کنفیوشس 3 سال تک کیوں روتا رہا؟ ۔۔۔۔ صہیب مرغوب
Confu 3 saal kayun rota raha.jpg
کنفیوشس (551 تا 479قبل مسیح)اپنے وقت کا عظیم ترین مفکر تھا۔سماجی تعلق، میل ملاپ، محبت، رحم دلی، روزمرہ کی زندگی میں انصاف اور بہتر طرز زندگی کنفیوشس فلاسفی کے اہم عناصر ہیں۔وہ طبقات ، رنگ نسل اور بدعنوانی کا بھی دشمنی کی حد تک مخالف تھا۔ ''فائیو کلاسکس‘‘ کے زیر عنوان اس کی کتب رہنمائی کا ذریعہ ہے۔وہ مردوں اور عورتوں کے میل جول کا قائل نہ تھا بلکہ کہتا تھا کہ ''مردوں کے سڑک کے ایک جانب اور خواتین کے دوسری جانب چلنے سے ہی معاشرہ خرابی سے بچا رہے گا‘‘۔
تین سال کا سوگ:وہ غریب تھا، تین سال کی عمر میں جب بچے کھیلنے کودنے اورکھانے پینے کی تمیز نہیں رکھتے تھے تو اس کا والد جہان فانی سے رخصت ہو گیا، وہ اپنے باپ کی موت پر تین سال آنسو بہاتا رہا۔ ابھی لڑکپن ختم نہیں ہوا تھا کہ ماں روتا ہوا چھوڑ کر چل بسی، وہ تین سال ماں کی ناگہانی موت کا سوگ مناتا رہا۔ ایک وقت کاکھانا پینا چھوڑ دیا،ناشتہ کرلیتا تو دوپہر کا کھانا نہ کھاتا ، دوپہر کو کھا لیتا تو شام کو بھوکا رہتا۔ کپڑے بھی میلے کچیلے پہنتا ، کئی کئی دن پہنے رکھنے سے بدن پر چپک جاتے۔ بالوں میں کبھی کنگھی کر لیتا تو بھی بال میلے اور مٹی مٹی ہو جاتے۔یہی ماں کا غم تھا۔ ان دنوں چین میں اپنے پیاروں کا سوگ تین برس تک منانے کی روایت تھی اگر کوئی اس سے پہلے سوگ کو چھوڑ دیتا تو سمجھا جاتا تھا کہ اسے مرنے والے سے محبت نہ تھی ۔یہ روایت 20ویں صدی کے آغاز تک جاری رہی۔
معاشرے کی اکائی :کنفیوشس فلسفہ خودی پر یقین کامل رکھتا تھا،فرد معاشرے کی اکائی ہے، افراد مل کر پہلے خاندان اور پھر معاشرہ بناتے ہیں۔ معاشرہ قوم میں ڈھلتا ہے اور قومیں دنیا میں اسی لئے وہ ''اکائی‘‘ کی شخصی تعمیر کو فوقیت دیتا تھا۔خراب ''اکائیوں‘‘ سے اچھا معاشرہ بن سکتا ہے نہ اچھی قوم کی تشکیل ممکن ہو گی ۔ اچھے افراد کی کمی سے اچھی دنیا بھی قائم نہیں ہو سکے گی۔
نیکی پلٹ کر آتی ہے:کنفیوشس کے نزدیک اچھائی لوٹ کر آتی ہے، اپنے خاندان کے ساتھ بہتر برتائو کرنے والے افراد اچھے معاشرے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں،اس کے برعکس برتائو کرنے والے افراد کا طرز عمل خاندان، معاشرے ، قوم اور دنیا کی بربادی کا ذمہ دار ہے۔ لہٰذااولین طور پر خاندان میں پیار بانٹنے اور رحم کرنے کا درس دیتا رہا۔اس نے اوائل عمری میں ایک ایسی جاب چھوڑ دی کیونکہ اس میں عورتوں کا ا ستحصال ہو رہاتھا۔یوں اپنا سنہری اصول اس نے خود پر بھی نافذ کیا۔
اخلاقی تربیت سے عاری سزا بے فائدہ ہے : بعض قیدی جیل آتے جاتے وقت وکٹری کا نشان بناتے ہیں ۔ کنفیوشس اس طرز عمل کا شدید مخالف تھا۔وہ کہتا تھا کہ مجرم کو سزا اس طرح دی جائے کہ اس کا ضمیر ملامت کرے۔ایسی سز ابے فائدہ ہے جسے پانے کے بعد مجرم کا ضمیر ملامت نہیں کرتا ۔
وہ کہتا تھاکہ زندگی مواقعوں سے بھرپور ہے ،یہ نت نئے دریچے کھولتی رہتی ہے بشرطیکہ فرد خودبطخ بن کر نہ رہے ۔
وزیر جرائم:''ہان سلطنت ‘‘کی چن بادشاہ پر فتوحات سے چن بادشاہت انجام پذیر ہوئی۔ تونگ (Tong) اور سونگ (Song) ادوار میں اسے سینکڑوں سکول قائم کرنے کا موقع مل گیا۔اسی دور میں فلسفیانہ تعلیم کے اپنے سکول آف میرٹ کو داخلے کی بنیاد بنا لیا، حکمران طبقے نے مزاحمت کی اور غریب بچوں کو نکالنے کا ''حکم ‘‘ دیا۔کنفیوشس کو حکمرانوں کے خلاف ڈٹ جاناپڑا۔ جلد ہی ہزاروں بچے زیور تعلیم حاصل کرنے لگے۔ 50برس کی عمر میں یہ نظام تعلیم ، سرکاری تعلیمی ڈھانچے اور نظام حکومت کیلئے خطرہ بن گیا۔اسی دور میں اسے پہلے ایک چھوٹے سے حصے کا گورنر اور پھر ''وزیر جرائم‘‘ (Minister of Crime) بنادیا گیا۔
وزارت کے بعد جلا وطنی :آپ حیران ہوں گے کہ پھر کیاہوا،کنفیوشس نے مجرموں کے ساتھ روا رکھے جانے والے برتائو کو بدلنے کا حکم دیا، سزائوں کا پیمانہ بھی بدل دیاگیا۔ وہ کہتا تھا کہ '' اخلاقیات سزا و جزا کا جزوہونا چاہئے، اخلاقی تربیت سے محروم سزا فضول ہے‘‘۔ فلسفہ کارگر ثابت ہوا اور جرائم تیزی سے کم ہونے لگے۔وہ ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑا لیڈر بنتا جا رہا تھا۔ جیلیں بھی خالی ہونے لگیں ، ملک میں اخلاقیات کی صدائیں گونجنے لگیں .....لیکن یہ سب کچھ کون چاہتا ہے ۔چنانچہ اسے سیدھا جیل بھیج دیا گیا چند سال کی قید و بند کے بعد پندرہ برس کی جلا وطنی کی سزا ملی۔
عمر کا اہم ترین حصہ جلا وطنی نے چھین لیا،اب پہلے جیسے توانائی سے بھی محروم ہو چکا تھا۔ سکول بھی خال خال چل رہے تھے ، واپسی پر اس نے اپنے آبائی شہر میں ہی ڈیرے ڈال لئے، یہیں 72چیلوں سے بھی ملاقاتیں جاری رہیں جنہوں نے تخلیقی کاموں کو مربوط شکل دینے میں تعاون کیا۔
''مینڈیٹ آف ہیون‘‘: چینیوں کا خیال تھا کہ ''بادشاہ قدرت کی جانب سے آتا ہے ، کسی برائی میں ملوث ہونے پر قدرت اسے ہٹا دیتی ہے ، تختہ الٹنے کا مطلب یہ لیا جاتاتھا کہ بادشاہ برائیوں میں گھر چکا تھا اس لئے قدرت نے مار ڈالا یا جیل میں ڈلوا دیا‘‘۔یہ حکمرانی کا قدرتی نظام سمجھا جاتا تھا۔ یعنی برائی کا ارتکاب کرنے والے کا حق حکمرانی ختم ہو جاتا ہے۔ رعایا چینی بادشاہ کو ''سن آف اے ہیون ‘‘بھی کہتے تھے ۔ کنفیوشس اس کا مخالف تھا۔ وہ کہتاتھا کہ ''زمینی نظام انسان نے خود چلانا ہے، اسے عقل و ہمت ودیعت کر دی گئی ہے اب اپنی اچھائیوں او ربرائیوں کا وہ خود ذمہ دار ہے‘‘۔
کنفیوشس کی 83ویں نسل :چینی باشندے اپنے کنفیوشس سے بے حد پیار کرتے ہیں ، چینیوں کی اسی خواہش کو مد نظر رکھتے ہوئے ''کنفیوشس جینیالوجی کمپائی لیشن کمیٹی ‘‘ بنائی گئی ہے۔ کمیٹی کے مطابق 83 لاکھ افراد کنفیوشس کی 83ویں نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ کتنی بڑی فیملی ٹری چھوڑ کر گئے ہیں کنفیوشس صاحب۔بات یہیں ختم نہیں ہوتی، ڈی این اے اور ''وائے کروموسوم‘‘ کا بھی جائزہ لیا جا رہا ہے، کوئی تو بہانہ ''بہر نسل‘‘ چاہئے !