صاف چھُپتی بھی نہیں ، سامنے آتی بھی نہیں
ایسی ہی ایک اور دعوت کا ذ کر ہے جس میں چند احباب اور افسرانِ بالا دست مدعو تھے۔ نئے خانساماں نے جو قورمہ پکایا ، اُس میں شوربے کا یہ عالم تھا کہ ناک پکڑ کے غوطے لگائیں تو شاید کوئی بوٹی ہاتھ آ جائے ۔ اکّا دکّا کہیں نظر آ بھی جاتی تو کچھ اس طرح کہ :
صاف چھُپتی بھی نہیں ، سامنے آتی بھی نہیں
اور یہ بسا غنیمت تھا کیوں کہ مہمان کے مُنہ میں پُہنچنے کے بعد ، غالب کے الفاظ میں ، یہ کیفیت تھی کہ :
کھینچتا ہے جس قدر اتنی ہی کھنچتی جائے ہے !
دورانِ ضیافت احباب نے بکمالِ سنجیدگی مشورہ دیا کہ
" ریفریجریٹر خرید لو ۔ روز روز کی جھک جھک سے نجات مل جائے گی ۔ بس ایک دن لذیز کھانا پکوا لو ۔ اور ہفتے بھر ٹھاٹھ سے کھاؤ اور کھلاؤ۔ "
قسطوں پر ریفریجریٹر خریدنے کے بعد ہمیں واقعی بڑا فرق محسوس ہُوا۔ اور وہ فرق یہ ہے کہ پہلے جو بدمزہ کھانا صرف ایک ہی وقت کھاتے تھے ، اب اسے ہفتے بھر کھانا پڑتا ہے ۔
مُشتاق احمد یوسفی "چراغ تلے