ایسے وقت میں اور اس قدر شدید گرمی میں سڑک کنارے پیدل چلنا تو شاید اس قدر مشکل نہیں تھا لیکن ایک بیمار بچے کو کندھے سے لگا کر کلینک سے ذلیل و خوار ہو کر اور زمین سے بوٹ کے پرانے ڈبے کا گتا اٹھا کر اس سے مریض بچے کے چہرے کو چھاؤں کر کے چلنے میں ہم دونوں ایک دوسرے سے کچے پڑے ہوئے تھے اور شرمندگی کی وجہ سے ہمارے سر اوپر نہیں اٹھتے تھے ۔
سڑک پر کوئی سواری نہیں تھی اور ہمیں بس پکڑنے کے لئے ابھی بہت دور تک چلنا تھا ۔ بچے کا بخار گرمی کی وجہ سے بڑھ رہا تھا اور بانو بار بار اس کے ماتھے اور لٹکتی ہوئی بے جان ٹانگوں کو چھو رہی تھی کہ بخار ہو رہا ہے یا بڑھ رہا ہے ۔
اس دھوپ اور گرمی میں ہم اسی طرح سے چلتے رہے، تھکے تھکے، خوف زدہ، مایوس، بے مراد اور اکیلے ۔ بیمار بچے نے کئی مرتبہ آنکھیں کھولنے کی کوشش کی لیکن گرمی کی شدت اور روشنی کی چلکور نے اس کے پپوٹے کھلنے نہ دئیے ۔ ہم چلتے چلتے، سو چتے سو چتے، چپ چپاتے جی پی او کے پاس پہنچ گئے ۔ یہاں تار گھر کے پاس کئی تانگے کھڑے تھے۔ درخت کی چھاؤں تلے بیمار بچے نے آنکھیں کھول کر ایک سفید گھوڑے کو بڑی دلچسپی سے دیکھا اور اپنا ڈولتا ہوا سر ساکن کر لیا ۔ میں نے تا نگے میں بیٹھتے ہوئے کہا " گورنمنٹ کالج " اور بانو حیرانی سے میرا منہ تکنے لگی ۔
کالج چھٹیوں کی وجہ سے بند تھا ۔ پرندے شاخوں میں چھپے ہو ئے تھے ۔ اونچی بلڈنگ کے سائے دور دور تک پھیل کر درختوں کے سائے سے مل گئے تھے ۔ سارے میں ایک خوشگوار خاموشی کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی ۔ ہم اپنے کلاس روم کی سیڑھیوں پر بیٹھ گئے ۔ انیق بانو کی گود میں لیٹا ہوا ایک اونچے درخت کی شاخوں کو دیکھ رہا تھا ۔ میں نے جھک کر اس کی آنکھوں کو قریب سے دیکھنا چاہا تو مجھے بانو کے دوپٹے سے کھٹی کھٹی بو سی آئی ۔ میں نے بچے کے چھوٹے سے ماتھے پر اپنا بڑا سا تھکا ماندہ چہرہ رکھا تو مجھے ایک بیمار سی ٹھنڈک کا احساس ہوا ۔ بچے نے مسکرا کر اپنی ماں کی طرف دیکھا تو ماں کی جنت گم گشتہ لوٹ کر اس کی جھولی میں آ گئی ۔ بانو نے اس کے پاؤں کو ، ماتھے کو اور گلے کو چھو کر خوشی سے میری طرف دیکھا اور کہا " بالکل خواجہ منظور کی طرح مسکرایا ہے " خواجہ صاحب اپنی ساری زندگی میں صرف ایک بار مسکرائے ہوں گے لیکن بانو کے ذہن میں ان کی مسکراہٹ ہمیشہ کے لئے سٹل ہو کر ایک فریم میں جڑی جا چکی تھی ۔ پھر ہمارے ذہنوں میں اپنے ایام طالب علمی کا ایکشن ری پلے شروع ہو گیا اور طوطے اپنی چونچوں میں ڈالیاں پکڑ کر ہاتھ چھوڑ کر کرتب دکھلانے لگے ۔
بیمار بچہ اپنی ماں کی گود سے پھسل کر پہلے ایک سیڑھی پر کھڑا ہوا ۔پھر ہاتھ پکڑ کر دوسری پر اترا اور پھر خود ڈگمگاتے قدموں سے روش پر چلا گیا ۔ وہ کوئی ڈیڑھ گز تک ایک طرف اور کوئی دو گز کے قریب دوسری جانب چلا اور پھر تھک کر زمین پر بیٹھ گیا ۔
ابھی ہمیں سیڑھیوں پر بیٹھے تھوڑی دیر ہی ہوئی تھی کہ نیلی پگڑی باندھے اور ہاتھ میں چابیوں کا مو ٹا سا گچھا اٹھا ئے ایک شخص ہمارے طرف آیا اور قریب آ کر پوچھنے لگا " کون لوگ ہو تم "
میں نے کہا "ہم لوگ ہیں ۔"
اس نے کہا " یہاں آنے کا اور بیٹھنے کا حکم نہیں ہے ۔"
میں نے کہا " کس کا حکم نہیں ؟"
" پرنسپل صاحب کا " اس نے درشت لہجے میں کہا اور ہمیں ہاتھ کے اشارے سے اٹھانے لگا ۔ میں کہنے والا تھا کہ بانو نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے منع کر دیا ۔ پھر اس نے آگے بڑھ کر زمین پر بیٹھے ہوئے اپنے بچے کو اٹھایا اور آہستگی سے چلنے لگی ۔ میں بھی خاموشی سے اس کے ساتھ ہو لیا اور ہم تینوں آہستہ آہستہ پھاٹک کی طرف بڑھنے لگے ۔ ہم آگے کو جا رہے تھے اور گورنمنٹ کالج پیچھے کو ہٹا جا رہا تھا ۔ ہم نے پیچھے مڑ کر تو نہیں دیکھا لیکن ہمیں پتہ چل رہا تھا کہ ہمارے درمیان فاصلہ بڑھ رہا ہے ۔ کئی بے ہودہ، نکمے، بد ہیت اور بے کار لوگ در گاہوں سے اٹھا دئیے جاتے ہیں اور ان کے بعد فرش دھلا دئیے جا تے ہیں ------ لیکن ان کے دلوں کے فرش پر درگاہوں کی مورتیں ویسے ہی قائم رہتی ہیں ۔
اصل میں گورنمنٹ کالج تک پہنچنے کے کئی راستے ہیں ۔ اس کی طرف رخ نہ بھی ہو تو بھی یاتری اسی کی طرف کا سفر ہی کر رہے ہو تے ہیں ۔ کہتے ہیں جب Space Shuttle زمین سے چاند کی طرف چھوڑا جاتا ہے تو اس کا رخ چاند کی طرف نہیں ہوتا ، پھر بھی اس کا سفر چاند ہی کا ہوتا ہے اور اس کی منزل چاند ہی ہوتی ہے