اخلاقی قدریں اور اسلام .... مفتی محمد عمر پالنپوری
Ikhlaqi qadaren aur Islam.jpg
اخلاق، اخلاق انسانیت کی روح اور انسانی رویوں کا نام ہے، دنیا میں کوئی ایک مذہب بھی ایسا نہیں جو اخلاقی قدروں کی تعلیم نہ دیتا ہو ۔ لیکن ان سب میں اسلام کی اخلاقی تعلیمات اعلیٰ ترین ہیں۔اعلیٰ اخلاق کے بغیر انسان اسی طرح نا مکمل ہے جس طرح پھول رنگ و بو کے بغیر بے کار ہے ، اسی طرح انسان بغیر اخلاق کے بت کے سوا کچھ نہیں۔ اخلاقی قدروں سے عاری شخص صحیح معنوں میں انسان ہی نہیں ہے، اخلاق نہ ہو تو دنیا پر امن نہیں رہ سکتی کیونکہ ہر سماجی برائی کی جڑ بد اخلاقی ہے گھروں کا سکون بھی اسی سے برباد ہوتاہے ۔بد اخلاقی بہت بڑھ جائے یا بدترین شکل اختیار کر لے تو قومیں تباہ و برباد ہو جاتی ہیں ۔بدترین اخلاق کے باعث حضرت لوطؑ او رحضرت نوح ؑ کی قوموں کو عذاب الہٰی سہنا پڑا،ان کاکہیں نام و نشان بھی باقی نہیں رہا ۔
اخلاقی اصول و ضوابط ہر ملک میں موجود ہیں۔ اور دنیا کے ہر مذہب نے اخلاقی قدروں کا مجموعہ پیش کیا ہے، حضرت آدم ؑ سے لے کر حضور نبی کریمﷺ تک جتنے بھی نبی اور پیغمبر تشریف لائے، جتنے بھی پیشوا، ہادی اور مبلغ ہوئے، وہ سب اخلاقیات کی تبلیغ کرتے رہے ہیں مگر اخلاق کا جو ہمہ گیر درس اسلام نے دیاہے دیگر مذاہب اس سے خالی ہیں۔
اسلام نے اخلاق کو اعلیٰ ترین مقام پر پہنچایا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے، ’’انّ ھٰذا الا خْلْق الاولین‘‘(سورہ شعراء، 137)
ترجمہ: ’’بے شک یہ راستہ وہی پہلے والوں کا راستہ ہے‘‘، آیت کریمہ میں خْلْق سے مراد راستہ لیا گیا ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ یہ لوگ ،گذرے ہوئے لوگوں کی سیرت پر چل رہے ہیں۔
ایک اور جگہ ارشاد فرمایا،خْلْق: ’’وانک لعلیٰ خْلْق عظیم‘‘ (سورہ قلم،4)
اس آیت میں رسول اسلام ﷺسے کہا جا رہا ہے کہ ’’ اے میرے حبیب! آپؐ خلق عظیم پر فائز ہیں‘‘، اس آیت میں خلق سے مراد ’’اخلاق اور حسن سیرت‘‘ ہے۔سورہ توبہ میں منافقوں سے کہا کہ تم ویسے ہی لوگ ہو جیسے تمھارے بزرگ تھے (اور راہ نفاق پر گامزن تھے بلکہ) وہ تم سے زیادہ طاقتور تھے اور ان کے پاس دولت وثروت اور اولاد بھی زیادہ تھی(لیکن) انہوں نے بے جا (ہوس) میں صرف کیا اور تم بھی انہیں کی راہ پر چل دیئے، ان لوگوں نے مومنین کا مضحکہ کیا اور تم بھی مومنین کو مضحکہ کی آماجگاہ گردانتے ہو، نتیجہ یہ ہوا کہ دنیا وآخرت میں ان کے اعمال برباد ہو گئے۔
حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا ’’ میں اس لئے بھیجا گیا ہوں کہ اخلاق کی تکمیل کروں‘‘۔ (ترمذیؒ)
اس حدیث پاک سے واضح ہواکہ اسلام سے قبل اخلاق حسنہ کی تکمیل نہیں ہوئی تھی بلکہ ہر قوم کو محدود معاشرتی و سماجی مسائل کے مطابق اخلاقیات کی تعلیم دی گئی تھی مگر چونکہ حضور نبی کریم ﷺکی ذات اقدس پر دین مکمل ہوا تھا اس لئے آپ ﷺ کو دنیا کا سب سے بڑا معلم اخلاق بنا کر بھیجا گیا۔ آپ ﷺحضور نبی کریم ﷺ اعلیٰ اخلاق کا نمونہ تھے، آپ ﷺبہت رحم دِل تھے، شفیق تھے، امانت دار تھے، آپ ﷺ کی زبان مبارک سے کبھی کسی کو تکلیف نہ پہنچی، آپ ﷺ صاحب اخلاق تھے ۔ حضرت ابوہریرہ ؓحضور نبی کریم ﷺسے روایت فرماتے ہیں ،ارشاد نبوی ﷺہے کہ ’’جب تک تم ایمان نہ لائو جنت میں داخل نہیں ہو سکتے اور تم ایمان نہیں لائو گے جب تک کہ آپس میں محبت نہ کرو‘ کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتلائوں کہ جب تم وہ کرو تو آپس میں محبت کرنے لگو‘ فرمایا کہ تم اپنے درمیان سلام کو پھیلائو۔‘‘ (رواہ مسلم)
حسن خلق کے اجزاء بیان کرتے ہوئے علامہ خازن اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ’’لوگوں سے محبت کرنا‘ معاملات کی درستگی ، اپنوں اور بیگانوں سے اچھے تعلقات رکھنا‘ سخاوت کرنا، بخل اور حرص سے پرہیز کرنا‘ تکلیف پہنچنے پر صبر کرنا، اور ادب واحترام کے تقاضوں کو پورا کرنا۔ امام غزالی ؒنے حسن خلق کے بارے میں نہایت قیمتی بات کہی ،فرماتے ہیں۔ ’’حسن خلق کا ثمرہ الفت ہے اور برے اخلاق کا پھل بیگانگی اور دلوں کی دوری ہے۔‘‘ اسی طرح غصہ بھی بد اخلاقی کا ایک عنصر ہے ’’حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا’’ پہلوان اور طاقت ور وہ شخص نہیں جو دوسرے کو پچھاڑ دے بلکہ طاقت ور وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے آپ پر قابو پالے۔‘‘(رواہ البخاری ومسلم)
قرآن پاک میں ایک اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے،’’ اپنے رب کی طرف بلائو تدبیر اور اچھی نصیحت سے ،اور ان سے اس طریقے سے بات کرو جو سب سے بہتر ہو، بے شک تمہارارب خوب جانتا ہے‘‘۔(سورہ النحل )
رب کریم نے اپنے پیارے نبیﷺکو اچھا یعنی احسن طریقہ اپنانے کی ہدایت دی۔ اخلاق کا اتنا مقام ہے کہ نبی کریم ﷺ نے بھی حکم خداوندی کے مطابق ہمیشہ دلیل اور اخلاق سے لوگوں کو صراط مستقیم کی جانب بلایا۔اور پھر رسول کریم ﷺ نے ہر ہر قدر کو نکھارا، اور سنوارا، اور دنیا کے سامنے ایک مکمل ترین ، جامع ترین نظام اخلاق پیش فرمایا۔جس کو دیکھ کر دنیا کے ہر باشعور فرد نے اس کی عظمت و بلندی کا اعتراف کیا۔حضور نبی کریم ﷺ نے اخلاق کو جنت میں جانے کا ذریعہ فرمایا۔ جو شخص چاہتا ہے کہ ا سکے ساتھ اچھا برتائو کیا جائے ، رحم سے پیش آیا جائے تو وہ بھی خلق خدا کے ساتھ شفقت اور محبت کا برتائو روا رکھے۔آپ ﷺ نے اخلاق کو ایمان کا ایک جزو قرار دیا ہے، اس کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوتا۔آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ، ’’ وہ مومن نہیں، جس کے ہاتھ او زبان سے لوگ محفوظ نہ ہوں‘‘۔
حضور نبی کریم ﷺ نے اخلاق کے حاملین کو مومن اور برے اخلاق والوں کو منافق قرار دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا ’’ مومن وہ ہے جو وعدہ پورا کرے، جب گفتگو کرے تو اس کی زبان سے سچ ہی نکلے۔ جب اس کو امانتدار بنایا جائے تو وہ ا مین ثابت ہو۔ خیانت نہ کرے۔‘‘ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:’’جو بے وفائی کرے، جھوٹ بولے، خیانت کرے، غیبت اور چغل خوری کرے، وہ منافق ہے‘‘۔
یہاں تک کہ بغیر محاسن اخلاق کو اپنائے نماز اور روزہ بھی ذریعہ نجات نہیں ہوں گے کیونکہ اخلاق حقوق العباد میں شامل ہے ۔آپ ﷺ نے پوچھا کہ ، ’’تم جانتے ہو کہ میری امت کا مفلس اور نادار شخص کون ہے ؟ صحابہ کرام ؑ نے فرمایا کہ جس کے پاس مال و دولت نہ ہو۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ’’ نہیں، و ہ مفلس ہے جو نماز اور روزہ کی نعتوں کی بجاآوری کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہوا ہو، مگر اس نے لوگوں کے حقوق سلب کئے ہوں ،ان کے اموال غضب کئے ہوں ، غیبت اورچغلی کی، خون ناحق کیا، پس جب بارگاہ الہٰی میں لوگ اس کے خلاف فریاد کریں گے تو اس کے سارے نیک اعمال فریادیوں کو دے دیئے جائیں گے اور اسے دوزخ میں ڈال دیا جاے گا‘‘۔
’’حضرت نواس بن سمعان ؓ سے روایت ہے کہ میں نے حضور نبی کریم ﷺ سے سوال کیا کہ نیکی اور گناہ کیا ہے؟ تو آپ ﷺنے فرمایا’’نیکی اچھے اخلاق کا نام ہے اور گناہ وہ ہے جو تیرے دل میں کھٹکے اور تم اس بات کو برا سمجھو کہ لوگ اس پر مطلع ہوں۔‘‘(رواہ مسلم)
ایک مرتبہ ایک صحابی ؓنے عرض کیا،’’ہمارے پڑوس میں دو خواتین رہتی ہیں۔ایک تو شب و روز عبادت میں مصروف رہتی ہے لیکن پڑوسی اس کی بد اخلاقی سے ناخوش ہیں ، نالاں ہیں۔ دوسری خاتون فرائض او ر واجبات ادا کرتی ہے ، اور پڑوسی بھی اس سے خوش ہیں‘‘۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا، ’’جس کے پڑوسی خوش ہیں وہ ا چھی ہے اور جنت میں جانے والی ہے‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں باہمی معاملات کے آداب قرآن مجید میں سکھائے ہیں باہمی معاملات میں باہمی رضا مندی کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ باہمی رضا مندی جتنی گرمجوشی، دیانتداری اور خلوص پر مبنی ہو گی۔ لین دین کے معاملات اتنے زیادہ مضبوط قابل اعتماد اور منافع بخش ہوں گے اس لیے کہ باہمی رضا مندی تمام تجارتی امور کی پہلی بنیادی اینٹ ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اے ایمان والو! تم آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے نہ کھائو مگر یہ کہ باہمی رضا مندی سے تجارت ہو۔‘‘
مفاد، ذاتی اصولوں اور خواہشات کی مخالفت پر آنے والا غصہ دبانا اور بجھانا ضروری ہے ۔ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے متقین کی ایک صفت یہ بھی بیان فرمائی ’’وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظ‘‘(وہ لوگ جو غصہ کو بجھانے والے ہوتے ہیں) ۔ متقی کی خوبی یہ ہے کہ وہ اس پر قابورکھتا ہے۔ کسی کی مصیبت پر خوشی کا اظہار نہیں کرنا چاہئے، اس سے منع فرمایا گیا ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ’’ تم بھائی کی مصیبت پر خوشی کا اظہار مت کرو، (اگر ایسا کرو گے تو ہوسکتاہے کہ ) اللہ تعالیٰ کو اس مصیبت سے نجات دے دے اور تم کو مبتلا کردے‘‘۔ (جامع ترمذی)
جب دو آدمیوں میں اختلاف پیدا ہوتاہے اور وہ ترقی کرکے دشمنی اور عداوت کی حد تک پہنچ جاتاہے تو یہ بھی ہوتاہے کہ ایک کے مبتلائے مصیبت ہونے سے دوسرے کو خوشی ہوتی ہے اس کو ’’شماتت‘‘ کہتے ہیں ، حسد اور بغض کی طرح یہ خبیث عادت بھی اللہ تعالیٰ کو سخت ناراض کرنے والی ہے۔
ریا کاری سے بھی بچئے، روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ جو شخص کوئی عمل (دوسروں کو)سنانے اور شہرت کے لیے کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو شہرت (اس عمل کی تشہیر )دے گا اور جو کوئی دکھاوے کے لیے نیک عمل کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو خوب دکھائے گا‘‘۔ (بخاری ، مسلم)
دکھاوے اور شہرت کی غرض سے نیک اعمال کرنے والوں کو ایک سزا ان کے اس عمل کی مناسبت سے یہ بھی دی جائے گی کہ ان کی اس ریاکاری اور منافقت کو خوب مشہور کیاجائے گا اور سب کو مشاہد ہ کرادیاجائے گا کہ بدبخت لوگ یہ نیک اعمال اللہ کے لیے نہیں کرتے تھے ۔حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے حضور نبی کریم ﷺ سے اپنی قساوت قلبی کی شکایت کی۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرا کرو اور مسکین کو کھانا کھلایا کرو‘‘۔ (مسند احمد)۔
سخت دلی اور تنگ دلی ایک روحانی مرض اور انسان کی بدبختی کی نشانی ہے ۔سائل نے حضور نبی کریم ﷺ سے اپنے دل اور اپنی روح کی اس بیماری کا حال عرض کرکے آپ سے علاج دریافت کیاتھا، آپﷺ نے ان کو دو باتوں کی ہدایت فرمائی ایک یہ کہ یتیم کے سر پر شفقت کا ہاتھ پھیرا کرو اور دوسرا یہ کہ فقیر مسکین کو کھانا کھلایا کرو۔
رسول اللہﷺ کا بتلایا ہوا یہ علاج علم النفس کے ایک خاص اصول پرمبنی ہے بلکہ کہنا چاہیے کہ حضورﷺ کے ارشادات سے اس اصول کی تائید اور توثیق ہوتی ہے ، وہ اصول یہ ہے کہ اگر کسی شخص کے نفس یا قلب میں کوئی خاص کیفیت نہ ہو اور وہ اس کو پیدا کرنا چاہے تو ایک تدبیر اس کی یہ بھی ہے کہ اس کیفیت کو اور لوازم کو وہ اختیار کرے۔ انشاء اللہ کچھ عرصہ کے بعد وہ کیفیت بھی نصیب ہوجائے گی۔ دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا کرنے کے لیے کثرت ذکر کا طریقہ جو حضرات صوفیائے کرام میں رائج ہے اس کی بنیاد بھی اسی اصول پر ہے۔
حضور اکرم ﷺ جب بھی کہیں کوئی لشکر روانہ فرماتے تو اس لشکر کے اُمیر کوتاکید سے یہ ہدایت فرماتے تھے کہ اپنے زیردستوں کے ساتھ نرمی کا معاملہ کرنا، ان کو تنگی میں مبتلا نہ کرنا۔ ان کوبشارت اور خوشخبری دیتے رہنا۔ اسی طرح جب کسی کو کسی علاقہ یا قوم کا گورنر اور امین بنا کر بھیجتے تو ان کو ہدایت فرمادیتے کہ قوم کے ساتھ عدل وانصاف اور ہمدردی کا معاملہ کرنا، اور ان کے ساتھ نرمی کا معاملہ کرنا ، انہیں تنگی اور سختی میں مبتلا نہ کرنا ۔حدیث شریف کے الفاظ کا ملاحظہ فرمایئے، حضرت ابوبردہؓ بن ابی موسیٰ فرماتے ہیں حضور اکرم ﷺ نے حضرت معاذ بن جبل ؓاور ابوموسیٰ اشعری ؓکو یمن روانہ فرمایا، اور روانگی کے وقت یہ ہدایت فرمائی کہ’’ تم دونوں نرمی اور آسانی کا معاملہ کرتے رہنا، اور لوگوں کے ساتھ تنگی اور سختی کا معاملہ نہ کرنا، اور لوگوں کو دنیا وآخرت کی کامیابی کی بشارت دیتے رہنا، اور لوگوں میں تنفر نہ پیدا کرنا کہ جس سے لوگ فرار کا راستہ اختیارکریں ،اور آپس میں محبت وشفقت کا معاملہ کرتے رہنا اور اختلاف وپھوٹ کی باتیں نہ کرنا۔ ‘‘ (بخاری شریف )
اللہ تعالیٰ ہمیں ان اعلیٰ اخلاقی اصولوں پر کاربند رہنے کی توفیق عطا فرمائے ،آمین۔