ؤ کچھ دور چلیں

آؤ کچھ دور چلیں
درد کے صحرا سے جہاں
شور ہی شور ہے بس چیختے سنّاٹوں کا
دور تک پھیلا ہے
احساس کا جلتا جنگل
آؤ کچھ بات کریں
یا یُونہی چلتے رہیں
تیری آنکھوں سے رواں ہے
جو روپہلا جھرنا
اُسکی ہر بُوند میری روح کو سیراب کرے
تیری معصوم شرارت کے حسِیں نازک تن
وقت کے ناگ نہ ڈس جائیں
آؤ کچھ دور چلیں
درد کے صحرا سے پرے