گورنمنٹ کالج کی طرف مراجعت کے کئی راستے ہیں اور سارے راستے اپنے اپنے رخ پر چل کر اس منزل تک پہنچتے ہیں جو ہر " راوین " کے من کا مندر ہے ۔ اس منزل تک پہنچنے کے لئے سب سے مشہور، شیر شاہی اور جرنیلی سڑک تو برتری، تحفظ، منفعت اور پاور کی سڑک ہے جس پر جم غفیر رواں ہے ۔ لیکن کچھ راستے جذباتی وادیوں سے ہو کر بھی اس منزل طرف جاتے ہیں۔
ہم دونوں کا گورنمنٹ کالج سے بندھن ایک بہت کمزور اور کچے سے دھا گے سے بندھا ہے ۔ ایک گم نام اور بے نام پگڈنڈی ہے جو خود رو جھاڑیوں اور گھنگیرلے رستوں سے الجھ الجھ کر بڑی مشکل سے من مندر تک پہنچتی ہے اور پھر وہاں سے تب تک اٹھنے کو جی نہیں چاہتا جب تک کہ کوئی وہاں سے اٹھا نہ دے ! نکال نہ دے !!
بانو قدسیہ نے اور میں نے گورنمنٹ کالج کو کبھی بھی ایک درس گاہ نہیں سمجھا ۔ نہ کبھی ہم اس کی علمی روایت سے متاثر ہوئے اور نہ کبھی اس کے استادوں کے تجربئہ علمی سے مرعوب ہوئے ۔ اس کی قدامت، اس کی عمارت اور اس کی شخصی وجاہت بھی ہمیں مسحور نہیں کر سکی ____ اس سے کبھی کچھ لیا نہیں ، مانگا نہیں ، دیا نہیں ، دلوایا نہیں ۔ پھر بھی اس کے ساتھ ایک عجیب سا تعلق قائم ہے جسے ہم آج تک کوئی نام نہیں دے سکے ۔ دراصل ہم دونوں گورنمنٹ کالج کو درس گاہ نہیں مانتے _____ اس میں" سین " کے حرف کو وافر سمجھتے ہیں !
جب ہمارا پہلا بیٹا پیدا ہوا تو ہم سمن آباد میں رہتے تھے اور اپنے مکان کا کرایہ بڑی مشکل سے ادا کرتے تھے ۔ میں ریڈیو میں ملازم تھا اور بانو پشاور کے لئے درسی کتابیں لکھ کر ساٹھ ، ستر روپے مہینہ گھر بیٹھے کما لیتی تھی ۔ بچے کے دودھ کا ڈبہ بیالیس روپے میں آتا تھا اور وہ ایک مہینے میں تین ڈبے ختم کر جاتا تھا ۔ اس زمانے میں مٹی کے تیل کا چودہ بتیوں والا چولہا آگیا تھا اور ہمارا ایندھن کا خرچ کم ہو گیا تھا ۔ بانو جب گو رنمنٹ کالج کی سٹوڈنٹ تھی تو اس کو روٹی پکانی نہیں آتی تھی ۔ میں جب گورنمنٹ کالج میں پڑھتا تھا تو گھر کا سودا لانے کے علم سے نا واقف تھا ۔ شادی کے بعد ہم دونوں نے یہ دونوں فن سیکھ لئے اور ہنسی خوشی رہنے لگے ۔ جب انیق ڈیڑھ سال کا ہوا تو جون کے مہینے میں سخت بیمار ہو گیا ۔ اسے اسہال اور قے کی شکایت ہوئی جو تین دنوں کے اندر اندر بڑھ کر خطرناک صورت اختیار کر گئی ۔ محلے کی بڑی بوڑھیوں کے کئی نسخے آزمائے لیکن کسی سے افاقہ نہ ہوا ۔ بچے کی حالت تشویش نا ک ہو گئی تو ہمیں کسی نے بتایا کہ اسے ڈاکٹر بروچہ کے پاس لے جاؤ ۔ بڑی گرمی میں سہ پہر کے چار بجے ہم " سالم تانگہ " کرا کر اسے ڈاکٹر صاحب کے کلینک پر میکلوڈ روڈ لے گئے ۔
ڈاکٹر صاحب نے بچے کو الٹا پلٹا کر دیکھا ۔ اس کی اندر دھنسی ہوئی آنکھوں کے پپوٹے کھول کر معائنہ کیا اور پھر بانو سے مخاطب ہو کر بو لے " بابا تم لوگ کیسا پیرنٹ ہے جو اب اس کو ہمارے پاس لایا ہے ۔ اس کا میں کیا ٹریٹ منٹ کروں ؟" بانو زور زور سے رونے لگی اور جاہل فقیرنیوں کی طرح ہاتھ باندھ کر سسکیاں بھرنے لگی ۔ اس کے منہ سے کوئی بات نہ نکلتی تھی اور وہ خوف کے مارے روئے جا رہی تھی ___ ڈاکٹر صاحب نے کاؤنٹر پر جا کر پانچ چھ دواؤں کے امتزاج سے دودھیا رنگ کا ایملشن تیار کیا۔ اپنی میز کی دراز سے دس پڑیاں نکال کر دیں اور پھر ایملشن کی ایک خوراک میں ایک پڑیا گھول کر مجھے بچے کو مضبوطی سے پکڑ کر گود میں لٹانے کا حکم دیا ۔ بڑی بے دردی کے ساتھ انہوں نے انیق کے جبڑے میں انگلیاں کھبو کر اس کا منہ کھولا اور دوائی اس کے منہ میں انڈیل دی ۔ بچہ اپنی نحیف آواز میں بڑے کرب کے ساتھ رویا تو میں نے اسے کندھے سے لگا دیا ۔ گود میں لے کر تو میں اسے کھڑا تھا لیکن بانو قدسیہ خوف سے کانپتی ہوئی اسے تھپکے جا رہی تھی ۔ اتنے میں بچے نے منہ بھر کر قے کی ------ گرم اور بدبو دار تھوڑی سی میرے کندھے پر گری اور باقی ساری فرش پر ۔
ڈاکٹر صاحب نے جھلا کر کہا " بابا تم کیسا پیرنٹ ہے، بچے کو سنبھالنا نہیں جانتا ۔ سارا فرش خراب کر دیا ۔ یہ کلینک ہے، کوئی تم لو گ کا گھر نہیں ۔ " ہم دونوں ہی ڈاکٹر صاحب کی ڈانٹ سے گھبرا گئے ۔ ہمیں ڈاکٹروں کا اور ہسپتالوں کا کوئی تجر بہ نہیں تھا ۔ پھر ہماری مالی حالت بھی معمولی سی تھی ۔ شکل و صورت سے بھی ہم سہم ہی سہم تھے اور بچہ کافی بیمار تھا ۔ بانو قدسیہ نے اپنا آدھا دوپٹہ تو سر پر محفوظرکھا اور با قی کے آدھے دو پٹے سے ڈاکٹر صاحب کا فرش صاف کر نے لگی ۔
اس نے دونوں گھٹنے زمین پر ٹیکے ہو ئے تھے اور بائیں ہاتھ کو آگے ب ھا کر جھکے ہوئے بدن کا سارا بوجھ اس پر تول رکھا تھا وہ روئے بھی جا رہی تھی ، شرمندگی سے سر بھی جھکائے جا رہی تھی اورسسکیوں سے اس کا سارا بدن کانپ رہا تھا ۔ اس نے نارنجی اور کاسنی پھولوں والی قمیض پہنی ہوئی تھی ۔ سبز رنگ کی شلوار تھی اور پاؤں میں ہوائی سلیپر تھے جس میں سے ایک فرش پر ٹاکی مارتے ہوئے اتر گیا تھا ۔
ڈاکٹر صاحب کا فرش پرانی اینٹوں کا تھا جن کا پلستر جگہ جگہ سے اکھڑ چکا تھا ۔ کچھ اینٹیں نیچے کو ہو گئی تھیں، کچھ سیم کی وجہ سے اوپر کو ابھر آئی تھیں ۔ اس اونچ نیچ کے درمیان دوپٹے سے جگہ صاف کرنا مشکل کام تھا لیکن بانو نے اپنے روز مرہ تجربے کے زور پر ساری جگہ اچھی طرح سے صاف کر دی ۔ ڈاکٹر صاحب نے چور آنکھ سے اپنے فرش کو اس کی اصل حالت میں دیکھ کر کہا " بابا تم کیسا لڑکی لوگ ہے ، سارا دوپٹہ خراب کر لیا ۔ اب اس کو باہر جا کر دھوؤ ۔ا چھی طرح سے صاف کرو، اس میں جراثیم چلا گیا ہے ۔ بچے کے پاس نہیں لانا یہ کپڑا ۔"
میں نے کہا " ڈاکٹر صاحب باہر نلکا ہے ؟"
کہنے لگے " کیوں نہیں ہے ۔ یہ ساتھ باجو میں گھوڑوں کے پانی پینے کا حوض ہے نئیں ، اس میں پانی ہی پانی ہے۔ جا کر دھوؤ ۔" میں بچے کو کندھے سے لگا کر کھڑا رہا ۔ بانو نے آدھا دوپٹہ کھیل میں ڈال کر کھنگال لیا ۔
ایسے وقت میں اور اس قدر شدید گرمی میں سڑک کنارے پیدل چلنا تو شاید اس قدر مشکل نہیں تھا لیکن ایک بیمار بچے کو کندھے سے لگا کر کلینک سے ذلیل و خوار ہو کر اور زمین سے بوٹ کے پرانے ڈبے کا گتا اٹھا کر اس سے مریض بچے کے چہرے کو چھاؤں کر کے چلنے میں ہم دونوں ایک دوسرے سے کچے پڑے ہوئے تھے اور شرمندگی کی وجہ سے ہمارے سر اوپر نہیں اٹھتے تھے ۔
سڑک پر کوئی سواری نہیں تھی اور ہمیں بس پکڑنے کے لئے ابھی بہت دور تک چلنا تھا ۔ بچے کا بخار گرمی کی وجہ سے بڑھ رہا تھا اور بانو بار بار اس کے ماتھے اور لٹکتی ہوئی بے جان ٹانگوں کو چھو رہی تھی کہ بخار ہو رہا ہے یا بڑھ رہا ہے ۔