ہنا ڈسٹن سر کاٹنے والی امریکی عورت ... صہیب مرغوب
hana dustin.jpg
، ۔10 دشمنوں کے سرکاٹ کر انکی قید سے بھاگ نکلی تھی
امریکی عورت ہنا ڈسٹن کو کئی ممالک میں ایک قاتل مہم جو کے نام سے جاناجاتا ہے ا سکا ایک اور نام بھی ہے وہ ہے ، ''سرکاٹنے والی عورت ‘‘۔
تاریخ میں اس کا واقعہ اس قدر مشہور ہوا کہ اسے '' امریکہ میں سر کاٹنے کی روایت کی بانی ‘‘ کا خطاب مل گیا۔دورجہالیت میں دوران جنگ ہلاکتوں کے ثبوت کے طور پر کٹے ہوئے سروں کی نمائش کی جاتی تھی لیکن اس ''رسم ‘‘ کی بانی ہنا ڈسٹن قرار پائی۔19صدی عیسوی میں ڈسٹن کی داستان خاصی مقبولیت اختیار کر چکی تھی۔ یہ پہلی عورت تھی جس کا امریکہ میں مجسمہ لگایا گیاتھااس سے پہلے مجسمہ لگانے کا اعزاز کسی امریکی عورت کو حاصل نہیں ہوا تھا۔ اب اسے گرانے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔
ہنا ڈسٹن (23دسمبر 1657ء تا6مارچ 1737ء) کا پیدائشی نام ہنا ایمرسن رکھا گیا تھا،اس نے میساچوسٹس میں ایک فوجی افسر کے گھر آنکھ کھولی۔وہ 15بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھی۔
مگر1697ء میں ہونے والی ''کنگ ولیم وار‘‘ کے دوران ایبانکی (Abenaki) قبائلیوں نے ہنا ڈسٹن کے 9بچوں کو قیدی بنا لیا،نوزائیدہ بیٹی اس کی گود میں تھی ،قبائلی جنگجوئوں نے بچی کو بھی معاف نہیں کیا ،دوسروں کے ساتھ اسے بھی بھوکا پیاسا رکھا ۔ وہ پہلی ہی رات میں قبائلیوں کے سر کاٹنے کے بعد بچوں کو اپنے ساتھ لے کر قید سے بھاگ نکلی۔ جاتے جاتے مرنے والوں کے سر بھی ساتھ لے گئی ،اس کی رہائی پر نیو ہیمپشائرمیں جشن منایا گیا ،بہادری کے صلے میں وہ ایک فوجی گروپ کی قائد بن گئی ۔
''کنگ ولیم وار‘‘کے دوران ہناڈسٹن اپنے نو بچوں اور شوہر کے ساتھ نیو ہیمپشائر میں مقیم تھی۔کیوبک فوج نے اپنے قبائلیوں کے ساتھ مل کر ہیور ہلز پر دھاوا بول دیا اسے تاریخ میں ''ریڈ آف ہیور ہلز‘‘ کہا جاتا ہے۔ حملے میں27نوآبادکار مارے گئے تھے جن میں زیادہ تر بچے شامل تھے۔15مارچ 1697ء کو 30کے قریب کیوبک قبائلیوں نے اسے بھی نوزائیدہ بیٹی سمیت حراست میں لے لیا۔راستے میں ہی حملہ آوروں نے اس کی چھ دن کی بیٹی کا سر درخت سے دے مارا،دماغ پھٹ گیا ، ایک چیخ کے ساتھ بچی کا جسم ساکت ہو گیا۔ماں تڑپی لیکن بدلہ لینے کے عزم نے اسے مضبوط رکھا۔اس وقت ہنا ڈسٹن چالیس برس کی تھی۔حملے کے وقت شوہر بھٹے پر کام کر رہا تھا وہ وہیں سے آٹھ بچوں کے ساتھ فرار ہو گیا۔حملہ آوروں نے اسکے گھر کو آگ لگا دی۔
تمام قیدی ''میرمک ریور‘‘(Merrimack River)نامی جزیرے میں رکھے گئے تھے ۔ نیو ہیمپشائرکا یہ علاقہ اب بوسکیون کہلاتا ہے۔چاروں طرف پہرا اور پانی تھا لیکن ہنا ڈسٹن بھی بہادر عورت تھی، اس نے ہمت ہارنے کی بجائے خود کو منظم رکھا اورپہلی ہی رات میں دس مقامی امریکیوں کے سر تن سے جدا کر دیئے۔ہنا ڈسٹن نے کہا کہ ''حملہ آوروں نے میری بیٹی کو مار ڈالا تھا اس لئے مجھے ان کے سر اڑانا پڑے‘‘۔
ہناڈسٹن مقامی امریکیوں کیخلاف ظلم کی ایک علامت بن چکی تھی امریکیوں نے بھی اسی طرح لیا اور بتایا کہ کس طرح مقامی امریکیوں کے سر کاٹے گئے تھے اس جبر کو امریکیوں نے کچھ زیادہ ہی مشہور کر دیا۔ بلیک لائف میٹرز کے بعد اسے بھی مقامی امریکیوں پر ہونے والے جبر کا ایک سبب بتایا جا رہا ہے۔
۔20سال کی عمر میں اینٹوں کا کاروبار کرنے والے تھامس ڈسٹن کے ساتھ ہاتھ پیلے کر دیئے گئے۔ اس خاندان نے اس وقت شہرت حاصل کرنا شروع کی جب ایمرسن خاندان کی ایک بیٹی ایلزبیتھ ایمرسن کے بارے میں پتہ چلا کہ وہ جادوگری کے لئے بچوں کوقتل کر رہی ہے، جادوگرجن بچوں کا قتل کرتے ، ان میں ایلزبیتھ کا نام بھی لیا جانے لگا۔کچھ نے کہا کہ ایلزبیتھ کی ایک کزن مارتھا ٹوٹھاکر ایمرسن اور اسکا باپ راجر ٹوتھاکر بھی جادوگر تھے۔ چنانچہ بہن ایلزبیتھ کو8جون 1693ء کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔راجر اور مارتھا کو بھی ٹکٹکی پر باندھ کر قتل کردیا گیا۔
۔29اپریل کی رات کو اس نے دو تین دوسر ی ساتھیوں کے ساتھ مل کر ایک کلہاڑی کی مدد سے حملہ آورورں کے سر کاٹ ڈالے ، یوں وہ سبھی بھاگ نکلے۔
اس واقعے کے چند ہی دن بعد وہ تھامس ڈسٹن ہنا، میری اور سیموئل کو بوسٹن لے آیا جہاں انہیں کوئی نہیں جانتا تھا۔ کٹے ہوئے سر اور انڈینز کا کچھ سامان بھی ان کے پاس تھا، اسی سے انہیں انعام و اکرام بھی ملنا تھا ۔ نیو ہیمپشائر حکومت1694ء تک فی کھوپڑی 50پائونڈ انعام دیا کرتی تھی جو 1995میں گھٹا کر 25 پائونڈ کر دیا گیا تھا۔ اسے کھوپڑی کا انعام ستمبر1694ء میں مل گیا۔یہ قانون دسمبر 1696ء میں سرے سے منسوخ کر دیا گیا۔
۔1680ء میں نیو ہیمپشائر بھی کالونی کا روپ دھار چکا تھا۔اس سے ملحقہ علاقے اسی کالونی کاحصہ تھے۔1707ء میں ''کوئین اینی جنگ‘‘ چھڑ گئی وہ بھی اس کا شکار ہوئی۔اس جنگ میں ایک بار پھر انڈینز نے اس کے شہر پر حملہ کر دیا،حملہ آور فوج کی قیادت فرانسیسی بپٹسٹ ہرٹل دی روویل کر رہے تھے۔اس تین سالہ جنگ کے دوران ایک وزیر سمیت بے شماربے گناہ مارے گئے۔تاہم وہ جنگ میں بچ نکلی، جنگ کے خاتمے کے بعد اس نے مئی 1724ء میں گرجا گھر سے مد دکی اپیل کی، کہا جاتا ہے کہ اس دوران اس کی موت واقع ہو گئی۔ہنا کی جدوجہد کا ثمر اس کے وارثان کو مل گیا حکومت نے انڈینز حملہ آروں کے انجام تک پہنچانے کے صلے میں وارثان کو دوسو ایکڑ زمین الاٹ کر دی۔وہ ایک اچھی مصنفہ بھی تھی ،قید و بند کی داستان لکھی جو بہت پسند کی گئی ، پانچ سال میں تین کتابیں قارئین تک پہنچیں۔ بعدازاں وہ مبلغ بن گئی اور مذہب کی تبلیغ میں لگ گئی۔