علیم الحق حقی کے ناول عشق کا عین سے ایک اقتباس
"ًمحبت کر۔۔۔محبت کے سوا کیا کرسکتا ہے۔اللہ کی غلامی تو فرض ہے۔اس کا حکم بجا لانے میں تو اپنی ہی فلاح ہے۔۔۔ہاں ،محبت اس کے لئے ہے۔سمجھا کچھ۔۔"
"سمجھ تو گیا ابا، پر محبت کی تو نہیں جاتی، ہوجاتی ہے۔"
"ٹھیک کہتا ہے، لیکن محبت بھی بےسبب کبھی نہیں ہوتی۔۔۔کبھی یہ ہمدردی کی وجہ سے ہوتی ہے۔۔۔کبھی اس کا سبب کوئی خواہش ہوتی ہے، کبھی آدمی محبت کی طلب میں محنت کرتا ہے، یہ سوچ کر کہ اسے جواب میں محبت ملے گی اور کبھی آدمی کسی کے احسانات کی وجہ سے محبت کرتا ہے۔۔۔تیرے پاس محبت کا سبب تو موجود ہے۔۔۔۔۔۔محبت کا سامان تو کر۔۔۔۔۔۔"
"کیسے کروں ابا۔"
"ہر وقت خدا کے احسانات یاد کیا کر۔۔۔غور کیا کر کہ ہر سانس خدا کی عنایت ہے۔۔یوں دل میں شکر گزاری پیدا ہوگی۔۔۔۔پھر تو بے بسی محسوس کرئے گا کہ اتنے احسانات کا شکر کیسے ادا کیا جاسکتا ہے۔۔وہ بے بسی تیرے دل میں محبت پیدا کرئے گی۔۔تو سوچے گا کہ مالک نے بغیر کسی غرض کے تجھے اتنا نوازا ، تجھ سے محبت کی۔۔۔۔ تو غور کر کہ اتنی بڑی دنیا میں کروڑوں انسانوں کے بیچ میں تو کتنا حقیر ہے۔۔سینکڑوں کے مجمع میں بھی تیری پہچان نہیں۔۔۔۔۔کوئی تجھ پر دوسری نظر بھی نہیں ڈالے گا۔۔۔۔۔۔۔کسی کو پروا نہیں ہوگی کہ الہٰی بخش بھی ہے لیکن تیرا رب کروڑوں انسانوں کے بیچ بھی تجھے یاد رکھتا ہے، تیری ضرورت پوری کرتا ہے، تیری بہتری سوچتا ہے اور تجھے اہمیت دیتا ہے۔۔۔ ان سب باتوں پر غور کرتا رہے گا تو تیرے دل میں خدا کی محبت پیدا ہوگی اور پھر تجھے خدا سے عشق ہوجائے گا۔"
"لیکن ابا اللہ سے محبت کا طریقہ کیا ہے۔"الہٰی بخش نے پوچھا۔"کیا اس سے یہ کہتا رہوں کہ مجھے تجھ سے محبت ہے۔"
"یہ تو انسانوں سے کہنا پڑتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ وہ کچھ نہیں جانتے لیکن وہ تو سب کچھ جانتا ہے۔۔۔۔۔اس سے دل کا حال چھپا نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔صرف محبت کرتے رہو، وہ جان لے گا۔۔۔ جہاں تک طریقے کا تعلق ہے تو ہم جیسے حقیر بندوں کےلئے اس نے فرمایا ہے کہ مجھ سے محبت کرنی ہے تو میرے بندوں سے محبت کرو۔ یعنی بغیر کسی غرض کے ہر انسان سے صرف اس لئے محبت کرو کہ وہ بھی اللہ کا بندہ ہے۔"