اسے اپنے پردہ کی فکر تھی جو میرا واقف حال تھا
وہی اس کی صبح عروج تھی جو میرا وقت زوال تھا
میرا درد کیسے وہ جانتا میری بات کیسے وہ مانتا
وہ تو خود انا کے سفر میں تھا اسے روکنا بھی محال تھا
کہاں جاؤگےمجھے چھوڑکےمیں یہ پوچھ پوچھ کے تھک گیا
وہ جواب بھی نہ دے سکا وہ تو خود سراپا سوال تھا
وہ جو اس کے سامنے آ گیا وھی روشنی میں نہا گیا
عجب ھیبت حسن تھی اس کی اور عجیب رنگ جمال تھا
دم واپسی یہ کیا ھوا نہ وہ روشنی نہ وہ تازگی
وہ ستارہ کیسے بکھر گیا وہ تو آپ اپنی مثال تھا
وہ ملا تو صدیوں کے بعد بھی میرے لب پہ کوئی گلہ نہ تھا
اسے میری چپ نے رلا دیا جسے گفتگو میں کمال تھ