بےپناہ دولت۔ لمبی چوڑی جائیداد۔بےاندازہ زمینیں۔ دو کوٹھیاں۔ ایک حویلی۔ کئی کاریں اور بےتحاشا عزت ان دو ماں بیٹےمیں محدود ہو کر رہ گئی تھی۔
دونوں ہی کی تمنا تھی کہ کوئی تیسرا بھی ان کی ملکیت کا حصہ دار بنی۔ جو ان تین میں چند اور نفوس کا اضافہ کرسکی!مگر۔۔۔امارت کی نظروں میں کوئی وجود جچ نہ رہا تھا۔بوڑھی تجربہ کار نگاہیں صورت کےساتھ سیرت اور خاندان کےساتھ دولت و ثروت بھی چاہتی تھیں۔
ایک تصویر میں ضروری نہیں کہ مصور ہر ایک کےجذبات کی عکاسی کرسکےاور ہر کسی کےپسندیدہ رنگ بھردی۔ اسےاپنی تصویر کو بہرصورت خوبصورتی اور حسن سےمرصع کرنا ہوتا ہی۔ اب اس کےلئےچاہےاسےکسی بھی قسم کےرنگ منتخب کرنا پڑیں۔
اور جوانی تھی کہ کسی اور ہی ڈگر پر چل نکلی تھی۔ اسےدولت نہیں چاہیےتھی کہ اس کےپاس بہت تھی۔
اسےخاندان نہیں چاہیےتھا۔ کہ ذات پات اس کی نظر میں بےاہمیت شےتھی۔
اسےصرف اپنےجذبات اور احساسات کی ترجمان تصویر کی تلاش تھی۔وہ خواہ اسے آرٹ گیلری کےوسیع و عریض سجےسجائےقیمتی اور حسین ہال میں نظر آ جاتی ‘یا کسی فاقہ زدہ مصور کےادھورےرنگوں سےبوسیدہ کاغذ پر ابھرتی نظر آجاتی۔
اسےاور کچھ نہیں چاہیےتھا۔ چاہئےتھا تو صرف یہ کہ جو بھی آئےوہ صرف اسےچاہی۔ اس کےعلاوہ ہر ایک سےبیگانہ ہو۔اس سےپہلےاور اس کےبعد وہ کسی کا خیال اپنےخانہ دل میں نہ سجاپایا ہو۔
بڑھاپا تجربہ کار تھا۔اپنےاصولوں کا محافظ تھا۔
جوانی امنگوں بھری تھی۔ حسن اور محبت کی طلبگار تھی ۔
اور آج۔۔۔ شاید اسےمنزل مل گئی تھی۔دل تو یہی کہہ رہا تھا۔ اور دل جھوٹ بھی تو بولا کرتاہی۔
”صاب! آپ کا پون۔۔۔“
وہ چونک پڑا۔خیالات بکھر گئی۔ بستر سےنکلا اور گاؤن پہنتا ہوا دروازےکی طرف چل دیا۔کمرےکا دروازہ کھول کر وہ اندر داخل ہوا۔
”خان۔ “وہ رک گیا۔
”جی صاب۔“
”دیکھو۔ باباسیف آچکا ہوگا۔ اسےاوپر بھیجو۔“
”جی صاب۔“ وہ سیڑھیوں کی طرف بڑھ گیا۔وہ کچھ سوچتا ہوا ٹیلی فون کےپاس چلا آیا۔
”یس ۔طاہر اسپیکنگ ۔“ وہ ریسیور کان سےلگا کر بولا۔
”ہیلوطاہر۔“دوسری طرف سےڈاکٹر ہاشمی نےہنس کر کہا۔
”اوہ آپ۔۔۔ آپ کا مریض ابھی تک ”ہوش ندارد“ہےانکل۔“ وہ مسکرایا۔
”مسیحا پاس رہےتو بیمار کا اچھا ہونےکو جی کب چاہتا ہےطاہر میاں!“وہ ڈاکٹر ہاشمی کی چوٹ پر خجل سا ہوگیا۔رات بھی ان کی باتوں سےیہی ظاہر ہوتا تھا کہ وہ اس کی نظروں کا بھید جان چکےہیں۔”بہرحال‘ اس وقت نو بجےہیں ۔ دس بجےتک ہوش نہ آیاتو مجھےفون کردینا۔ ویسےمیںگیارہ بجےکےقریب خود ہی چلا آؤں گا۔“
”بس تو ٹھیک ہے۔ آپ آہی جائیےگا۔“
”خدا حافظ۔ “ڈاکٹر ہاشمی نےہلکےسےقہقہےکےساتھ ریسیور رکھ دیا۔ فون بند کرکےوہ پلٹااوربستر کےقریب پڑی کرسی پر جم گیا۔
”سلام صاحب۔“ سیف کمرےمیں داخل ہوااور اس کی نظروں میں بھی حیرت سی امنڈ آئی۔
”سیف بابا۔یہ ہماری مہمان ہیں اور بیمار بھی۔ “اس نےسیف کی حیرت کو نظر انداز کرتےہوئےرسٹ واچ میں وقت دیکھا۔”ٹھیک ایک گھنٹےبعدہلکےناشتےکےتمام ضروری لوازمات یہاں ہونےچاہئیں!“
”بہتر صاحب!“ وہ سوالیہ نظروں کےساتھ بستر پر سوئی لڑکی کو دیکھتا ہوا پلٹا اور برتن اٹھائےباہر نکل گیا۔
وہ ایک طویل انگڑائی لےکر کرسی سےاٹھااور کھڑکیوں پر سےصرف پردےہٹا دیی‘ پٹ نہ کھولی۔ہوا سرد تھی۔رات کی بارش کےبعد موسم کھل گیا تھا۔
سورج کافی بلند ہو چکا تھا۔ اس کی زرد کرنیں دھند اور ٹھنڈک کا سینہ چیر چیر کر ہر مقابل شےکو روشن اور گرم کرنےکی کوشش کررہی تھیں۔وہ کتنی ہی دیرکھڑکی کےشیشوں سےباہر دیکھتےہوئےدور نیلے آسمان کی لامحدود وسعتوں میں نجانےکیاتلاش کرتا رہا۔
”امی ۔۔۔امی ۔۔۔ آپ کہاں ہیں امی۔۔۔امی۔۔۔“دھیمی سی بڑبڑاہٹ نےاسےچونکا دیا۔وہ تیزی سےپلٹ کر بستر کےقریب چلا آیا۔نرم و نازک وجود متحرک تھا۔لانبی سیاہ پلکیں دھیرےدھیرےکانپ رہی تھیں۔ چہرےپرسرخی دوڑنےلگی تھی۔ہونٹوں کےگوشےلرز رہےتھی۔ پھر دیکھتےہی دیکھتےاس نےہولےسےاپنی پلکوں کی چلمن اٹھا دی۔
وہ بےچینی سےاس کی ایک ایک حرکت کا مشاہدہ کررہا تھا۔چند لمحوں تک وہ بےحس و حرکت‘ چت پڑی چھت کو گھورتی رہی۔پھرجیسےچونک اٹھی۔گردن گھما کر دائیں بائیں دیکھا۔۔۔اوراسےسامنےدیکھ کر بری طرح گھبرا گئی۔
” آپ ۔۔۔ آپ کون ہیں؟ میں کہاں ہوں؟“ روایتی سےالفاظ اس کےلبوں سےابل پڑی۔
”گھبرائیےنہیں۔لیٹی رہئی۔ “وہ مسکرا کر اس پر جھک آیا۔شانوں سےتھام کر اس نےپھر اسےلٹا دیامگردوسرےہی لمحےوہ پھر اٹھ بیٹھی۔
”میں۔۔۔“
”دیکھئی۔ آپ کو میں بدمعاش نظر آتا ہوں یا آپ کو خود پر اعتماد نہیں ہی؟“ وہ اس کی آنکھوں میں جھانک کر بولاتو وہ گڑ بڑا گئی۔بیباک مگر شریفانہ تاثر کی حامل نگاہوں نےاسےالجھن میں ڈال دیا۔
”میں جانا چاہتی ۔۔۔“
” آں ہاں۔ یہ کیا کررہی ہیں آپ؟ “وہ اسےبستر سےاترتا دیکھ کر تیزی سےبولا۔
”جی میرا۔۔۔“
”ارےبابا‘ کیوں اپنا دماغ تھکا رہی ہیں آپ۔اطمینان سےلیٹ جائیی۔کچھ مجھ سےپوچھئی۔ کچھ مجھےبتائیی۔“ وہ ریشمی لحاف اس پر اوڑھاتا ہوا بولا۔اورنہ جانےکیا سوچ کر اور کیوں وہ چپ چاپ لیٹ گئی۔پھراس کی سوالیہ نظریں کمرےکےدرو دیوار کا تفصیلی جائزہ لینےکےبعداس کےمسکراتےچہرےپر آ کر جم گئیں۔
”ویسےایک بات تو بتائیی؟“وہ بےتکلفی سےکرسی گھسیٹ کر اس کےقریب ہوبیٹھا۔
”جی۔“ وہ ہولےسےبولی اور نظریں چرالیں۔
”کیا آپ کو بارش میں بھیگنےکا بہت شوق ہے؟“
”جی۔۔۔ کیا مطلب؟“ وہ بےساختہ حیرانی سےبولی۔
”مطلب یہ کہ کل رات آپ بڑی بےتکلفی سےطوفانِ بادوباراں کا لطف اٹھا رہی تھیں۔ سردی بھی بلا کی تھی اور۔۔۔“
ایک دم نہ جانےکیوں وہ بےچین سی ہوکر پھر اٹھ بیٹھی۔
”ارےاری۔ ۔۔یہ کیا۔ ۔۔دیکھئی‘ میں تو مذاق کررہا تھا۔۔۔ اور آپ۔۔۔“وہ اس کی پلکوں کو نم ہوتا دیکھ کر بری طرح سےگڑ بڑا گیا۔
”مجھےجانےدیجئی۔ خدا کےلئی۔ “وہ بستر سےنکل پڑی۔
”ارے۔یہ آپ کو بار بار جانےکا دورہ کیوں پڑ جاتاہی؟“ وہ اٹھ کر اس کو بازو سےتھامتا ہوا بولا۔
”چھوڑیئی۔ میں اب یہاں نہیں ٹھہر سکتی۔ “وہ بازو چھڑانےکی کوشش کرنےلگی۔
”مگر آپ کہاں جانا چاہتی ہیں؟ یہ تو طےہےکہ آپ کا گھر کوئی نہیں ہی۔ویسےاگر آپ دارالامان جانا چاہتی ہیں تو بندہ حاضر ہےلیکن پہلےناشتہ تو کرلیجئی۔“
” آپ کو کیسےمعلوم کہ۔۔۔“
” جن کا کوئی گھر ہو‘ وہ ایسی طوفانی راتوں میں اس حالت میں تو باہر آنےسےرہی‘ جس حالت میں آپ پائی گئیں۔“
وہ دونوں ہاتھوں میں منہ چھپا کر سسکنےلگی۔