وہ یوں ملا کے بظاہر خفا خفا سا لگا
وہ دوسروں سے مگر مجھ کو کچھ جدا سا لگا
مزاج اُس نے نہ پوچھا مگر سلام لیا
یہ بے رخی کا سلیقہ بھی کچھ بھلا سا لگا
وہ جس کی کم سُخنی کو غرور سمجھا گیا
میری نگاہ کو وہ پیکرِ حیا سا لگا
میں اپنے کرب کی روداد اُس سے کیا کہتا
خود اُس کا دل بھی مجھے کچھ دُکھا دُکھا سا لگا
غبارِ وقت نے کچھ یوں بدل دیئے چہرے
خود اپنا شہر بھی مجھ کو نیا نیا سا لگا
گُھٹی گُھٹی سی لگی رات انجمن کی فِضا
چراغ جو بھی جلا کچھ بجھا بجھا سا لگا
جو ہم پہ گزری ہے شائد سبھی پہ گزری ہے
فسانہ جو بھی سُنا کچھ سُنا سُنا سا لگا
میں گھر سے چل کے اکیلا یہاں تک آیا ہوں
جو ہمسفر بھی ملا ، کچھ تھکا تھکا سا لگا
کچھ اس خلوص سے اُس نے مجھے کہا اقبال
خود اپنا نام بھی مجھ کو بہت بڑا سا لگا
۔( اقبال عظیم )۔