نمازِ تراویح میں تلاوت ہونے والے پارہ انیس کا تفسیری خلاصہ ۔۔۔۔۔ مفتی منیب الرحمان
khulasa-e-tafseer.png
انیسویں پارے کے شروع میں ایک بار پھر کفارِ مکہ کے ناروا مطالبات کا ذکر ہے کہ منکرینِ آخرت یہ مطالبہ کرتے تھے کہ ہمارے پاس فرشتہ اتر کر آئے یا ہم اللہ تعالیٰ کو کھلے عام دیکھیں۔ قرآن پاک نے بتایا کہ جس دن کفار ان نشانیوں کو دیکھ لیں گے تو وہ ان کے لئے بہت برا دن ہو گا۔ قیامت کے دن کفار ندامت سے اپنے ہاتھوں کو کاٹیں گے کہ کاش دنیا میں ہم نے رسولوں سے تعلق رکھا ہوتا۔ آیت 32 میں کفار کے اس اعتراض کا ذکر ہوا کہ پورا قرآن ایک ہی وقت میں نازل کیوں نہ کیا گیا‘ قرآن نے بتایا کہ تدریجی نزول میں حکمت یہ ہے کہ وحی کے تسلسل کے ذریعے نبیﷺ کا اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم رہے اور آپ کے دل کو قرار و سکون نصیب ہو۔ آیت 45 سے اللہ تعالیٰ نے سائے کے پھیلاؤ اور سمٹاؤ کو اپنی نشانی قرار دیا ۔ آیت 48 سے بارش کے نظام‘ آسمان سے پاک پانی کے نزول‘ اس کے ذریعے بنجر زمین کو زرخیز بنانے‘ سمندروں میں میٹھے اور نمکین پانی کے الگ الگ جاری ہونے اور دیگر انعامات کا ذکر ہے۔ آیت 54 میں بتایا کہ انسان کا جوہرِ تخلیق پانی ہے اور پھر اس کے ذریعے نسب اور سسرال کے رشتے قائم ہوئے۔ سورۂ فرقان کے آخری رکوع میں آسمانوں میں برج بنانے‘ سورج اور چاند کی روشنی اور نظامِ لیل ونہار کو اللہ تعالیٰ کی قدرت کی دلیل بتایا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں کی اعلیٰ صفات کا ذکر ہے ‘ جو یہ ہیں: زمین پر شرافت اور متانت سے چلنا‘ راتوں کو سجدہ و قیام‘ یعنی اللہ کی عبادت میں گزارنا‘ اللہ کی پناہ چاہنا‘ مال خرچ کرتے وقت بُخل اور اسراف کی دو انتہاؤں کے درمیان توازن و اعتدال سے کام لینا‘ شرک‘ قتلِ ناحق‘ زنا‘ جھوٹی گواہی‘ بیہودہ مجالس سے اجتناب‘ اللہ کی آیات یاد دلانے پر اندھا ‘ بہر ا نہ بننا‘ یعنی نصیحت قبول کرنا اور اللہ تعالیٰ سے نیک اور صالح اولاد کی دعا کرنا۔ اس میں گناہگاروں کیلئے نہ صرف توبہ کی قبولیت کی نوید ہے‘ بلکہ گناہوں کے بدلے میں نیکیاں عطا کرنے کی بشارت اور جنت میں اعلیٰ مقام عطا کئے جانے کا ذکر ہے ۔
سورہ شعراء
اس سورہ میں ایک بار پھر موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کے پاس جا کر دعوتِ حق دینے کا ذکر ہے۔ بشری تقاضے کے تحت موسیٰ علیہ السلام کے خدشات کا ذکر ہے‘ فرعون کی طرف سے موسیٰ علیہ السلام کی تربیت کا احسان جتانے کا ذکر ہے۔ فرعون نے دعوتِ توحید کے جواب میں کہا کہ ''رب العالمین‘‘ کون ہے؟‘ انہوں نے فرمایا کہ وہ آسمانوں اور زمینوں‘ مشرق و مغرب اور تمہارا اور تمہارے پہلے آبائو اجداد کا رب ہے۔ اس مقام پر بھی ایک بار پھر جادوگروں کے مقابلے میں موسیٰ علیہ السلام کے معجزات (خاص طور پر عصا کا اژدھا بننا) کے غالب آنے کا ذکر ہے‘ پھر جادو گروں کے ایمان لانے اور فرعون کی طرف سے قید میں ڈالنے‘ ہاتھ پاؤں کو مخالف سمت سے کاٹنے اور سولی چڑھانے کی دھمکیوں کا ذکر ہے۔ پھر اس بات کا بیان ہے کہ موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو لے کر گئے‘ سامنے سمندر تھا اور پیچھے فرعون اور اس کے پیروکاروں کا تعاقب۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے موسیٰ علیہ السلام کی لاٹھی کی ضرب سے سمندر پھٹ گیا‘ بنی اسرائیل کے لئے راستہ بنا‘ وہ سلامتی کے ساتھ سمندر کے پار چلے گئے اور فرعون اپنے لاؤ لشکر سمیت سمندر میں غرق ہو گیا۔ آیت 69 سے ایک بار پھر ابراہیم علیہ السلام کا ذکر ہے کہ وہ اپنی قوم کو بتوں کی بے بسی کی جانب متوجہ کرتے۔ پھر ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا اعتراف کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اللہ نے مجھے پیدا کیا‘ وہی ہدایت دیتا ہے‘ وہی مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے‘ جب بیمار ہوتا ہوں تو وہی شفا دیتا ہے‘ وہی میری روح قبض کرے گا اور آخرت میں دوبارہ پیدا کرے گا‘ مجھے یقین ہے کہ قیامت کے دن میری خطاؤں کو معاف فرمائے گا۔ وہ دعاکرتے ہیں: اے پروردگار! تو مجھے صحیح فیصلہ کرنے کی قوت عطا فرما اور مجھے نیک بندوں کے ساتھ ملا دے‘ اے اللہ! بعد میں آنے والے لوگوں میں میرا ذکرِ خیر سچائی کے ساتھ جاری فرما‘ مجھے جنت کی نعمتوں کا وارث بنا اور مجھے قیامت کے دن رسوا نہ فرمانا۔ آیت 105 سے نوح علیہ السلام کی دعوتِ حق کا ذکر ہے۔ وہ رسولِ امین تھے‘ سرکش لوگوں نے کہا: ہم آپ پر کیسے ایمان لائیں‘ آپ کے پیروکار تو پسماندہ لوگ ہیں؟ پھر نوح علیہ السلام اللہ تعالیٰ سے اپنے اور اپنی قوم کے درمیان آخری فیصلے کی دعا مانگتے ہیں‘ اللہ تعالیٰ ان کو اور ان کے پیروکار مومنوں کو کشتی کے ذریعے نجات عطا فرما دیتا ہے اور سرکش قوم طوفان میں ڈوب جاتی ہے۔ آیت 124 سے ہود علیہ السلام اور ان کی قوم عاد کا ذکر ہے‘ نبی کی تکذیب کی بنا پر اس قوم کو ہلاک کر دیا گیا۔ آیت 141 سے حضرت صالح علیہ السلام اور ان کی قوم ثمود کی نافرمانیوں کا ذکر ہے‘ ان پر بھی اللہ تعالیٰ نے نعمتوں کی فراوانی فرما رکھی تھی‘ لیکن جب انہوں نے ''ناقۃ اللہ‘‘ (اللہ کی اونٹنی) کی بے حرمتی کی اور اس کی کونچیں کاٹ ڈالیں تو ان پر عذاب نازل ہوا۔ آیت 160 سے لوط علیہ السلام اور ان کی قوم کا ذکر ہے‘ اس قوم کی بداعمالیوں کا ذکر ہے کہ وہ حلال رشتوں کو چھوڑ کر غیر فطری طریقے سے اپنی خواہش پوری کرتے تھے۔ لوط علیہ السلام کی بیوی بھی ان کی ہم خیال تھی‘ بالآخر اللہ تعالیٰ نے اس قوم کو بھی تباہ و برباد کر دیا‘ پھر حضرت شعیب علیہ السلام اور ان کی قوم کا ذکر ہے ‘ یہ لوگ ''اصحابُ الایکہ‘‘ کہلاتے ہیں‘ یہ لوگ لین دین کے وقت ناپ تول میں ڈنڈی مارتے تھے اور ان کی سرکشی کا عالَم یہ تھا کہ اللہ کے نبی سے کہتے: اگر آپ سچے ہیں تو ہم پر آسمان کیوں نہیں پھٹ جاتا‘ پھر اس قوم پر بھی عذاب نازل ہوا اور وہ تباہ و برباد کر دیے گئے۔ آیت 192 سے بتایا کہ قرآن اللہ کا کلام ہے‘ جسے واضح عربی زبان میں جبرائیل امین نے محمدرسول اللہﷺ کے قلبِ پاک پر نازل کیا۔
سورہ نمل
اس سورہ مبارکہ کی ابتدائی آیات میں ایک بار پھر موسیٰ علیہ السلام کے احوال اور معجزات کا بیان ہے۔ آیت 16 سے سلیمان علیہ السلام کا ذکر ہے کہ وہ داؤد علیہ السلام کے وارث بنے اور انہیں پرندوں کی بولی سکھائی گئی۔ جنات اور انسانوں کے لشکر ایک فوجی ڈسپلن کے ساتھ ان کے پاس حاضر رہتے۔ پھر اس واقعے کا ذکر ہے کہ سلیمان علیہ السلام کے لشکر کا گزر چونٹیوں کی وادی پر ہوا تو چونٹیوں کی مَلکہ نے اپنی رعایا سے کہا کہ اپنے بلوں میں گھس جاؤ‘ کہیں سلیمان کا لشکر تمہیں کچل نہ ڈالے۔ سلیمان علیہ السلام چونکہ جانوروں کی بولیا ں جانتے تھے‘ تو یہ سن کر انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی: اے میرے رب! تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر جو بے پایاں نعمتیں فرمائی ہیں‘ مجھے ان کا شکر ادا کرنے کی توفیق عطا فرما اور مجھے اپنے پسندیدہ نیک اعمال پر قائم اور اپنی رحمت سے مجھے اپنے نیکوکار بندوں میں داخل فرما‘ پھر ہدہد پرندہ جو ان کے لشکر کی رہنمائی کے لئے آگے جاتا تھا‘ کافی دیر غائب رہا اور پھر یمن کی ملکۂ سبا کے بارے میں ایک یقینی خبر لے کر آیاکہ ان کا ایک بڑا تخت ہے‘ یہ لوگ سورج پرست ہیں اور انہیں ہر طرح کی نعمتیں میسر ہیں۔ سلیمان علیہ السلام نے ملکۂ سبا کی طرف ایک خط بھیجا جس کا متن یہ تھا: بسم اللہ الرحمن الرحیم‘ یہ خط سلیمان کی جانب سے ہے (تمہارے لئے پیغام یہ ہے) کہ سرکشی چھوڑو اور اطاعت گزار بن کر میرے پاس چلی آؤ۔ ملکۂ سبا نے قوم سے مشورہ کیا‘ قوم کو اپنی طاقت پر ناز تھا۔ ملکۂ سبا نے سلیمان علیہ السلام کو محض ایک دنیا دار بادشاہ سمجھتے ہوئے آپ کے پاس تحفے تحائف بھیجے‘ سلیمان علیہ السلام نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے جو مال دے رکھا ہے‘ وہ تمہارے مالوں کے مقابلے میں بہت بہتر ہے اور ہدہد سے کہا کہ یہ خط پہنچاؤ کہ ہم ان پر حملہ کریں گے ۔ ملکۂ سبا نے سلیمان علیہ السلام کے سامنے سپر انداز ہونے کا فیصلہ کیا اور چل پڑی‘ اس دوران سلیمان علیہ السلام نے اپنے درباریوں سے کہا کہ ان کے اطاعت گزار ہوکر آنے سے پہلے اس کا تخت میرے پاس کون لائے گا۔ ایک بہت بڑے جن نے کہا: ''میں اِس تخت کو آپ کی مجلس برخاست ہونے سے پہلے لے آؤں گا‘ میں امین ہوں اور اس پر قادر ہوں‘‘۔ سلیمان علیہ السلام کے کتابِ الٰہی کے عالم صحابی (ان کا نام مفسرین نے آصف بن برخیا لکھا ہے اور یہ اللہ کے ولی تھے) نے کہا: ''میں آپ کے پاس پلک جھپکنے سے پہلے اس تخت کو لے آؤں گا‘‘۔ انہوں نے نظر اٹھا کر دیکھا تو تخت سامنے رکھا ہوا تھا‘ اِسی وجہ سے کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کامل بندے کا کہنا‘ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ''کُن‘‘ کی بمنزلہ ہوتا ہے۔ سلیمان علیہ السلام نے اللہ کے اس فضل پر اپنے رب کا شکر ادا کیا اور فرمایا ''جو اپنے رب کا شکر ادا کرتا ہے‘ اس کا فائدہ اسی کو پہنچتا ہے اورجو ناشکری کرتاہے تو میرا رب بے پروا‘ سب کمالات والا ہے‘‘۔