تیرے نخرے اٹھاتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
جو پھر بھی ڈانٹ کھا تا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

تمہارا مال کھانے کی سہولت چھن گئی جب سے
کما کہ اب جو لاتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

تمہارے عشق میں شوگر(زیابدطیس) ملی ہے مجھ کو بدلے میں
کریلے اب جو کھاتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

ہے کھارا اس قدر پانی تمہارے گھر کے نلکے کا
میں پینے جب بھی آتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

گئی ہے جب سے وہ میکے عجب ہی حال ہے اپنا
میں کھانا خود پکاتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

ازل سے مجھ کو لاحق ہے یہ مرض لادوا یارو
کہ آنسو جب بہاتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

تیری اماں کے ڈر سے میں، تجھے شاپنگ کراتا ہوں
مگر جب بل چکاتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

مجھے ماموں پکارے ہے، میری معشوق کا بیٹا
اُسے گودی اٹھاتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

یہ دل کا درد ہے شاید، جو آ پہنچا ہے گھٹنوں میں
قدم اک بھی اٹھاتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

ہے وہ دوست لیکن، نہاتا بس ہے عیدوں پر
جو ملنے اس کو جاتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

طریقے نت نئے مجھ پر، وہ ظالم آزماتے ہیں
میں تھانے جب بھی جاتاہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں