آزادی ٔرائے کا غلط استعمال ۔۔۔۔ جویریہ صدیق
ویسے تو اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ ہمارے ملک میں بولنے کی آزادی نہیں لیکن میں یہ کہتی ہوں کہ جتنی اس ملک میں بولنے کی اجازت ہے‘ شاید ہی کہیں اور اتنی آزادی ہو۔جب جس کا دل کرتا ہے وہ کسی پر بھی کوئی بھی الزام عائد کردیتا ہے۔یہ سیاست میں بھی ہورہا ہے‘ سوشل میڈیا پر بھی ہورہا ہے اور عام زندگیوں میں بھی یہی چلن دیکھنے کو مل رہا ہے حالانکہ ہمارے دین میں بہتان تراشی کی سختی سے ممانعت ہے؛ مگر معاشرتی چلن یہ ہے کہ جہاں دلیل ختم ہو جاتی ہے‘ وہاں سے الزام تراشی شروع ہوجاتی ہے اور پھر بات گالی گلوچ اور مار پیٹ تک پہنچ جاتی ہے۔
سڑکوں پر دیکھ لیں کہ گاڑی سے گاڑی ٹکرا جائے یا موٹرسائیکل‘ بات غصے سے شروع ہوتی ہے اور پولیس تھانے تک پہنچ جاتی ہے۔میں خود دوبار ٹریفک حادثے کی زد میں آئی‘ ایک بار میری غلطی تھی اور دوسرے بار سامنے والے فرد کی مگر میں نے سڑک پر جھگڑا نہیں ہونے دیا اور مہذب شہریوں کو ایسا کرنا بھی نہیں چاہیے۔جب معاملات کا حل بات چیت سے نکل سکتا ہے تو کیا ضرورت ہے کہ آواز اونچی کرنے کی؟ اخلاق سے بھی مخالفین کو فتح کیا جاسکتا ہے‘ نرمی سے بھی دل موم کیے جاسکتے ہیں‘ پھر لڑائی جھگڑا کیوں کرناہے؟ خود میں نرمی‘ عاجزی اور انکساری پیدا کرنی چاہیے ؛ تاہم ہمارے ہاں کچھ لوگوں کو شایدمرچ مسالا زیادہ پسند ہے‘ یہی وجہ ہے کہ قومی اسمبلی میں اشتعال انگیز تقاریر ہورہی ہیں، جلسوں میں بھی ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالا جارہا ہے اور یہ کلچر سیاسی کارکنوں اور عوام میں بھی پروان چڑھ رہا ہے۔ پرائم ٹائم شوز میں کچھ افراد حقائق بتانے کے بجائے لڑائی اور سرکس کرانے پر یقین رکھتے ہیں، جب ان کے شو میں کرسیاں‘ گلاس‘ لاتیں اور گھونسے چلتے ہیں تو ان کو تسکین ملتی ہے۔ شاید یہی ان کے شو چلنے کی وجہ ہوتی ہے کیونکہ ایسی ہی چیزوں سے ریٹنگ ملتی ہے۔ ''یہ دیکھیں انہوں نے یہ کہا‘‘، ''آپ نے تو یہ کہا تھا‘‘ ایسی ہی باتوں پر تلخی بڑھتی اور لڑائی شروع ہوجاتی ہے۔ کوئی مثبت بات اس دوران سامنے نہیں آتی اور شور شرابے میں شو مکمل ہوجاتا ہے۔اس کے برعکس اگر آپ ''دنیا چینل ‘‘ کا ''تھنک ٹینک‘‘ دیکھیں تو اس میں پاکستان کی صحافت کے بڑے نام تجزیہ دیتے ہوئے ملیں گے۔ اس سے مجھ جیسے صحافت کے طالب علموں کو بات سمجھ میں آجاتی ہے اور مستقبل کی تصویر بھی واضح ہوجاتی ہے۔سیاسی ٹاک شوز اسی طرح دھیمے لہجوں میں اپنی باری پر بات کرکے تجزیہ و تبصرہ کرنے کے فارمیٹ میں ہونے چاہئیں تاکہ مفادِ عامہ میں بات ہوسکے۔
ہمارے ملک میں مگر الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ سوشل میڈیا‘ سیاسی ایوانوں‘ جلسوں‘ جلوسوں‘ ریلیوں اور دھرنوں وغیرہ میں اکثر شدت سے اپنا مدعا بیان کیا جاتا ہے۔ جھوٹی خبریں دی جاتی ہیں کہ دوسروں پر دھاک بیٹھ جائے کہ یہ تو بڑا باخبر بندہ ہے مگر جب وہ خبریں غلط ثابت ہو جاتی ہیں تو نہ تو ان پر کوئی شرمندگی محسوس کی جاتی ہے اور نہ ہی معذرت کی جاتی ہے۔ماضی قریب سے ایسی کئی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ہمارے اساتذہ کہتے تھے کہ رپورٹنگ کرتے وقت آپ کوئی بات بھی خود سے خبر میں شامل نہیں کرسکتے‘ خبر ہمیشہ من و عن شائع ہوگی۔اسی طرح جب عملی صحافت میں آئے تو ایڈیٹرز نے کسی کی بھی سائیڈ لینے اور شخصیت پرستی سے منع کیا اور بتایا کہ ایک رپورٹر ہمیشہ نیوٹرل ہوتا ہے۔وقت تبدیل ہوتا گیا اور بہت کچھ ہم نے خود مشاہدہ کی۔ میڈیا سے وابستہ کچھ لوگوں کو دیکھا جنہوں نے اعلانیہ سیاسی جماعتیں جوائن کر لیں۔ اگر وہ صحافت چھوڑ کر ایسا کریں تو مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں لیکن میڈیا میں رہ کر سیاست کرنے پر مجھے اعتراض ہے۔پی ایف یو جے کے چارٹر کے مطابق‘ صحافی وہ ہے جس کا ذریعہ معاش صرف صحافت ہوتا ہے۔ اس تعریف کے مطابق این جی اوز والا، سیاسی جماعتوں کا مشیر یا ان کا میڈیا سیل چلانے والا یا حکومتی اداروں کا تنخواہ دار یا ان کا ایڈوائزر یا عہدے دار صحافی نہیں ہو سکتا۔ جس نے ایکٹیوازم کرنا ہے وہ میڈیا سے الگ ہو جائے اور شوق سے جو کرنا چاہے‘ کرے۔
اب ہو یہ رہا ہے کہ ہر کسی کو صحافت کا شوق چرایا ہوا ہے‘ سیاسی جماعتوں نے اپنے میڈیا سیل بنا رکھے ہیں جہاں جعلی لوگ اصلی صحافیوں کو صحافت پڑھانے کی کوشش کررہے ہیں۔یہ سیل ٹویٹر‘ فیس بک‘ یوٹیوب گروپس اور ویب سائٹس چلا رہے ہیں جہاں سیاسی و نظریاتی مخالفین کے خلاف مخرب الاخلاق مہمات چلائی جاتی ہیں۔کچھ سابقہ صحافی بھی ان سیلز کا حصہ ہیں جس سے اس شعبے کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔ اس وقت سوشل میڈیا پر منظم طور پر ٹرولز ٹیمیں کام کررہی ہیں جو باقاعدہ طور پر ٹرینڈز سیٹ کرتی ہیں جن میں زیادہ تر مخرب الاخلاق ٹرینڈز ہی ہوتے ہیں۔ اس ساری ایکسرسائز میں کچھ پاکستان سے تو کچھ باہر کے ممالک سے افرادشریک ہوتے ہیں اور ملکی شخصیات کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔نہ صرف ان منظم ٹیموں بلکہ ان کو فنڈنگ دینے والوں کے خلاف بھی مکمل تحقیقات کرکے کارروائی ہونی چاہیے۔ طالع آزمائوں اور جمہوری آمروں نے اخبارات اور چینلز پر کاری ضربیں لگائیں لیکن مالکان‘ ایڈیٹرز‘ صحافیوں اور ورکرز نے ڈٹ کر ان کا مقابلہ کیا اور صحافت کا سفر جاری رہا؛تاہم جب سے سوشل میڈیا پاکستان میں متحرک ہوا ہے کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے۔ لوگ ایک دوسرے کی عزتیں پامال کرکے پھر آزادیٔ صحافت اور آزادیٔ اظہارِ رائے کی چھتری تلے پناہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ''لنک پر کلک کریں‘‘ کے کلچر نے اخلاقیات کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دی ہیں۔ جب سے یوٹیوب اور فیس بک جیسے سوشل میڈیا فورمز نے پیسے دینا شروع کیے ہیں‘ بندر کے ہاتھ استرا آنے والی مثال سمجھ میں آ گئی ہے۔ لوگوں نے اخلاق باختہ مواد سے اکائونٹس کی مونیٹائزیشن کروائی۔ چونکہ یہ سب مواد اردو میں اَپ لوڈ ہوتا ہے‘ اس لیے متعلقہ فورمز بھی ان کے خلاف اس تیزی سے حرکت میں نہیں آتے، اگر یہ سب کچھ انگریزی میں ہو تو فیس بک اور یوٹیوب وغیرہ خود ہی ایسے اکائونٹس بلاک کر دیں۔ ہمارے ملک میں تمام منفی مہمات اردو زبان میں چلائی جاتی ہیں اس لئے یہ اکائونٹس رپورٹ بھی نہیں ہو پاتے۔
جس کا دل کرتا ہے‘ خواتین‘ خواہ وہ سیاست سے وابستہ ہوں‘ شوبز سے ہوں یا صحافی ہوں‘ کی کردار کشی شروع کر دیتا ہے۔ عمومی طور پر یہ سب کچھ فیک آئی ڈیز کے ذریعے کیا جاتا ہے لیکن ان کے ہینڈلر تو حقیقی ہوتے ہیں‘ ان کو پکڑ کر نشانِ عبرت بنایا جانا چاہیے۔ کسی کی بہن‘ بیٹیوں یا خواتین پر بات کرنا‘ کم از کم میرے نزدیک یہ آزادیٔ رائے یا آزادیٔ صحافت نہیں ہے۔ شرپسند لوگ عوام کی عزتیں پامال کر رہے ہیں اور حکومت‘ ایف آئی اے‘ سائبر کرائم ونگز خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ اس سب کا تدارک کیسے ہو گا؟ خواتین کیلئے خصوصی طور پر ایسی سہولت میسر کی جانی چاہیے جہاں وہ آن لائن شکایات درج کرا سکیں‘ ان کو دفاتر کے چکر نہ کاٹنا پڑیں۔
کسی کے کام پر تنقید کریں‘ کارکردگی کو ہدفِ تنقید بنائیں لیکن اس کی کردار کشی مت کریں‘ اس کے خاندان کو بیچ میں مت لائیں۔ یہ صحافت ہے نہ ہی سیاست، اور نہ ہی یہ ایکٹیوازم ہے۔ ہر شخص کی حدود ہیں‘ بہتر ہے کہ سب اپنی اخلاقی‘ سماجی اور مذہبی حدود کی پاسداری کریں اور ایک دوسرے کی نجی زندگیوں کا احترام کریں۔ حکومت کو ان لوگوں کے خلاف سخت کارروائی کرنی چاہیے جو میڈیا سوشل پر مرد و خواتین کی کردار کشی میں ملوث ہیں تاکہ چند پیسوں کی خاطر لوگوں کی عزتیں اچھالنے کا دھندہ بند ہو سکے۔ آج عوام کی اکثریت اس معاملے پر خاموش ہے‘ یاد رکھیں یہی لوگ کل آپ پر بھی حملہ آور ہوں گے، ہراسانی کے خلاف آواز بلند کریں، تشدد کسی بھی صورت میں قابلِ مذمت ہے۔