عبداللہ بن محمد ہادي مہم کے سلسلے ميں مصر کے ايک ساحلي علاقے میں مقيم تھا، ٹہلتا ہوا ايک بار ساحل سمندر پر نکلا ، ديکھا کہ خيمہ ميں ہاتھ پائوں سے معذور اور آنکھوں کي بينائي سے محروم ايک شخص پڑا ہوا ہے۔ اس کے جسم ميں صرف اس کي زبان سلامت ہے ايک طرف اس کي يہ حالت ہے اور دوسري طرف وہ با آواز بلند کہہ رہا ہے ۔
ميرے رب مجھے اپني نعمتوں پر شکر کي توفيق عطا فرما۔ مجھے تو نے اپني مخلوق ميں سے بہت سوں پر فضيلت اور فوقيت بخشي ہے اس فوقيت پر مجھے اپني حمد و ثناء کي فوفيق عطا فرما۔
عبداللہ نے يہ دعا سني تو اسے بڑي حيرت ہوئي ايک آدمي ہاتھ پائوں سے معذور بينائي سے محروم ہے جسم ميں زندگي کي تازگي کا کوئي اثر نہيں اور وہ اللہ تعالي سے نعمتوں پر شکر کي دعا مانگ رہا ہے اس کے آکر سلام کيا اور پوچھا
حضرت آپ اللہ تعالي کي کس نعمت اور فوقيت پر شکر اور حمد و ثناء کي توفيق کے خواستگار ہيں؟ معذور شخص نے جواب ميں فرمايا اور خوب فرمايا۔
آپ کر کيا معلوم ميرے رب کا ميرے ساتھ کيا معاملہ ہے بخدا اگر وہ آسمان سے آگ برسا کر مجھے راکھ کر دے ، پہاڑوں کو حکم دے کہ مجھے کچل دے ،سمندروں کو مجھے غرق کرنے کے لئے کہدے اور زمين کو مجھے نگلنے کا حکم دے ديے تو ميں کيا کر سکتا ہوں ميرے ناتواں جسم ميں زبان کي بے بہا نعمت کو تو ديکھئے کہ يہ سالم ہے کيا صرف اس ايک زبان کي نعمت کا ميں زندگي بھر شکر ادا کر سکتا ہوں؟
پھر فرمانے لگے ، ميرا ايک چھوٹا بيٹا ميري خدمت کرتا ہے ،خود ميں معذور ہوں زندگي کي ضروريات اسي کے سہارے پوري ہوتي ہيں ليکن وہ تين دن سے غائب ہے معلوم نہیں کہاں ہے اس کا پتہ کر ليں تو مہرباني ہوگي۔ ايسے صابر و شاکر اور متحاج انسان کي خدمت سے بڑھ کر اور سعادت کيا ہو سکتي تھي عبداللہ نے بيابان ميں اس کي تلاش شروع کي تو يہ دردناک منظر ديکھا کہ مٹي کے دو تودوں کے درميان ايک لڑکے کي لاش پڑي ہوئي ہے جسے جگہ جگہ سے درندوں اور پرندوں نے نوچ رکھا ہے يہ اسي معذور شخص کے بيتے کي لاش تھي۔
اس معصوم کي لاش اس طرح بے گورو کفن ديکھ کر عبداللہ کي آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور يہ فکر لاحق ہوئي کہ اس کے معذور والد کو اس المناک حادثے کي اطلاع کيسے دے؟
ان کے پاس گئے اور ايک لمبي تمہيد کے بعد انہيں اطلاع دي، بيٹے کي وحشت ناک موت سے کون ہوگا جس کا جگر پارہ پارہ نہ ہو ليکن خبر سن کر معذور والد کي آنکھوں سے انسورواں ہوئے ، دل پر گموں کے بادل چھا جائيں تو آنکھوں سے اشکوں کي برسات شروع ہو جاتي ہے ، يہ بھي اللہ تعالي کي ايک نعمت ہے کہ غم کا غبار اشکوں ميں ڈھل کر نکل جاتا ہے، شکوہ و شکايت کي بجائے فرمانے لگے۔
حمدو ستائش اس ذات کے لئے جس نے ميري اولاد کو اپنا نافرمان نہيں پيدا کيا اور اسے جہنم کا ايندھن بننے سے بچايا۔
پھر ۔۔۔انا للہ ۔۔۔پڑھا اور ايک چيخ کے ساتھ روح جسم سے جدا ہو گئي۔
ان کي اس طرح اچانک موت پر عبداللہ کے ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے اور پھوٹ کر رونے لگا، کچھ لوگ اس طرح آنکلے ، رونے کي آواز سني خيمے ميں داخل ہوئے ميت کے چہرے سے کپڑا ہٹايا تو اسے سےلپٹ گئے، کوئي ہاتھ چومتا تھا، کوئي آنکھوں کو بوسا ديتا تھا، ساتھ ساتھ کہتے جاتے تھے۔
ہم قربان ان آنکھوں پر جنہوں نے کبھي کسي غير محرم کو نہيں ديکھا ، ہم فدا اس جسم پر جو لگوں کے آرام کے وقت بھي اپنے مالک کے سامنے سجدہ ريز رہتا ، جس نے اپنے رب کي کبھي نافرماني نہیں کي۔
عبداللہ يہ صورت حال ديکھ کر حيران ہو رہا تھا ۔ پوچھا۔يہ کون ہيں ان کا تعارف کيا ہے۔ کہنے لگے۔ آپ ان کو نہیں جانتے؟ يہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم کے سچے عاشق اور حضرت ابن عباس رضي اللہ تعالي عننہ کے شاگرد ،مشہور محدث حديث کے امام حضرت ابو قلابہ ہيں ۔
حديث کا ادني طالب علم بھي حضرت ابو قلابہ کے نام سے واقف ہے ، صبر و استقامت کے پيکر اور تسليم و رضا کے بلند مقام کے حامل حضرت ابو قلابہ رحمتہ اللہ تعالي کي تجہيز و تدفين اور نماز و تدفين سے فارغ ہونے کے بعد عبداللہ رات کو سويا تو ديکھا کہ آپ جنت کے باغات ميں سير و تفريح کر رہے ہيں، جنت کا لباس زيب تن ہے اور يہ آيت تلاوت فرما رہے ہيں۔
صر کرنے کے سبب تم پر سلامتي ہو اور آخرت کا گھر بہترين ٹھکانہ ہے۔
عبداللہ نے پوچھا آپ وہي معذور شخص ہين فرمانے لگے جي ہاں ميں وہي شخص ہوں اللہ جل شانہ کے ہاں چند بلند مراتب اور درجات ايسے ہيں جن تک رسائي مصيبت ميں صبر راحت، ميں شکر اور جلوت و خلوت ميں خوف خدا کے بغير ممکن نہيں اللہ نے اسي صبر و شکر کي بدولت ان نعمتوں سے سرفراز فرمايا ہے۔