چنگیز خان کی نسل آج بھی زندہ ہے ۔۔۔۔۔ خاور نیازی
changez khan ki nasal aaj bhi zinda hai.jpg
مغربی دنیا کے اہل علم ہر کچھ عرصے بعد گڑھے مردے اکھیڑتے رہتے ہیں ، سوچ اور مقصد اگر مثبت اور تعمیری ہو تو گڑھے مردے اکھیڑنے میں کوئی قباحت نہیں ہوتی۔تحقیق ہی سے ترقی کی راہیں کھلتی ہیں ۔
چند سال پہلے اہل مغرب نے سابق منگول سلطنت کی حدود میں بسنے والے بہت سے مردوں کے کروموسوم ٹیسٹ کر ڈالے۔دراصل چنگیز خان کے حوالے سے غالباََ وہ یہ دیکھناچاہتے تھے کہ اس کی نسل کا وجود ہے یا اس کی نسل مکمل طور پر ختم ہو چکی ہے۔اس جینیاتی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ آٹھ فیصد مرد چنگیز خان کی نسل سے ہیں۔یعنی دنیا بھر میں 1.60 کروڑ مرد (کل مردوں کا 0.5 فیصد ) کے خون کا رشتہ چنگیز خان سے جا ملتا ہے۔اس تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ بلوچستان میں بسنے والے ایک قبیلے مردوں کے جینیاتی ٹیسٹ میں بھی مخصوص علامات پائی گئی ہیں ،یہ لوگ تو ویسے بھی خود کو منگول کہتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ مرزا، چغتائی اور مغل کہلانے والے بعض لوگ بھی منگول نسل سے ہی بتائے جاتے ہیں۔
اب ذہن میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ ایک شخص کی نسل آج بھی زندہ کیسے رہ سکتی ہے؟
سائنسی اور جینیاتی تحقیق کو سر دست ایک طرف رکھیے۔یہ حقیقت تو اپنی جگہ موجود ہے کہ چنگیز خان نے درجنوں شادیاں کیں،اس کے بیٹوں کی تعداد 200 کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے۔ کئی بیٹوں نے حکومتیں قائم کیں اور کئی کئی شادیاں کیں۔
ان کی زندگی مسلسل فتوحات سے بھری ہوئی ہے ،اس کے بارے میں جاننا دلچسپی سے خالی نہ ہو گا۔
منگول نسل کا فاتح چنگیز خان1162ء میں ایک معمولی منگول سردار یسوکی کے ہاں پیدا ہوا۔ باپ نے اس کا نام ایک مفتوح حریف سردار کے نام پر تیموجن رکھا۔ تیموجن کی عمر ابھی بمشکل نو برس ہی ہو گی کہ اس کے باپ نے قبیلے کی ایک عورت کو اغوا کر کے اس سے شادی کر لی جس پر اسے اہل قبیلہ نے قتل کر دیا ۔ قبائلیوں نے تموجن کی گردن کے گرد چوبی حلقہ باندھ کر قید میں ڈال دیا۔یہ ایک اذیت ناک سزا تھی جس نے تموجن کو بچپن ہی سے بے رحم اور منتقمانہ ذہن کامالک بنا دیا۔دوران قید وہ ایک اغواء کار کو دوست بنا کر اس کی مدد سے فرار ہو گیا۔
فرار کے بعدوہ اپنے باپ کے ایک قبائلی سردار دوست کے پاس پہنچا ۔اس کی مدد سے آپس میں برسر پیکا ر رہنے والے منگول قبائل کو یکجا کر کے ایک طاقت بنادیا۔رفتہ رفتہ تمام قبائلی سردار تیموجن کی قائدانہ اور دلیرانہ صلاحیتوں کے معترف ہوتے چلے گئے۔ اور 1206ء میں منگول سرداروں نے ایک اجلاس میں متفقہ طور پر اسکی صلاحیتوں کے اعتراف کے طور پر اسے '' چنگیز خان‘‘ کے خطاب سے نوازا۔چنگیز خان نے پورے اعتماد کے ساتھ اپنی افواج کو جمع کیا اور ہمسایہ اقوام پر چڑھائی شروع کر دی۔
فتوحات :چنگیز خان نے چین کو 1214 ء اور پھر 1218ء میں دو مرتبہ فتح کیا۔اس نے 1219ء میں کچھ سفیروں کو مختلف ممالک کی جانب روانہ کیا ، جنہیں قتل کر دیا گیا۔اس واقعے سے مشتعل ہو کر وہ دنیا کو فتح کرنے کے لئے نکل کھڑا ہوا۔ جلد ہی شمالی چین اور ہرات سمیت کئی افغان علاقوں پر قابض ہو گیا۔ اس کی فوجوں نے بخارا اور مرو میں خوب لوٹ مار کی۔بعدازاں ترکی اور جنوب مشرقی یورپی ممالک کا رخ کیا۔ پھر اس کا نشانہ جنوبی روس اور شمالی ہند تھے ۔1227ء میں چین پر تیسری مرتبہ حملہ کیا۔اس نے آرمینیا سے لیکر کوریا اور تبت سے لیکر روس تک ایسی سلطنت کی بنیاد رکھی کہ مرنے کے بعد اس کا بیٹا اوکتائی بلا شرکت غیرے آدھی دنیا کا حکمران رہا۔اس نے فوج کی جس طرح تنظیم نو کی وہ صدیوں تک فوجی ماہرین کے لئے مشعل راہ بنی رہی۔
اقتدار کی منتقلی: جب چنگیزخان کو بیماریوں نے گھیرلیا تو اس نے جانشینی کیلئے پہلی بیوی بورتا کے چاروں بیٹوں اوکتائی ، جوچی، چغتائی اور تولی پر مشتمل خصوصی مجلس '' قرولتائی‘‘ کا اجلاس بلا لیا ۔ اس موقع پر اس کا تاریخی خطاب کچھ یوں تھا، '' اگر میرے بعد سب بیٹے خاقان بننا چاہیں اور ایک دوسرے کے ماتحت کام کرنے سے انکار کر دیں تو پھر پرانی کہانیوں کے دو سانپوں والی کہاوت سچ نکلے گی۔جس میں ایک کے کئی سر اور ایک دم اور دوسرے کا ایک سر اور کئی دمیں تھیں۔ جب متعدد سروں والا سانپ بھوک مٹانے شکار کی تلاش میں نکلتا تو اس کے کئی سر آپس میں متفق نہیں ہوتے تھے کہ کس طرف جانا ہے۔آخر کار کئی سروں والا سانپ بھوک سے مر گیا جب کہ کئی دموں والا سانپ آرام سے زندگی گزارتا رہا‘‘۔
یہ کہہ کر چنگیز خان نے بڑے بیٹے جوچی کو بولنے کی دعوت دی۔قدیم منگول روایات کے مطابق پہلے بولنے کا حق دینے کا مطلب یہ تھا کہ دیگر تینوں بھائی اس کی حکمرانی قبول کر لیںمگر یہ بات دوسرے نمبر والے بیٹے چغتائی کو ہضم نہ ہوئی اور وہ اٹھ کھڑا ہوا ،'' کیا آپ جوچی کو اپنی جانشینی عطا کر رہے ہیں ؟ لیکن ہم قبیلے مرکد میں پیدا ہونے والے کو اپنا سربراہ کیسے مان سکتے ہیں ؟‘‘
چغتائی کا اشارہ چالیس برس پرانے واقعہ کی طرف تھا جب بورتا کو چنگیز خان کے مخالف قبیلے مرکد نے اغوا ء کر لیا تھا۔بورتا کے اغواء کا واقعہ اس طرح ہے کہ.....بورتا 1161 ء میں اولخوند قبیلے میں پیدا ہوئی۔ جب اس کی عمر 17 سال اور تموجن کی عمر 16 سال تھی تو دونوں کی شادی ہو گئی۔شادی کے چند دن بعد مرکد قبیلے نے نو بیاہتا جوڑے کے خیمے پر دھاوا بول دیا۔تموجن اپنے چھ کم عمر بھائیوں اور ماں سمیت فرار ہو گیا جب کہ دلہن بورتا مرکد قبیلے کے حملہ آوروں کے ہتھے چڑھ گئی۔تموجن نے آٹھ مہینے بعد سائبیریا کی بیکال جھیل کے قریب مرکدوں کے خیموں سے بورتا کو چھڑوا لیا۔بورتا نے واپسی کے کچھ ہی عرصے بعد جوچی کو جنم دیا۔ اس وقت چہ مگوئیاں ہوتی رہیں لیکن تموجن جوچی کو اپنا ہی بیٹا تسلیم کرتا تھا۔ چغتائی نے یہ تجویز پیش کی کہ نہ میں اور نہ جوچی ،بلکہ تیسرے نمبر والے اوکتائی کو خاقان بنا دیا جائے۔
مضبوط اعصاب کے مالک چنگیز خان کو بستر مرگ پر اس نافرمانی کا گہرا صدمہ پہنچا لیکن کچھ نہ کر سکا ۔ اس نے کہا ، ''کائنات بہت وسیع ہے۔اس میں بے شمار کھیت ، دریا اور جھیلیں ہیں۔ایک دوسرے سے دور دور خیمے نصب کرو اور اپنی اپنی سلطنتوں پر حکومت کرو‘‘۔
یہ تاریخ کا کتنا بڑا المیہ ہے کی جس شخص کی آل اولاد درجنوں میں بتائی جا رہی ہے وہ اپنی اولاد سے اپنا فیصلہ تک نہ منوا سکا۔