کتاب ’’بمبار مافیا ‘‘ ۔۔۔۔۔ صہیب مرغوب

Bombar mafia.jpg
کہانی کار میلکم کلاڈ ویل کی نئی کتاب ’’بمبار مافیا ‘‘ کی اشاعت رکوانے کی بہت کوشش کی گئی لیکن کتاب منظر عام پر آ ہی گئی ، کئی اداروں نے اسے بیسٹ سیلر بھی قرار دے دیا ہے۔یہ کتاب پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں دشمنوں کا خون پانی کی طرح بہانے والے امریکی اور جرمن فوجیوں کے گھومتی ہے۔ کتاب میں وہ جنگی اخلاقیات پر بحث کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ’’17جون 1917ء کا دن فراموش کرنا ناممکن ہے جب جرمن طیاروں نے اپر نارتھ سکول کی عمارت پر بم گرائے ۔ 18بچوسں کے ننھے ننھے تابوتوں کو دیکھ کر پورے ملک پر سوگ طاری ہو گیا تھا اسی سے لوگوں کو اندازہ ہونے لگا تھا کہ نئی دنیا کسی ہو گی، ہر جنگ میں صرف بچے ہی پہلا نشانہ بنیں گے‘‘۔
مصنف کے بقول ’’1932ء میں کہے گئے سابق وزیر اعظم یو کے سٹینلے بالڈون کے یہ الفاظ کون بھول سکتا ہے کہ ’’اگر ہم خود زندہ رہنا چاہتے ہیں تو دشمنوں کے زیادہ سے زیادہ بچوں اور خواتین کو ہلاک کردنیا چاہئے ،ان کی موت ہی ہماری زندگی ہے‘‘ ۔
میلکم لکھتا ہے کہ ....’’امریکہ نے اگرچہ جاپان اور جرمنی کے اندر تک ہر شے کو نیست و نابود کرنے والے طیارے بنا لئے تھے ، امریکہ پائلٹس عسکری ٹھکانوں اور شہری تنصیبات میں بھی تمیز کر سکتے تھے ، لیکن اس کے باوجود کچھ افسران دشمنوں کے بچوں اور خواتین سمیت ہر شے کو نشانہ بنانے کی ہدایت کرتے رہے ۔ اس قسم کی فضائیہ کو ’’بمبار مافیا ‘‘ کے سوا اور کیا نام دیا جا سکتا ہے ۔وہ لکھتا ہے کہ ’’یہ فوج مافیا سے کم نہ تھی۔انسانی جانوں سے کھیلنے والا مافیا، بم گرانے والا مافیا‘‘۔وہ کہتا ہے کہ ’’اس گناہ پر کوئی بات نہیں کرتا جب حریفوں کو جھکانے کے لئے سکولوں، کالجوں اور صحت عامہ کے مراکز بھی راکھ کا ڈھیر بنا دیئے گئے تھے‘‘۔
میلکم کلاڈویل دو امریکی فوجی افسروں کے سہارے بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے لکھتا ہے کہ ’’ الباماکی فوجی تربیت گاہ میں دو عسکری ذہن پروان چڑھے ۔ایک سوچ دشمن کی نسل کو مٹانے کے درپے تھی اور دوسری سوچ کے حامل افسران کے نزدیک عسکری ٹھکانوں کے علاوہ کسی بھی سول مقام پر بم گرانا غیر انسانی فعل ہے۔ اچھی سوچ کے حامل افسران جنگ میں ہار جاتے ، کیونکہ جنگ چھڑتے ہی اخلاقیات کا جنازہ نکل جاتا ہے۔دوسری جنگ عظیم کے دوران اس سوچ کی نمائندگی فوجی افسر ہے ووڈنسل (Haywood Hansell)کر رہے تھے ۔جب انگلینڈ میں امریکی فوج کی کمان ہے ووڈ ہینسل نے سنبھالی تو انہوں نے صرف جرمن فوج کی سپلائی لائنز اور صنعتوں کو نشانہ بنایا ۔بقول مصنف ’’انہوں نے کہا کہ خراب موسم کے باعث جنگی ٹھکانوں پر حملہ نہیں کر سکا ۔ انہوں نے نیپام بموں کی اندھا دھند بارش کرنے سے بھی انکار کردیا۔جس پر ان کی تقرری ماریانہ آئی لینڈ کر دی گئی۔(انہوں نے وہاں بھی شہری علاقوں کو نشانہ بنانے سے گریز کیا)۔ ان کی جگہ 1944ء میں جنرل کرٹس لیمے (Curtis Lemay) کوبھیج دیا گیا ۔جنرل کرٹس نے ’’بمبار مافیا‘‘ کا روپ دھار لیا، ٹوکیو سمیت 67جاپانی شہروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ صرف ایک دن میں 1665ٹن نیپام بم گرائے گئے ۔ٹوکیو کے 16کلومیٹر رقبے میں آگ بھڑک رہے تھی، انسانی تاریخ کی اس بد ترین آگ ، جس میں چھ گھنٹے کے دوران 1لاکھ جاپانی جل کر کوئلہ ہو گئے تھے۔ یو ایس ایئر کور نے جاپانی شہر ماریانہ آئی لینڈپر مسلسل 55روز تک فضائی حملے کئے ۔ وہ شیطانی کھیل کھیل رہے تھے اور سمجھ رہے تھے کہ اسی کھیل سے اچھائی (ہتھیار پھینکنا ) برآمد ہو گی۔یہ حملے ہتھیار پھینکنے تک جاری رہے ۔ایٹمی حملہ دراصل اضافی تھا ورنہ جاپان کی اینٹ سے انیٹ تو پہلے ہی بجا دی گئی تھی‘‘۔
ایک پائلٹ کہتاہے کہ جب میں جب نے نیچے دیکھا تو لگا کہ جہنم یہی ہے‘۔بچوں کے جلنے کی بدبو اس قدر تھی 5 ہزار فٹ بلندی پر بھی ناک پھٹی جا رہی تھی ۔ایک جنرل نے لیمے کو کہتے ہوئے سنا تھا ، ’’سب کچھ راکھ کا ڈھیر تھا.. .... وہ، وہ،وہ،وہ .....کچھ بھی سلامت نہ بچا۔جنرل لیمے کا تصور تھا کہ آگے بڑھو، جو سامنے آئے تباہ کردو۔ان کی نظریں جنگی اخلاقیات پر نہیں بلکہ جنگی امکانات پر مرکوز تھیں۔
جرمنی کا ریاستی دارالحکومت ڈریسڈن اپنے دور کا گنجان آباد شہر تھا ، دوسری جنگ عظم کے دوران شہر کا مرکزی حصہ کھنڈر بن چکا تھا۔ 25 ہزار افراد مارے گئے تھے۔ ڈریسڈن (Dresden) پر تباہ کن بمباری کرنے والا بھی وہی تھا۔انہوں نے بال بیئرنگ فیکٹری کوتباہ کرکے جرمنی کی اسلحہ سازی کو بریکیں لگا دی تھیں۔ اسے دنیا ’’شیون فرٹ مشن ‘‘ (Schweifut) کے نام سے جانتی ہے۔ انہوں نے جنگ ویت نام کا حوالہ بھی ہمارے سامنے ہے جنرل ہیرلڈ نے 1968ء میں ویت نام کو پتھر کے زمانے میں پہنچا دیا تھا‘‘۔
۔1930ء میں جدید جنگی تیاری کے ساتھ ا مریکہ جان گیا تھا کہ ان کو اب مستقبل کے ہتھیار مل گئے ہیں۔کیا وہ سچے تھے؟ میلکم گلاڈویل کے مطابق یہ لڑکا طیارے بی۔29 اور اس کی جدید قسمیں تھیں،بی ۔ 29 تیس ہزار فٹ کی بلندی سے بھی درست نشانہ لگا سکتا ہے۔جبکہ دیگر کا خیال تھا کہ ان طیاروں کے ذریعے کی گئی بمباری سے مکانات تباہ کئے گئے تھے۔کیونکہ بم زمین پر گرنے میں اگر20 سیکنڈ بھی لے لے تو جہاز 25فٹ آگے جا چکا ہوتا تھا۔یہ طیارے اتنے بھی محفوظ نہ تھے۔ کیونکہ 1943ء میں ان طیاروں کو بھی گرا لیا گیا تھا اور 25فیصد پائلٹ کبھی واپس نہیں آئے ۔
یہ کتاب ایک ایسے وقت میں منظرعام پر آئی ہے جب دنیا 62سے زائد فلسطینی بچوں کی شہادت کا سوگ منا رہی ہے اور آئر لینڈ نے تو اپنی قرارداد کے ذریعے اسرائیل کو غاصب ملک بھی قرارد ے دیا ہے۔