نرم لہجہ ،انسان کی معراج ۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر محمد اعظم رضا تبسم

narm lehja.jpg
زمانہ قدیم کے ایک رومن بادشاہ کے بارے میں مشہور ہے کہ ایک مرتبہ اسے یہ جاننے کی خواہش پیدا ہوئی کہ جنت میں کون سی زبان بولی جاتی ہے چونکہ رومیوں کے نزدیک بچے جنتی ہوا کرتے تھے مگر دنیا میں آ کر جو زبان انہیں سکھائی جاتی وہ بولنے لگتے ہیں۔چنانچہ اس جانچ کے لیے بادشاہ نے ایک ہی دن پیدا ہونے والے چند بچوں کے لیے ایک نرسری قائم کرنے کا حکم دیا اور ان بچوں کے لیے ماہر خواتین نرسوں کو ملازمت دی ۔ہر سہولت میسر کی مگر سب کے لیے شرط تھی کہ ان بچوں سے بات نہیں کرنی جو بھی کام کرنا ہے خاموشی سے کرنا ہے۔ بہرحال اس تجربے پر مکمل ذمہ داری سے عمل شروع کردیا گیا تا کہ بادشاہ جان سکے جنت کی زبان کیا ہو گی؟ عبرانی ، یونانی یا لیٹن۔ نتیجہ یہ نکلا کہ تمام بچے مر گئے۔
اس مختصر سے واقعہ سے یہ حقیقت تو اظہر من الشمس ہے کہ بات چیت انسانی زندگی کا کس قدر اہم رکن ہے ۔ یہ انسانی وجود کی اول ترین بنیاد ہے۔ اگر اِس کو ختم کر دیا جائے تو انسانیت ختم۔ رہی بات جنتیوں کی کہ جنتی لوگ کس زبان میں کلام کریں گے۔احادیث نبوی ؐ کے مطابق جنتیوں کی زبان عربی ہو گی مگر یہ کنفرم ہے کہ اس دنیا میں جنتی لوگوں کی علامات ہی یہ ہیں کہ وہ نرم کلام ہوتے ہیں۔دوسری طرف اسی رکن کا اگر درست استعمال نہ ہو تو انسان کس قدر اذیت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ ہمارے لئے المیہ ہی یہ ہے کہ ہمیں اللہ نے تو زبان درست عطا کی ہے مگر ہم اس کا استعمال درست نہیں کرتے۔ کہیں لفظوں کے تیر اور کہیں باتوں کا ہیر پھیر کر کے دوسروں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ زندہ ہوتے ہوئے بھی محبتوں کومردہ کر دیتے ہیں۔تعلقات کے حسن کو برباد کر دیتے ہیں اور اس بنا پر کئی اچھے ناطے کھو دیتے ہیں۔ آپ نے سنا ہو گا لفظوں کے دانت نہیں ہوتے مگر جب یہ کاٹتے ہیں تو ان کا زخم بہت گہرا ہوتا ہے جو جلدی نہیں بھرتا اور اسی طرح بزرگ کہتے ہیں میٹھے بول میں جادو ہے۔ بعض اوقات کسی کی خاموشی بھی ہمیں توڑ ڈالتی ہے ،دراصل ہمارے ہاں عمومی طور پر جس قسم کی گفتگو کو مزاح کا نام دیا جاتا ہے وہ مزاح نہیں وہ مذاق ہوتا ہے جس میں یا تو نفرت اور بغض چھپا ہوتا ہے یا پھر تعلق کی قدر و منزلت سے غفلت۔جب تعلق ٹوٹ جاتا ہے تو بہت آسانی سے بنا شرمندہ ہوئے کہہ دیا جاتا ہے یار اس میں برداشت نہیں۔ یہ سب رویہ اسی گفتگو اور بات چیت کاخاصا ہی ہوتا ہے۔لہٰذا جب بھی کلام کیجیے تو بہت احتیاط سے کیجیے۔ قول سے کسی کی دل آزاری نہیں ہونی چاہیے۔زبان جھوٹ کے لیے استعمال نہ ہو۔ زبان سے اپنے رب کی حمد و ثنا جاری رہنا چاہیے۔
دوسرا پہلو کہ سچی بات کڑوی ہوتی ہے ہاں ایسا ہی ہے مگر سچی بات کرنے والے کالہجہ کبھی کڑوا نہیں ہوا کرتا ۔ دنیا کی کسی کتاب میں یہ نہیں لکھا کہ سچ بولنے کے لیے بدتمیز ہونا ضروری ہے ورنہ سچ سچ نہیں ہو گا ۔ یہ زبان چاہے الفاظ کا مجموعہ ہو یا گوشت کا نرم ٹکڑا انسان کو معراج انسانیت پر بھی لے جاتی ہے اور بری طرح واصل جہنم بھی کر سکتی ہے۔ انسان کی پہچان اس کی زبان سے ہی ہوا کرتی ہے، کہا جاتا ہے زبان کی گفتگو ہی انسان کا پتا دیتی ہے کہ یہ کس خاندان یا قبیلے کا فرد ہے۔ بات چیت انسان کو انسان بناتی ہے۔ لیکن یہ ہر ہنر کی طرح ایک ہنر ہے۔ جیسا کہ بچوں کی مثال سے ظاہر ہے۔گفتگو کیجیے مگر احتیاط سے کیجیے۔کیونکہ باتیں دل پر حکومت بھی کرتی ہیں اور نظروں میں معیار گرا بھی دیتی ہیں۔ زبان کے ٹکڑے پر جنت کی بشارت کا دارومدار ہے۔خاموشی بھی عین عبادت ہے اسی لیے کہ بروز حشر ہمارے نامہ اعمال میں گناہوں کی ایک بڑی تعداد کا تعلق زبان سے ہو گا۔اچھا بول بولیے ورنہ مت بولیے۔ اگر تمھاری گفتگو تمھاری خاموشی سے زیادہ معنی خیز ہو تب بولیے ورنہ خاموشی بہترین عمل ہے۔ بولنے سے پہلے اپنے لفظوں کو تولیے کہ ان کی کیا قدر و قیمت ہے یہ کامیاب لوگوں کی نشانی ہے۔