مغربی میڈیا کی غیرجانبداری کا ڈھونگ ۔۔۔۔۔ طارق حبیب
'مغربی میڈیا اسرائیل کے کنٹرول میں ہونے کے باوجود اسرائیل جنگ ہار گیا‘‘۔ پاکستان کے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کا یہ ایسا بیان تھا جس نے نہ صرف امریکی چینل کی اینکر کو آگ بگولہ کردیا بلکہ اسرائیلی میڈیا سمیت دنیا بھر کے نشریاتی اداروں نے پاکستانی وزیرخارجہ پر ہلہ بول دیا۔ سی این این کی اینکر بیانا گولو ڈریگا شاہ محمود قریشی کے اس سچ کا بوجھ نہ سہار سکی اور فوری طور پر یہ کہہ کر اپنا غیر جانبداری کا نقاب اتار دیا کہ ''آپ کے یہودی مخالف بیان نے مجھے بھی دکھ دیا ہے‘‘۔ پھر تو ایسا محسوس ہوا کہ بین الاقوامی میڈیا کی غیر جانبداری کے دعووں کے منہ پر شاہ محمود قریشی کے الفاظ کی صورت میں ایسا طمانچہ پڑا ہے جس کی جلن ہر جگہ محسوس کی گئی۔ اس کے بعد قریشی صاحب کو یہود مخالف بیان دینے کا الزام لگاتے ہوئے ہدف تنقید بنانا شروع کر دیا گیا۔ برقی، اشاعتی اور سماجی میڈیا سمیت ہر فورم پر پاکستان اور پاکستان کے وزیر خارجہ ٹرولنگ کا نشانہ بنے۔
دنیا کے لیے امن کی تعریف جو بھی ہو‘ فلسطینیوں کے لیے یہ صرف دو اسرائیلی حملوں کے درمیانی وقفے کا نام ہے۔ اسرائیلی حملوں میں بچوں، خواتین اور نوجوانوں کی سینکڑوں لاشیں اٹھانے اور انفرا سٹرکچر کی تباہی کے بعد فلسطینیوں کی جانب سے پھینکے جانے والے پتھر اور راستے میں پھٹ جانے والے راکٹ بین الاقوامی میڈیا کے نزدیک نہ صرف فلسطینی جارحیت ہیں بلکہ جواب میں اسرائیل کو اپنے ''دفاع‘‘ میں عمارتیں تباہ کرنے، بے گناہ عوام کی لاشیں گرانے، میڈیا دفاتر اور ہسپتالوں پر حملے کرنے کی کھلی چھوٹ ہے۔ ایسی صورتحال میں امریکی میڈیا کی اینکر شاہ صاحب پر تنقید کرتے ہوئے یہ بھول گئی کہ فلسطینی زمینوں پر قابض اسرائیل کا سب سے بڑا حامی امریکا ہی ہے جو امن کی کسی بھی کوشش کو ''ویٹو‘‘ کر دیتا ہے۔ خاتون اینکر شاید اپنے ہی ادارے کی یہ رپورٹ بھی نہ پڑھ سکی کہ اس وقت امریکی امداد لینے والوں میں اسرائیل پہلے نمبر پر ہے اور 1948ء سے اب تک غاصب اسرائیل سکیورٹی کے نام پر 146 بلین ڈالر کی امداد کے ساتھ ساتھ جدید ترین دفاعی میزائل سسٹم بھی امریکا سے حاصل کر چکا ہے جبکہ معاشی امداد اس کے علاوہ ہے۔ شاہ محمود قریشی کو ڈھکے چھپے الفاظ میں متعصب ہونے کا طعنہ دینے والی اینکر شاید یہ تک نہیں جانتی تھی کہ 2016ء میں امریکا اور اسرائیل کے درمیان آئندہ دس سال تک فوجی امداد کا معاہدہ طے پایا تھا جس کے مطابق کُل 38 بلین ڈالر کی امداد میں سے 33 بلین ڈالر فوجی امداد اور 5 بلین ڈالر میزائل سسٹم کی مد میں فراہم کیے جانے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اسرائیل نے امریکی امداد کے ذریعے 50 جدید ترین f-35 طیاروں کی خریداری بھی کر رکھی ہے۔
امریکا کے ایک معروف میڈیا ادارے کی اینکر نے میڈیا کے جانبدار ہونے پر اپنی تکلیف کا اظہار تو کر دیا مگر یہ نہیں بتایا کہ 2018ء میں امریکی نیوز ایجنسی اے پی کے غزہ ہیڈ کوارٹر کی اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں تباہی کی خبر میں اسرائیل کا نام نہیں لیا گیا تھا۔ اسی سال اسرائیلی فوجیوں کی گولیوں کا نشانہ بننے والے اے پی کے کیمرہ مین رشید راشد کے حوالے سے نشر کی گئی خبر میں اسرائیل کا نام تک لینے کی ہمت نہیں ہو سکی تھی۔ خاتون اینکر شاید یہ بھی بھول گئی تھی کہ اسرائیل پر جب اے پی کی ہی سینئر صحافی ایملے وائلڈر نے تنقیدی ٹویٹ کیا تو امریکی نیوز ایجنسی نے اسے فوری طور پر ملازمت سے برطرف کر دیا تھا۔ شاہ صاحب سے انٹرویو کرنے والی اینکر اگر اپنے ادارے ہی کی تاریخ پڑھ لیتی تو اسے علم ہو جاتا کہ اسی کی طرح کے ایک پروگرام اینکر مارک لیکمنٹر کو اسرائیل کے حوالے سے سخت الفاظ استعمال کرنے اور ایک فری لانسر صحافی عدیل راجا کو بھی اسرائیل کے بارے میں حقائق بتانے کے ''جرم‘‘ میں ان کا ادارہ فارغ کر چکا ہے۔ اسرائیلی مخالفت پر صحافیوں کو فارغ کرنے کا طرزِ عمل صرف امریکی میڈیا کا ہی نہیں بلکہ عالمی میڈیا میں اب یہ ایک عام بات ہوچکی ہے۔ اسرائیلی جارحیت کے حوالے سے حقائق پر مبنی خبریں اور رپورٹس دینے اور سوشل میڈیا پر ذاتی رائے دیتے ہوئے اسرائیلی مظالم پر تنقید کرنے کی پاداش میں بین الاقوامی اداروں کے کئی صحافیوں کو اپنی ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑے ہیں۔ کینیڈین صحافیوں کے جس گروہ نے اپنے ادارے کو لکھا تھا کہ اسرائیل فلسطین تنازع میں اسرائیل کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں کا موقف بھی عوام تک پہنچایا جائے‘ ان میں سے اب تک تین صحافیوں کو فارغ کیا جا چکا ہے۔ سی این این کی اینکر شاہ صاحب کو تو یہودی مخالف قرار دے رہی تھی مگر یہ سوچنے سے قاصر تھی کہ مغربی میڈیا ایسے صحافیوں کو فارغ کر دیتا ہے جو فلسطینیوں کی حمایت میں محض چند جملے سوشل میڈیا پر شیئر کر دیں۔ ایک معروف امریکی جریدے کے یروشلم کے نمائندے کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہوتی جو اپنے بھائی کی اسرائیلی فوج میں شمولیت اور فلسطینیوں پر حملوں میں شرکت کے حوالے سے فخریہ ٹویٹ کرتا ہے؟ اسی جریدے کے یروشلم کے نمائندے اسابیل کریش اور بیورو چیف ایتھن برونر اپنے بچوں کی اسرائیلی فوج میں شمولیت کا اعلان تفاخر سے کرتے ہیں مگر ان کے خلاف فلسطین مخالف ہونے کی پاداش میں کوئی فیصلہ نہیں سنایا جاتا۔
شاہ صاحب کی جانب سے بین الاقوامی میڈیا پر اسرائیلی چھاپ کا ''اوپن سیکرٹ‘‘ بتانے پر سیخ پا ہونے والا بین الاقوامی میڈیا دراصل اپنی خفت مٹانا چاہ رہا ہے۔ اس بار ہوا یہ کہ اسرائیل کو ہر محاذ پر منہ کی کھانا پڑی۔ فلسطینیوں نے بہترین منصوبہ بندی کے ذریعے ہر مورچے پر اسرائیل کو پیچھے دھکیلا۔ دنیا بھر میں اسرائیل کی مخالفت میں ہونے والے مظاہرے ثابت کرتے ہیں کہ بین الاقوامی میڈیا کے ذریعے فلسطینیوں کو دہشت گرد ثابت کرنے کے لیے سرمایہ کاری ناکام ہو چکی ہے۔ امریکا سمیت مختلف ممالک سے اربوں ڈالر کا خریدا گیا جدید ترین اسلحہ بھی فلسطینیوں کو دبا نہیں سکا اور بالآخر اسرائیل کو جنگ بندی کے لیے عالمی قوتوں کو درخواست کرنا پڑی۔ حماس کے راکٹوں کے خوف سے خطاب چھوڑ کر بھاگتے اسرائیلی وزیراعظم اور وزیردفاع کو دیکھ کر اسرائیلی عوام سوشل میڈیا پر چیخ اٹھے کہ جو رہنما خود اتنے خوفزدہ ہیں وہ ہمیں کیسے بچائیں گے۔ اسرائیل کو سب سے زیادہ تکلیف سوشل میڈیا پر ہونے والی ٹرولنگ سے ہوئی۔ 2013ء میں صہیونی دماغوں نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے ذریعے دنیا بھر میں یہودی طلبہ کو وظائف دے کر سوشل میڈیا پاکٹس تیار کی تھیں۔ ان طلبہ کے ذریعے مقامی لوگوں بالخصوص طلبہ میں فلسطین مخالف بیانیے کی ترویج کا کام لیا جا رہا تھا۔ اس منصوبے پر کروڑوں ڈالر خرچ کیے گئے۔ اسرائیل کو یہ گھمنڈ تھا کہ اس کی کسی بھی جارحیت کی صورت میں بین الاقوامی میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا بھی اس کے اشاروں پر ناچے گا مگر ایسا نہ ہو سکا اور یہ اسرائیلی منصوبہ حالیہ جنگ میں تنکوں کی طرح بکھر گیا۔ سوشل میڈیا پر بھی دنیا بھر میں فلسطینیوں کی حمایت نے الگ ہی سماں باندھ رکھا تھا۔
غرض یہ کہ ہر محاذ پر شکست کے بعد اسرائیل کو اس بار جس تذلیل کا سامنا کرنا پڑا ہے وہ کسی صورت نہیں بھولے گا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اسرائیل فلسطین کے درمیان یہ جنگ بندی حتمی نہیں‘ یقینی طور پر اسرائیل دوبارہ اپنا بغض لے کر سامنے آئے گا مگر اس بار جو ہوا ہے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ فلسطینیوں کی موجودہ نسل، کشمیریوں کے برہان وانی کی طرح میڈیا، سوشل میڈیا سمیت ہر محاذ پر لڑنا سیکھ چکی ہے۔ اس لیے اب اسرائیل کے لیے مطلوبہ نتائج حاصل کرنا محض خواب بن کر رہ جائے گا۔