سیاسی جماعتوں کے اندر ۔۔۔۔ مجیب الرحمان شامی
پاکستانی سیاست کا اونٹ بار بار کروٹیں بدل رہا ہے۔ زیادہ وقت نہیں گزرا، اپوزیشن اتحاد ''پی ڈی ایم‘‘ فراٹے بھر رہا تھا۔ لانگ مارچ کی تیاریاں کی جا رہی تھیں، ارکانِ اسمبلی کے استعفے جمع کیے جا رہے تھے، انہیں ایٹم بم قرار دیا جا رہا تھا کہ جب چلائیں گے ایوانِ اقتدار بھسم ہو کر رہ جائے گا۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے کی بلائیں لے رہی تھیں، ماضی کی تلخیوں کو بچپن کی شرارتیں قرار دے کر بھلا دیا گیا تھا۔ مریم نواز شریف اور بلاول بھٹو زرداری کے درمیان ناشتے اور عصرانے کے دستر خوان سجائے جا رہے تھے، دونوں بہن بھائی بنے یقین دِلا رہے تھے کہ مستقبل میں اگر انہیں ایک دوسرے سے الگ رہ کر بھی الیکشن لڑنا پڑا، تو مخاصمت نام کی شے کہیں ڈھونڈے سے نہیں ملے گی۔ سپورٹس مین سپرٹ کے ساتھ مقابلہ ہو گا، اور کھلے دِل سے ایک دوسرے کی ہار جیت تسلیم کر لی جائے گی، گویا پاکستان میں وہ سیاست پھلے پھولے گی جو مستحکم جمہوری معاشروں میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ ہارنے والا جیتنے والے کو مبارک دیتا، اور جیتنے والا ہارنے والے کو آگے بڑھ کر گلے لگا لیتا ہے۔ گلگت بلتستان کی انتخابی مہم کے دوران مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہوئیں۔ بڑے بڑے جلسے کیے جا رہے تھے، اپنی اپنی کامیابی کے دعوے بھی کیے جا رہے تھے، لیکن مریم اور بلاول ایک دوسرے کے ساتھ چائے نوش کرتے ہوئے تصویریں بھی بنوا رہے تھے، اور دونوں کو ''اچھا بچہ‘‘ سمجھنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا تھا۔ سیاسی پنڈت خوش تھے کہ آنے والا کل وہ منظر لے کر نمودار ہو گا، جسے ماضی کے دھندلکوں میں تلاش کرنا مشکل ہے۔
پی ڈی ایم کی ساری جماعتوں نے سینیٹ کا انتخاب بھی ایک دوسرے کے ساتھ مل کر لڑا، اس اتحاد ہی کی برکت سے سید یوسف رضا گیلانی کو قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کے ڈھیروں ووٹ ملے اور وہ سینیٹ تک جا پہنچے۔ چیئرمین کے منصب کے لیے ان کی نامزدگی مشترکہ طور پر ہوئی، اور انتخاب سب نے انہیں اپنا سمجھ کر لڑا۔ خیبر پختونخوا اور پنجاب میں ضمنی انتخابات میں بھی پی ڈی ایم نے ایک ہو کر حصہ لیا، اور تحریک انصاف کو خوب پٹخنیاں دیں۔ اس کی کمزوری عیاں ہو گئی اور منظر پر پی ڈی ایم چھاتی دکھائی دی۔ پھر کرنا خدا کا یہ ہوا کہ گیلانی صاحب اپنے ہی حامیوں کی سادگی، یا مخالفوں کی پرکاری سے اکثریت کی حمایت کے باوجود چیئرمین منتخب نہ ہو سکے۔ صدرِ مملکت کے نامزد کردہ پریذائیڈنگ افسر نے ان کے چند ووٹ اس بنیاد پر مسترد کر دیے کہ نشان خانے کے اندر نہیں لگایا گیا تھا، حالانکہ بیلٹ پیپر پر کوئی خانہ موجود ہی نہیں تھا، بہرحال خانہ خرابوں نے خانہ خرابی کر دی، اور یوسف رضا گیلانی اکثریتی ووٹ لینے کے باوجود چیئرمین نہ بن سکے۔ یہ معاملہ عدالت میں پہنچا لیکن پیپلز پارٹی نے سینیٹ میں قائد حزبِ اختلاف کی پوزیشن پر ہاتھ صاف کرنے کا فیصلہ کیا۔ پی ڈی ایم سے بالا بالا ''باپ‘‘ والوں سے معاملہ کیا، وہ اپوزیشن کی سیٹوں پر آ بیٹھے اور یوسف رضا گیلانی سینیٹر اعظم نذیر تارڑ کے مقابلے میں باقاعدہ اپوزیشن لیڈر بن گئے۔ اس اقدام سے دراڑ ایسی پڑی اور بڑھی کہ پیپلز پارٹی اور اے این پی‘ پی ڈی ایم سے باہر ہو گئیں، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھنے میں مصروف ہو گئیں اور تحریک انصاف کی حکومت اپنے طور پر جھومنے لگی کہ اس کا ناطقہ بند کرنے والے اپنے اپنے ناطقے میں الجھ گئے ہیں۔
پی ڈی ایم الجھتی چلی گئی تو تحریک انصاف کے اندر باغی پیدا ہو گئے۔ جہانگیر ترین نے اپنا الگ گروپ بنا لیا۔ قومی اور پنجاب اسمبلی کے کئی ارکان ڈنکے کی چوٹ ان کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ جہانگیر ترین کے خلاف مبینہ انتقامی کارروائیوں پر احتجاج شروع ہوا، اور پنجاب حکومت کے خلاف شکووں اور شکایتوں تک پہنچ گیا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے اپنے بند دروازے کھولے اور ''باغی‘‘ ارکان اسمبلی کے مطالبات دھڑا دھڑ پورے ہونے لگے۔ وزیر اعظم عمران خان بھی باغیوں سے ملنے پر مجبور ہو گئے، اور جہانگیر ترین کو انصاف فراہم کرنے کی یقین دہانی کر گزرے، اُن کے معاملے کا جائزہ لینے کا کام سینیٹر علی ظفر ایڈووکیٹ کو سونپ دیا، ان کی رپورٹ ابھی تک باقاعدہ طور پر منظر عام پر نہیں آئی، لیکن حکمران جماعت کے اندر اضطراب اور بے چینی کی لہریں رک رک کر اٹھتی اور اٹھ اٹھ کر رک رہی ہیں۔ پنجاب اسمبلی کے چند ارکان کا ایک اور گروپ بھی منظر عام پر آ چکا ہے، اس کے مطالبات اپنے ہیں۔ تحریک انصاف کے درمیان دھڑے بندی اتنی بڑھی کہ راولپنڈی رنگ روڈ کا منصوبہ بھی اس کی زد میں آ گیا۔ زلفی بخاری الزامات پر اتنے برافروختہ ہوئے کہ کلین چٹ ملنے تک عہدہ چھوڑ دیا۔ اپنا استعفیٰ وزیر اعظم کو پیش کر دیا، جنہوں نے اسے مسترد کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی۔ لاہور سے تحریک انصاف کے منہ زور رکن پنجاب اسمبلی نذیر چوہان شہزاد اکبر پر اس طرح حملہ آور ہوئے کہ انہوں نے ان کے خلاف پرچہ درج کرا دیا۔ دونوں گتھم گتھا ہیں، تاحال وزیر اعظم عمران خان نے اس معاملے میں کوئی مداخلت نہیں فرمائی۔
پی ڈی ایم تو رہی ایک طرف، مسلم لیگ (ن) میں بیانیے کی جنگ زور پکڑ گئی ہے۔ شہباز شریف اداروں کے ساتھ مفاہمت پر زور دے رہے ہیں، اور آئین کی بالا دستی کو یقینی بنانے کے لیے بات چیت کی اہمیت کو کم کرنے پر تیار نہیں۔ دوسری طرف مریم نواز شریف کا غم و غصہ تھمنے میں نہیں آ رہا۔ وہ حاضر و موجود سے بیزار ہیں، اور فاتحانہ پیش قدمی کے لیے تیار نظر آتی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی صفوں میں کنفیوژن بڑھتا جا رہا ہے۔ شہباز شریف اور حمزہ تو آزاد ہیں، لیکن خواجہ آصف ابھی تک قفس میں پھڑپھڑا رہے ہیں۔ میاں جاوید لطیف بھی جیل میں عید منا چکے، مسلم لیگ (ن) میں طاقت کا سرچشمہ ابھی تک نواز شریف ہیں۔ سب لوگ انہی کی طرف دیکھ رہے ہیں، بیانیے کی بحث کو کتنا پھیلانا اور کتنا سمیٹنا ہے، یہ ان پر منحصر ہے۔ نظری اور نظریاتی بحثوں کی اہمیت سے انکار نہیں، لیکن زمینی حقائق کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ سیاسی جماعتیں حصولِ اقتدار کے لیے انتخابی اکھاڑے میں اترتی ہیں، نظری بحثوں کی تکرار کرنے نہیں۔ یہ درست ہے کہ کھانا نمک کے بغیر پھیکا ہوتا ہے، اس کا ذائقہ متاثر ہو جاتا ہے، لذت اور کرارا پن برقرار رکھنے کے لیے نمک کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں، اونچی دکان کا پکوان پھیکا نہیں ہونا چاہیے، لیکن صرف نمک ہی کے بل پر قورمہ تیار نہیں ہوتا۔ گھی، پیاز، اور سب سے بڑھ کر گوشت کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ پکانے والے ماہر کی خدمات بھی حاصل ہونی چاہئیں، ہنڈیا میں صرف نمک ڈال کر چمچہ چلاتے چلے جانے سے دستر خوان کی رونق میں اضافہ ممکن نہیں۔ مصالحے کا تناسب ہی لذت کی ضمانت بن سکتا ہے۔