اگلے روز جب ہم نیچائی اور مستونگ سے گزر کر نوشکی کی طرف جارہے تھے وہ ہمیں اُس صحرا نما علاقے کی طرف لے گیا جہاں جگہ جگہ جانورں کے ڈھانچے پڑے ہوئے تھے، رودینی نے ایک جگہ گاڑیاں رکوالیں، وہ نیچے اُترا انگلیاں سیدھی کر کے زمین میں دبائیں اور مُٹھی میں مٹی بھر کر اپنے قدموں پر گھوما، یوں کہ اُسکی مٹھی کھل کر چاروں طرف مٹی پھینکتی چلی گئی،پھر وہ تقریبا چیختے ہوئے کہنے لگا۔
کاکڑ، تمہیں اُن لوگون کا دُکھ بڑا نظر آتا ہے جن کے باغ اُجڑ گئے، جنہوں نے بہت کچھ دیکھا اور اب بھوک دیکھ کر بوکھلائے پھرتے ہیں، دیکھو، ذرا اِن لوگوں کو دیکھو، اِنہون نے بھوک کی گود سے جنم لیا ہے، اِنہون نے بھوک کے سوا کچھ دیکھا ہی نہیں ہے۔
وہ بھاگتا ہوا تھوڑا سا دور گیا، جھکا اور ایک ڈھانچے سے ہڈی کو جھٹکا دے کر الگ کر کے پلٹا، اُسے کاکڑ کے چہرے کے سامنے لہراتے ہوئے کہا۔
یہ ہڈیاں اُنہیں بھیڑ بکریوں کی ہیں جن کے تھنوں سے یہاں والے بھوک دوہتے رہے ہیں، اِس خشک سالی کے ہلے مین تمہیں جتنی ہڈیاں زمین کے اُوپر نظر آرہی ہیں نا، اتنی ہی زمین میں دفنا دی گئی ہیں ۔ جانتے ہو کس لیے؟
اُس نے ایک لمھے کے لیے بھی نگاہیں کاکڑ کے چہرے سے الگی نہ کی تھی،
کاکڑ اُس اچانک سوال پر بوکھلا سا گیا، اُسے کچھ سوجھ نہ رہا تھا، رودینی نے اُسکے چہرے سے نظریں الگ کی اور اُنہیں اپنے قدموں والی زمین مین گاڑھ کر کہا ۔
تم جو باغوں کے اُجڑنے کا قصہ بار بار لے بیٹھتے ہو تم کیا جانو زمین مین دبائی گئی ہڈیاں بھیڑ بکریوں کی نہیں ہیں ۔ ۔ ۔ تیرے میرے جیسے انسانون کی ہیں ۔ ۔ ۔اِن انسانوں کی جنہون نے بھوک کے سوا کچھ دیکھا ہی نہیں ۔ ۔ ۔ اور ۔ ۔ ۔ جو بھوک سے ہی مر گئے ۔ یہ کہتے ہوئے وہ زمین پر بھیٹھ گیا ۔


افسانہ نگار ۔ محمد حمید شاہد