Results 1 to 4 of 4

Thread: ~ Hadees e Qudsi~

Hybrid View

Previous Post Previous Post   Next Post Next Post
  1. #1
    Join Date
    Feb 2008
    Location
    manchester
    Age
    39
    Posts
    11,319
    Mentioned
    0 Post(s)
    Tagged
    49 Thread(s)
    Rep Power
    21474864

    Default ~ Hadees e Qudsi~

    بسم اﷲ الرحمن الرحیم
    ” حدیث قدسی“
    تحریر: مفتی عتیق الرھمٰن شہید
    حدیث قدسی احادیث طیبہ کی ایک خاص قسم ہے جو نبی کریم صلی اﷲعلیہ وسلم سے اس طرح روایت کی جاتی ہے کہ آپ صلی اﷲعلیہ وسلم اسے براہ راست اﷲ رب العزت کی طرف منسوب کرکے بیان فرماتے ہیں ۔اور یہ نسبت الٰہیہ ان احادیث طیبہ میں ایک خاص قسم کا تقدس پیداکردیتی ہے جس کی وجہ سے یہ احادیث ”احادیث قدسیہ “ کہلاتی ہیں ۔انہیں احادیث الٰہیہ یااحادیث ربانیہ بھی کہاجاتاہے ۔
    حدیث قدسی کی متقدمین ومتأخرین علماءنے اپنے اپنے دور میں مختلف تعریفات بیان فرمائی ہیں ۔متقدمین علماءمیں سید علی جرجانی رحمۃ اﷲ علیہ (متوفی816ھ ) نے اپنی مشہورزمانہ تصنیف ”کتاب التعریفات“ میں حدیث قدسی کی تعریف کرتے ہوئے لکھاہے :
    ”حدیث قدسی معنی کے لحاظ سے اﷲ رب العزت کی طرف سے اور الفاظ کے لحاظ سے رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم کی طرف سے ہوتی ہے ۔پس یہ وہ کلام ہے جسے اﷲ تعالیٰ اپنے نبی علیہ السلام کو الہام یاخواب کے ذریعے بتائیں ۔ پھر آپ صلی اﷲعلیہ وسلم اپنے الفاظ میں اسے بیان فرمائیں ۔قرآن کریم کی فضیلت اس کے مقابلے میں اپنی جگہ پر مسلم ہے۔اس لئے کہ اس کے الفاظ بھی اﷲ تعالیٰ کے نازل کردہ ہوتے ہیں ۔“
    (کتاب التعریفات صفحہ 83-84)
    علماءمتأخرین میں سے احناف کے مایہ ناز محدث اور فقیہ ملا علی القاری رحمۃ اﷲ اپنی تالیف ”الاحادیث القدسیۃ الاربعینیۃ“ کے مقدمہ میں فرماتے ہیں :
    ”حدیث قدسی وہ ہے جسے صدرالروایات وبدرالثقات صلی اﷲعلیہ وسلم اﷲ تعالیٰ سے روایت کریں ۔کبھی جبرائیل علیہ السلام کے واسطہ سے اور کبھی وحی ،الہام یاخواب کے ذریعہ۔اس کی تعبیر آپ ﷺ کی مرضی پر منحصر ہوتی تھی ،جن الفاظ سے چاہیںتعبیر فرمادیں۔ وہ قرآن مجید اور فرقان حمید سے متغیر ہوتی ہے ۔قرآن کریم روح الامین کے واسطہ کے بغیر نازل نہیں ہوتا اورانہی متعین الفاظ کے ساتھ نقل کیا جاتاہے جو لوح محفوظ سے نازل کئے گئے اورہر طبقہ اورزمانہ میں متواتر منقول ہوتاہے“۔
    چنانچہ اس سے علماءکرام نے بہت سے فرعی احکام مستنبط کئے ہیں کہ” احادیث قدسیہ کی قرأت سے نماز صحیح نہیں ہوتی ۔جنبی حائض اور نفساءکے لئے احادیث قدسیہ کاچھونا حرام نہیں ہے ۔ان کا منکر کافر بھی نہیں ہے اورنہ ہی ان سے اعجاز متعلق ہے ۔“(الاحادیث القدسیہ الاربعینیہ صفحہ۲)
    علاوہ ازیں حسین بن محمد الطیبی(م ۔ 473ھ) شارح مشکوة ۔ محمد بن یوسف الکرمانی (م۔786ھ) شارح البخاری ۔ ابن حجر الہیثمی (م۔974ھ)۔ شارح الاربعین النوویہ اور محمد بن علان الصدیقی الشافعی (م۔1057ھ) ۔ شارح ریاض الصالحین وغیرہ نے بھی احادیث قدسیہ کے بارے میں اس سے ملتی جلتی آراءکا اظہار کیاہے جس کی تفصیل مندرجہ ذیل کتب میں دیکھی جاسکتی ہے :
    1۔ الاحادیث القدسیۃ (المجلس الاعلیٰ للشؤن الاسلامیۃ )صفحہ 5-6-7 ج 1
    2۔ دلیل الفالحین (محمد بن علان الصدیقی الشافعی ) صفحہ 74۔201 ج 1
    3۔ الاحادیث القدسیۃ ومنزلتہا فی التشریح صفحہ 28(الدکتور شعبان محمد اسماعیل)
    متقدمین ومتأخرین علماءکی آراءاوروضاحتوں کے پیش نظر حدیث قدسی کے معنی کی وضاحت کے لئے مندرجہ ذیل چار امور پیش نظر رہنے چاہئیں:

    1۔ حدیث قدسی اور عام حدیث نبوی میں فرق :

    عام حدیث نبوی کی سند رسول اﷲصلی اﷲعلیہ وسلم پر ختم ہوجاتی ہے جبکہ حدیث قدسی کی سند اﷲ جل شانہ تک پہنچتی ہے اور عموماً متکلم کی ضمیر استعمال ہوتی ہے۔ جیسے تحریم ظلم کی حدیث :
    یاعبادی انی حرمت الظلم علی نفسی وجعلتہ بینکم محرما فلا تظالموا ۔
    لیکن اس سے عام حدیث نبوی کے منجانب اﷲ ہونے کی نفی لازم نہیں آتی ۔اس لئے کہ آپ صلی اﷲعلیہ وسلم کا ہر کلام اﷲ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہوتاہے ۔قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : وماینطق عن الھویٰ o ان ہو الاوحی یوحیٰ o ”وہ (نبی ) اپنی خواہش سے نہیں بولتے بلکہ وہ جوکچھ بھی کہتے ہیں اﷲ کی طرف سے وحی کیا ہواہوتاہے ۔“

    2۔ حدیث قدسی اور قرآن کریم کے درمیان فرق:

    قرآن کریم ہر دور میں تواتر قطعی کے ساتھ منقول ہوتا چلا آیا ہے جبکہ احادیث قدسیہ روایت آحاد کے ساتھ منقول ومروی ہوتی ہیں ۔احادیث قدسیہ پر روایت حدیث کے تمام قواعد وضوابط کا اجراءہوتاہے اور انہیں صحیح ،حسن ،ضعیف بلکہ موضوع تک قرار دیا جاسکتاہے جبکہ قرآن کریم پر یہ اصطلاحات چسپاں نہیں کی جاسکتیں ۔ قرآن کریم کو آیتوں اور سورتوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔اس کی روایت بالمعنیٰ جائز نہیں ہے۔ اس کے ہر حرف پر دس نیکیاں ملتی ہیں ۔اس کے حافظ کو جنت میں آیات قرآنیہ کے برابر درجات ملیں گے ۔حافظ قرآن کے والد کو سورج سے زیادہ روشن اور چمکدار تاج پہنایاجائے گا۔اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کسی بھی قسم کے تغیر وتبدل سے حفاظت کی ذمہ داری لی ہے۔قرأت قرآن کریم کے بغیر نماز ادا نہیں ہوسکتی جبکہ احادیث قدسیہ کے لئے ان میں سے کوئی بات بھی ثابت نہیں ہے۔

    3۔احادیث قدسیہ کے الفاظ ومعانی کے بارے میں علماءکرام کی دو رائے ہیں :

    (الف) الفاظ ومعانی دونوں اﷲ رب العزت کی طرف سے ہیں کیونکہ ان کے الفاظ ا ﷲ رب العزت کی طرف منسوب کرکے نقل کئے جاتے ہیں ۔ان کے نام میں ”قدسیہ “،”الٰہیہ“ یا”ربانیہ“ کا اضافہ اور متکلم کاصیغہ بھی اسی کی طرف مشیر ہے۔
    (ب) معنی تو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ہیں مگر الفاظ اور تعبیر رسول اکرم صلی اﷲعلیہ وسلم کی ہے۔اسی وجہ سے احادیث قدسیہ کے الفاظ سے اعجاز متعلق نہیں ہیں اور ان کی روایت میں بھی اختلاف کی گنجائش ہے۔اس میں روایت بالمعنٰی بھی جائز ہے۔

    خلاصہ کی بات یہ ہے کہ حدیث قدسی کے الفاظ کو تواتر کامقام حاصل نہیں ہے اور نہ ہی اس کے الفاظ میں اعجاز ہے اور نہ ہی اس کے تغیر وتبدل سے حفاظت کی ربانی ذمہ داری ہے ۔لہٰذا اس کے الفاظ اگر اﷲ تعالیٰ کی طرف سے وحی یا الہام یاخواب کے ذریعہ تسلیم کرلئے جائیںتب بھی ”الفاظ قرآنیہ “کا امتیاز اپنی جگہ برقرار رہتاہے۔
    4۔حدیث قدسی کی روایت کی دوصورتیں علماءکرام نے بیان فرمائی ہیں :

    (الف) پہلی صورت جسے افضل ترین صورت قرار دیاگیا ہے اور وہ یہ کہ حدیث قدسی کاراوی اسے ان الفاظ سے نقل کرے:یقول النبی صلی اﷲ علیہ وسلم فیما یرویہ عن ربہ عزوجل(نبی کریم صلی اﷲعلیہ وسلم اﷲ تعالیٰ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں )۔
    (ب) دوسری صورت یہ ہے کہ راوی یوں کہے :قال اﷲ تعالیٰ فیما رواہ عنہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ( اﷲ تعالیٰ نے فرمایا جو کہ رسول اﷲ ﷺ نے ان سے روایت کیا)۔
    لیکن ذخیرئہ حدیث میں غور کیا جائے تو ان دوصورتوں کے علاوہ کچھ مزید صورتیں بھی ملتی ہیں :
    (الف ) حدیث قدسی کے شروع میں یہ الفاظ ہوں :قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم قال اﷲ تعالیٰ(رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا)پھر اس کے بعد حدیث مذکور ہو اوریہ تعبیر آپ کو اکثر احادیث قدسیہ کی روایت میں ملے گی۔
    (ب) حدیث شریف میں اﷲ تعالیٰ کاکلام ”قول “ کے علاوہ کسی دوسرے لفظ سے تعبیر کرکے ذکر کیا جائے ۔ جیسا کہ مسلم شریف کی حدیث میں ہے ” لما قضی اﷲ الخلق کتب فی کتابہ علی نفسہ فہو موضوع عندہ:ان رحمتی تغلب غضبی“۔عبارت کامتکلم کے صیغہ سے مذکور ہونا قطعی دلیل ہے اﷲ تعالیٰ کا کلام ہونے کی ۔
    (ج) حدیث اول سے آخر تک قدسی نہ ہو بلکہ اس کاکوئی جز ءاﷲ تعالیٰ کی طرف منسوب ہورہاہو۔جیسا کہ نسائی کی روایت میں ہے: یعجب ربک من راعی غنم فی راس شظیۃ الجبل یؤذن بالصلوۃ ویصلی فیقول اﷲ عزوجل :انظرو الی عبدی ھذا .... الحدیث
    (د) حدیث قدسی کا ٹکڑا پوری حدیث کے ضمن میں مذکور ہو لیکن صراحۃً اﷲ تعالیٰ کی طرف منسوب نہ ہو بلکہ سیاق وسباق سے اس کی نسبت سمجھ میں آتی ہو ۔جیساکہ مسلم شریف کی حدیث میں ہے : ”قال صلی اﷲ علیہ وسلم تفتح ابواب الجنۃ یوم الاثنین ویوم الخمیس فیغفر لکل عبد لایشرک باﷲ شیئا الارجلا کانت بینہ وبین اخیہ شحناءفیقال :انظروا ھذین حتی یصطلحا “۔ اس حدیث شریف میں ”یقال “ کے مجہول صیغہ کے باوجود سیاق کلام اس بات پر دلالت کرتاہے کہ یہ اﷲ تعالیٰ کاقول ہے اور اس کی تائید ”فیغفر “ کے مجہول صیغہ سے بھی ہوتی ہے کیونکہ مغفرت اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی دوسرا نہیں کرسکتا ۔
    مذکورہ بالا تمام صورتیں اﷲ تعالیٰ کی طرف نسبت کے موجود ہونے کی بناءپر ”وصف قدسیہ“کے ساتھ متصف ہوں گی

  2. #2
    Join Date
    Feb 2008
    Posts
    4,000
    Mentioned
    0 Post(s)
    Tagged
    31 Thread(s)
    Rep Power
    21474857

    Default Re: ~ Hadees e Qudsi~

    very infomative sharing

    Jazak Allah

  3. #3
    Join Date
    Feb 2008
    Posts
    2,337
    Mentioned
    0 Post(s)
    Tagged
    31 Thread(s)
    Rep Power
    21474855

    Default Re: ~ Hadees e Qudsi~

    Jazak Allah

  4. #4
    Join Date
    Feb 2008
    Location
    manchester
    Age
    39
    Posts
    11,319
    Mentioned
    0 Post(s)
    Tagged
    49 Thread(s)
    Rep Power
    21474864

    Default Re: ~ Hadees e Qudsi~

    aap sab ka bhi jazakALLAH

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •