منفی احساسات زندگی اجیرن بناسکتے ہیں ... قاسم علی شاہ
manfi soch.jpg
اپنے آپ کو عقل و شعور کے بجائے جذبات سے جانچنے والا شخص پریشانی کا شکار ہوسکتا ہے
’’خودیقینی ‘‘ کی دولت سے محرومی انسان کو کمزور بنادیتی ہے،ایسا فرد اعتماد کی قوت سے بھی محروم ہو جاتا ہے
زمین پر انسان کی پیدائش سے پہلے اس کی روح اترتی ہے ۔روح کے بعد جسم بنتا ہے اورجب ایک خوبصورت شکل و صورت کے ساتھ وہ دنیا میں آجاتا ہے تو پہلے دِن سے ہی اس کے ساتھ جذبات واحساسات بھی لگ جاتے ہیں اور اسی وجہ سے وہ اپنے والدین کے پیارو محبت کو محسوس کرتا ہے۔اس بچے کے سامنے اگر آپ مسکرائیں تو وہ بھی مسکراہٹ کے ساتھ اپنے جذبات کا اظہار کرتا ہے جبکہ آپ کا معمولی سا غصہ بھی اس کو رونے پر مجبور کرسکتا ہے۔
جذبات اور احساسات کی بدولت انسان اپنی اندرونی کیفیات کا اظہار کرتا ہے۔یہ غم ، خوشی ، تکلیف ،کرب و اضطراب اورسرور کے آئینہ دار ہوتے ہیں ۔ انسانی زندگی میں جذبات کی اہمیت اس لحاظ سے بہت زیادہ ہے کہ وہ اس کے سہارے اپنی ذاتی ، خاندانی اور پروفیشنل زندگی میں بہت سارے معاملات ڈیل کرتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جذبات کے کچھ منفی پہلو بھی ہیں۔اگر زندگی کے اہم اور سنجیدہ امورکافیصلہ عقل و فہم کے بجائے جذبات کے ترازو میں تول کر کیا جائے تووہ انسان کے لیے نقصان کا باعث بن سکتے ہیں۔
آج کی نشست میں ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ جذباتی طورپر کمزور انسان کون ہوتاہے اورہر معاملے میں عقل اور جانچ پرکھ کوچھوڑ کر صرف جذبات سے فیصلہ کرنے والا کن کن مسائل سے دوچار ہوسکتاہے ۔جذباتی طورپر کمزور انسان میں مندرجہ ذیل کمزوریاں پائی جاتی ہیں۔
۔(1) خود یقینی کا فقدان
اس دنیا میں موجودہر انسان اپنے بارے میں ایک رائے رکھتا ہے۔ اب جورائے اور تعریف اس کی اپنی نظروں میں ہے ،اگراس کی بنا پر وہ خود کو معتبر سمجھتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کو خود پر یقین ہے۔اس کے برعکس ، اگر اس کو اپنے آپ پر شک ہے تو مطلب یہ ہے کہ وہ خودیقینی کی دولت سے محروم ہے اور یہ چیزاس انسان کو جذباتی (ایموشنلی)طورپر کمزور بناتی ہے۔جذباتی کمزوری انسان کو اعتماد کی قوت سے بھی محروم کردیتی ہے اورپھر اس محرومی کی وجہ سے کوئی بھی نیا قدم لینے سے وہ گھبراتا ہے۔خود پر یقین بڑھانے کے لیے انسان کو چاہیے کہ وہ ان تمام قابلیتوں اور مہارتوں کی ایک فہرست بنائے جو اس کے اندر موجود ہیں ۔اس کے ساتھ وہ تمام الفاظ بھی لکھے جو لوگوں نے اس کی قابلیت کے بارے میں کہے ہیں۔اس فہرست کو بار بار دیکھیں ۔ اس عمل سے اس کو اپنے اوپر یقین پیدا ہوجائے گااوراپنے جذبات و احساسات پر کنٹرول رکھنا آسان ہوگا۔
۔(2)خودسے محبت نہ ہونا
جذباتی طورپرکمزورانسان اپنے آپ سے محبت نہیں کرتا۔وہ اپنے آپ کو نظر انداز کردیتا ہے اور اس لاپرواہی کی وجہ سے لوگ بھی اس کو ناپسند کرنے لگ جاتے ہیں۔ اپنے آپ سے محبت کرنا ضروری ہے اور یہ خود غرضی نہیں کہلاتی ۔خودغرضی وہ ہوتی ہے کہ اپنے آپ کی محبت میں کسی دوسرے کا نقصان کردیا جائے۔اپنے آپ سے محبت کرنے والا انسان خود کودوسروں کی نظروں میں معتبر بناتا ہے ۔وہ صفائی ستھرائی اور شائستگی کا خیال رکھتا ہے ۔وہ اپنے آپ کو بنا سنوار کر رکھتاہے، جس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے اندر اگر کچھ کمزوریاں ہوں بھی تواس کی نفاست کی بدولت وہ چھپ جاتی ہیں۔
’’نفاست‘‘ کامطلب سادہ الفاظ میں یہ ہے کہ اللہ نے انسان کو جو جسم جس طرح دیا ہے ، اسی کے مطابق اس کو خوبصورت بنانا ۔اس کے ساتھ ساتھ لباس بھی خوبصورت اور باوقار رکھنااور تیسری چیز اپنے اخلاق و عادات کو کمال درجے بہتر بنانا۔یہ تین خوبیاں جس انسان میں بھی ہوں وہ معاشرے کے لیے ایک مثالی انسان بن جاتا ہے۔
۔(3)جذبات بمقابلہ عقل
جب بھی انسان عقل کا مقابلہ جذبات سے کرتا ہے یعنی جس جگہ عقل استعمال کرنے کی ضرورت ہے ،وہاں وہ جذبات کااستعمال کرتا ہے تو اس کامطلب یہ ہے کہ وہ جذباتی طورپر کمزور انسان ہے۔ایسے شخص کے اکثر معاملات خراب ہوتے ہیں ۔وہ لین دین میں بھی جذبات کاسہارا لیتا ہے اور یہ چیز بعد میں اس کو دلی صدمہ پہنچاتی ہے۔یہ بات یاد رکھیں کہ زندگی کا ہر معاملہ صرف جذبات سے ہینڈل نہیں ہوتا۔دنیا نتائج پر یقین رکھتی ہے۔ اگرکسی کام کا کوئی نتیجہ نہیں ہے تو صرف جذبات آپ کوکوئی فائدہ نہیں دے سکتے۔
۔(4)جذبات کی بنیاد پر خود کو جانچنا
اپنے آپ کو عقل و شعور کے بجائے جذبات سے جانچنے والا شخص بھی پریشانی کا شکار ہوتا ہے۔وہ سوچتا ہے کہ مجھے اچھا محسوس نہیں ہورہا یا یہ چیزمجھے ناگوار گزری ہے اور اس کے بعد وہ پریشان ہوکر بیٹھ جاتا ہے۔ایسا شخص والدین ، بچوں اور دوست احباب کے ہوتے ہوئے بھی خود کو اکیلا محسوس کرتا ہے۔،کیونکہ اس کی ذات خود کو اکیلا محسوس کررہی ہوتی ہے۔اس کے برعکس جو انسان عقل کی بنیاد پر خود کو پرکھتا ہے تووہ مطمئن ہوتا ہے ۔اس کو بہت جلد یہ سمجھ آجاتی ہے کہ اللہ نے مجھ پر جو احسانات کیے ہیں وہ میری حیثیت سے بہت بڑھ کر ہیں ۔یہ کیفیت اس کو شکر گزار انسان بنادیتی ہے اور شکرگزاری، انسان کو نہ صرف خوش رکھتی ہے بلکہ اس کو جذباتی طورپر مضبوط بھی بناتی ہے۔
۔(5)ہر چیز کے پیچھے وجہ ڈھونڈنا
اگرکوئی انسان اپنی زندگی میںآنے والی ہر چیز کے پیچھے وجہ ڈھونڈتا پھر رہاہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کو اپنے جذبات و احساسات پر کنٹرول نہیں ہے۔ایسے انسان کے ساتھ اگر کوئی معمولی واقعہ بھی اس کی مرضی کے خلاف ہوجائے تو وہ اپنی طرف سے اس کاجواز گھڑنا شروع ہوجاتا ہے اور خود کو اذیت دیتا رہتا ہے۔مثال کے طورپراگر وہ اپنے کسی دوست کو میسج کردے اور اس کا دوست اپنی بے تحاشا مصروفیات کی وجہ سے جواب نہ دے سکے تواب وہ اس صورت حال کو حقائق کے بجائے جذبات سے ہینڈل کرے گا۔وہ اپنی طرف سے اس واقعے کا کوئی نتیجہ نکالے گا۔وہ اس بات کو بھول جائے گاکہ میرے دوست کی کوئی مجبوری بھی ہوسکتی ہے،جبکہ وہ اپنی جذباتی کمزوری کی وجہ سے اس بات کو سمجھ نہیں پارہاہوتاکہ جس کو میں نے میسج بھیجا ہے وہ بھی میری طرح ایک ’’انسان‘‘ ہے جس کی کوئی مجبوری بھی ہوسکتی ہے۔ جذباتی طورپر کمزور شخص کو آسان الفاظ میں ’’بدگمان‘‘ بھی کہاجاسکتا ہے ،چونکہ بدگمانی گناہ ہے تو اس وجہ سے بدگمان انسان گناہ کے ساتھ ساتھ خود کو ذہنی اذیت میں بھی مبتلا کرلیتا ہے۔
۔(6)ہر چیز پر قابو پانے کی خواہش
ہر وہ انسان جو زندگی میں پیش آنے والے ہر واقعے کو کنٹرول کرنا چاہتا ہے تو وہ ایسا کبھی نہیں کرسکتا اور بہت جلد وہ نفسیاتی مریض بن جاتاہے۔انسان کو صرف اپنے دائرہ اختیار کے کاموں کے متعلق متفکرہونا چاہیے ۔اپنے ملک ، صوبے ، شہر ، علاقے اور ادارے کی ہر چیز کو درست کرنا ، انسان کے بس میں ہی نہیں ہے ۔ اس غلط عادت سے جان چھڑانے کا آسان حل یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی کو قبول کرلے اور اس بات کو سمجھ جائے کہ جہاں جہاں میرا بس نہیں چل سکتا ، ان کاموں کو چھوڑدینے میں ہی عافیت ہے ۔ناممکن کاموں میں اپنی انرجی لگانا ، ان کو ضائع کردینے کے مترادف ہے۔البتہ جہاں اس کا اختیار چلتا ہے ،ان کاموں کووہ اچھے انداز میں پورا کرنے کی کوشش کرے کیونکہ جہاں جن کاموں میں اختیار مل جاتا ہے اس کی جوابد ہی بھی ہوتی ہے ۔
۔(7)دوسروں کو اجازت دینا کہ وہ آپ کو کنٹرول کریں
ہمارے اردگرد ایسے بہت سارے لوگ ہیں جو اپنے بارے میں فیصلہ نہیں کرسکتے ۔وہ دوسروں سے پوچھتے ہیں کہ آپ بتائیں میں کیا کروں ؟یہ بھی جذباتی طورپرکمزور لوگوں کی نشانی ہے۔
ہماری زندگی میں آنے والااستاد ، کوچ یا منٹو ررہنمائی کا کام کرتا ہے۔ان شخصیات کا ادب و احترام بہت ضروری ہے لیکن ایسا نہیں ہوسکتا کہ آپ انہیں اپنا سب کچھ سمجھ بیٹھیں،کیونکہ انسان کو پیدا کرنے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے ،وہی انسان کے لیے سب کچھ ہے۔ اس ذات نے انسان کو زندگی کا اختیار دیا ہے ۔اب اگر کوئی اپنا یہ اختیار اٹھاکر کسی اور انسان کی جھولی میں ڈال دے تو یہ بہت قابل افسوس بات ہے۔عقل و شعور ملنے کا مقصد ہی یہ ہے کہ اس کے ذریعے انسان اپنی زندگی کو بہتر بنائے ۔دوسروں سے مشورہ کیا جاسکتا ہے لیکن اس کے بعد فیصلے کا اختیار اپنے پاس ہونا چاہیے ۔
معاشرے میں ایک عام سوچ یہ بھی پائی جاتی ہے کہ اگر آپ کسی سے مشورہ مانگتے ہیں تو مشورہ دینے والا اپنے مشورے کے ساتھ ایک جذباتی لگائو پیدا کرلیتا ہے اوراس بات کا خواہش مند ہوتا ہے کہ اس کے مشورے پر ضرور عمل کیا جائے ۔اگر کسی وجہ سے اس کا مشورہ آپ چھوڑدیتے ہیں تووہ ناراض ہوجاتا ہے ۔بعض لوگ مشورہ دینے کے بعد باربار پوچھتے ہیں کہ کیا بنا آپ کے کام کا؟ یہ عادت بھی ٹھیک نہیں ہے۔
تمام رشتوں میں ایک مخصوص فاصلہ رکھنا بہت ضروری ہے۔میرے ساتھ جتنے بھی لوگ شاگردیاپروفیشنل کے طورپر جڑے ہیں میں ان کے ذاتی مسائل میں کبھی دخل اندازی نہیں کرتا ، ہاں البتہ اگروہ خود مجھے اپنے کسی ذاتی مسئلے میں شامل کرلیں تو اس صورت میں بھی میں انہیں صرف مشورہ دیتا ہوں ، فیصلے کا اختیار ان کے پاس ہی ہوتاہے ۔میرے خیال میں لوگوں پر اپنا آپ نافذ نہیں کرنا چاہیے ۔حتیٰ کہ اگر آپ کاچھوٹا بھائی یا اپنا بیٹا ہے تو اس کو بھی عقل و شعور کے لحاظ سے اس قابل بنائیں کہ وہ اپنے فیصلے خود کرسکے۔دوسروں سے فیصلے کروانے کی عادت انسان کو جذباتی طورپر کمزور بنادیتی ہے ۔
جذباتی کمزوری کے نقصانات
اگر کسی انسان میں مندرجہ بالا عادات پائی جاتی ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ جذباتی طورپر ایک کمزور انسان ہے اور اس کمزوری کی وجہ سے وہ مندرجہ ذیل پریشانیوں کا شکار ہوگا۔
۔1۔وہ اکثر اوقات دل شکستہ اوردل گرفتہ رہے گااور ایسی صورت میں وہ ذہنی اور اعصابی طورپربھی کمزور رہے گا۔
۔2۔ایسے انسان کے رشتے خراب ہوں گے ۔
۔3۔ایسا انسان زندگی کے بے شمار خوبصورت اور یادگارواقعات کو بگاڑ دے گا۔
۔4۔ایسے انسان کی زندگی میں پچھتاوے زیادہ ہوں گے۔
۔5۔ایسا انسان اپنی زندگی میں جتنا مرضی زور لگالے ، جذبات اس کو آگے بڑھنے سے روکیں گے اور وہ ترقی نہیں کرسکے گا۔
جذباتی کمزوری کہاں سے پیدا ہوتی ہے؟
والدین ، دوست احباب اور معاشرہ ، یہ تین وہ عوامل ہیں جو بچپن میں انسان کے جذبات و احساسات کی پرورش میں بڑا اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔یہ تمام مل کر اس کے جذبات کو ایک شکل دے دیتے ہیں ۔یہ شکل کمزور بھی ہوسکتی ہے اور مضبوط بھی ، اور اسی شکل کی بنیاد پر انسان کارویہ بنتا ہے جس کا اظہار وہ پوری زندگی کرتا رہتا ہے۔اس تناظر میں ہمیں اپنا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ اگر ہم والدین ہیں تو ہمیں اپنے بچوں کی جذباتی کمزوری کو جاننا اور اس کو دور کرنے کے لیے کوشش کرنی چاہیے اور انہیں ایسا ماحول فراہم کرنا چاہیے جس میں وہ اپنااعتماد اوراپنے جذبات کو مضبوط کرسکیں۔اگر ہمارا کوئی دوست جذباتی کمزوری کا شکار ہے تو اس مسئلے سے نکلنے میں اس کی مدد کرنی چاہیے اور اس کو بار بار یہ یقین دلانا چاہیے کہ تم اس کمزوری کو شکست دے سکتے ہو۔اسی طرح بحیثیت معاشرہ ہمیں اس چیز کا بھرپور خیال رکھنا چاہیے کہ ہماری کسی بات یاحرکت سے کوئی شخص جذباتی کمزوری یا خودیقینی کی کمی کا شکار نہ ہو۔
ایک مفید مشورہ
زندگی کے کسی بھی اہم موڑ پرجب آپ کو معلوم ہوجائے کہ آپ جذبات کی رو میں بہہ رہے ہیں تو تھوڑی دیر کے لیے ٹھہر جائیں، اپنے آپ کو دو منٹ کا وقت دیں اورتنہائی اختیار کرکے سوچیں کہ میں جو فیصلہ کرنے لگا ہوں ،کیایہ واقعی اہم ہے ؟اپنے آپ کو جذباتی طورپراس صورت حال سے منقطع (Disconnect ) کریں ۔جب آپ جذبات سے خالی ہوجائیں گے تو آپ کی عقل جاگ جائے گی اور وہ آپ پر واضح کردے گی کہ یہ فیصلہ آپ کے لیے مفیدہے یا نقصان دہ۔
ایک اور اچھا مشورہ یہ بھی ہے کہ کسی بھی اہم کام کافیصلہ کرنے سے پہلے اس کوکچھ دِن کے لیے موخر کردیں اور اس دوران اللہ سے مدد مانگیں کہ اے اللہ ! مجھ پر جذبات حاوی ہیں،میری مدد فرما۔اپنے اہم فیصلوں میں اللہ کی ذات کو شامل کرنے کا فائدہ یہ ہوگا کہ آپ کوکوئی نہ کوئی بہترین راستہ ضرور مل جائے گا اور یوں آپ جذبات کی بنیاد پر نہیں ، اپنی عقل کے مطابق فیصلہ کرنے کے قابل ہوں گے اور یقینا یہ فیصلہ آپ کی زندگی کی بہتری میں ایک اہم کردار ادا کرے گا۔