ہمیں آج تک یہ بات معلوم نہ ہوسکی کہ ہمارے لیڈر عوام سے آخر چاہتے کیا ہیں؟ یا تو یہ بات ہماری سمجھ سے بالا تر ہے یا ہماری سمجھ اس بات سے بالا تر ہے۔اگر کوئی ہم سے پوچھے کہ پاکستان کے عوام کو کتنے مسائل کا سامنا ہے تو ہم کہیں گے کہ پاکستان میں کتنے سیاست داں ہیں؟ ہر سیاست داں ایک مسئلہ ہے۔ اگر کوئی لیڈر یہ کہے کہ قوم کے حالات دیکھ کر میرے دل میں درد ہوتا ہے تو سمجھ لیں ضرور اسے کوئی ہارٹ پرابلم ہے۔ لیڈر اور عوام میں اتنا گہرا اور انمٹ تعلق ہے جتنا سیاست اور جھوٹ میں۔ تمام لیڈر عوام کے لئے مساوات کا درس دیتے ہیں۔ مساوات کا مطلب ہے دولت اور وسائل کی عدم فراہمی کا تمام عوام کیلئے یکساں طور پر موجود ہونا۔ عوام اور سیاست دان دونوں اپنی جگہ متحد اور مضبوط ہیں کیونکہ ایک طرف اگر عوام یک جہتی اور اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہیں تو دوسری طرف سیاست داں بھی عدم اتحاد کی کوشش میں متحد و منضبط ہیں۔
عوام نے جب لیڈر سے سوال کیاکہ آپ اپنی تقریر سنانے کے لئے اکثر اسٹیج پر کھڑے ہوجاتے ہیں مگر ہماری کبھی نہیں سنتے تو انہوں نے جواب دیا کہ میں تو عوام کی باتیں سننے کے لئے ہمیشہ کان کھڑے رکھتا ہوں۔ عوام وہی کرتے ہیں جو ان کے علاقے کا لیڈر کہتا ہے۔ لیڈر وہی کرتا ہے جو وزیر کہتا ہے۔ وزیر وہی کرتا ہے جو وزیر اعظم کہتا ہے۔ وزیر اعظم وہی کرتا ہے جو بڑی طاقتیں کہتی ہیں۔
عوام اور خواص میں یہ فرق ہے کہ لیڈر کی بات پر جو لوگ بغیر سوچے سمجھے یقین کرلیں وہ عوام ہیں۔ جو لوگ سوچ سمجھ کر یقین کریں وہ خواص۔ اگر ہمارے سیاست داں سیاست سے کنارہ کش ہوجائیں تو عوام سکھ کا سانس لیں۔ اس لحاظ سے ہر سیاست داں مرتے وقت عوام پر احسان کرجاتا ہے اس لئے کہ موت کے بعد وہ سیاست سے ریٹائرڈ ہوجاتا ہے اور زندگی میں تو ریٹائرمنٹ کا کام اس کے لئے ممکن ہی نہیں۔
فرائیڈ نے عوام کی صنفی و جنسی تقسیم پر زور دیا ہے یعنی زنانہ عوام اور مردانہ عوام۔ زنانہ عوام ایسی مخلوق کو کہتے ہیں جو بے حد باتونی ہو مگر عمر بتاتے وقت گونگی ہوجائے اور یہ بغیر تلوار ، تیر اور خنجر کے گھائل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو، دلوں پر حکومت کرنا جانتی ہو جب کہ مردانہ عوام ملکوں پر حکومت کرنا جانتی ہے۔مردانہ عوام اور زنانہ عوام کے درمیان محبت کا رشتہ ہوتا ہے۔ محبت سب سے پہلے آنکھوں پر اثر کرتی ہے، پھر دل پر اور اس کے بعد جیب پر۔
ترقی پذیر ممالک کے عوام مہنگائی اور ٹیکس کے بوجھ تلے دبے جارہے ہیں۔ خون پسینہ ایک کرکے کچھ رقم پس انداز کرتے ہیں۔ پیسہ ہاتھ میں آنے کے بعد جتنی توانائی بحال ہوتی ہے، انکم ٹیکس ادا کرنے کے بعد اتنی ہی ضائع ہوجاتی ہے۔ مسلمان ملکوں کے عوام جھوٹ، بے ایمانی اور لڑنے جھگڑنے میں اتنے بد نام ہوچکے ہیں کہ ان سے پوچھا جاتا ہے تمہاری کوئی چیز اچھی بھی ہے؟ تو جواب میں اپنا ماضی پیش کردیتے ہیں۔
نیویارک میں پاکستانی عوام کے چہروں پر ایک دھندلاہٹ، بیزاری اور یکسانیت نظر آتی ہے جیسے سب لوگ ایک ہی سانچے میں ڈھالے گئے ہوں کرنسی نوٹوں کی طرح، صرف چہرے کے سائزوں میں فرق ہے۔ عوام کی ایک کثیر تعداد ایسے لوگوں پر مشتمل ہے جو یہاں آکر اپنا سب کچھ بھول گئے ہیں اور بڑے فخر کے ساتھ یہاں کی تہذیب ، ثقافت اور زبان کو اپنا رہے ہیں۔ یہ کہہ کر گویا اپنی شان میں اضافہ کرتے ہیں کہ ہمارے بچوں سے اردو کا ایک لفظ بھی نہیں آتا وہ تو فر فر انگلش بولتے ہیں۔ جب عوام اپنی مادری بھاشا کو بھول جاتے ہیں تو مجھے بہت دکھ ہوتا ہے۔ جب اپنے دیش کے لباس اور طور طریقوں کو بھول جاتے ہیں تو اس سے بھی زیادہ دکھ ہوتا ہے۔
ایک نسبتاً کم درجے کی عوام جو ہمارے آس پاس ہے جس کو خوشی نہ راس ہے اور جو بے آس ہے وہ عوام الناس ہے۔ عوام الناس کی تعریف ایک صاحب نے یوں کی ہے کہ ایسی عوام جس کا ناس مار دیا گیا ہو عوام الناس کہلاتی ہے۔ عوام الناس کی حالت زار دیکھ کر اس کی یہ تعریف صحیح لگتی ہے۔