بلاول بھٹو اور سندھ کارڈ ۔۔۔۔ عمران یعقوب خان

''آج ایک نہیں دو پاکستان ہیں، ملک میں دوغلا نظام چل رہا ہے، وزیراعظم اور ان کی بہن پر الزام لگے تو کچھ نہ ہو، سابق صدر کی بہن پر الزام لگے تو ہسپتال سے گھسیٹ کر جیل لے جایا جاتا ہے، رائے ونڈ کے وزیراعظم کو مجرم قرار دئیے جانے کے باوجود بیرون ملک بھیج دیا جاتا ہے، نواب شاہ کے صدر پر جھوٹا الزام لگے تو3 سال تک طبی بنیاد پر ضمانت پر ہو اور اپنے ملک میں قید کی زندگی گزارے، اپوزیشن لیڈر پنجاب کا ہو تو ضمانت مل جاتی ہے، سکھر کے قائدِ حزب اختلاف کو جیل میں ڈال دیا گیا‘‘
یہ ہیں وہ چند باتیں جو چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی جناب بلاول بھٹو زرداری نے جمعہ کے روز پریس کانفرنس کے دوران کیں۔ اس پریس کانفرنس کے دوران بلاول بھٹو بڑے جارحانہ موڈ میں نظر آئے اور کیا حکومت، کیا ن لیگ، سب کی خوب خبر لی۔ بلاول بھٹو کی ساری گفتگو سنتے اور ان کی باڈی لینگویج دیکھتے ہوئے مجھے محسوس ہوا کہ وہ آئندہ انتخابات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے انتخابی مہم کا آغاز کر رہے ہوں‘ اور خاص طور پر ایک ایسی انتخابی مہم جس میں ان کا ٹارگٹ صرف سندھ کے عوام ہوں۔ بلاول بھٹو اپنے نانا ذوالفقار علی بھٹو، اپنی والدہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید حتیٰ کہ اپنے والد محترم آصف علی زرداری کی سیاست کے برعکس سندھ کارڈ کا استعمال کرتے نظر آئے۔
پیپلز پارٹی کے جیالوں کے لئے تو کل بھی بھٹو زندہ تھا‘ آج بھی بھٹو زندہ ہے اور کل بھی بھٹو زندہ رہے گا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بھٹو محدود ہوتا جا رہا ہے؟ روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ دے کر ڈرائنگ روم سے سیاست کو گلی محلوں میں لانے والے عوامی وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی جماعت پیپلز پارٹی سیاسی منظرنامے پر ہمیشہ اہمیت کی حامل رہی ہے۔ ان کی صاحبزادی اور پاکستان کی سابق وزیراعظم شہید بے نظیر بھٹو بھی چاروں صوبوں کی زنجیر رہی ہیں۔ اب چاروں صوبوں کی یہ زنجیر ایک صوبے میں سکڑتی نظر آرہی ہے اور وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب تحریکِ انصاف کی حکومت کو معاشی چیلنجز، مہنگائی اور کورونا کی وبا سے نمٹنے کا امتحان درپیش ہے، اور وہ اپوزیشن کے ساتھ محاذ آرائی سے بھی پیچھے نہیں ہٹ رہی۔ عمران خان پہلے دن سے اپنے ایک مؤقف پرقائم ہیں کہ اپوزیشن کو این آر او نہیں دیں گے۔ اپوزیشن بھی کچھ عرصہ پہلے تک وزیراعظم کواین آر او نہ دینے کے دعوے کررہی تھی۔ ایسا تب تھا جب پی ڈی ایم کے نام سے بنے سیاسی اتحاد میں پیپلز پارٹی بھی شامل تھی۔ صورتحال یہ ہے کہ پی ڈی ایم موجود ہے‘ حکومت مخالف سیاست بھی کررہی ہے۔ 14 اگست تک کب کب کہاں کہاں احتجاج کرنا ہے اس لائحہ عمل کا اعلان بھی کیا جا چکا ہے لیکن اس منظرنامے میں پیپلز پارٹی نظر نہیں آرہی۔ 'سینیٹ میں قائدِ حزب اختلاف کس جماعت کا ہوگا‘ یہاں سے شروع ہونے والی چپقلش نے اپوزیشن جماعتوں کو آمنے سامنے لاکھڑا کیا۔ اسمبلیوں سے استعفے دینے کی بات ہوئی تو اس بات کا خدشہ ظاہر کیا گیا کہ پیپلزپارٹی سندھ حکومت نہیں چھوڑے گی۔ پیپلزپارٹی نے استعفے دینے تھے نہ دئیے۔ اب باقی اپوزیشن جماعتیں بھی استعفے نہیں دے رہیں۔ بلاول بھٹو زرداری ہوں یا ان کی جماعت کے رہنما، اکثر مسلم لیگ ن اور جمعیت علمائے اسلام سمیت پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں سے یہی سوال کرتے ہیں کہ ہم تو الگ ہو چکے آپ نے اب تک استعفے کیوں نہیں دئیے؟ اس کے ساتھ وہ احتساب کے نظام پر بھی سوال اٹھاتے نظر آتے ہیں۔ نوازشریف علاج کے لئے بیرون ملک کیسے گئے اور اب تک واپس کیوں نہیں آئے؟ آصف زرداری بھی بیمار ہیں لیکن وہ تو علاج کے لئے باہر نہیں جا سکے۔ قومی اسمبلی میں قائدِ حزب اختلاف شہبازشریف کوضمانت مل جاتی ہے توخورشید شاہ کواب تک کیوں نہیں مل سکی؟ وہ حکومت سے بھی یہ سوال کرتے ہیں اور مسلم لیگ ن سے بھی۔ ایسی ہی کچھ بات پی ڈی ایم کے اس آخری اجلاس میں ہوئی تھی جہاں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن آمنے سامنے آئے تھیں۔ اس وقت مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف کوکہا گیا تھاکہ لڑائی کرنے کے لئے پاکستان آئیں۔ اس بات پر ن لیگ والے بھڑک اٹھے تھے۔ اس ساری صورتحال میں پیپلز پارٹی اپنے مؤقف کو درست سمجھتی ہے کہ نواز شریف کو حکومت کے خلاف لڑائی کیلئے پاکستان آنا چاہئے۔ اسمبلیوں میں رہتے ہوئے وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدارکو ہٹانے کے لئے عدم اعتمادکی راہ بھی اپنانی چاہئے۔ سیاسی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو پیپلز پارٹی کا مؤقف کچھ غلط نہیں تاہم کل تک ان کی حلیف اپوزیشن جماعتیں اسی سیاست پرسوال اٹھا رہی ہیں، مولانا فضل الرحمن تو خاصے نالاں ہیں۔ پیپلزپارٹی کی پی ڈی ایم میں واپسی کے سوال پرتو اکثر نہایت مختصراور روکھا سا جواب ہی ملتا ہے۔ مئی کے آخری ہفتے میں ہونے والے پی ڈی ایم کے اجلاس کے بعد صحافیوں کے اسی قسم کے سوال پر مولانا نے کہاکہ پیپلزپارٹی اوراس کی واپسی اتنی اہم نہیں کہ اجلاس میں اس معاملے پر سوچ بچارکی جائے۔ اسی اجلاس کے بعد مریم نواز نے مولانافضل الرحمن کے مؤقف کی تائید کی تھی۔ پی ڈی ایم میں شامل اپوزیشن جماعتیں یہ سوال بھی اٹھا رہی ہیں کہ عمران خان کے بعد مقتدرہ کے اگلے ''لاڈلے‘‘ بلاول بھٹو ہیں‘ انہوں نے دانستہ طور پر اپوزیشن اتحاد سے علیحدگی اختیار کی تاکہ اس کی قربت حاصل کر سکیں‘ سندھ اور وفاق میں اپنی پوزیشن مضبوط بنائیں۔ تواب صورتحال یوں ہے کہ اپوزیشن ایک طرف حکومت کے ساتھ محاذآرائی کررہی ہے اوردوسری طرف ایک دوسرے پر بھی حملے جاری ہیں۔ اس صورتحال کاتجزیہ کیا جائے تویہ بھی دیکھنا ہوگا کہ پیپلز پارٹی نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ بلاول بھٹو زرداری پیپلزپارٹی کو نہایت عمدگی سے چلا رہے ہیں۔ نوجوان سیاستدان ہیں جوملکی اورعالمی سیاسی منظرنامے کواچھی طرح سمجھتے ہیں۔ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے وہ زیادہ متحرک نظر آئے۔ سندھ توپیپلز پارٹی کاگڑھ ہے لیکن اس سیاسی پلیٹ فارم کے ذریعے بلاول بھٹوکی پیپلز پارٹی کوپنجاب، خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں بھی کھوئی ہوئی مقبولیت واپس ملتی جارہی تھی۔ نظرآ رہاتھا کہ اگربلاول اسی طرح متحرک رہے اوراپنے نظریات سے پیچھے نہ ہٹے توان کی پارٹی سے ناراض ووٹر ان کی شخصیت کی ''کشش‘‘ سے واپس پیپلز پارٹی کی طرف آئے گا۔ سیاسی امور پرگہری نظر رکھنے والے بھی بلاول بھٹو اور مریم نوازکو ملک کے آنے والے برسوں میں اہم سیاسی رہنما کے طور پر دیکھ رہے تھے۔ مریم نواز اپنے بیانیہ کے ساتھ اپنی مقبولیت کا گراف قائم رکھے ہوئے ہیں تاہم پی ڈی ایم سے علیحدگی کے بعد بلاول بھٹو زرداری پھر واپس سندھ تک محدود ہوچکے ہیں۔ بلاول نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہاکہ وہ حکومت گرانے کیلئے کہیں نہیں جا رہے عوام کی طاقت پر یقین رکھتے ہیں‘ الیکشن ہوں توعوام لات مارکر حکومت کو گرادیں گے۔ بلاول بھٹو درست کہتے ہیں۔ کیا انہیں یقین ہے کہ عوام انہیں کچھ نہیں کہیں گے۔ سیاسی منظرنامے میں بظاہرکسی اپوزیشن جماعت نے کچھ نہیں پایا۔ حکومت اپنی تمامتر مشکلات کے ساتھ اپنی جگہ موجود ہے تاہم پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں نے کچھ کھویا بھی نہیں۔ حکومت مخالف محاذ کھلا ہے اور اس پرگولہ باری جاری ہے۔ بظاہر توپیپلز پارٹی نے بھی کچھ نہیں کھویا سندھ اس کے پاس ہے۔ اگلے الیکشن میں اپنی ''کارکردگی‘‘پر دوبارہ عوام سے مقبولیت کی سند پانے کے حوالے سے بھی پُرامید ہے تاہم اس ساری صورتحال میں بلاول بھٹو جیسا نوجوان اور متحرک سیاستدان، وفاق کو چھوڑ کر سندھ کارڈ کا استعمال کرتے ہوئے ایک کونے میں تنہا کھڑا نظر آتا ہے۔
مریم نواز توکہہ چکی کہ مفاہمت تب ہوتی ہے جب مزاحمت ہو۔ ایک طاقت ہی دوسری طاقت سے بات کرتی ہے۔ بلاول بھٹو کو بھی دیکھنا ہوگا‘ سمجھنا ہوگا کہ صوبائی حکومت بچانے کیلئے مفاہمت کی سیاست انہیں مزید محدود تو نہیں کررہی؟ بھٹو زندہ تو رہے گا، مگر مزید محدود تو نہیں ہوجائے گا؟