ایمرجنسی سے کارڈیالوجی وارڈ کی راہداری تک وہ ہمیشہ دکھ کی گرفت میں رہتا تھا مگر اس روز وہ اندر سے بلکل خالی تھا بینچ پر بھی وہ ارادہ کر کے نہیں یونہی بیٹھ گیا تھا اور اتنی دیر تک اونگھتا رہا کہ وقت کے تیزی سے گزرنے کا احساس پوری طرح معدوم ہو گیا وہ ٹھیک سے اندازہ نہ کر پایا کہ ایک اسٹریچر کے پوری تیزی سے دھکیلے جانے کے باعث اٹھنے والے شور نے اُسے کتنی دیر بعد بیدار کیا تھا اسٹریچر وارڈ نمبر تھری سے ہی لایا جارہا تھا اُسے غیر معمولی تجسس ہوا کہ وہ اسکا چہرہ دیکھے اس نے چہرہ دیکھا بھی مگر یہ اسکی ماں کا چہرہ ہنہیں تھا وہ الٹے قدموں چلتا بینچ پر ڈھے گیا شاید یہ وہ پہلا روز تھا جب نبیل نے اپنی ماں کی مشکل آسان ہونے کی دُعا کی تھی وہ دعائیں کرتا رہا حتی کے اسکے ہاں اثاثہ سمجھے جانے والے سارے مقدس لفظ معنوں سے خالی ہوگئے۔ ۔ ۔ یوں جیسے اُسے باثروت بنانے والے سارے کرنسی نوٹوں کے مار کے اڑ گئے ہوں زبان کی ڈھیری پر کیڑوں کی طرح کلبلانے اور رینگنے والے یہ لفظ ہونٹوں پر آ کر تیرنے لگتے اور اسی بے خبری میں تالو سے چپک کر بے سدھ ہو جاتے وہ دیکھ رہا تھا مگر مرنے والوں اور انکے ساتھ زندہ در گور رہنے والوں کے بیچ کوئی تمیز نہیں کر پارہا تھا لاشیں اسکے سامنے سے گزرتی تھیں وہ ان پر نظر ڈالتا یہ لاشیں اسے دکھ کے بجائے تسکین دینے لگی تھیں! تسکین نہیں اسکا سا احساس، ملتا جلتا اور الگ سا بھی۔ ۔ ۔ اور یہیں احساس شاید خود اسکے زندہ رہنے کی علامت تھا، وہ سوچ سکتا تھا کہ مرنے والوں کی نہیں بلکہ انتظار کھینچنے والوں کی مشکلیں آسان ہو رہی تھی ایسے میں اسے اپنے اندر سے تعفن اٹھتا ہوا محسوس ہوا اس نے اپنا سارا بدن ٹٹولنے کے لیے ادھیڑ ڈالا بہت اندر گھپ اندھیرے میں دو لاشیں پڑی تھی اُس نے صاف پہچان لیا ان میں سے ایک اسکی اپنی محبت تھی اور دوسری کو دیکھے بغیر منہ پھیر لیا اور پورے خلوص سے رونے کی سعی کی مگر تعفن کا ریلا اسے دکھ سے دور بہت دور بہائے لیے جاتا تھا۔