’’ فن کی دنیا کا گلاب‘‘ ۔۔۔۔گلاب چانڈیو ۔۔۔۔۔ شاہد لطیف
gulab chandiyu.jpg
سندھ کے چھوٹے سے گائوں میں پیدا ہونیوالے اس فنکار نے فلم ،ٹی وی اور سٹیج پر برسوں راج کیا
شہمیر چانڈیو نام کے گائوں ، تحصیل نواب شاہ میں سائیں بخش چانڈیو کے ہاں 6 جنوری 1958 ء کو پیدا ہونیوالے گلاب نے 1980 ء سے فن کی خوشبو بکھیرناشروع کی۔سٹیج، ٹیلی وژن، اُردو، سندھی ، پنجابی اور ڈبل ورژن کی فلمیں اِس کی مثال ہیں۔میں جب پی ٹی وی کراچی مرکز کے شعبہ ٔپروگرام سے منسلک ہوا تب گلاب ابھی نیا نیا ٹی وی کی دنیا میں آیا تھا۔ اُس وقت شاید وہ خود بھی نہیں جانتا تھا کہ بہت جلد شہرت اس کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑی ہو گی۔یہ اس کی ابتدا ء کا زمانہ تھا ابھی اُس نے سندھی ڈراموں میں آنا شروع ہی کیا تھا۔جو چیز گلاب چانڈیو کو اپنے ہم عصروں سے ممتاز کرتی وہ اس کی قدرتی مسکراہٹ تھی ہر ایک سے نہایت عجز سے ملتا ۔
پھر یکے بعد دیگرے سندھی ڈراموں میں اُس کے کردار مقبول ہونے لگے۔ یہ 1981 ء کا ذکر ہے کہ سینئر پروڈیوسر بختیار احمد کے ساتھ میں، فلم کیمرہ مین طارق حمید لودھی اور ٹیم کے دیگر افراد دستاویزی فلم ''روڈ ٹو ہالہ‘‘ کیلئے کراچی سے ہالہ تک تاریخی اور ثقافتی اہمیت کے حامل مقامات کی عکس بندی اور لوگوں سے بات چیت کیلئے نکلے۔ ٹی وی فنکار یار محمدسندھی ڈراموں میں منفرد پہچان رکھتے تھے اور سندھی مزاحیہ پروگرام '' چہ چِٹھو‘‘ میں بھی ہر ہفتہ نظر آتے ۔ وہ مٹیاری کے رہنے والے تھے اِن کا اپنا ایک ہوٹل بھی تھا ۔ ہماری تمام ٹیم اُن کے ہوٹل میں چائے پینے رُکی وہاں لوگ وی سی آر پر سندھی ڈرامہ دیکھ رہے تھے ۔اُس کے ایک سین میں گلاب چانڈیو ڈاکو کے روپ میں زور دار مکالمے بول رہا تھا۔ سب لوگ خاموشی کے ساتھ وہ مکالمے سُن رہے تھے۔جب اگلے سین میں کوئی اور اداکار آیا تو خاموشی کا سحر ٹوٹا اور ہوٹل کی روایتی بھنبھناہٹ شروع ہو گئی۔ اتنے میں ایک صاحب نے ہماری ٹیم کو مخاطب کر کے کہا کہ آپ لوگ اِس ( اُس کردار کا نام لیا جو اُس ڈرامے میں گلاب چانڈیو کر رہا تھا) کو لے کر اُردو فلم کیوں نہیں بناتے ؟ یہ گلاب چانڈیو کی مقبولیت کا منہ بولتا ثبوت تھا۔میں نے کراچی واپس آ کر یہ بات یار محمد اور گلاب کو سنائی۔یار محمد مسکرائے اور گلاب نے نہایت عاجزی سے اللہ کا شکر ادا کیا۔ اسی طرح کا ایک اور واقعہ بتاتاچلوں میں حسن سکوائر میں رہتا تھامحلے کے بچوں نے سالانہ ورائٹی پروگرام میں کسی فنکار کو بلوانے کی فرمائش کی۔ اُس زمانے میں گلاب چانڈیو کا کوئی سیریل چل رہا تھا۔میں نے اُس سے کہا فلاں تاریخ کو اتنے بجے کچھ دیر کیلئے آ جانا بچے خوش ہو جائیں گے۔اُس نے اپنے مخصوص انداز سے جواب دیا : ''حا ضر سائیں‘‘ وہ نہ صرف مقررہ تاریخ پر صحیح وقت پر آیا بلکہ اُس ڈرامے کی کاسٹ کے 2 اور فنکار بھی لایا۔ پورا محلہ اسے دیکھ کر بہت خوش ہوا ۔اداکاری میں اپنے منفی کردار کے برعکس عام زندگی میں گلاب نہایت منکسرالمزاج واقع ہوا تھا۔میری گلاب سے آخری ملاقات 2007 ء میں ہوئی۔شام کا وقت تھا فُٹ پاتھ پر کرسی میز لگے ہوئے تھے۔لوگ برگر اور تکے کھا رہے تھے۔وہیں گلاب چند دوستوںکے ساتھ بیٹھا نظر آیا۔میں آگے بڑھ کر اُس سے ملا۔وہ بالکل اُسی طرح ملا جیسے 1980 ء میں ملتا تھا۔غرور نا م کی کوئی شے اُس میں نہیں تھی۔گلاب کے ٹی وی ڈراموں میں '' سچائیاں ، بے وفائیاں ، ماروی ، نوری، جام تماچی زہر باد ، غلام گردش ، ساگر کا موتی ، جنگل ، زینت ، ٹیپو سلطان ، سانس لے اے زندگی‘‘ اور'' چاند گرہن ‘‘ جس میں انہوں نے سندھی وڈیرے کا جان دار کردار ا دا کر کے بے پناہ شہرت حاصل کی ۔ گلاب نے شفیع محمد، صلاح الدین تینو اور نور محمد لاشاری جیسے اداکاروں کے ساتھ لاجواب اداکاری کی جو کہ آسان کام نہیں تھا ۔ جب انہوں نے نہایت کامیابی سے سندھ کے کلاسیکی کرداروں کو ادا کیا تو ہر خاص و عام نے جی کھول کر تعریف کی۔بد قسمتی سے شروع ہی سے ان پر منفی کردار ادا کرنے کی مہر لگا دی گئی حالانکہ وہ ہر قسم کے کردار احسن طریقے سے ادا کرنے کی خدا داد صلاحیت رکھتا تھا۔
گلاب چانڈیو کو اُن کی فنکارانہ خدمات پر2015 ء صدارتی تمغہ حسنِ کارکردگی دیا گیا ۔ 1980ء سے 1995ء تک انہوں نے عروج کا زمانہ دیکھا ۔ایک محتاط اندازے کے مطابق انہوں نے 300 سے زائد اُردو اور سندھی ڈراموں میں فن کے جوہر دکھائے اُن کی 18 فلمیں بھی ریلیز ہوئیں ۔سندھی زبان میںانکی فلمیں '' سوہنا سائیں ، دشمن ، نادِر گوہر ، علی گوہر ، محب شیدی خاصی مقبول ہوئیں ''دائود یندو ( دیکھا جائے گا )‘‘ گلاب کی بحیثیت ہیرو آخری فلم ثابت ہوئی۔
اُردو فلموں میں '' راز ،سرگم ، صاحب بی بی اور طوائف ‘‘اور ''میری توبہ ‘‘ قابل ذکر ہیں ۔ فلم ''شاہ ‘‘ 2015ء میں بنی عالمی شہرت کے حامل پاکستانی باکسر حسین شاہ کی زندگی پر بننے والی اس فلم میں گلاب چانڈیو کا کردار بہت جاندار تھا۔یہ اُن کی زندگی کی آخری فلم ثابت ہوئی۔
پنجابی فلمیں: فلم ''طوفان ‘‘ (1983ء)، ''نام کی سہاگن ‘‘ (1995ء)، ڈبل ورژن فلم '' الزام ‘‘ ( 1993ء ) ۔
گلاب آخر دم تک فن سے منسلک رہے شوگر ، بلڈ پریشر اور عارضہ قلب میں مبتلا تھے۔دوائوں سے علاج بھی جاری تھا لیکن وہ جو کہاوت ہے کہ '' جو آئے وہ جائے، رہے نام اللہ کا...‘ ‘ گلاب کی مغفرت اور جنت میں اعلیٰ مقام کو کئی ایسے بھی ہاتھ اُٹھے ہوں گے جن کا فن سے دور کا بھی تعلق نہیں۔وہ کئی لوگوں کی بے لوث مدد کیا کرتا تھا۔اللہ گلاب چانڈیوپر اپنا کرم کرے۔