ادبی چٹکلے
adbi chutkalay.jpg
جوش ملیØ+ آبادی: جوش ملیØ+ آبادی Ù†Û’ پاکستان میں ایک بÛت بڑے وزیر Ú©Ùˆ اردو میں خط لکھا۔ لیکن اس کا جواب انÛÙˆÚº Ù†Û’ انگریزی میں دیا۔ جواب میں جوش Ù†Û’ انÛیں لکھا:جناب٠والا،میں Ù†Û’ تو آپ Ú©Ùˆ اپنی مادری زبان میں خط لکھا تھا۔لیکن آپ Ù†Û’ اس کا جواب اپنی پدری زبان میں تØ+ریر Ùرمایا Ûے۔کسی مشاعرے میں ایک نو مشق شاعر اپنا غیر موزوں کلام Ù¾Ú‘Ú¾ رÛÛ’ تھے۔اکثر شعراء آداب٠مØ+ÙÙ„ Ú©Ùˆ ملØ+وظ رکھتے Ûوئے خاموش تھے لیکن جوش صاØ+ب پورے جوش Ùˆ خروش سے ایک ایک مصرعے پر دادو تØ+سین Ú©ÛŒ بارش کیے جا رÛÛ’ تھے۔گوپی ناتھ امن Ù†Û’ ٹوکتے Ûوئے پوچھا: قبلÛØŒ ÛŒÛ Ø§Ù“Ù¾ کیا کر رÛÛ’ Ûیں؟ جوش صاØ+ب Ù†Û’ بÛت سنجیدگی سے جواب دیا: مناÙقت۔اور پھر داد دینے میں مصرو٠ÛÙˆ گئے۔عبدالØ+مید عدم Ú©Ùˆ کسی صاØ+ب Ù†Û’ ایک بار جوش سے ملایا اور Ú©Ûا:ÛŒÛ Ø¹Ø¯Ù… Ûیں۔عدم کاÙÛŒ جسامت والے آدمی تھے۔جوش Ù†Û’ ان Ú©Û’ ڈیل ڈول Ú©Ùˆ بغور دیکھا اور Ú©ÛÙ†Û’ Ù„Ú¯Û’: عدم ÛŒÛ ÛÛ’ تو وجود کیا ÛÙˆ گا؟ ایک مولانا Ú©Û’ جوش صاØ+ب Ú©Û’ ساتھ بÛت اچھے تعلقات تھے۔کئی روز Ú©ÛŒ غیر Ø+اضری Ú©Û’ بعد ملنے آئے تو جوش صاØ+ب Ù†Û’ ÙˆØ¬Û Ù¾ÙˆÚ†Ú¾ÛŒÛ” Ú©ÛÙ†Û’ Ù„Ú¯Û’:کیا بتاؤں جوش صاØ+ب،پÛÙ„Û’ ایک گردے میں پتھری تھی اس کا آپریشن Ûوا۔اب دوسرے گردے میں پتھری ÛÛ’Û” میں سمجھ گیا۔جوش صاØ+ب Ù†Û’ مسکراتے Ûوئے Ú©ÛØ§Û”Ø§Ù„Ù„Û ØªØ¹Ø§Ù„ÛŒÙ° آپ Ú©Ùˆ اندر سے سنگسار کر رÛا Ûے۔شوکت تھانوی:پنجاب یونیورسٹی Ú©Û’ رجسٹرار ایس Ù¾ÛŒ سنگھا Ú©Û’ Ú¯ÛŒØ§Ø±Û Ø¨Ú†ÙˆÚº Ú©Û’ نام کا آخری Ø+صÛ‘‘ سنگھا’’ تھا۔ جب ان Ú©Û’ Ûاں بارÛواں لڑکا پیدا Ûوا تو شوکت تھانوی سے Ù…Ø´ÙˆØ±Û Ú©ÛŒØ§ Ú©Û Ø§Ø³ کا کیا نام رکھوں۔ اس پر شوکت صاØ+ب Ù†Û’ بے Ø³Ø§Ø®ØªÛ Ú©Ûا:آپ اس کا نام Ø¨Ø§Ø±Û Ø³Ù†Ú¯Ú¾Ø§ رکھ دیجیے۔ Û”Û” ایک ناشر Ù†Û’ کتابوں Ú©Û’ نئے گاÛÚ© سے شوکت تھانوی کا تعار٠کراتے Ûوئے Ú©Ûا: آپ جس شخص کا ناول خرید رÛÛ’ Ûیں ÙˆÛ ÛŒÛÛŒ ذات شری٠Ûیں۔ لیکن ÛŒÛ Ú†Ûرے سے جتنے بے وقو٠معلوم Ûوتے Ûیں اتنے Ûیں Ù†Ûیں۔ شوکت تھانوی Ù†Û’ Ùوراً Ú©Ûا: جناب مجھ میں اور میرے ناشر میں ÛŒÛÛŒ بڑا Ùرق ÛÛ’Û” ÛŒÛ Ø¬ØªÙ†Û’ بے وقو٠Ûیں،چÛرے سے معلوم Ù†Ûیں Ûوتے۔پطرس بخاری: کرنل مجید Ù†Û’ ایک دÙØ¹Û Ù¾Ø·Ø±Ø³ بخاری سے Ú©Ûا: اگر آپ اپنے مضامین کا Ù…Ø¬Ù…ÙˆØ¹Û Ú†Ú¾Ù¾ÙˆØ§Ø¦ÛŒÚº تو اس کا نام صØ+ÛŒØ+ بخاری رکھیں۔ پطرس Ù†Û’ جواب دیا: اور اگر آپ اپنی نظموں کا Ù…Ø¬Ù…ÙˆØ¹Û Ú†Ú¾Ù¾ÙˆØ§Ø¦ÛŒÚº تو اس کا نام کلام مجید رکھیں۔اسرارالØ+Ù ‚ مجاز: رات کا وقت تھا۔ مجاز کسی میخانے سے Ù†Ú©Ù„ کر یونیورسٹی روڈ پر ترنگ میں جھومتے Ûوئے Ú†Ù„Û’ جا رÛÛ’ تھے۔ اسی اثنا میں اْدھر سے ایک ØªØ§Ù†Ú¯Û Ú¯Ø²Ø±Ø§Û” مجاز Ù†Û’ اسے آواز Ø¯ÛŒØŒØªØ§Ù†Ú¯Û Ø±Ú© گیا۔ مجاز اس Ú©Û’ قریب آئے اور Ù„Ûرا کر بولے: اماں ØŒ صدر جاؤ Ú¯Û’ØŸ تانگے والے Ù†Û’ جواب دیا:’’Ûاں ØŒ جاؤں گا‘‘۔ ’’اچھا تو جاؤ-----!‘‘ ÛŒÛ Ú©ÛÛ Ú©Ø± مجاز لڑھکتے Ûوئے آگے بڑھ گئے۔ مجاز اور Ùراق Ú©Û’ درمیان کاÙÛŒ سنجیدگی سے Ú¯Ùتگو ÛÙˆ رÛÛŒ تھی۔ ایک دم Ùراق کا Ù„ÛØ¬Û Ø¨Ø¯Ù„Ø§ اور انÛÙˆÚº Ù†Û’ Ûنستے Ûوئے پوچھا: ’’مجاز! تم Ù†Û’ کباب بیچنے کیوں بند کر دیے؟‘‘۔’’ا٠پ Ú©Û’ Ûاں سے گوشت آنا جو بند ÛÙˆ گیا۔‘‘ مجاز Ù†Û’ اسی سنجیدگی سے Ùوراً جواب دیا۔مجاز تنÛا کاÙÛŒ Ûاؤس میں بیٹھے تھے Ú©Û Ø§ÛŒÚ© صاØ+ب جو ان Ú©Ùˆ جانتے Ù†Ûیں تھے ،ان Ú©Û’ ساتھ والی کرسی پر آ بیٹھے۔ کاÙÛŒ کا آرڈر دے کر انÛÙˆÚº Ù†Û’ اپنی Ú©Ù† سْری آواز میں گنگنانا شروع کیا:اØ+مقوں Ú©ÛŒ Ú©Ù…ÛŒ Ù†Ûیں غالب-ایک ڈھونڈو، Ûزار ملتے Ûیں مجاز Ù†Û’ ان Ú©ÛŒ طر٠دیکھتے Ûوئے Ú©Ûا: ’’ڈھونڈنے Ú©ÛŒ نوبت ÛÛŒ Ú©Ûاں آتی ÛÛ’ Ø+ضرت! خود بخود تشری٠لے آتے Ûیں۔‘‘کسی مشاعرے میں مجاز اپنی غزل Ù¾Ú‘Ú¾ رÛÛ’ تھے۔ Ù…Ø+ÙÙ„ پورے رنگ پر تھی اور سامعین خاموشی Ú©Û’ ساتھ کلام سن رÛÛ’ تھے Ú©Û Ø§ØªÙ†Û’ میں کسی خاتون Ú©ÛŒ گود میں ان کا شیر خوار Ø¨Ú†Û Ø²ÙˆØ± زور سے رونے لگا۔مجاز Ù†Û’ اپنی غزل کا شعر ادھورا چھوڑتے Ûوئے Ø+یران ÛÙˆ کر پوچھا: بھئی! ÛŒÛ Ù†Ù‚Ø´ Ùریادی ÛÛ’ کس Ú©ÛŒ شوخی٠تØ+ریر کا؟کسی صاØ+ب Ù†Û’ ایک بار مجاز سے پوچھا: کیوں صاØ+ب ! آپ Ú©Û’ والدین آپ Ú©ÛŒ رÙÙ†Ø¯Ø§Ù†Û Ø¨Û’ اعتدالیوں پر Ú©Ú†Ú¾ اعتراض Ù†Ûیں کرتے؟ مجاز Ù†Û’ Ú©Ûا: جی Ù†Ûیں۔پوچھنے والے Ù†Û’ Ú©Ûا: کیوں؟ مجاز Ù†Û’ Ú©Ûا:’’ لوگوں Ú©ÛŒ اولاد سعادت مند Ûوتی ÛÛ’Û” مگر میرے والدین سعادت مند Ûیں۔‘‘