دوسروں کی ترقی اور خوشحالی کو رول ماڈل بنا کر اِس سے سبق سیکھ کر اپنی زندگی کوکامیابی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کے بجائے ان کے معاملات کی ٹوہ لگا کر، منفی زاویہ نگاہ میں رکھ کر انہیں اپنے سے کم تر ثابت کر نے میں لوگ اپنی زندگیاں خراب کر لیتے ہیں، اپنی توانائیاں ضائع کر بیٹھتے ہیں بلکہ اپنی کئی نسلیں تک تباہ کر لیتے ہیں لیکن کبھی کوئی خیر کی خبر نہیں آتی، کسی کے لیے خوشگوار الفاظ ادا نہیں ہوتے اور نہ ہی وہ کسی کو اپنے سے بہتر انسان ماننے کے لیے تیار نظر آتے ہیں۔ دراصل یہ رویہ ہی اُن کی زندگی میں پسماندگی، ناکامی اور مایوسی کے سارے اسباب پیدا کرتا ہے مگر انہیں نہ اپنے اس جرم کا احساس ہوتا ہے اور نہ ہی وہ اسے کوئی برائی سمجھتے ہیں۔ آپ کو زندگی میں ایسے افراد سے کئی مرتبہ واسطہ پڑا ہوگا کہ وہ آپ کے انتہائی قریبی دوست یا رشتہ دار کے بارے میں ہوش رُبا انکشافات کرنے لگیں گے اور جواب میں آپ سے داد و تحسین کی توقع بھی رکھتے ہوں گے حالانکہ آپ خود اس وقت سکتے کی سی کیفیت سے دوچار ہوں گے۔
اخلاقی عیوب میں ایک قبیح حرکت غیبت ہے اور یہ بڑے گناہوں میں شمار ہوتی ہے جسے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حقیقی بھائی کا مردار گوشت کھانے کے برابر گردانا ہے اور اِس کی سخت وعید آئی ہے مگر ہمارے معاشرے میں غیبت کو ایک مشغلہ سمجھا جاتا ہے۔ جہاں چند دوست احباب اکٹھے ہوں گے وہاں کسی نہ کسی کی خامیاں ضرور زیر بحث لائی جائیں گی۔ ایک زمانے میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ زیادہ تر غیبت خواتین کرتی ہیں مگر آج کل یہ اخلاقی برائی مرد وزن میں برابر دیکھی جا سکتی ہے۔ ذاتی محفل ہو یا محفلِ یاراں، شادی بیاہ کی تقریب ہوں یا کسی مرگ پر اکٹھے ہوئے لوگ، غیبت کے دریا پورے زور سے بہتے نظر آتے ہیں۔ یہ کئی لوگوں کیلئے دلی سکون اور راحت کے حصول کا پسندیدہ ذریعہ سمجھی جاتی ہے۔ امریکی صدر روز ویلٹ کی اہلیہ ایلنور روز ویلٹ نے بالکل سچ کہا تھا کہ بڑے ذہن کے مالک افراد افکار کو زیرِ بحث لاتے ہیں، اوسط درجے کے اذہان واقعات پر گفتگو کرتے ہیں جبکہ سب سے کم تر ذہن رکھنے والے لوگ محض لوگوں کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں۔ یہ بات ہمارے معاشرے پر سو فیصد لاگو ہوتی ہے جس کی حقیقت سے انکار ممکن نہیں۔
ہمارے معاشرے کا ایک اور بڑا مسئلہ منافقت اور قول و فعل کا تضاد ہے، ظاہر اور باطن کا تفاوت ہے، لوگ ایک چہرے کے پیچھے درجنوں چہرے چھپائے پھرتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ ہمارے سیاسی قائدین وعدوں، دعووں اور خوبصورت الفاظ سے من موہ لینے والے جادوگر ہیں، عملی طور پر ہمیشہ اپنے معاملات میں وہ بہت نیچے گرے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہی دو رخی قائدین سے چلتی چلتی نچلی سطح پر منتقل ہوئی اور اب خاص وعام کی زندگی کا خاصہ بن چکی ہے اور ہمارے معاشرے کے اخلاقی بحران کے بڑے اسباب میں سے ایک ہے۔ اخلاقیات کا درس دینے والے ہی اخلاقی انحطاط میں گھر ے نظر آتے ہیں، رہبر ہی رہزن ٹھہرے ہیں۔ان حالات میں قوم و معاشرہ بھی تباہی وبر بادی کی نچلی ترین سطح پرجا پہنچے۔ آج ہم بحیثیت قوم مالی بحران اور سیاسی عدم استحکام کا شکار ہیں، اخلاقی پستی سے دوچار ہیں اورا بھی تنزلی کا سفر رکا نہیں کیونکہ قول و فعل کے تضاد نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ رمضان کریم کا مہینہ اپنی رحمتوں اور بر کتوں کے ساتھ تیزی سے گزر تا جا رہا ہے۔ جہاں ہم روزے کو پورے خشوع و خضوع کے ساتھ رکھتے ہیں، نماز کی ادائیگی کو یقینی بناتے ہیں، افطار کے اہتمام میں تکلف دکھاتے ہیں، نما ز ِتراویح بھی اگلی صفوں میں کھڑے ہو کر ادا کرتے ہیں، زکوٰۃ اور خیرات میں بھی پہل کرتے ہیں‘ وہاں اپنے کردار اور معاملات میں بھی بہتری دکھائیں‘ سچ بولیں اور جھوٹ سے اجتناب کریں، غیبت، حسد، کینہ اور بغض جیسی قباحتوں سے چھٹکارا پائیں، ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی اور گراں فروشی کو اپنے کاروبار پر حرام کر دیں، منافقت سے رہائی پاکر قول وفعل کے تفاوت کا خاتمہ یقینی بنائیں مگر یہ سب کچھ خود احتسابی کے عمل سے ہی شروع ہو سکتا ہے اور یہ سفر ہم سب کو انفرادی سطح پر طے کرنا ہے۔ دوسروں کو ذمہ دار ٹھہرانے، نظام کی خرابیوں پر انگشت نمائی کرنے کے بجائے اپنے گریبان میں جھانک کر اپنے کردار کا بے لاگ جائزہ لیں تو باطن کے اندر ہی چھپا ہو ا چور مل جائے گا۔ ہم سب کا ایمان ہے کہ رمضان کریم میں تمام شیاطین قید کر لئے جاتے ہیں مگر اصل شیطان‘ جو ہم سب کے اندر مکمل آزاد پھرتا رہتا ہے‘ اسے جکڑنا تو ہماری ذمہ داری ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنے باطن کے شیطان کو جکڑ کر اسے مستقل پسِ زندان ڈال دیا جائے اور اپنا اپنا محاسبہ کر کے کردار کی عظمت کی معرا ج کا سفر شرو ع کیا جائے تو پھر یہ دنیا بھی ہماری اور آخرت میں بھی سرخرو ٹھہرنا ہمارے مقدر میں لکھ دیا جائے گا وگرنہ دونوں جہاں کی رسوائیاں ہمارا نصیب ہو جائیں گی۔
آج کل فرانس کے بائیکاٹ کے حوالے سے ایک مہم چلائی جا رہی ہے، ناموسِ رسالت کے تحفظ اور حرمت کیلئے پاکستان بھر میں مظاہرے کیے اور جلوس نکالے جا رہے ہیں۔ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ ہمیں اپنے آقا ومولیٰ نبی آخر الزماں، خاتم النبیینﷺ کی ذاتِ اقدس سے بے پناہ عشق ہے اور ہم اُن کے نامِ نامی پر ہر لمحہ مر مٹنے کے لئے تیار رہتے ہیں مگر کیا ہم اپنے محبوب نبیﷺ کی سُنت اور تعلیمات کو اپنا کر اپنے کردار کو اسوۂ حسنہ کے سانچے میں ڈھالنے کیلئے عملی طور پر بھی کوئی قدم اٹھانے کیلئے تیار ہیں؟ کیا ہم اپنی زندگی سے جھوٹ، منافقت، ملاوٹ، حرص وہوس، لالچ اور ظلم و بربریت ختم کرکے اپنے اخلاق اور سلوک کو حضور اکرم ﷺکی تعلیمات کی روشنی میں نکھارنے اور سنوارنے کیلئے اپنا محاسبہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟ علامّہ اقبالؒ نے سچ ہی کہا تھا ؎
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی
تُو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن، اپنا تو بن