Results 1 to 4 of 4

Thread: اردو شاعری میں طنزو مزاØ+ Ú©ÛŒ روایت Û”Û”Û” Ù…Ø+مد شعیب

Hybrid View

Previous Post Previous Post   Next Post Next Post
  1. #1
    Join Date
    Nov 2014
    Location
    Lahore,Pakistan
    Posts
    25,276
    Mentioned
    1562 Post(s)
    Tagged
    20 Thread(s)
    Rep Power
    214784

    candel اردو شاعری میں طنزو مزاØ+ Ú©ÛŒ روایت Û”Û”Û” Ù…Ø+مد شعیب

    اردو شاعری میں طنزو مزاØ+ Ú©ÛŒ روایت Û”Û”Û” Ù…Ø+مد شعیب

    Urdu Shayeri Mein Tanz-o-Mazah.jpg
    جس طرØ+ خوشی اور غم کا عمل دخل تمام Ø+یاتِ انسانی میں جاری وساری رہتا ہے، اسی طرØ+ طنز Ùˆ مزاØ+ Ú©Ùˆ بھی زندگی میں بنیادی Ø+یثیت Ø+اصل ہے۔بچہ اپنی پیدائش ہی سے رونے Ú©Û’ بعد جو کام سیکھتا ہے، وہ رونا اور ہنسی ہے۔اس وقت وہ کسی بھی جذبے سے آگاہی Ú©Û’ بغیر صرف گدگدانے پر خوشی کا اظہار کر Ú©Û’ اپنی جبلت کا اØ+ساس دلاتا ہے Û” انسان Ú©Û’ علاوہ کوئی بھی جاندار اس عمل پر قادر نہیں اور مولانا Ø+الی Ù†Û’ اسی لیے غالب Ú©Ùˆ Ø+یوانِ ظریف قرار دیا تھا۔ صرف غالب ہی نہیں بلکہ تمام انسان اس جذبے Ú©Û’ Ø+امل ہوتے ہیں :
    شعری اصطلاØ+ میں طنز اور مزاØ+ کا مفہوم جدا جدا ہے۔ راقم الØ+روف Ú©Û’ نزدیک مزاØ+ اور طنز میں فرق Ú©Ùˆ اس طرØ+ بیان کیا جا سکتا ہے کہ کسی Ú©Û’ ساتھ ’’ مذاق کرنے‘‘ Ú©Ùˆ مزاØ+ اور کسی کا ’’مذاق اْڑانے‘‘ Ú©Ùˆ طنز کہا جائے گا۔ ’’مذاق کرنا‘‘ اور ’’مذاق اْڑانا‘‘ دو الگ الگ کیفیتیں ہیں اور ان دونوں میں وہی فرق ہے جو گدگدانے اور تھپڑ لگانے میں ہے۔مزاØ+ (Humour) اس وقت جنم لیتا ہے جب فارغ البالی کا دور دورہ ہو،ہر جانب سکون Ùˆ اطمینان چھایا ہو اور معاشرے میں اعلیٰ انسانی اقدار،چند خرابیوں Ú©Û’ باوجود Ø+یاتِ انسانی پر Ø+اوی ہو جائیں۔ مزاØ+ Ú©ÛŒ کونپلیں ایسا سازگار ماØ+ول پا کرگھنا درخت بن جاتی ہیں۔ اس درخت Ú©ÛŒ شاخیں ہر جانب پھیل کر معاشرہ Ú©Û’ افراد Ú©Û’ لیے خالص مزاØ+ Ú©ÛŒ صورت میں خوشگوار آکسیجن فراہم کرتی ہیں۔ مزاØ+ افرادِ معاشرہ میں تØ+مل، بردباری، مروّت اور زندہ دلی Ú©ÛŒ خصوصیات پیدا کر Ú©Û’ زندگی Ú©Û’ پھیکے پن میں رنگ بھر کر اسے خوشگوار بنا دیتا ہے۔ مزاØ+ نگار Ú©Û’ دل میں ہمدردی اور اْنس Ùˆ Ù…Ø+بت Ú©ÛŒ فراوانی،بے اعتدالیوں Ú©Ùˆ دریافت کر Ú©Û’ ان کا علاج میٹھے شربت سے کرتی ہے جس سے معاشرے سے آہ Ú©Û’ بجائے واہ Ú©ÛŒ آوازیں سنائی دیتی ہیں۔

    مزاØ+ Ú©Û’ برعکس طنز(Satire )Ú©ÛŒ پیدائش اس وقت ہوتی ہے جب معاشرہ بدØ+الی کا شکار ہو،امن Ùˆ امان مفقود ہو جائے اور انسانی قدروں Ú©ÛŒ پامالی معمول بن جائے۔ایسے ماØ+ول میں لوگوں Ú©ÛŒ قوتِ برداشت جواب دے جاتی ہے۔ مروّت،زندہ دلی اور دیگر اوصافِ Ø+میدہ دم توڑ کر طنز Ú©Ùˆ جنم دیتے ہیں۔طنز ایسے ماØ+ول میں پروان چڑھتا ہے جہاں کئی قسم Ú©ÛŒ ناہمواریاں اپنی جڑیں مضبوطی سے گاڑ کرمستقل Ø+یثیت اختیار کر لیں۔ طنز اپنے اردگرد پھیلے ہوئے مسائل Ú©ÛŒ اصلاØ+ کیلئے میٹھی گولیوں Ú©Û’ بجائے نشتر Ú©Ùˆ استعمال میں لاتا ہے۔ اردو شاعری میں فارسی Ú©Û’ توسط سے کئی اصناف اور موضوعات مستقل صورت اختیار کر گئے۔ ہجو، تØ+ریف، رندی Ùˆ سر مستی ،زاہد سے چھیڑ چھاڑ وغیرہ اِسی فارسی شاعری Ú©ÛŒ دین ہیں اور اردو شاعری میں طنز Ùˆ مزاØ+ Ú©Û’ ابتدائی نمونے انھی پیمانوں میں مقید ہو کر یکسانیت کا شکار تھے۔ اس عہد میں جو شاعر سب سے پہلے طنز Ùˆ مزاØ+ Ú©ÛŒ دستار اپنے سر پر سجاتا ہے،اس کا نام مرزا Ù…Ø+مد جعفر تھا جسے دنیائے طنز Ùˆ مزاØ+ میں ’’جعفر زٹلی‘‘ Ú©Û’ نام سے شہرت Ø+اصل ہوئی۔ یہ مغلیہ Ø+کومت کا زمانہ تھا جو بظاہر استØ+کام پذیر نظر آتا تھا لیکن اس Ú©ÛŒ تہذیبی اکائیاں اندر ہی اندر زوال کا شکار تھیں۔ ایسے وقت میں جعفر زٹلی Ù†Û’ اپنے عہد Ú©ÛŒ ترجمانی کا فریضہ اس طرØ+ انجام دیا کہ تین صدیاں گزرنے Ú©Û’ باوجود اس کا نام آج بھی زندہ ہے۔ عوام Ú©ÛŒ ترجمانی کرتے ہوئے اس شاعر Ù†Û’ جب بادشاہ Ú©Û’ خلاف ایک شعر کہا تو بادشاہِ وقت فرخ سیر Ù†Û’ بھڑک کر جعفر زٹلی Ú©Ùˆ 1713Ø¡ میں قتل کروادیا۔ شعر درج ذیل ہے:

    سکّہ زد بر گندم و موٹھ و مٹر

    پادشا ہے تسمہ کش فرّخ سیر

    یہ سیاسی افراتفری، اقتصادی بدØ+الی، سماجی بے اعتدالی اور اخلاقی بے راہ روی کا دور تھا۔ بیرونی یلغار معمول بن Ú†Ú©ÛŒ تھی۔ خوف اور سراسیمگی Ú©ÛŒ فضا Ù†Û’ تمام معاشرے Ú©Ùˆ اپنی لپیٹ میں Ù„Û’ کر زندگی سے فرار Ú©ÛŒ راہ دکھائی۔یوں شاعری میں بھی فرار Ú©ÛŒ اس فضا Ù†Û’ قنوطیت Ú©Ùˆ جنم دے کر جذبات Ú©ÛŒ تیز لہروں کا رْخ اپنے ماØ+ول اور خیالی زاہد Ùˆ واعظ سے چھیڑ چھاڑ Ú©ÛŒ جانب موڑ دیا۔زاہد ومØ+تسب سے اس چھیڑ چھاڑ Ú©Û’ نتیجے میں شگفتگی اور رندی Ùˆ بے باکی Ú©Û’ مضامین Ú©Ú¾Ù„ کر سامنے آنے Ù„Ú¯Û’ جو فارسی شاعری میں اس سے پہلے موجود تھے۔بقول ڈاکٹر خواجہ Ù…Ø+مد زکریا:

    ’’دکنی شاعروں Ú©Û’ کلام میں واعظ اور ناصØ+ سے چھیڑ چھاڑ Ú©Û’ اشعار فارسی شعرا Ú©Û’ تتبع میں موجود ہیں۔یہ رو دکی، میر، مصØ+فی، آتش، غالب، Ø+الی وغیرہ سے ہوتی ہوئی جدید شعرا یعنی فیض وغیرہ تک پہنچتی ہے۔ ایک اور رو جس میں ظرافت Ù†Û’ ہزل کا روپ اختیار کر لیا ہے اور ثقاہت Ú©Û’ تمام نقاب الٹ دیے ہیں۔ اس Ú©Û’ نمائندہ جعفر زٹلی، عطا، اٹل، زانی، افسق وغیرہ ہیں۔ تیسری رو ہجویات Ú©ÛŒ ہے۔ قدیم شاعری میں طنزیہ اور مزاØ+یہ شاعری Ú©Û’ قابلِ ذکر نمونے ہجویات میں نظر آتے ہیں۔سودا، نظیر، انشا وغیرہ Ú©Û’ ہاں کہیں تو ہجو معاشرے Ú©ÛŒ آلودگیوں Ú©ÛŒ پردہ دری کر Ú©Û’ بلند منصب پر فائز ہو گئی ہے اور کہیں ذاتیات میں اْلجھ کر اپنے مقام سے گر گئی ہے‘‘۔

    اردو کا شاید ہی کوئی ایسا شاعر ہو جس Ú©Û’ یہاں واعظ Ùˆ ناصØ+ اور ان Ú©Û’ قبیل Ú©Û’ دوسرے افراد Ú©Ùˆ طنز Ùˆ مزاØ+ کا نشانہ نہ بنایا گیا ہو۔ واعظ مخالف اشعار سے ہر عہد Ú©Û’ شعرا Ú©Û’ دیوان بھرے Ù¾Ú‘Û’ ہیں۔ایسی شاعری سے چند مثالیں ملاØ+ظہ کیجیے:

    یہ جو مہنت بیٹھے ہیں رادھا کے کنڈ پر

    اوتار بن کے گرتے ہیں پریوں کے جھنڈ پر

    (انشاء اللہ خان )

    رندِ خراب Ø+ال Ú©Ùˆ زاہد نہ چھیڑتو

    تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو

    (ابراہیم ذوق)

    یہ کہاں Ú©ÛŒ دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصØ+

    کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غم گسار ہوتا

    شورِ پندِ ناصØ+ Ù†Û’ زخم پر نمک Ú†Ú¾Ú‘ کا

    آپ سے کوئی پوچھے تم نے کیا مزا پایا

    (اسداللہ خان غالب)

    اس عہد Ú©ÛŒ شاعری میں جہاں جہاں شگفتگی Ùˆ ظرافت موجود ہے وہاں زاہد Ú©Û’ مقابلے میں رندی Ùˆ سرمستی Ú©Ùˆ نمایاں کیا گیا ہے۔ شعرا Ù†Û’ رندی Ùˆ سرمستی Ú©Ùˆ ایک مستقل موضوع Ú©Û’ طور پر اختیار کر Ú©Û’ تبسم زیرِ لب Ú©ÛŒ کیفیات پیدا کر دیں۔ یہ اندازِ فکر اپنے اندر Ø+الات Ú©ÛŒ سنگینی سے Ú©Ú†Ú¾ دیر چھٹکارا Ø+اصل کرنے Ú©ÛŒ قوت سے لبریز ہے۔ایک تو Ù…Û’ نوشی کا اپنا خاصہ ہے کہ یہ انسان Ú©Ùˆ اپنے گرد Ùˆ پیش سے لاتعلق کر دیتی ہے،دوسرا شاعری میں رندی Ú©Û’ مظاہرے اس لیے بھی عام ہیں کہ واعظ اس Ú©Û’ نام سے بھی پْرخاش رکھتا ہے:

    کیفیت چشم اس کی مجھے یاد ہے سودا

    ساغر کو مرے ہاتھ سے لینا کہ چلا میں

    (مرزا Ù…Ø+مد رفیع سودا)

    اوّلین طنزیہ Ùˆ مزاØ+یہ اردو شاعری کا ایک اور پہلو Ù…Ø+بوب Ùˆ معشوق Ú©Û’ ساتھ چھیڑ چھاڑ ہے۔ جب معشوق اپنے عاشق سے التفات نہیں برتتا تو عاشق اس Ú©Ùˆ جلی Ú©Ù¹ÛŒ سنانے Ù„Ú¯ جاتا ہے۔ایسے مواقع طنز Ùˆ مزاØ+ Ú©Ùˆ جنم دیتے ہیں اور Ù…Ø+بوب اس چھیڑ چھاڑ سے لطف اندوز ہونے Ú©Û’ ساتھ Ú†Ú‘ کر مزید بے پروائی کا مظاہرہ کرنے Ù„Ú¯ جاتا ہے۔مثلاً:

    وہ پری رو نہ کیوں ہو ہرجائی

    آدمی ہو تو آدمیت ہو

    (مجروØ+ سلطان پوری )

    میر Ùˆ سودااور انشا Ùˆ مصØ+فی Ú©Û’ درمیان معاصرانہ چپقلش سے وجود میں آنے والی ہجویات Ú©Û’ نمونے طنز Ùˆ مزاØ+ Ú©ÛŒ غیر شعوری کوششوں Ú©ÛŒ مثالیں ہیں۔اودھ پنچ Ú©Û’ عہدسے پہلے طنزیہ Ùˆ مزاØ+یہ شاعری میں نظیر اکبر آبادی (شیخ ولی Ù…Ø+مد)Ú©ÛŒ آواز دوسروں سے الگ سنائی دیتی ہے۔ان Ú©ÛŒ شاعری کا کمال یہ ہے کہ انھوں Ù†Û’ اپنی طویل زندگی Ú©Û’ نشیب Ùˆ فراز اور زمانے Ú©ÛŒ مختلف تصاویر Ú©Ùˆ شاعری میں نقش کر دیا۔ اپنے گرد Ùˆ پیش Ú©Û’ مناظر Ú©ÛŒ منظر نگاری Ú©Ùˆ عوامی زبان اور لہجہ دے کر نظیر Ù†Û’ طنز Ùˆ مزاØ+ Ú©Û’ ایک جْدا اور مانوس دبستان Ú©ÛŒ بنیاد رکھی جو صدیاں گزرنے Ú©Û’ باوجود اپنی انفرادیت قائم رکھے ہوئے ہے۔ اپنے عہد Ú©Û’ مزاج اور انسانی نفسیات ومØ+سوسات Ú©ÛŒ نقش نگاری Ú©Û’ نمونے ان Ú©ÛŒ نظموں روٹی نامہ، آدمی نامہ،پیسہ نامہ، مفلسی،خوشامد وغیرہ میں ملتے ہیں۔ طنز Ùˆ مزاØ+ Ú©Û’ اس دور کا ایک ممتاز نمائندہ غالب ہے۔غالب Ú©ÛŒ طبیعت میں پائی جانے والی شگفتگی کا عکس ان Ú©ÛŒ شاعری میں نکتہ آرائی Ú©ÛŒ صورت میں ملتا ہے۔ غالب Ú©ÛŒ شگفتگی ان Ú©ÛŒ خانگی زندگی Ú©Û’ مصائب ومسائل Ú©Ùˆ نظر انداز کرنے Ú©ÛŒ وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔

    شورِ پندِ ناصØ+ Ù†Û’ زخم پر نمک Ú†Ú¾Ú‘ کا

    آپ سے کوئی پوچھے تم نے کیا مزا پایا

    7جنوری1877Ø¡ Ú©Ùˆ لکھنؤ سے جس تاریخی طنزیہ Ùˆ مزاØ+یہ رسالے کا اجرا ہوا وہ ’’اودھ پنچ‘‘ Ú©Û’ نام سے مقبول ہوا۔ اس Ú©Û’ مالک Ùˆ ایڈیٹر منشی سجاد Ø+سین تھے۔اودھ پنچ Ù†Û’ اردو ادب میں طنز Ùˆ مزاØ+ Ú©ÛŒ راہوں Ú©Ùˆ وسعت دی اور پرانی روشوں Ú©Û’ ساتھ ایک الگ راستے پر چلنے Ú©ÛŒ ابتدا Ú©ÛŒ Û” جنگ آزادی Ú©Û’ بعد ہندوستانی معاشرے Ú©ÛŒ اقدار Ú©ÛŒ زبوں Ø+الی Ú©Û’ ساتھ زندگی Ú©Û’ ہر شعبہ میں انگریزوں Ú©ÛŒ نقالی سے تبدیلیاں رونما ہونے Ù„Ú¯ÛŒ تھیں۔ اس دور میں انگریزوں Ú©Û’ ساتھ مصالØ+ت Ú©ÛŒ تØ+ریکیں چلنے لگیں۔ مرد Ùˆ زن Ú©Û’ انداز گفتگو، وضع قطع اور لباس میں جدّت آنے لگی۔ زبان میں انگریزی الفاظ کا استعمال عام ہو گیا اور ادب میں کئی مغربی اصناف کا ظہور ہوا۔ ایسے وقت میں اودھ پنچ Ù†Û’ طنز Ùˆ مزاØ+ Ú©Û’ ذریعے ہندوستانیوں Ú©ÛŒ ہر بے ÚˆÚ¾Ù†Ú¯ÛŒ چال پر تیر چلائے اور انگریزوں Ú©ÛŒ Ø+مایت میں بولنے والوں Ú©Ùˆ آڑے ہاتھوں لیا۔

    اودھ پنچ Ú©ÛŒ رہنمائی Ù†Û’ مغربی تہذیب Ú©ÛŒ منہ زور لہروں Ú©Û’ رْخ پر مضبوطی سے بند باندھے رکھا اور انگریزوں Ú©ÛŒ اندھی تقلید کرنے والوں Ú©Ùˆ طنز Ú©Û’ تیز دھار بھالوں سے چھلنی کر ڈالا۔ اودھ پنچ Ú©Û’ اہم طنّاز Ùˆ مزاØ+ نگار شعرا میں اکبر الٰہ آبادی، تربھون ناتھ ہجر،عبدالغفور شہباز،اØ+مد علی شوق، مرزا Ù…Ú†Ú¾Ùˆ بیگ ستم ظریف، ظریف لکھنوی، فضل ستّار لا اْبالی وغیرہ شامل ہیں۔اودھ پنچ Ú©Û’ قلمکار سرسیّد اور ان Ú©ÛŒ تØ+ریک Ú©Û’ شروع دن سے سخت مخالف تھے۔

    بنتے ہیں بہت مذہب و ملت کے ہوا خواہ

    کرتے ہیں وصول آ کے بہت قوم سے چندے

    (عبدالغفور شہباز)

    بعض شاعروں نے انگریزی زبان اور تعلیم پر بہت کچھ کہا۔ان میں اکبرالہٰ آبادی پیش پیش تھے اور ان کے ایسے کئی اشعار مقبولیت کی انتہاؤں تک پہنچے جن میں انگریزی تعلیم کو ہدفِ تنقید بنایا گیا تھا۔مثلاً:

    تعلیم جو دی جاتی ہے ہمیں وہ کیا ہے فقط بازاری ہے

    جو عقل سکھائی جاتی ہے وہ کیا ہے، فقط سرکاری ہے

    رنگ چہرے کا تو کالج نے بھی رکھا قائم

    رنگِ مذہب میں مگر باپ سے بیٹا نہ ملا

    (اکبر الٰہ آبادی)

    انگریز اپنے اقتدار Ú©Û’ ساتھ جو تØ+ائف لائے ان میں سب سے ضرر رساں تØ+فہ جدید تہذیب Ùˆ تمدن تھا۔ بعد میں اس Ú©Ùˆ مغربی تہذیب Ú©Û’ نام سے پکارا جانے لگا۔نئی تہذیب Ú©ÛŒ آمد Ú©Û’ بعد ہندوستانی معاشرے میں دو بڑے طبقے سامنے آئے۔ پہلا طبقہ ان لوگوں کا تھا جس میں اس نئی تہذیب Ú©Ùˆ قبول کرنے Ú©ÛŒ تاب نہ تھی۔اس طبقے Ù†Û’ اپنی قدیم روایات اور اقدار Ú©Ùˆ چھوڑنا کسی صورت گورا نہ کیا اور Ø+تی المقدور جدید تہذیب Ú©ÛŒ مخالفت بھی کی۔اس Ú©Û’ برعکس دوسرا طبقہ جدید مغربی تہذیب کا گرویدہ ہو گیا اور انگریزوں Ú©ÛŒ ہر ادا پر مر مٹنے لگا۔مغربی تہذیب پر Ø+ملوں Ú©ÛŒ چند مثالیں دیکھیے:

    چار دن کی زندگی ہے کوفت سے کیا فائدہ

    کھا ڈبل روٹی، کلرکی کر، خوشی سے پھول جا

    (اکبر الٰہ آبادی)

    مساوات اس کو کہتے ہیں نئی تہذیب کیا کہنا

    کہ یکساں ہو گئی صورت زنانی اور مردانی

    (ظریف لکھنوی)

    کسی قوم Ú©ÛŒ پس ماندگی، افلاس،پستی،غلا٠…ÛŒ اور بے راہ روی کا سب سے بڑا سبب کاہلی Ùˆ سستی ہوتا ہے۔ اس عیب Ú©ÛŒ Ø+امل قومیں زندگی Ú©Û’ ہر میدان میں پیچھے رہ جانے Ú©Û’ ساتھ اپنا وجود بھی Ú©Ú¾Ùˆ بیٹھتی ہیں اور تاریخ سے ان کا نام Ùˆ نشان تک مٹ جاتا ہے۔ اس دور میں ہندوستان Ú©ÛŒ تقریباً تمام اقوام کا عام اور کثیر التعداد طبقہ سخت کوشی سے جی چرانے اور نکما رہنے Ú©Ùˆ ترجیØ+ دیتا تھا۔ ہر شخص Ú©ÛŒ کوشش ہوتی تھی کہ وہ دوسروں Ú©Û’ مال پر عیش اڑائے اور اسے خود کسی قسم Ú©ÛŒ Ù…Ø+نت Ú©Û’ بغیر سب Ú©Ú†Ú¾ Ø+اصل ہوتا رہے۔ اس عادتِ بد Ú©Û’ اثرات Ù†Û’ ان Ú©Ùˆ آزادی Ú©ÛŒ اہمیت سے بے نیاز کر دیا اور قدرت Ù†Û’ سزا Ú©Û’ طور پر ان Ú©Ùˆ غلامی Ú©ÛŒ ذلت آمیز تاریکیوں میں دھکیل کر سبق سکھانے کا فیصلہ کیا۔ اودھ پنچ Ú©Û’ لکھاریوں Ù†Û’ ہندوستانیوں Ú©ÛŒ سستی Ùˆ کاہلی پر سخت تنقید Ú©ÛŒ اور انھیں ایک دوسرے پر انØ+صار کرنے Ú©Û’ بجائے اپنی مدد آپ کرنے کا درس دیا۔

    ’’قوم کے غدّار‘‘

    ہمیشہ اک نہ اک دینے نیا آزار بیٹھے ہیں

    جہاں بھی صدر بن کر قوم کے غدار بیٹھے ہیں

    لگائیں گے یہ بیڑا پار کیا کشتی ڈبو دیں گے

    جو قومی ناؤ کھینے تھام کر پتوار بیٹھے ہیں

    (ظریف لکھنوی)

    طنازوں نے نشئیوں، بٹیر اور بٹیر بازوں کو بھی خوب ہدفِ تنقید بنایا:

    رہے دو گھڑی دن تو بن ٹھن کے خوب

    کرو چوک کی سیر تن تن کے خوب

    بٹیر ایک دو ہاتھ ہی میں رہیں

    تاکہ لوگ نواب صاØ+ب کہیں

    (اØ+مد علی شوق)

    علامہ اقبالؒ Ú©ÛŒ طنز اور ظرافت میں موجود گہری فکر قاری Ú©Ùˆ دیر تک اپنے سØ+ر میں گرفتار کھتی ہے اور وہ اپنے گرد Ùˆ پیش نگاہ دوڑانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ ان Ú©ÛŒ طنز کا پہلا نشانہ تہذیبِ مغرب ہے۔ اس عہد میں ہندوستان Ú©Û’ عام لوگوں Ú©Ùˆ معاشی تباہ Ø+الی کا سامناتھا :

    اْٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں

    نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے

    الکشن، ممبری، کونسل، صدارت

    بنائے خوب آزادی نے پھندے

    میاں نجار بھی چھیلے گئے ساتھ

    نہایت تیز ہیں یورپ کے رندے

    اقبال Ú©Û’ طنز اور ظرافت کا دوسرا بڑا موضوع ان Ú©ÛŒ اپنی قوم ہے۔اس وقت دو طبقے اْبھر کر سامنے آ Ú†Ú©Û’ تھے۔ ایک تو وہ لوگ تھے جنھوں Ù†Û’ اپنے آپ Ú©Ùˆ وقت Ú©Û’ ساتھ ڈھال لینے میں عافیت سمجھی اور انگریزی لبادہ اوڑھ لیا۔ دوسرا طبقہ وہ تھا جس Ù†Û’ اپنے پرانے نظامِ زندگی Ú©Ùˆ برقرار رکھا اور اسی Ú©Ùˆ اپنے لیے فخر کا باعث جانا۔اقبال Ù†Û’ اپنی طنزیہ Ùˆ ظریفانہ شاعری میں مختلف Ø+والوں سے دونوں طبقات پر طبع آزمائی Ú©ÛŒ ہے۔جہاں اوّل الذکر طبقے Ú©ÛŒ نام نہاد روشن خیالی پر ضربیں لگائیں وہاں دقیانوسیت Ú©Ùˆ بھی نشانہ بنایا۔ اقبال Ù†Û’ اس کا منظر کا خاکہ Ú©Ú†Ú¾ یوں اْڑایا:

    لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی

    ڈھونڈ Ù„ÛŒ قوم Ù†Û’ فلاØ+ Ú©ÛŒ راہ

    روشِ مغربی ہے مدّ نظر

    وضع مشرق کو جانتے ہیں گناہ

    یہ ڈراما دکھائے گا کیا سین

    پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ

    شیخ صاØ+ب بھی تو پردے Ú©Û’ کوئی Ø+امی نہیں

    مفت میں کالج کے لڑکے ان سے بد ظن ہو گئے

    وعظ میں فرما دیا کل آپ نے یہ صاف صاف

    ’’پردہ آخر کس سے ہو جب مرد ہی زن ہو گئے‘‘


    2gvsho3 - اردو شاعری میں طنزو مزاØ+ Ú©ÛŒ روایت Û”Û”Û” Ù…Ø+مد شعیب

  2. #2
    Join Date
    Nov 2014
    Location
    Lahore,Pakistan
    Posts
    25,276
    Mentioned
    1562 Post(s)
    Tagged
    20 Thread(s)
    Rep Power
    214784

    Default Re: اردو شاعری میں طنزو مزاØ+ Ú©ÛŒ روایت Û”Û”Û” Ù…Ø+مد شعیب

    2gvsho3 - اردو شاعری میں طنزو مزاØ+ Ú©ÛŒ روایت Û”Û”Û” Ù…Ø+مد شعیب

  3. #3
    Join Date
    Aug 2012
    Location
    Baazeecha E Atfaal
    Posts
    14,528
    Mentioned
    1112 Post(s)
    Tagged
    210 Thread(s)
    Rep Power
    27

    Default Re: اردو شاعری میں طنزو مزاØ+ Ú©ÛŒ روایت Û”Û”Û” Ù…Ø+مد شعیب

    Nice Sharing :-) Bohat Khoob Janaab :-)
    (-: Bol Kay Lab Aazaad Hai'n Teray :-)


  4. #4
    Join Date
    Jan 2023
    Location
    Saudi Arabia
    Posts
    565
    Mentioned
    0 Post(s)
    Tagged
    0 Thread(s)
    Rep Power
    2

    Default Re: اردو شاعری میں طنزو مزاØ+ Ú©ÛŒ روایت Û”Û”Û” Ù…Ø+مد شعیب

    Awesome

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •