غصے پر قابو پانا اعلٰی اخلاق

غصہ بھی بد اخلاقی کا ایک عنصر ہے ’’Ø+ضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ Ø+ضور نبی کریم ï·º Ù†Û’ فرمایا’’ پہلوان اور طاقت ور وہ شخص نہیں جو دوسرے Ú©Ùˆ پچھاڑ دے بلکہ طاقت ور وہ ہے جو غصہ Ú©Û’ وقت اپنے آپ پر قابو پالے۔‘‘(رواہ البخاری ومسلم)
قرآن پاک میں ایک اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے،’’ اپنے رب Ú©ÛŒ طرف بلائو تدبیر اور اچھی نصیØ+ت سے ،اور ان سے اس طریقے سے بات کرو جو سب سے بہتر ہو، بے Ø´Ú© تمہارارب خوب جانتا ہے‘‘۔(سورہ النØ+Ù„ )
رب کریم Ù†Û’ اپنے پیارے نبیﷺکو اچھا یعنی اØ+سن طریقہ اپنانے Ú©ÛŒ ہدایت دی۔ اخلاق کا اتنا مقام ہے کہ نبی کریم ï·º Ù†Û’ بھی Ø+Ú©Ù… خداوندی Ú©Û’ مطابق ہمیشہ دلیل اور اخلاق سے لوگوں Ú©Ùˆ صراط مستقیم Ú©ÛŒ جانب بلایا۔اور پھر رسول کریم ï·º Ù†Û’ ہر ہر قدر Ú©Ùˆ نکھارا، اور سنوارا، اور دنیا Ú©Û’ سامنے ایک مکمل ترین ØŒ جامع ترین نظام اخلاق پیش فرمایا۔جس Ú©Ùˆ دیکھ کر دنیا Ú©Û’ ہر باشعور فرد Ù†Û’ اس Ú©ÛŒ عظمت Ùˆ بلندی کا اعتراف کیا۔Ø+ضور نبی کریم ï·º Ù†Û’ اخلاق Ú©Ùˆ جنت میں جانے کا ذریعہ فرمایا۔ جو شخص چاہتا ہے کہ ا سکے ساتھ اچھا برتائو کیا جائے ØŒ رØ+Ù… سے پیش آیا جائے تو وہ بھی خلق خدا Ú©Û’ ساتھ شفقت اور Ù…Ø+بت کا برتائو روا رکھے۔آپ ï·º Ù†Û’ اخلاق Ú©Ùˆ ایمان کا ایک جزو قرار دیا ہے، اس Ú©Û’ بغیر ایمان مکمل نہیں ہوتا۔آپﷺ Ù†Û’ ارشاد فرمایا کہ، ’’ وہ مومن نہیں، جس Ú©Û’ ہاتھ او زبان سے لوگ Ù…Ø+فوظ نہ ہوں‘‘۔
Ø+ضور نبی کریم ï·º Ù†Û’ اخلاق Ú©Û’ Ø+املین Ú©Ùˆ مومن اور برے اخلاق والوں Ú©Ùˆ منافق قرار دیا۔ آپ ï·º Ù†Û’ فرمایا ’’ مومن وہ ہے جو وعدہ پورا کرے، جب گفتگو کرے تو اس Ú©ÛŒ زبان سے سچ ہی Ù†Ú©Ù„Û’Û” جب اس Ú©Ùˆ امانتدار بنایا جائے تو وہ ا مین ثابت ہو۔ خیانت نہ کرے۔‘‘ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:’’جو بے وفائی کرے، جھوٹ بولے، خیانت کرے، غیبت اور چغل خوری کرے، وہ منافق ہے‘‘۔
یہاں تک کہ بغیر Ù…Ø+اسن اخلاق Ú©Ùˆ اپنائے نماز اور روزہ بھی ذریعہ نجات نہیں ہوں Ú¯Û’ کیونکہ اخلاق Ø+قوق العباد میں شامل ہے ۔آپ ï·º Ù†Û’ پوچھا کہ ØŒ ’’تم جانتے ہو کہ میری امت کا مفلس اور نادار شخص کون ہے ØŸ صØ+ابہ کرام Ø‘ Ù†Û’ فرمایا کہ جس Ú©Û’ پاس مال Ùˆ دولت نہ ہو۔ آپ ï·º Ù†Û’ فرمایا کہ ’’ نہیں، Ùˆ ہ مفلس ہے جو نماز اور روزہ Ú©ÛŒ نعتوں Ú©ÛŒ بجاآوری Ú©Û’ ساتھ اللہ تعالیٰ Ú©Û’ Ø+ضور پیش ہوا ہو، مگر اس Ù†Û’ لوگوں Ú©Û’ Ø+قوق سلب کئے ہوں ،ان Ú©Û’ اموال غضب کئے ہوں ØŒ غیبت اورچغلی کی، خون ناØ+Ù‚ کیا، پس جب بارگاہ الہٰی میں لوگ اس Ú©Û’ خلاف فریاد کریں Ú¯Û’ تو اس Ú©Û’ سارے نیک اعمال فریادیوں Ú©Ùˆ دے دیئے جائیں Ú¯Û’ اور اسے دوزخ میں ڈال دیا جاے گا‘‘۔
’’Ø+ضرت نواس بن سمعان Ø“ سے روایت ہے کہ میں Ù†Û’ Ø+ضور نبی کریم ï·º سے سوال کیا کہ نیکی اور گناہ کیا ہے؟ تو آپ ï·ºÙ†Û’ فرمایا’’نیکی اچھے اخلاق کا نام ہے اور گناہ وہ ہے جو تیرے دل میں Ú©Ú¾Ù¹Ú©Û’ اور تم اس بات Ú©Ùˆ برا سمجھو کہ لوگ اس پر مطلع ہوں۔‘‘(رواہ مسلم)
ایک مرتبہ ایک صØ+ابی ؓنے عرض کیا،’’ہمارے پڑوس میں دو خواتین رہتی ہیں۔ایک تو شب Ùˆ روز عبادت میں مصروف رہتی ہے لیکن پڑوسی اس Ú©ÛŒ بد اخلاقی سے ناخوش ہیں ØŒ نالاں ہیں۔ دوسری خاتون فرائض او ر واجبات ادا کرتی ہے ØŒ اور پڑوسی بھی اس سے خوش ہیں‘‘۔ آپ ï·º Ù†Û’ ارشاد فرمایا، ’’جس Ú©Û’ پڑوسی خوش ہیں وہ ا Ú†Ú¾ÛŒ ہے اور جنت میں جانے والی ہے‘‘۔
اللہ تعالیٰ Ù†Û’ ہمیں باہمی معاملات Ú©Û’ آداب قرآن مجید میں سکھائے ہیں باہمی معاملات میں باہمی رضا مندی Ú©Ùˆ بنیادی اہمیت Ø+اصل ہے۔ باہمی رضا مندی جتنی گرمجوشی، دیانتداری اور خلوص پر مبنی ہو گی۔ لین دین Ú©Û’ معاملات اتنے زیادہ مضبوط قابل اعتماد اور منافع بخش ہوں Ú¯Û’ اس لیے کہ باہمی رضا مندی تمام تجارتی امور Ú©ÛŒ پہلی بنیادی اینٹ ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اے ایمان والو! تم آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے نہ کھائو مگر یہ کہ باہمی رضا مندی سے تجارت ہو۔‘‘
مفاد، ذاتی اصولوں اور خواہشات Ú©ÛŒ مخالفت پر آنے والا غصہ دبانا اور بجھانا ضروری ہے Û” قرآن Ø+کیم میں اللہ تعالیٰ Ù†Û’ متقین Ú©ÛŒ ایک صفت یہ بھی بیان فرمائی ’’وَالْکَاظِ٠…ِیْنَ الْغَیْظ‘‘(وہ لوگ جو غصہ Ú©Ùˆ بجھانے والے ہوتے ہیں) Û” متقی Ú©ÛŒ خوبی یہ ہے کہ وہ اس پر قابورکھتا ہے۔ کسی Ú©ÛŒ مصیبت پر خوشی کا اظہار نہیں کرنا چاہئے، اس سے منع فرمایا گیا ہے۔ Ø+ضور نبی کریم ï·º Ù†Û’ فرمایا کہ ’’ تم بھائی Ú©ÛŒ مصیبت پر خوشی کا اظہار مت کرو، (اگر ایسا کرو Ú¯Û’ تو ہوسکتاہے کہ ) اللہ تعالیٰ Ú©Ùˆ اس مصیبت سے نجات دے دے اور تم Ú©Ùˆ مبتلا کردے‘‘۔ (جامع ترمذی)
جب دو آدمیوں میں اختلاف پیدا ہوتاہے اور وہ ترقی کرکے دشمنی اور عداوت Ú©ÛŒ Ø+د تک پہنچ جاتاہے تو یہ بھی ہوتاہے کہ ایک Ú©Û’ مبتلائے مصیبت ہونے سے دوسرے Ú©Ùˆ خوشی ہوتی ہے اس Ú©Ùˆ ’’شماتت‘‘ کہتے ہیں ØŒ Ø+سد اور بغض Ú©ÛŒ طرØ+ یہ خبیث عادت بھی اللہ تعالیٰ Ú©Ùˆ سخت ناراض کرنے والی ہے۔
ریا کاری سے بھی بچئے، روایت ہے کہ Ø+ضور نبی کریم ï·ºÙ†Û’ فرمایا کہ جو شخص کوئی عمل (دوسروں Ú©Ùˆ)سنانے اور شہرت Ú©Û’ لیے کرے گا اللہ تعالیٰ اس Ú©Ùˆ شہرت (اس عمل Ú©ÛŒ تشہیر )دے گا اور جو کوئی دکھاوے Ú©Û’ لیے نیک عمل کرے گا اللہ تعالیٰ اس Ú©Ùˆ خوب دکھائے گا‘‘۔ (بخاری ØŒ مسلم)
دکھاوے اور شہرت Ú©ÛŒ غرض سے نیک اعمال کرنے والوں Ú©Ùˆ ایک سزا ان Ú©Û’ اس عمل Ú©ÛŒ مناسبت سے یہ بھی دی جائے Ú¯ÛŒ کہ ان Ú©ÛŒ اس ریاکاری اور منافقت Ú©Ùˆ خوب مشہور کیاجائے گا اور سب Ú©Ùˆ مشاہد ہ کرادیاجائے گا کہ بدبخت لوگ یہ نیک اعمال اللہ Ú©Û’ لیے نہیں کرتے تھے Û”Ø+ضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص Ù†Û’ Ø+ضور نبی کریم ï·º سے اپنی قساوت قلبی Ú©ÛŒ شکایت کی۔ آپﷺ Ù†Û’ ارشاد فرمایا کہ ’’یتیم Ú©Û’ سر پر ہاتھ پھیرا کرو اور مسکین Ú©Ùˆ کھانا کھلایا کرو‘‘۔ (مسند اØ+مد)Û”
سخت دلی اور تنگ دلی ایک روØ+انی مرض اور انسان Ú©ÛŒ بدبختی Ú©ÛŒ نشانی ہے ۔سائل Ù†Û’ Ø+ضور نبی کریم ï·º سے اپنے دل اور اپنی روØ+ Ú©ÛŒ اس بیماری کا Ø+ال عرض کرکے آپ سے علاج دریافت کیاتھا، آپﷺ Ù†Û’ ان Ú©Ùˆ دو باتوں Ú©ÛŒ ہدایت فرمائی ایک یہ کہ یتیم Ú©Û’ سر پر شفقت کا ہاتھ پھیرا کرو اور دوسرا یہ کہ فقیر مسکین Ú©Ùˆ کھانا کھلایا کرو۔
رسول اللہﷺ کا بتلایا ہوا یہ علاج علم النفس Ú©Û’ ایک خاص اصول پرمبنی ہے بلکہ کہنا چاہیے کہ Ø+ضورﷺ Ú©Û’ ارشادات سے اس اصول Ú©ÛŒ تائید اور توثیق ہوتی ہے ØŒ وہ اصول یہ ہے کہ اگر کسی شخص Ú©Û’ نفس یا قلب میں کوئی خاص کیفیت نہ ہو اور وہ اس Ú©Ùˆ پیدا کرنا چاہے تو ایک تدبیر اس Ú©ÛŒ یہ بھی ہے کہ اس کیفیت Ú©Ùˆ اور لوازم Ú©Ùˆ وہ اختیار کرے۔ انشاء اللہ Ú©Ú†Ú¾ عرصہ Ú©Û’ بعد وہ کیفیت بھی نصیب ہوجائے گی۔ دل میں اللہ تعالیٰ Ú©ÛŒ Ù…Ø+بت پیدا کرنے Ú©Û’ لیے کثرت ذکر کا طریقہ جو Ø+ضرات صوفیائے کرام میں رائج ہے اس Ú©ÛŒ بنیاد بھی اسی اصول پر ہے۔