یہ جینا بھی کوئی جینا ہے
جہلم سے آگے دینہ ہے
اتنا دبلا ہوگیا ہوں صنم تیری جدائی سے
کہ کٹھمل بھی کھینچ لے جاتے ہیں مجھے چارپائی سے
یا الہی ! کیا غضب ہے، خط کا آنا بند ہے
یا محبت کم ہوئی، یا ڈاکخانہ بند ہے
اے راہ رو گزرتی ہوئی ویگنوں کر دیکھ
انسان کی بے وقاریاں بے اختیاریاں
کیا اس میں جھوٹ ہے کہ اسی ایک روٹ پر
مرغا بنی ہوئی ہیں ہزاروں سواریاں
یاالہی تجھے معلوم ہے نہیں دیکھ سکتا اپنی بیوی کا بیوہ ہونا
وہ جو مر سکتی ہے میرے لیئے مجھے منظور اس کی خاطر رنڈوا ہونا
بسوں میں، کوچوں میں، ویگنوں میں
بے حسوں کو ہمسفر ساتھ پایا
جن کو مردانگی کا دعوی تھا
ان کو بھی لیڈیز سیٹ پر پایا
آدمی آدمی کو ڈس رہا ہے
سانپ سامنے بیٹھا ہنس رہا ہے
موڑ موڑا، موشن توڑا، باڈی توڑا
ایکسل توڑا، سیٹھ کے پاس گیا
نوکری چھوڑا، گھر گیا، بھائی نے مارا
میرے محبوب کا نداز جہاں میں سب سے نرالا ہے
ادائیں ہیں بہت شوخ مگر ذرا رنگ کالا ہے
طاق پر جزدان میں لپٹی دعائیں رہ گئیں
چل دیئے بیٹے سفر پہ، گھر میں مائیں رہ گئیں
گاڑی میرا اڑن کٹھولا
بیٹھا ہوا ہوں اس میں اکیلا
تکیے پہ پانی چھڑک کر سوگیا
سمجھے وہ میں رویا ہجر میں تمام رات
موسی صفت تھا کوئی تو کی بات طور کی
عاشق کو سوجھتی ہے محبت میں دور کی
ہر روز ان کے کوچے میں دیتا ہوں یہ صدا
مہندی فریدآباد کی، میتھی قصور کی
رنگ گندمی ہے، زلف سیاہ فام بھی ہے
مرغ دل کیوں نہ پھنسے، دانہ بھی ہے دام بھی ہے