اردو شاعری میں طنزو مزاح کی روایت ۔۔۔ محمد شعیب
Urdu Shayeri Mein Tanz-o-Mazah.jpg
جس طرح خوشی اور غم کا عمل دخل تمام حیاتِ انسانی میں جاری وساری رہتا ہے، اسی طرح طنز و مزاح کو بھی زندگی میں بنیادی حیثیت حاصل ہے۔بچہ اپنی پیدائش ہی سے رونے کے بعد جو کام سیکھتا ہے، وہ رونا اور ہنسی ہے۔اس وقت وہ کسی بھی جذبے سے آگاہی کے بغیر صرف گدگدانے پر خوشی کا اظہار کر کے اپنی جبلت کا احساس دلاتا ہے ۔ انسان کے علاوہ کوئی بھی جاندار اس عمل پر قادر نہیں اور مولانا حالی نے اسی لیے غالب کو حیوانِ ظریف قرار دیا تھا۔ صرف غالب ہی نہیں بلکہ تمام انسان اس جذبے کے حامل ہوتے ہیں :
شعری اصطلاح میں طنز اور مزاح کا مفہوم جدا جدا ہے۔ راقم الحروف کے نزدیک مزاح اور طنز میں فرق کو اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے کہ کسی کے ساتھ ’’ مذاق کرنے‘‘ کو مزاح اور کسی کا ’’مذاق اْڑانے‘‘ کو طنز کہا جائے گا۔ ’’مذاق کرنا‘‘ اور ’’مذاق اْڑانا‘‘ دو الگ الگ کیفیتیں ہیں اور ان دونوں میں وہی فرق ہے جو گدگدانے اور تھپڑ لگانے میں ہے۔مزاح (Humour) اس وقت جنم لیتا ہے جب فارغ البالی کا دور دورہ ہو،ہر جانب سکون و اطمینان چھایا ہو اور معاشرے میں اعلیٰ انسانی اقدار،چند خرابیوں کے باوجود حیاتِ انسانی پر حاوی ہو جائیں۔ مزاح کی کونپلیں ایسا سازگار ماحول پا کرگھنا درخت بن جاتی ہیں۔ اس درخت کی شاخیں ہر جانب پھیل کر معاشرہ کے افراد کے لیے خالص مزاح کی صورت میں خوشگوار آکسیجن فراہم کرتی ہیں۔ مزاح افرادِ معاشرہ میں تحمل، بردباری، مروّت اور زندہ دلی کی خصوصیات پیدا کر کے زندگی کے پھیکے پن میں رنگ بھر کر اسے خوشگوار بنا دیتا ہے۔ مزاح نگار کے دل میں ہمدردی اور اْنس و محبت کی فراوانی،بے اعتدالیوں کو دریافت کر کے ان کا علاج میٹھے شربت سے کرتی ہے جس سے معاشرے سے آہ کے بجائے واہ کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔
مزاح کے برعکس طنز(Satire )کی پیدائش اس وقت ہوتی ہے جب معاشرہ بدحالی کا شکار ہو،امن و امان مفقود ہو جائے اور انسانی قدروں کی پامالی معمول بن جائے۔ایسے ماحول میں لوگوں کی قوتِ برداشت جواب دے جاتی ہے۔ مروّت،زندہ دلی اور دیگر اوصافِ حمیدہ دم توڑ کر طنز کو جنم دیتے ہیں۔طنز ایسے ماحول میں پروان چڑھتا ہے جہاں کئی قسم کی ناہمواریاں اپنی جڑیں مضبوطی سے گاڑ کرمستقل حیثیت اختیار کر لیں۔ طنز اپنے اردگرد پھیلے ہوئے مسائل کی اصلاح کیلئے میٹھی گولیوں کے بجائے نشتر کو استعمال میں لاتا ہے۔ اردو شاعری میں فارسی کے توسط سے کئی اصناف اور موضوعات مستقل صورت اختیار کر گئے۔ ہجو، تحریف، رندی و سر مستی ،زاہد سے چھیڑ چھاڑ وغیرہ اِسی فارسی شاعری کی دین ہیں اور اردو شاعری میں طنز و مزاح کے ابتدائی نمونے انھی پیمانوں میں مقید ہو کر یکسانیت کا شکار تھے۔ اس عہد میں جو شاعر سب سے پہلے طنز و مزاح کی دستار اپنے سر پر سجاتا ہے،اس کا نام مرزا محمد جعفر تھا جسے دنیائے طنز و مزاح میں ’’جعفر زٹلی‘‘ کے نام سے شہرت حاصل ہوئی۔ یہ مغلیہ حکومت کا زمانہ تھا جو بظاہر استحکام پذیر نظر آتا تھا لیکن اس کی تہذیبی اکائیاں اندر ہی اندر زوال کا شکار تھیں۔ ایسے وقت میں جعفر زٹلی نے اپنے عہد کی ترجمانی کا فریضہ اس طرح انجام دیا کہ تین صدیاں گزرنے کے باوجود اس کا نام آج بھی زندہ ہے۔ عوام کی ترجمانی کرتے ہوئے اس شاعر نے جب بادشاہ کے خلاف ایک شعر کہا تو بادشاہِ وقت فرخ سیر نے بھڑک کر جعفر زٹلی کو 1713ء میں قتل کروادیا۔ شعر درج ذیل ہے:
سکّہ زد بر گندم و موٹھ و مٹر
پادشا ہے تسمہ کش فرّخ سیر
یہ سیاسی افراتفری، اقتصادی بدحالی، سماجی بے اعتدالی اور اخلاقی بے راہ روی کا دور تھا۔ بیرونی یلغار معمول بن چکی تھی۔ خوف اور سراسیمگی کی فضا نے تمام معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے کر زندگی سے فرار کی راہ دکھائی۔یوں شاعری میں بھی فرار کی اس فضا نے قنوطیت کو جنم دے کر جذبات کی تیز لہروں کا رْخ اپنے ماحول اور خیالی زاہد و واعظ سے چھیڑ چھاڑ کی جانب موڑ دیا۔زاہد ومحتسب سے اس چھیڑ چھاڑ کے نتیجے میں شگفتگی اور رندی و بے باکی کے مضامین کھل کر سامنے آنے لگے جو فارسی شاعری میں اس سے پہلے موجود تھے۔بقول ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا:
’’دکنی شاعروں کے کلام میں واعظ اور ناصح سے چھیڑ چھاڑ کے اشعار فارسی شعرا کے تتبع میں موجود ہیں۔یہ رو دکی، میر، مصحفی، آتش، غالب، حالی وغیرہ سے ہوتی ہوئی جدید شعرا یعنی فیض وغیرہ تک پہنچتی ہے۔ ایک اور رو جس میں ظرافت نے ہزل کا روپ اختیار کر لیا ہے اور ثقاہت کے تمام نقاب الٹ دیے ہیں۔ اس کے نمائندہ جعفر زٹلی، عطا، اٹل، زانی، افسق وغیرہ ہیں۔ تیسری رو ہجویات کی ہے۔ قدیم شاعری میں طنزیہ اور مزاحیہ شاعری کے قابلِ ذکر نمونے ہجویات میں نظر آتے ہیں۔سودا، نظیر، انشا وغیرہ کے ہاں کہیں تو ہجو معاشرے کی آلودگیوں کی پردہ دری کر کے بلند منصب پر فائز ہو گئی ہے اور کہیں ذاتیات میں اْلجھ کر اپنے مقام سے گر گئی ہے‘‘۔
اردو کا شاید ہی کوئی ایسا شاعر ہو جس کے یہاں واعظ و ناصح اور ان کے قبیل کے دوسرے افراد کو طنز و مزاح کا نشانہ نہ بنایا گیا ہو۔ واعظ مخالف اشعار سے ہر عہد کے شعرا کے دیوان بھرے پڑے ہیں۔ایسی شاعری سے چند مثالیں ملاحظہ کیجیے:
یہ جو مہنت بیٹھے ہیں رادھا کے کنڈ پر
اوتار بن کے گرتے ہیں پریوں کے جھنڈ پر
(انشاء اللہ خان )
رندِ خراب حال کو زاہد نہ چھیڑتو
تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو
(ابراہیم ذوق)
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غم گسار ہوتا
شورِ پندِ ناصح نے زخم پر نمک چھڑ کا
آپ سے کوئی پوچھے تم نے کیا مزا پایا
(اسداللہ خان غالب)
اس عہد کی شاعری میں جہاں جہاں شگفتگی و ظرافت موجود ہے وہاں زاہد کے مقابلے میں رندی و سرمستی کو نمایاں کیا گیا ہے۔ شعرا نے رندی و سرمستی کو ایک مستقل موضوع کے طور پر اختیار کر کے تبسم زیرِ لب کی کیفیات پیدا کر دیں۔ یہ اندازِ فکر اپنے اندر حالات کی سنگینی سے کچھ دیر چھٹکارا حاصل کرنے کی قوت سے لبریز ہے۔ایک تو مے نوشی کا اپنا خاصہ ہے کہ یہ انسان کو اپنے گرد و پیش سے لاتعلق کر دیتی ہے،دوسرا شاعری میں رندی کے مظاہرے اس لیے بھی عام ہیں کہ واعظ اس کے نام سے بھی پْرخاش رکھتا ہے:
کیفیت چشم اس کی مجھے یاد ہے سودا
ساغر کو مرے ہاتھ سے لینا کہ چلا میں
(مرزا محمد رفیع سودا)
اوّلین طنزیہ و مزاحیہ اردو شاعری کا ایک اور پہلو محبوب و معشوق کے ساتھ چھیڑ چھاڑ ہے۔ جب معشوق اپنے عاشق سے التفات نہیں برتتا تو عاشق اس کو جلی کٹی سنانے لگ جاتا ہے۔ایسے مواقع طنز و مزاح کو جنم دیتے ہیں اور محبوب اس چھیڑ چھاڑ سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ چڑ کر مزید بے پروائی کا مظاہرہ کرنے لگ جاتا ہے۔مثلاً:
وہ پری رو نہ کیوں ہو ہرجائی
آدمی ہو تو آدمیت ہو
(مجروح سلطان پوری )
میر و سودااور انشا و مصحفی کے درمیان معاصرانہ چپقلش سے وجود میں آنے والی ہجویات کے نمونے طنز و مزاح کی غیر شعوری کوششوں کی مثالیں ہیں۔اودھ پنچ کے عہدسے پہلے طنزیہ و مزاحیہ شاعری میں نظیر اکبر آبادی (شیخ ولی محمد)کی آواز دوسروں سے الگ سنائی دیتی ہے۔ان کی شاعری کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے اپنی طویل زندگی کے نشیب و فراز اور زمانے کی مختلف تصاویر کو شاعری میں نقش کر دیا۔ اپنے گرد و پیش کے مناظر کی منظر نگاری کو عوامی زبان اور لہجہ دے کر نظیر نے طنز و مزاح کے ایک جْدا اور مانوس دبستان کی بنیاد رکھی جو صدیاں گزرنے کے باوجود اپنی انفرادیت قائم رکھے ہوئے ہے۔ اپنے عہد کے مزاج اور انسانی نفسیات ومحسوسات کی نقش نگاری کے نمونے ان کی نظموں روٹی نامہ، آدمی نامہ،پیسہ نامہ، مفلسی،خوشامد وغیرہ میں ملتے ہیں۔ طنز و مزاح کے اس دور کا ایک ممتاز نمائندہ غالب ہے۔غالب کی طبیعت میں پائی جانے والی شگفتگی کا عکس ان کی شاعری میں نکتہ آرائی کی صورت میں ملتا ہے۔ غالب کی شگفتگی ان کی خانگی زندگی کے مصائب ومسائل کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔
شورِ پندِ ناصح نے زخم پر نمک چھڑ کا
آپ سے کوئی پوچھے تم نے کیا مزا پایا
7جنوری1877ء کو لکھنؤ سے جس تاریخی طنزیہ و مزاحیہ رسالے کا اجرا ہوا وہ ’’اودھ پنچ‘‘ کے نام سے مقبول ہوا۔ اس کے مالک و ایڈیٹر منشی سجاد حسین تھے۔اودھ پنچ نے اردو ادب میں طنز و مزاح کی راہوں کو وسعت دی اور پرانی روشوں کے ساتھ ایک الگ راستے پر چلنے کی ابتدا کی ۔ جنگ آزادی کے بعد ہندوستانی معاشرے کی اقدار کی زبوں حالی کے ساتھ زندگی کے ہر شعبہ میں انگریزوں کی نقالی سے تبدیلیاں رونما ہونے لگی تھیں۔ اس دور میں انگریزوں کے ساتھ مصالحت کی تحریکیں چلنے لگیں۔ مرد و زن کے انداز گفتگو، وضع قطع اور لباس میں جدّت آنے لگی۔ زبان میں انگریزی الفاظ کا استعمال عام ہو گیا اور ادب میں کئی مغربی اصناف کا ظہور ہوا۔ ایسے وقت میں اودھ پنچ نے طنز و مزاح کے ذریعے ہندوستانیوں کی ہر بے ڈھنگی چال پر تیر چلائے اور انگریزوں کی حمایت میں بولنے والوں کو آڑے ہاتھوں لیا۔
اودھ پنچ کی رہنمائی نے مغربی تہذیب کی منہ زور لہروں کے رْخ پر مضبوطی سے بند باندھے رکھا اور انگریزوں کی اندھی تقلید کرنے والوں کو طنز کے تیز دھار بھالوں سے چھلنی کر ڈالا۔ اودھ پنچ کے اہم طنّاز و مزاح نگار شعرا میں اکبر الٰہ آبادی، تربھون ناتھ ہجر،عبدالغفور شہباز،احمد علی شوق، مرزا مچھو بیگ ستم ظریف، ظریف لکھنوی، فضل ستّار لا اْبالی وغیرہ شامل ہیں۔اودھ پنچ کے قلمکار سرسیّد اور ان کی تحریک کے شروع دن سے سخت مخالف تھے۔
بنتے ہیں بہت مذہب و ملت کے ہوا خواہ
کرتے ہیں وصول آ کے بہت قوم سے چندے
(عبدالغفور شہباز)
بعض شاعروں نے انگریزی زبان اور تعلیم پر بہت کچھ کہا۔ان میں اکبرالہٰ آبادی پیش پیش تھے اور ان کے ایسے کئی اشعار مقبولیت کی انتہاؤں تک پہنچے جن میں انگریزی تعلیم کو ہدفِ تنقید بنایا گیا تھا۔مثلاً:
تعلیم جو دی جاتی ہے ہمیں وہ کیا ہے فقط بازاری ہے
جو عقل سکھائی جاتی ہے وہ کیا ہے، فقط سرکاری ہے
رنگ چہرے کا تو کالج نے بھی رکھا قائم
رنگِ مذہب میں مگر باپ سے بیٹا نہ ملا
(اکبر الٰہ آبادی)
انگریز اپنے اقتدار کے ساتھ جو تحائف لائے ان میں سب سے ضرر رساں تحفہ جدید تہذیب و تمدن تھا۔ بعد میں اس کو مغربی تہذیب کے نام سے پکارا جانے لگا۔نئی تہذیب کی آمد کے بعد ہندوستانی معاشرے میں دو بڑے طبقے سامنے آئے۔ پہلا طبقہ ان لوگوں کا تھا جس میں اس نئی تہذیب کو قبول کرنے کی تاب نہ تھی۔اس طبقے نے اپنی قدیم روایات اور اقدار کو چھوڑنا کسی صورت گورا نہ کیا اور حتی المقدور جدید تہذیب کی مخالفت بھی کی۔اس کے برعکس دوسرا طبقہ جدید مغربی تہذیب کا گرویدہ ہو گیا اور انگریزوں کی ہر ادا پر مر مٹنے لگا۔مغربی تہذیب پر حملوں کی چند مثالیں دیکھیے:
چار دن کی زندگی ہے کوفت سے کیا فائدہ
کھا ڈبل روٹی، کلرکی کر، خوشی سے پھول جا
(اکبر الٰہ آبادی)
مساوات اس کو کہتے ہیں نئی تہذیب کیا کہنا
کہ یکساں ہو گئی صورت زنانی اور مردانی
(ظریف لکھنوی)
کسی قوم کی پس ماندگی، افلاس،پستی،غلامی اور بے راہ روی کا سب سے بڑا سبب کاہلی و سستی ہوتا ہے۔ اس عیب کی حامل قومیں زندگی کے ہر میدان میں پیچھے رہ جانے کے ساتھ اپنا وجود بھی کھو بیٹھتی ہیں اور تاریخ سے ان کا نام و نشان تک مٹ جاتا ہے۔ اس دور میں ہندوستان کی تقریباً تمام اقوام کا عام اور کثیر التعداد طبقہ سخت کوشی سے جی چرانے اور نکما رہنے کو ترجیح دیتا تھا۔ ہر شخص کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ دوسروں کے مال پر عیش اڑائے اور اسے خود کسی قسم کی محنت کے بغیر سب کچھ حاصل ہوتا رہے۔ اس عادتِ بد کے اثرات نے ان کو آزادی کی اہمیت سے بے نیاز کر دیا اور قدرت نے سزا کے طور پر ان کو غلامی کی ذلت آمیز تاریکیوں میں دھکیل کر سبق سکھانے کا فیصلہ کیا۔ اودھ پنچ کے لکھاریوں نے ہندوستانیوں کی سستی و کاہلی پر سخت تنقید کی اور انھیں ایک دوسرے پر انحصار کرنے کے بجائے اپنی مدد آپ کرنے کا درس دیا۔
’’قوم کے غدّار‘‘
ہمیشہ اک نہ اک دینے نیا آزار بیٹھے ہیں
جہاں بھی صدر بن کر قوم کے غدار بیٹھے ہیں
لگائیں گے یہ بیڑا پار کیا کشتی ڈبو دیں گے
جو قومی ناؤ کھینے تھام کر پتوار بیٹھے ہیں
(ظریف لکھنوی)
طنازوں نے نشئیوں، بٹیر اور بٹیر بازوں کو بھی خوب ہدفِ تنقید بنایا:
رہے دو گھڑی دن تو بن ٹھن کے خوب
کرو چوک کی سیر تن تن کے خوب
بٹیر ایک دو ہاتھ ہی میں رہیں
تاکہ لوگ نواب صاحب کہیں
(احمد علی شوق)
علامہ اقبالؒ کی طنز اور ظرافت میں موجود گہری فکر قاری کو دیر تک اپنے سحر میں گرفتار کھتی ہے اور وہ اپنے گرد و پیش نگاہ دوڑانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ ان کی طنز کا پہلا نشانہ تہذیبِ مغرب ہے۔ اس عہد میں ہندوستان کے عام لوگوں کو معاشی تباہ حالی کا سامناتھا :
اْٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں
نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے
الکشن، ممبری، کونسل، صدارت
بنائے خوب آزادی نے پھندے
میاں نجار بھی چھیلے گئے ساتھ
نہایت تیز ہیں یورپ کے رندے
اقبال کے طنز اور ظرافت کا دوسرا بڑا موضوع ان کی اپنی قوم ہے۔اس وقت دو طبقے اْبھر کر سامنے آ چکے تھے۔ ایک تو وہ لوگ تھے جنھوں نے اپنے آپ کو وقت کے ساتھ ڈھال لینے میں عافیت سمجھی اور انگریزی لبادہ اوڑھ لیا۔ دوسرا طبقہ وہ تھا جس نے اپنے پرانے نظامِ زندگی کو برقرار رکھا اور اسی کو اپنے لیے فخر کا باعث جانا۔اقبال نے اپنی طنزیہ و ظریفانہ شاعری میں مختلف حوالوں سے دونوں طبقات پر طبع آزمائی کی ہے۔جہاں اوّل الذکر طبقے کی نام نہاد روشن خیالی پر ضربیں لگائیں وہاں دقیانوسیت کو بھی نشانہ بنایا۔ اقبال نے اس کا منظر کا خاکہ کچھ یوں اْڑایا:
لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی
ڈھونڈ لی قوم نے فلاح کی راہ
روشِ مغربی ہے مدّ نظر
وضع مشرق کو جانتے ہیں گناہ
یہ ڈراما دکھائے گا کیا سین
پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ
شیخ صاحب بھی تو پردے کے کوئی حامی نہیں
مفت میں کالج کے لڑکے ان سے بد ظن ہو گئے
وعظ میں فرما دیا کل آپ نے یہ صاف صاف
’’پردہ آخر کس سے ہو جب مرد ہی زن ہو گئے‘‘