Page 2 of 6 FirstFirst 1234 ... LastLast
Results 11 to 20 of 59

Thread: Ishq Ka Qaaf

  1. #1
    Mohammad Sajid's Avatar
    Mohammad Sajid is offline * خاک نشین *
    Join Date
    Mar 2008
    Location
    Hijr
    Posts
    152,881
    Mentioned
    108 Post(s)
    Tagged
    8578 Thread(s)
    Rep Power
    21475005

    Default Ishq Ka Qaaf

    عشق کا قاف
    مصنف : سرفراز احمد راہی



    موسم‘ طوفان ِ باد و باراں کےاشاروں پر رقص کررہا تھا۔
    سپیڈ کم ہوئی اور کار رک گئی۔اس نےہا رن دبایا۔تیسری آواز پرگیٹ کھل گیا۔
    بادل ایک بار پھر بڑےزور سےگرجی۔ بارش میں اور شدت آگئی۔کار آگےکو سرکی مگر اس سےپہلےکہ کار گیٹ سےاندر داخل ہو تی‘بجلی زور سےچمکی۔فانوس سےروشن ہوگئی۔
    وہ چونک اٹھا۔
    اس کی تیز نظریں گیٹ کےباہر بائیں ہاتھ بنےچھوٹےسےسائبان تلےچھائےاندھیرےمیں جم گئیں۔
    ”کیا بات اےصاب! “ پٹھان چوکیدار نےبارش میں بھیگتےہوئےپوچھا۔
    ”خان۔۔۔“لیکن اس سےپہلےکہ وہ فقرہ پورا کرتا‘برق پھر کوندی۔وہ تیزی سےکار کا دروازہ کھول کر باہر کو لپکا۔اس دوران خان بھی گیٹ سےباہر نکل آیا۔
    بارش اور تیز ہوا کی پرواہ کئےبغیردو تین لمبےلمبےڈگ بھر کر وہ اس اندھیرےکونےمیں پہنچ گیا‘جہاں دو بار برق نےاجالا کیا تھا۔
    ایک سایہ تھا جو بیدِ مجنوں کی طرح لرز رہا تھا۔
    ”کون ہو تم؟“ اس نےجلدی سےپوچھا اورایک بار پھر اس کی نظریں چندھیا گئیں۔
    ”میں۔۔۔“ ایک کمزور سی نسوانی آواز ابھری ۔ پھراس سےپہلےکہ وہ اجنبی وجود زمین پر آرہتا‘ اس کےمضبوط اور گرم بازوؤں نےاسےسنبھال لیا۔
    ”خان۔“ اس نےپلٹ کر پکارا۔
    ”جی صاب۔ “قریب ہی سے آواز ابھری۔
    ”میں کمرےمیں جارہا ہوں ۔گاڑی گیراج میں بند کرکےوہیں چلے آؤ۔ جلدی۔“
    ”جی صاب۔ “وہ تعمیل حکم کےلئےجلدی سےگاڑی کی طرف بڑھ گیا۔
    اس نےاس نازک ، برف سےزیادہ سرد اور لہروں سےزیادہ نرم وجود کو باہوں میں بھر لیا‘جو اَب لکڑی کی مانند کھردرا اور پتھر کی مانند سخت ہوا جارہا تھا۔تیز تیز چلتا ہواوہ پورچ پار کرکےبر آمدےمیں پہنچا۔ پاؤں کی ٹھوکر سےدروازہ کھولااور مختصر سی راہداری کو طےکرکےہال میں چلا آیا۔ایک لمحےکو کچھ سوچا‘ پھرسیڑھیاں چڑھتا چلا گیا۔
    ایک کمرہ چھوڑ کر دوسرےکمرےکےدروازےپر پہنچ کر اس نےپھر دائیں پاؤں سےکام لیا ۔اندر داخل ہوا اور بستر کی طرف بڑھ گیا۔
    دھیرےسےاس نےاپنےبازوؤںمیں بھرےاس ریشمیں خزانےکو احتیاط سےسمیٹ کر بیڈ پر رکھ دیا‘پھراسےگرم لحاف میں چھپا دیا۔ شاید اس لئےکہ کوئی اور دیکھ نہ لی۔ایک لمحےکو اس کی نظریں اس سمٹےپڑےخزانےکےتر بتر چہرےپرجم گئیں‘جہاں سیاہ لانبی زلفیں کسی بادلوں میں چھپےچاندیا گھٹاؤں میں قید برق کا سماں پیش کررہی تھیں۔اسی وقت خان اندر داخل ہوا۔
    ”اوہ خان۔“ اس نےجلدی سےکہا۔کچھ سوچا پھر تیزی سےٹیلی فون کی طرف بڑھ گیا۔
    ڈاکٹر کو فون کرکےوہ حکم کےمنتظر اور چور نظروں سےاس خوابیدہ حسن کو تکتےخان کی طرف متوجہ ہوا اور ہولےسےمسکرایا۔
    ”خان۔“
    ”جی صاب۔“ وہ گھبرا سا گیا۔
    ”تمام نوکر تو سوچکےہوں گی۔“
    ”جی صاب۔“ اس نےاپنا مخصوص جواب دہرایا۔
    ”ہوں ۔“وہ کچھ سوچنےلگا۔پھر کہا۔”تم نیچےچلےجاؤ ۔ اپنےڈاکٹر صاحب آرہےہیں۔ان کو لےکر اوپر چلے آنا۔“
    ”جی صاب!“ اور خان ایک نظر بستر پر ڈال کر دروازےکی طرف بڑھ گیا۔
    اس نے آگےبڑھ کر سوئچ بورڈ پر ایک بٹن دبا دیا۔ایر کنڈیشنڈ سسٹم گہری نیند سےجاگ گیا۔پھر اس کی نادیدہ تپش نےدھیرےدھیرےکمرےکو گرم کرنا شروع کیا۔اس نےمطمئن انداز میں سرہلا کر بند کھڑکیوں کی جانب دیکھا اور کرسی گھسیٹ کر بسترکےقریب لے آیا۔ بیٹھتےہوئےوہ قدرےجھک گیا اور نظریں اس خاموش گلاب پر جما دیں جس کی دو پنکھڑیاں اپنی سرخی کھونےلگی تھیں۔ نیلاہٹ ابھری چلی آرہی تھی۔
    وہ آہستہ سےلرزی تو بےچینی سےوہ کلائی پر بندھی رسٹ واچ پر نظر ڈال کر رہ گیا۔ رات کا ایک بج رہا تھا۔
    اس کی بےتاب نظریں اس غنچہ دہن پر جم گئیں‘جس میں اب پھر کوئی حرکت نہیں تھی۔ آہستہ سےاٹھا۔ جھکا اور لحاف کو اچھی طرح اس پر لپیٹ کر سیدھا کھڑا ہوگیا۔اب وہ بےچینی سےٹہلنےلگا۔ اسی وقت ایسا محسوس ہوا جیسےکوئی تیزی سےسیڑھیاں چڑھتا چلا آرہا ہو۔
    ” آئیے آیئےانکل۔ “وہ کمرےمیں داخل ہوتےادھیڑ عمر مگر مضبوط جسم کےمالک ڈاکٹر ہاشمی کی طرف بڑھا۔ڈاکٹر ہاشمی نےرین کوٹ اتار کر اس سےمصافحہ کیا۔
    ”کیا بات تھی بیٹی۔ میں تو تمہارا فون سنتےہی۔۔۔“اور ان کی آواز حلق ہی میںاٹک گئی۔حیرت زدہ نظریں بستر پر پڑی جوان اور نیلی پڑتی لڑکی کےوجود پر ٹھہر گئیں۔وہ تیزی سےاس کی طرف بڑھی۔چند لمحوںبعدان کا تجربہ کارہاتھ لڑکی کےماتھےسےہٹا تو وہ کچھ مضطرب سےنظر آرہےتھی۔
    ”خان۔ ۔۔میرا بیگ ۔“ وہ بولےاور خان کےساتھ ہی وہ بھی ان کےقریب چلا آیا۔
    بیگ کھلا اور ڈاکٹر اپنےفرض میں ڈوبتا چلا گیا۔وہ خاموشی سےڈاکٹر ہاشمی کی کوششوں کا جائزہ لیتا رہا۔کتنی ہی دیر گذر گئی اور تب ڈاکٹر ہاشمی ایک طویل سانس لےکر بستر کی پٹی سےاٹھ کھڑےہوئی۔
    ”انکل!“ وہ مضطربانہ انداز میں اتنا ہی کہہ سکا۔
    ”الحمدللہ ۔خطرہ ٹل چکا ہی۔ “ وہ آگےبڑھ کر کرسی پر بیٹھ گئی۔”خان۔ کچن سےدودھ لے آؤ۔“انہوں نےکہا اور خان کمرےسےنکل گیا۔”ہاں۔اب کہو۔ یہ سب کیا چکر ہی؟“ ڈاکٹر ہاشمی کےہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
    ”چکر۔۔۔؟“ وہ جھینپ گیا۔”چکر تو کوئی نہیں ہےانکل! میں پکچر دیکھ کر لوٹا تو یہ باہر گیٹ کےپاس کھڑی نظر آئی۔ میں کار سےنکل کر اس کےقریب پہنچامگرکچھ پوچھنےاور بتانےکی نوبت ہی نہ آئی اور یہ بےہوش ہوگئی۔ میں اسےاٹھا کر اندر لے آیا اور آپ کو فون کردیا۔ بس ‘یہ ہےساری بات۔“
    ”ہوں ۔ڈاکٹر ہاشمی کےہونٹ شرارت سےپھڑکی۔” بیٹے۔ لڑکی تھی ناں۔ اگر صنف کرخت ہوتی تو۔۔۔“
    ” آپ مجھےاچھی طرح جانتےہیں انکل۔“وہ مسکرا کر بولا اور ڈاکٹر ہاشمی ہنس دیی۔
    ”میں تو مذاق کررہا تھا۔ ہاں۔۔۔بیگم صاحبہ زمینوں سےنہیں لوٹیں ابھی؟“
    ”جی نہیں ۔ابھی کافی دن رکیں گی وہاں۔“
    اسی وقت خان دودھ کا بھر ا جگ اور گلاس لئےاندر داخل ہوا۔”صاب۔ دودھ بہوت تا۔ہم گرم کر لائی۔ “وہ جگ میز پر رکھتےہوئےبولا۔
    ”یہ تو بہت اچھا کیاخان۔ “وہ دودھ گلاس میں انڈیلتا ہوا بولا۔
    دودھ پی کر فارغ ہوگئےتو ڈاکٹر ہاشمی اٹھ کھڑےہوئی۔”اچھا بیٹی۔ میں چلتا ہوں۔بارش کا زور کم ہو رہا ہے۔کہیں پھر زور نہ پکڑلی۔“
    ”بہتر انکل۔ “وہ بھی اٹھ کھڑا ہوا۔خان نےڈاکٹر کا بیگ تھام لیا۔
    ”صبح دس بجےسےپہلےہوش نہیں آئےگا۔ پریشان نہ ہونا۔ “وہ پھر مسکرا دیےاور وہ جھینپ کران کی ہدایات کو ذہن نشین کرنےلگا۔” نیند کےانجکشن کا اثر کم از کم نو گھنٹےرہےگا۔ کیپسول تپائی پر پڑےہیں۔ ہوش آنےپر ہر چار گھنٹےبعد گرم دودھ سےدو کیپسول دیتےرہنا۔“ ڈاکٹر ہاشمی رخصت ہوگئی۔
    کمرہ خاصا گرم ہوچکا تھا۔نیلےہونٹ اب کچھ کچھ گلابی نظر آرہےتھی۔اس نےمطمئن انداز میں سر ہلایااور بستر کےقریب چلا آیا۔ سانس اب مناسب رفتار سےچل رہا تھا۔چہرہ پُرسکون تھا۔کتنی ہی دیر تک وہ اس محو استراحت حسنِ بےپرواہ کو تکتا رہا۔
    ”صاب۔“ خان کی آواز اسےبچھو کےڈنک ہی کی طرح لگی۔
    وہ تیزی سےپلٹا۔ ”تم ابھی تک یہیں ہو۔“اس کےلہجےمیں کچھ اکتاہٹ تھی مگر خان بھی مجبور تھا۔ اسےنیند نےتنگ کررکھا تھا۔ وہ بلاوجہ اس کی محویت کو ختم کرنےکا قصور وار نہ ہوا تھا۔
    ”کوئی حکم صاب؟“ وہ ڈر سا گیا۔
    ”کچھ نہیں۔بس جاؤ۔اور دیکھو۔ اس کمرےمیں کوئی مت آئی۔ میںساتھ والےکمرےمیں آرام کروں گا۔ “
    ”جی صاب۔“وہ سلام کرکےدروازےکی طرف بڑھ گیا۔
    چند لمحےوہ بستر پر پڑےمصور کےاس حسین خیال کوگل پاش نظروں سےدیکھتا رہا۔ پھر پلٹ کر دھیرےدھیرےچلتا ہوا کمرےسےباہر نکل گیا۔
    پھر یوں ہوا کے درد مجھے راس آ گیا

  2. #11
    Mohammad Sajid's Avatar
    Mohammad Sajid is offline * خاک نشین *
    Join Date
    Mar 2008
    Location
    Hijr
    Posts
    152,881
    Mentioned
    108 Post(s)
    Tagged
    8578 Thread(s)
    Rep Power
    21475005

    Default Re: Ishq Ka Qaaf

    آج پورےسات دن بعد وہ آفس آیا تھا۔یہ دن اس نےگھر پر اپنےکمرےمیں قید رہ کر گزارےتھی۔
    وہ کسی گہری سوچ میں گم بیٹھا تھا۔نادر کب کا ڈاک دےکر جا چکا تھامگر اس نےاس کی جانب نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھا تھا۔
    ”ٹر۔ ر۔رن۔ ٹرن۔ ٹرر۔ رن۔“ٹیلی فون کی چیختی ہوئی آواز نےاس کےسکوت کا سلسلہ درہم برہم کردیا۔
    ”ہیلو۔“ریسیور کان سےلگاتےہوئےاس نےتھکی تھکی آواز میں کہا ۔
    ”مارننگ سر۔“ایک دلکش اور خوبصورت ‘ جانی پہچانی آواز سن کر وہ چونکا۔
    ”امبر۔۔۔“ اس کےلرزتےلبوں سےبےساختہ نکلا۔ پھر دوسرےہی لمحےوہ سنبھل گیا۔”ہیلو امبر۔“ اس نےپُرسکون لہجےمیں کہا۔
    ”کیسےہیں سر؟“وہ چہکتی ہوئی سی محسوس ہوئی۔
    ”ٹھیک ہوں۔ وہ مسکرایا۔”تم کہو۔ سب کچھ ٹھیک ٹھاک رہا ناں۔“
    ” آپ کی عدم موجودگی بڑی بری طرح محسوس کی جاتی رہی سر؟“
    ”ہوں۔“ وہ ہولےسےپھر مسکرا دیا۔”میں تو وہیں تھا امبر۔ تم نےمحسوس ہی نہیں کیا۔“
    ”ایسا نہ کہئےسر۔“ وہ بات سمجھ نہ سکی اور جلدی سےبولی۔
    ”اور کہو۔ تمہارے”وہ“ کیسےہیں؟“ نہ چاہتےہوئےبھی وہ شگفتگی سےبولا۔
    ” سر۔“ وہ شاید شرما گئی تھی۔طاہر نےنچلا ہونٹ دانتوں میں داب لیا۔ ” آپ فارغ ہیں آج شام کو؟“ کچھ دیر بعداس کی آواز سنائی دی۔
    ”کیوں۔ کوئی خاص بات؟“ اس کا دل دھڑکا۔
    ” آپ بتائیےناں سر۔“ وہ مچلی۔
    ”کوئی اہم مصروفیت تو نہیں ہےمجھی۔“ وہ سوچ کر بولا۔
    ”تو بس۔ آج رات کا کھانا آپ ہمارےہاں‘ ہمارےساتھ کھا رہےہیں۔“
    ”مگر امبر۔“ وہ گڑ بڑا گیا۔
    ”دیکھئےسر۔ انکار مت کیجئی۔ پہلےہی آپ بہت زیادتی کرچکےہیں۔“
    ”تمہارے”وہ“ بھی ہوں گی؟“
    ”ان ہی کا تو حکم ہی۔“
    ”تو اس کا مطلب ہےتم مجبورا ً بلا رہی ہو۔“وہ ہنس پڑا۔”اگر وہ نہ کہتےتو۔۔۔“
    ”کیسی باتیں کرتےہیں سر؟“ وہ بےچین سی ہوگئی ۔”وہ تو انہوں نی۔۔۔“
    ”اچھا اچھا ٹھیک ہی۔ مذاق کر رہا تھا۔ میں پہنچ جاؤں گا۔“
    ” سات بجےتک پہنچ جائیےگا۔“
    ”اور کون کون انوائٹ ہی؟“ اس نےبات اڑا دی۔
    ” آج کی شام صرف آپ کےنام ہےسر ۔“ سن کر وہ مسکر دایا۔
    ”تو پھر آپ آرہےہیں ناں؟“
    ”حلف اٹھا لوں ۔“طاہر نےکہا تو امبر ہنس دی۔
    ”اچھا سر۔ شام تک اللہ حافظ۔“اس نےاسےاپنےسسرالی مکان کا پتہ لکھوا کر کہا۔
    ”اللہ حافظ۔“اس نےدھیرےسےکہا۔امبر نےرابطہ کاٹ دیا مگر وہ کتنی ہی دیر تک ریسیور کان سےلگائےبیٹھارہا۔
    ”سر۔ دستخط کردیں۔“کلرک نےاس کےسامنےفائل رکھتےہوئےکہا توطاہر نےچونک کر اس کی جانب دیکھا۔ایک طویل سانس لےکر اس نےریسیور کریڈل پر رکھااور فائل پر نظریں دوڑانےلگا۔پھرقلم اٹھایا اور دستخط کردیی۔وہ فائل لئےباہر نکل گیاتواس نےدونوںہاتھ سر کےپیچھےرکھتےہوئےکرسی کی پشت سےٹک کر آنکھیں موند لیں۔
    سوچیں۔لامتناہی سوچیں۔تنہائی۔ویران تنہائی اور وہ خود۔
    یہی تو تھی اس کی مختصر اور محدود سی دنیا۔
    ٭
    کار آہستگی سےرکی۔وہ باہر نکلا۔ادھر ادھر نظریں دوڑائیں۔چھوٹی سی خوبصورت کالونی تھی۔ ایک ایک دودومنزلہ عمارتیں بڑی ترتیب اور خوبی کےساتھ کھڑی کی گئی تھیں۔ٹی شرٹ اور پتلون میں وہ بیحد سمارٹ لگ رہا تھا ۔سر کےبالوں کو ہاتھ سےسنوارتےہوئےوہ چل پڑا۔پانچ چھ مکان چھوڑ کر وہ ایک دو منزلہ خوبصورت اور بالکل نئےمکان کےدروازےپر رک گیا۔
    ”پروفیسر قمرواصف۔“اس نےنیم پلیٹ پر نظر دوڑائی اور ڈگریاں پڑھےبغیر ہی کال بیل پر انگلی رکھ دی۔ایک منٹ سےبھی کم وقت لگا۔کسی کےتیز تیز قدموں کی آوازیں سنائی دیں اور دروازہ کھل گیا۔
    ”ایوننگ سر۔“وہی مخصوص پیارا سا انداز ۔ امبر کا ہاتھ ماتھےپر تھا۔
    وہ اسےگھورکر رہ گیا۔
    ” آئیےسر۔“ امبر کی آنکھوں کی چمک بڑھ گئی۔وہ چونک پڑا۔بےساختہ اس کےہونٹوں پر مسکراہٹ رینگ گئی۔
    ”ایوننگ۔“دھیرےسےکہہ کر اس نےقدم بڑھا یا۔
    وہ اسےلئےہوئےڈرائنگ روم میں پہنچی۔” آپ بیٹھئےسر۔میں ان کو خبر کرتی ہوں۔“ وہ نظریں چرا کر باہر نکل گئی۔
    وہ دل کا درد دل میں دبائےصوفےپر بیٹھ گیا۔ سرسری نظر سےسجےسجائےدیدہ زیب اور دلکش ڈرائنگ روم کا جائزہ لےکر وہ جانےکیا سوچنےلگا۔
    ”السلام علیکم ۔“ایک مردانہ آواز نےاسےچونکا دیا۔دروازےسےامبر ایک مرد کےساتھ اندر داخل ہوئی
    اور۔۔۔ اسےایک جھٹکا سا لگا۔سارابدن جھنجنااٹھا۔ اسےہر شئےگھومتی ہوئی دکھائی دی۔حیرت اور اضطراب کےملےجلےجذبات سےلبریز نظریں پروفیسر قمر کےچہرےپر گڑ سی گئیں۔وہ حواس میں آیا تو اس وقت جب پروفیسرقمر نےاس کےغیر ارادی طور پر آگےبڑھےہوئےہاتھ کو تھام لیا۔بڑی گرمجوشی تھی اس کےمصافحےمیںلیکن۔۔۔اس کی حیرت زدہ نگاہیں اب بھی نوجوان گورےچٹےپروفیسر قمر کےچیچک زدہ چہرےپرجمی ہوئی تھیں۔
    ” مجھےقمر کہتےہیں۔“وہ مسکرایا ۔”پروفیسر قمر ۔“
    ”میں ۔۔۔ طاہر ۔۔۔“۔اس کی آواز جیسےبہت دور سے آئی۔امبر سر جھکائےان دونوں کےقریب کھڑی تھی۔
    ”بیٹھئےبیٹھئی۔ آپ کھڑےکیوں ہیں؟“قمر خوش اخلاقی سےبولا تووہ کچھ سنبھلا۔ سب لوگ آمنےسامنےصوفوں پر بیٹھ گئی۔
    ”امبر تو ہر وقت آپ ہی کی باتیں کرتی ہی۔“
    ”جی۔ “وہ غیرمحسوس انداز میں مسکرایا۔”یہ تو اس کی محبت ہی۔“
    ”لگتا ہے آپ اپنےہر ورکر کےدل و دماغ پرثبت ہوچکےہیں۔شادی کےروز آپ کےسٹاف کےتقریباً تمام لوگ موجودتھےاور کوئی زبان ایسی نہ تھی جو آپ پر اپنی والہانہ عقیدت کےپھول نچھاور نہ کررہی ہو۔“
    ”جی۔بس یہ تو ان سب کا پیارہی۔ورنہ میں کیا اور میری شخصیت کیا؟“وہ اور کہہ بھی کیا سکتا تھا۔
    پھر پروفیسر قمر ہی باتیں کرتا رہا۔وہ ہوں ہاں کرکےاس کی باتوں سےلاتعلقی پر پردہ ڈالتا رہااور امبر ناخن کریدتی رہی۔
    ” ارےبھئی امبر ۔ وہ چائےوائی۔“ کچھ دیر بعد قمر نےامبر کی طرف دیکھ کر کہا۔
    ”اوہ۔۔۔ میںابھی پتہ کرتی ہوں۔“وہ اٹھی اور طاہر کی طرف دیکھ کر باہر نکل گئی۔
    ”میں ابھی حاضر ہوا طاہر صاحب۔“قمر بھی اس کے پیچھےہی اٹھ کر باہر نکل گیا۔
    اور ۔۔۔اس کا سلگتا ہوا ذہن جلتےہوئےدل کی تپش سےبھڑک اٹھا۔”یہ۔۔۔ یہ کیا تھا؟یہ کیا ہے؟ کیا یہ تھی امبر کی محبت ۔امبر کی پسند۔امبر کی زندگی کا ساتھی۔اس کا شریک حیات۔ کیا یہ ممکن تھا؟ کیا یہ ممکن ہے؟“اس کا دماغ پھٹنےلگا۔رگیں تن گئیں ۔
    ” آئیےسر۔“امبر کمرےمیں داخل ہوئی۔
    وہ اٹھ کھڑا ہوا۔اس کی جلتی ہوئی آنکھیں امبر پر چنگاریاں سی برسانےلگیں۔ ”امبر۔۔۔“اس کی آواز میں بلا کا درد تھا۔
    امبر کےمعصوم لبوں پر کھیلتی مسکراہٹ کچھ اور گہری ہوگئی۔وہ اس کےقریب چلی آئی۔ ”میں جانتی ہوں سر۔سمجھتی ہوں۔لیکن ۔۔۔“وہ ایک پل کو رکی۔”محبت اسی کا نام ہےسر۔کہ اسےوفا کی راہوں پر چلتےہوئےروحوں کےسنگم پر پالیا جائی۔جسموں اور چہروں کی خوبصورتی اور حسن فانی چیزیں ہیں۔اصل حسن تو خوبصورت جذبوں میں پلتا ہےاور اسےدیکھنےکےلئےمن کی آنکھوں کی ضرورت ہوتی ہی۔یہ آنکھیں تو اکثر دھوکا دےجاتی ہیں جو ہم چہروں پر سجائےپھرتےہیں۔جیسے آپ نےفریب کھایا۔“وہ اس کی آنکھوں میں جھانکتےہوئےکہتی رہی۔ وہ خاموشی سےاسےدیکھتا رہا۔تکتا رہا۔
    ”میں جانتی ہوں سر۔ آپ کےذہن میں کتنےہی سوال چکرا رہےہیں۔لیکن۔۔۔“ وہ بڑےپُرسکون اور ٹھہرےہوئےلہجےمیں پھر گویا ہوئی۔”لیکن یہ سوال آپ کی سوچ کےکسی گوشےمیں پیدا نہیں ہونا چاہئیں سر۔ اس لئےکہ میں نےجو کچھ پایا ، جو کچھ سیکھا‘ آپ سےپایا‘ آپ سےسیکھا۔ سر۔قمر کا چہرہ داغدار ہوا تب ہمیں نئےنئےپیمان باندھےہوئےبہت تھوڑےدن ہوئےتھےلیکن ان کےلاکھ انکار‘دور ہونےکی التجا‘بھول جانےکی فریاد کےباوجود میں نےان کو سنبھال لیا۔اس لئےکہ اگر یہی حادثہ ہماری شادی کےبعد پیش آتا تب کیا ہوتا؟ کیا اس وقت بھی میں ان کا ساتھ چھوڑ دیتی۔ضرور چھوڑ دیتی سر۔ضرور چھوڑ دیتی‘اگر میں ان سےمحبت نہ کرتی ہوتی مگر ہم نےتو ٹوٹ کر چاہا تھا ایک دوسرےکو۔ میں اگر ان کی بات مانتےہوئےان سےناطہ توڑ لیتی تو جانتےہیں کیا ہوتا؟وہ خود کشی کرلیتی۔ اس لئےکہ کسی سےدور ہونے، دور رہنےکافیصلہ کرلینا بہت آسان ہےمگر اسےنبھانےکےلئےپتھر بن جانا پڑتا ہےسر۔ اور انسان پتھر بن جائےتو اس میں اور کسی لاش میں کوئی فرق نہیں رہتا ۔محبت کےمارےناکام ہو جائیں یا جان بوجھ کر محرومی کو گلےلگا لیں تو بہت کم ایسےہوں گےجو زندگی کی لاش ارمانوں کی خارزار راہوں پر گھسیٹنےپر تیار ہوں۔جیسے آپ۔۔۔مگر آپ تو سب سےمختلف ہیں۔انسانوں سےمختلف ہیں ۔بلند ہیں۔اس لئےکہ آپ دیوتا ہیں۔ خلوص کی۔ وفا کےدیوتا۔“ وہ ایک لمحےکو رکی‘ پھر کہا۔”اور یہی سوچ کر میں نےقمر کو اپنا لیا۔قمر جو گہناگیا تھا مگر تھا تو قمر۔ شکستہ آئینےتو ویسےبھی دل والوں کےلئےانمول ہوتےہیں سر۔ان میں اپنےچہرےان کو بڑےصاف و شفاف دکھائی دیتےہیں۔“
    وہ خاموش ہوگئی۔
    طاہر کےلبوں پر لرزتی مسکراہٹ کسی مزار پر جلتےدیےکی مانند تھر تھر ااٹھی۔
    ”میں نےٹھیک کیا ناں سر؟“ عجب معصومیت سےاس کےچہرےکو تکتےہوئےامبر نےپوچھا۔
    دھیرےسےطاہر نےاثبات میں سر ہلا دیا۔مسکراہٹ اور گہری ہوگئی۔
    ”سر۔“وہ مسکرائی۔ہونٹ لرزےاور اس کی پلکوں کےگوشےنم ہو گئی۔” میں جانتی تھی آپ میرےفیصلےپر اثبات کی مہر ثبت کرتےہوئےایک پل کی دیر نہیں کریں گی۔ میں ٹھیک کہتی ہوں سر۔ آپ دیوتا۔۔۔“
    اور طاہر نےاس کا فقرہ پورا ہونےسےقبل ہی نفی میں سر ہلا دیا ۔پھر بڑےپیار سی‘ آہستگی سےاس نےکہا ۔ ”تم۔۔۔ تم دیوی ہو۔“اس کی تھرائی ہوئی آواز ابھری۔
    اورامبر نم آنکھوں کےساتھ مسکردی۔طاہر کا جی چاہا آگےبڑھ کر ان انمول موتیوں کواپنےہونٹوں سےچن لے۔وفا کی اس دیوی کی پیشانی پر اپنی محبت کی مہر ثبت کردی۔وہ جو اسےدیوتا کہتی تھی خود کتنی عظیم تھی۔اسےمحبت کا مفہوم معلوم تھا۔ اسےمحبت نبھانا آتا تھا۔
    ”چلئےسر۔“ امبر کی آواز میں نئی زندگی تھی۔
    ”چلو۔“وہ بھی اک نئےانداز سےمسکرایا۔پُرسکون ¾ باوقار اور والہانہ انداز میں۔ اس کےدل کی ساری جلن شبنم میں ڈھل گئی تھی۔ امبر کو نہ پا سکنےکا کوئی پچھتاوا‘ کوئی دکھ‘ کوئی غم نہیں رہا تھا۔ہر پچھتاوا ‘ ہر دکھ‘ ہر غم اس حسرت میں ڈھل گیا تھا کہ کاش‘ قمر کی جگہ وہ خود ہوتا۔
    وہ دونوں کمرےسےنکلےاور کاریڈور میں چل پڑی۔ کھڑکی کےپاس کھڑا قمر ‘ گہنایا ہوا قمر‘پلکوں پر ستارےسجائےمسکرا رہا تھا‘ فخر سی۔ پیار سی۔ ناز سی۔ جو سب کا سب امبر کےلئےتھا۔
    پھر یوں ہوا کے درد مجھے راس آ گیا

  3. #12
    Mohammad Sajid's Avatar
    Mohammad Sajid is offline * خاک نشین *
    Join Date
    Mar 2008
    Location
    Hijr
    Posts
    152,881
    Mentioned
    108 Post(s)
    Tagged
    8578 Thread(s)
    Rep Power
    21475005

    Default Re: Ishq Ka Qaaf

    آفس کو کسی نو عروس کی طرح سجا یا گیا تھا۔
    سب کےچہروں پر ایک طائرانہ نظر ڈال کر وہ مسکرایااور اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا ۔
    ”میرا خیال ہی۔ آپ سب لوگ بری طرح تھک چکےہیں۔“
    ”اب بھی کوئی شک ہےسر۔ “نجمہ نےبےتکلفی سےکہا۔اور وہ ہنس پڑا۔
    ”بھئی تم لوگوں کی لیڈر کو پارٹی دینا کوئی معمولی بات تو ہےنہیں۔“
    ”کتنےبجے آئیں گےوہ لوگ سر؟“کلرک اختر نےپوچھا۔
    ”بھئی اس وقت چار بجےہیں۔ سات بجےکا وقت طےہےان سی۔“
    ”اوہ۔ابھی تین گھنٹےباقی ہیں۔“ انجم جیسےتڑ پ گئی۔”انتظار کا یہ وقت کیسےکٹےگا؟“
    ”اچھا ایسا کرتےہیں کسی انگلش پکچر پر چلتےہیں ۔انٹرول کےبعد پکچر شروع ہوتی ہےاور ساڑھےچھ تک ہم با آسانی واپس آسکتےہیں۔کیا خیال ہی؟“
    سب نےبخوشی رضا مندی ظاہر کردی۔طاہرنےنادر کو دو بڑےنوٹ دےکر سینما پہنچنےکو کہا کہ وہ سب کی ٹکٹیں لےکر ان کا انتظار کری۔ سب لوگ باری باری منہ ہاتھ دھو کر دس پندرہ منٹ میں تیار ہو کر آفس کی گاڑیوں میں لد کر چل دیی۔
    پکچر چھ بجےختم ہوگئی۔ان کی بوریت اور تھکن کافی حد تک دور ہوگئی کیونکہ پکچر اچھی تھی۔سوا چھ بجےوہ واپس آفس میں موجود تھی۔
    ”اچھا بھئی۔ ایک خاص بات۔“ وہ سب بیٹھ گئےتو ایک دم طاہر سنجیدہ ہوگیا۔”تم میں سےکس کس نےقمر صاحب کو دیکھا ہی؟“
    ”ہم سب ہی نےدیکھا ہےسر۔ہم آپ کا مطلب سمجھتےہیں ۔“انجم جلدی سےبولی۔ ”ہم انہیںہرگز ایسی کوئی بات نہیں کہیں گے‘ جس سےمعلوم ہو کہ انہوں نےچہرےپر ذرہ بکتر پہن رکھی ہی۔“اور سب کےساتھ وہ بھی بےساختہ ہنس دیا۔
    ”بس۔“وہ ہاتھ اٹھا کر بولا۔ ”میں اس بات کو ہرگز برداشت نہیں کروں گاکہ وہ کسی بھی طرح اپنی انسلٹ محسوس کریں۔“
    اورسب نےبرا منائےبغیر وعدہ کرلیا۔
    پھر سات بج گئےمگر امبر اور قمر نہ پہنچی۔ساڑھےسات ہوگئی۔ ان دونوں کا اب بھی کوئی پتہ نہ تھا۔طاہر نےدوتین مرتبہ گھر پر فون کیامگر کسی نےریسیور نہ اٹھایا۔ یہ ان کےروانہ ہو جانےکی نشانی تھی۔ لیکن وہ اب تک پہنچےکیوں نہیں؟سب کےذہنوں میں ایک ہی سوال گردش کررہا تھا۔
    پونے آٹھ بجےباہر کسی گاڑی کےرکنےکی آواز سنائی دی۔
    ”سر۔وہ آگئی۔“نادر کمرےمیںداخل ہوا۔
    سب لوگ بیتابی سےاٹھ کھڑےہوئی۔وہ ابھی آفس کا لان پار کررہےتھےکہ اس نے آفس کےدروازےپر ان کو ریسیو کیا۔
    ”معاف کیجئےگا۔ہمیں کچھ دیر ہوگئی۔ “ قمر اس سےمصافحہ کرتےہوئےمعذرت سےبولا۔
    ”کوئی بات نہیں ۔ یہ ان کی پرانی عادت ہی۔“وہ کسی گڑیا کی مانند سجی امبر کی طرف دزدیدہ نظروں سےدیکھتےہوئےبولا۔
    ”نائٹ سر۔ “ وہی مخصوص سا ادھورےسلام کا انداز۔ اور کھلتی ہوئی مسکراہٹ ۔
    ”نائٹ۔“ وہ بھی مسکرادیا۔
    تمام لوگوں سےقمر کا فردا ًفردا ًتعارف پہلےسےتھا۔رضیہ ، انجم اور نجمہ ‘ امبر کو گھیرےکھڑی تھیں اور وہ ان کی باتوں سےکٹی جارہی تھی ۔شرم کےمارےپانی پانی ہو رہی تھی مگر آج وہ اسےمعاف کرنےکےموڈ میں نہ تھیں۔مرد حضرات لڑکیوںسےپرےصوفوں پر جم گئی۔دلچسپ باتوں، قہقہوں، مسکراہٹوں کا خوشگوار سلسلہ چھڑ گیا۔ آج وہ بےتحاشا ہنس رہا تھا۔مسکرارہا تھا۔قہقہےلگا رہا تھا۔ بات بےبات کھلا جارہا تھا۔نجانےکیوں؟
    کچھ دیر اسی حسین فضا کا تسلط رہا۔پھر وہ اٹھ کھڑا ہوا۔” میرا خیال ہےاب دیر کرنا مناسب نہیں ۔کیوں قمر صاحب؟“اس نےپوچھا ۔
    ”جیسے آپ کی مرضی۔“ وہ کچھ بھی نہ سمجھا۔
    وہ مسکرا کر ایک طرف سجی سجائی بڑی سی میز کی جانب بڑھ گیااور اس پر پڑا خوبصورت کپڑا کھینچ لیا۔سب لوگ اس کےگرد جمع ہوگئی۔اس نےمسکراتےہوئےچھری اٹھائی اور پاس کھڑی امبر کی طرف بڑھا دی۔اس نےبڑےدل نشیں انداز میں قمر کی جانب دیکھا اور بڑےسےکیک کےٹکڑےہونےلگی۔
    تالیاں گونجیں ،چھینا جھپٹی ہوئی اور بہاریں کنگنا اٹھیں۔کھانےکی ہر ڈش نےان سےبےپناہ دادوصول کی۔پھر کچھ دیر بعد چائےاور کافی وغیرہ سےشغل کیا گیا۔ تب وہ یادگار لمحہ بھی آن پہنچا‘جب وہ میز کےپاس کھڑا ‘بڑےدلربایانہ انداز سےان سب کو دیکھ رہا تھا‘ جو اس کےسامنےمسکراہٹوں کےپھول لئےکھڑےتھی۔چند لمحےگزر گئی۔پھر آہستہ سےاس کےلبوں کو حرکت ہوئی۔
    ”ساتھیو!“ وہ رکا۔اس کی نظریں امبر کی نظروں سےٹکرائیں اور جھک گئیں۔”مجھےصرف اتنا کہنا ہےکہ یہ تقریب جو ہم نےاپنے آفس کی روح رواں‘ اپنی ایک بہترین دوست ، رفیق اور ساتھی اور آج سےمکمل طور پر پرائی ہو جانےوالی ہستی کےاعزاز میں منعقدکی ہےاور جسے آپ سےمتعارف کرانےکی ، میں ضرورت نہیں سمجھتا۔“ وہ ذرا ٹھہرا۔پھر بولا۔”مجھےیہ کہنےمیں کوئی عار نہیں بلکہ میں فخر سےاس بات سے آپ سب لوگوں کو آگاہ کروں گا کہ امبر ۔۔۔“اس کی نظریں امبر کےمضطرب چہرےپر پھیل گئیں۔ ” اس ادارےکی وہ ممبرہےجس کی محبت ، رفاقت ، پیار اور دردمندی سےجدائی پر دل چاہتا ہےکہ میں جی بھر کر آنسو بہاؤں۔دل کھول کر روؤںاور اس کےدرخشاں مستقبل کی جھلک دیکھ کر ، میرا جی چاہتا ہےکہ میں اپنی پلکوں پر چمکنےوالےہر آبدار موتی کو اس کی مسرتوں، آنےوالی خوشیوں کےقدموں پر نچھاور کردوں۔“ اس کےلرزتےلبوں کی مسکراہٹ کچھ اور گہری ہوگئی۔
    ”دوستو! غم ہر انسان کی زندگی میں آتےہیں۔ کب ، کیسے، کس شکل میں آئیں گی؟ یہ کوئی نہیںکہہ سکتا۔ ایک دکھ کا پہاڑ میرےوجود پر بھی ٹوٹا تھا۔حسرتوں کا ایک آتش فشاں میری زندگی میں بھی پھٹا تھااور میرا خیال ہےاس سے آپ بھی بخوبی واقف ہیں۔“
    اس نےایک طائرانہ نظر ان بتوں پر ڈالی جو سانس بھی اتنی آہستگی سےلےرہےتھےکہ سکوت خود پر بوجھ بن گیا تھا ۔ پھر اس کی گھمبیر آواز نےاس بوجھ کو سرکانا شروع کیا۔
    ”میں اس دکھ ، اس غم،اس سزائےبےجرم کو برداشت کرسکتا تھا نہ کرسکا۔زندگی مجھ پر بوجھ بن گئی۔ہر سانس میرےلئےدائرہ حیات تنگ کرتی چلی گئی۔دنیا اور اس کی ہر رنگینی میرےلئےتاریک رات کی پرچھائیں بن کر رہ گئی۔ مجھےروشنی اور اندھیرےایک ہی ناگن کےدو روپ دکھائی دینےلگی۔میں زندہ ہوتےہوئےبھی مُردوں کی طرح بےحس ہوتا چلا گیا۔ آپ سب نےمیرےدکھ کو محسوس کیا۔میرےغم کی شدت اور میرےزخم کی ٹیس اپنےدلوں میں محسوس کی لیکن ایک ہستی آپ میں ایسی بھی تھی جو آپ سب پر آپ سب کےاحساس پر بازی لےگئی۔ جس نےمجھےدلدل میں دھنستےدھنستے‘کنارےپر کھینچ لیا۔جو مجھےگرداب سےپھر ساحل پر لے آئی۔ جس کی زبان سےنکلےہوئےہر لفظ نےمیرےزخم پر مرہم رکھ دیا۔ جس کی دلجوئی نےمیرےدکھ کی جڑیں کاٹیں۔جس کی محبت، پیار اور عظمت نےنہ صرف مجھےدوبارہ زندگی دی بلکہ زندگی کی امانت، زندگی کو لوٹا دینےکی کامیاب کوشش کی۔وہ۔۔ ۔وہ امبر تھی۔“بےساختہ اس کی پلکوں کےگوشےنم ہوئی۔ تقریباً سب کا یہی حال تھا۔ کوئی دل ایسا نہ تھاجو شدت جذبات سےبوجھل نہ ہو رہا ہو۔کوئی چہرہ ایسا نہ تھاجو فرطِ احساس سےتپ نہ رہا ہو اور امبر کےرخساروں پر تو شبنم ٹپکی پڑنےکو بیتاب تھی۔طاہر دھندلائی ہوئی نظروں سےان سب کو دیکھ کراپنی کپکپاتی آواز پر حتی الامکان قابو پاتےہوئےپھر گویا ہوا۔
    ” آپ سب نےامبر کےساتھ تعاون کیا اور مجھےاپنی محبتوں کی آغوش میںچھپا لیا۔ آپ‘ جو بیگانےہوتےہوئےبھی میرےاپنےبن گئی‘ آپ‘ جو میرےاپنےہیں لیکن آپ کی قسم۔ اگر امبر نہ ہوتی تو شاید آج میں بھی نہ ہوتا۔“
    ”سر“۔ امبر نےبھرائی ہوئی آواز میں کہا اور قمر کےشانےپر سر رکھ دیا۔ اس نےپیار سےاس کا شانہ تھپکا ۔طاہر نےپل بھر کو امبر کی طرف دیکھا اور مسکرا دیا۔
    ”لیکن کتنی بڑی زیادتی ہےمیرےساتھ۔ کتنی بڑی ناانصافی ہےمیرےساتھ۔“وہ بھرائےہوئےانداز میں ہنسا۔”کہ یہ دیوی مجھےدیوتا کہتی ہی۔ آخر کیوں؟“ اس نےپیار بھرےبھیگےبھیگےسوالیہ انداز میں ان سب کو دیکھا۔”کیا صرف اس لئےکہ میں نےچند ضرورت مندوں کو بدحالی کےزمانےمیں پناہ دی۔ان کو کبھی ملازم نہیں سمجھا۔ اپنا جان کر ان سےپیار کیا ۔ان کی ضروریات کا پاس کرتا ہوں۔کیاایسےمعمولی کام کرنےوالےہر انسان کو دیوتا کہا جاتا ہے؟ کیا میرےلئےیہ نام مناسب ہی؟ ہر گز نہیں۔قطعی نہیں۔یہ تو آپ کی محبت ہے۔عقیدت ہی۔پیار ہے۔ ورنہ میں اور دیوتا؟ کوئی جوڑ بھی ہےمیرا اور اس لفظ کا ۔“
    وہ طاہر کےمسکراتےہوئےچہرےکو خاموشی سےتکتےرہے۔
    ”سر“۔تب دھیرےسےامبر ایک قدم آگےبڑھ آئی۔ قمر کےلبوں پر بڑی پیاری سی مسکراہٹ کھیلنےلگی۔طاہر اس کی جانب دیکھتےہوئےبےساختہ ہنس دیا۔
    ” آپ کی ہر بات درست ۔ہر لفظ بجا ۔۔۔لیکن مجھےبتائیےسر“۔ وہ پل بھر کو اس کی جانب دیکھ کر رکی۔اور پھر کسی داستان کی طرح کھلتی چلی گئی۔
    ”ایک ماںکا جگر گوشہ‘ایک مجبور لڑکی کی بہن ‘صرف اس لئےدلہن نہ بن سکےکہ اس کےتن پر سجا ہوا سرخ جوڑا‘جہیز کی لالی سےمحروم ہی۔اس کی رخصتی صرف اس لئےنہ ہو سکےکہ اس کےماتھےپر سونےکا جھومر اور بدن پر زرتار لباس نہیں ہی۔ وہ ساری زندگی ماں باپ کےگھر صرف اس لئےبیٹھی رہےکہ وہ سسرال جاتےوقت اپنےساتھ ذاتی مکان کےکاغذات‘ نقد روپیہ اور کار نہیں لےجاسکتی۔ اس وقت آسمان سےایک فرشتہ اتری۔“
    ”امبر۔۔“ وہ اضطراب اور گھبراہٹ کےملےجلےتاثرات سےگڑبڑاگیامگر وہ اس کی پروا کئےبغیر کہتی رہی۔
    ”وہ انسان ۔ وہ فرشتہ نما انسان اس لڑکی کو سونےمیں پیلا کردی۔اس کےسرخ جوڑےمیں جہیز کی لالی بھی بھر دے۔ وہ سسرال جائےتو اس کےساتھ ذاتی مکان کےکاغذات بھی ہوں اور اس کا دولہا اسی کی کار میں سوار ہوتو اس معصوم اور بھولی بھالی دلہن کےبوڑھےوالدین اور اس کی بہن اس انسان کو دیوتا نہ کہیں‘ تو کیا کہیں سر۔اسےدل ہی دل میں پوجیں نہیںتو کیا کریں سر۔“
    ”امبر۔چپ ہو جاؤ“۔ وہ جیسےبھرےمجمعےمیں بےستر ہوگیا۔
    پھر یوں ہوا کے درد مجھے راس آ گیا

  4. #13
    Mohammad Sajid's Avatar
    Mohammad Sajid is offline * خاک نشین *
    Join Date
    Mar 2008
    Location
    Hijr
    Posts
    152,881
    Mentioned
    108 Post(s)
    Tagged
    8578 Thread(s)
    Rep Power
    21475005

    Default Re: Ishq Ka Qaaf

    ”پھر کسی کا بھائی اس کی جیب سےتعلیم حاصل کرے۔ کسی کی بیوہ بہن اس کےخرچےپر زندگی گزاری۔کسی کی بیٹی اس کےاحسان کےدوش پر پرائےگھر جا کر راج کری۔کسی کا بیٹا اس کےزیر سایہ روزی کمائےتو ہم اسےدیوتا کیوں نہ کہیں سر؟ بولئی۔ جواب دیجئی۔“ وہ گلوگیر آواز میں اس سےسوال کر بیٹھی۔
    وہ سر جھکائےکسی مجرم کی طرف خاموش کھڑا رہا۔جیسےاس پر لگایا جانےوالا ہر الزام صحیح ہو۔سچ ہو۔ حقیقت یہی تھی کہ امبر کی چھوٹی بہن کی شادی پر اس نےپانی کی طرح روپیہ بہایا تھا۔ آفس کےتقریبا ًتمام لوگوں پر کسی نہ کسی صورت میں اس کی نوازشات جاری رہتی تھیں۔ کسی کا بیٹا اس کےخرچےپر پڑھ رہا تھا کسی کی بیٹی کےلئےوہ ہر ماہ معقول رقم دیتا تھا۔کسی کو خاموشی سےبلینک چیک تھما دیا جاتا کہ وہ اس سےاپنی بیٹی کےجہیز کا سامان خرید سکی۔کسی کےبوڑھےوالدین کی بیماری اس کی ادا کی گئی فیس سےصحت میں بدل رہی تھی۔ کسی کا بھائی اس کی سفارش پر کہیں نہ کہیں نوکری حاصل کرچکا تھا اور کسی کی بہن بیوگی کےدن اس کےوظیفےسےبا آسانی کاٹ رہی تھی۔کتنےہی رفاہی اداروں میں وہ ماہانہ دیتا تھا۔کتنےہی فرضی ناموں سےکئی ادارےاس نےفلاحی کاموں کےلئےکھول رکھےتھی‘جہاںان گنت لوگ فیض یاب ہورہےتھی۔ بیکاری کےمارےروزگار پا رہےتھی۔ضرورت مند اپنےخالی دامن مرادوں سےبھر رہےتھی۔ یہ سلسلہ دن بدن بڑھتا جارہا تھا۔اوران حقیقتوں سےاس کےعلاوہ صرف امبر واقف تھی۔ اس کےاور امبر کےدرمیان یہ طےتھا کہ زندگی کے آخری سانس تک‘ حالات کیسےہی کیوں نہ ہوں‘ وہ دونوں کہیں بھی رہیں‘ ان رفاہی کاموں کی منتظم صرف اور صرف امبر رہےگی ۔ ان نیکیوں کےلئےکروڑوں کےبینک اکائونٹ کو صرف وہ آپریٹ کرےگی۔ جیسےاور جہاں چاہےاس پیسےکو خرچ کرےگی۔ طاہر نےاپنےبزنس کےایک خاص پراجیکٹ کی ساری آمدنی براہ راست the proud نامی فلاحی ادارےکےلئےمختص کر رکھی تھی اور یہ آمدنی براہ ِراست اس ادارےکےاکائونٹ میں جاتی تھی‘ جس کےتحت یہ سب نیکیاں انجام پاتی تھیں۔ بیگم صاحبہ تک کواس نےاس کی ہوا نہ لگنےدی تھی۔۔۔لیکن آج امبر نےعلی الاعلان اس کا پول کھول دیا تھا۔ جو نہیں جانتا تھا اسےبھی علم ہو گیا تھاکہ بظاہر انسان نظر آنےولا یہ انسان اندر سےکس مقام پر کھڑا ہی؟کتنےہاتھ اس کےحق میں دعاؤں کےلئےاٹھتےہیں؟ کتنےدل اس کی زندگی اور خیر خواہی کےلئےدھڑکتےہیں؟ کتنی آنکھیں اس کےنام پر تشکر آمیز آنسوؤں سےلبریز ہوجاتی ہیں اور کتنی زندگیوں کی خوشیاں ‘مسرتیں اور مسکراہٹیں اس کےاشاروں پر رقصاںہیں؟
    وہ منہ پھیری‘سر جھکائےمیزکا سہارا لئےکھڑا تھااوروہ سب خاموش‘ بےجان بت بنےاسےدیکھ رہےتھی۔ ۔۔کتنی ہی دیر بعدوہ بڑی آہستگی سےان کی طرف پلٹا۔اس کےچہرےپر اداسی اور یاسیت کےبادل امڈےچلے آرہےتھی۔وہ سراپاخزاں لگ رہا تھا۔بکھرا ہوا‘مرجھایا ہوا گلاب نظر آرہا تھا۔
    ”یہ تم نےکیا کیا امبر؟“ وہ بڑ بڑایا۔پھر نجانےکیا ہوا کہ ایک دم بادل چھٹ گئی۔ گلاب مہک اٹھا۔ وہ مسکرا دیا تھا‘بڑی معصومیت سی۔ امبر کا جی چاہا‘ بھاگ کر اس دیوتا کےچرنوں میں جاگرےاور یوں پگھل جائےجیسےشمع کا یہ حق صرف اسی کو حاصل ہےمگر اس کےلب صرف کپکپا کر رہ گئی‘ آواز نہ نکلی۔ اس کا جسم صرف لرزا‘حرکت نہ کرسکا۔
    ”مجھےکوئی گلہ نہیں امبر کہ تم نےمجھے‘ اپنےدیوتا کو پھولوں کےپہاڑ تلےدفن کرکےرکھ دیا۔ کچھ اس طرح کہ اب اگر میں ان پھولوں کےبوجھ سے آزاد بھی ہونا چاہوں تو نہیں ہوسکتا۔ میںتم سےوعدہ کرتا ہوں امبر کہ ان پھولوں کی مہک کو ہمیشہ تازہ رکھوں گا۔انہیں مرجھانےنہیں دوں گا۔“
    بےاختیار امبر کی آنکھیں چھلک گئیں۔”سر۔ میں نے آپ کودیوتا کہہ کر غلطی نہیں کی۔“وہ سب لوگوں کی طرف پلٹی۔ ”کیا میں نےغلط کہا ؟“
    ان سب کےسر جھک گئی۔اقرار میں۔ اثبات میں ۔یوں لگتا تھا۔جیسےایک مندر میں دیوتا کےحضور ان گنت چراغ سرجھکائےکھڑےلو دےرہےہوں۔احسان ووفا کےمندر میں ۔ پیار کےدیوتا کےحضور‘محبت کےپجاری سرنگوں کھڑےتھی۔
    تب قمر دھیرےدھیرےچلتا ہوا اس کےقریب چلا آیا۔” آپ بہت خوش قسمت ہیں طاہر۔“ وہ اس کےشانےپر ہاتھ رکھ کر بولا۔
    وہ جواب میں ہولےسےاثبات میں سر ہلا کر رہ گیا۔کچھ کہہ نہ سکا۔ اس نےدیکھا‘ سارےہی چہرےپُرسکون ہوتےچلےگئی۔اب مسکراہٹوں میں پہلےکی نسبت زیادہ تازگی تھی۔باتوں میں زیادہ شگفتگی اور نظروں میں زیادہ والہانہ پن تھا۔
    پھروہ فرقتوں کا پیامبر لمحہ بھی آن پہنچا جس کےلئےیہ سارا اہتمام کیا گیا تھا۔ چہرےایک بار پھر اداس ہوگئی۔جذبات افسردہ ہونےلگی۔ دل بوجھل ہوتےچلےگئی۔
    ”امبر۔“ طاہر اس کی اور قمر کی جانب دیکھ کر مسکرایا۔ وہ دونوں اسےاستفہامیہ انداز میں دیکھنےلگی۔”تمہارےدوستوں نےتم لوگوں کو رخصت کرتےوقت اپنےجذبات تحفوں میں چھپا کر پیش کرنےکا فیصلہ کیا ہےاور میرا خیال ہے‘اب وہ یادگار وقت آچکا ہےجب ہمیں اپنےان جذبوں کا اظہار کر دینا چاہیی۔“
    اس نےدوسرےلوگوں کی طرف دیکھا اور وہ اس کا اشارہ سمجھ کر کمرےکےایک گوشےکی جانب بڑھ گئی۔چند لمحوں بعد وہ لوٹےتو امبر اور قمر کےسامنےگفٹ پیکس کا ڈھیر لگ گیا۔ وہ پرےکھڑا مسکراتا رہا۔ آخر میں وہ آگےبڑھا اور ایک سفید بڑا لفافہ امبر کےہاتھ میں تھما دیا۔
    ”اس میں کیا ہےسر؟“ وہ حیرت سےبولی۔
    ”اس میں۔۔۔“ وہ دھیرےسےمسکرایا۔ ” اس میں ایک چھوٹا سا گزارش نامہ ہےامبر جس کےتحت آج سےتم the proud کی تا حیات چیئر پرسن ہو۔ “
    ”سر۔۔۔“ وہ سُن ہو گئی۔
    ”کچھ مت کہو امبر۔ یہ تمہارا وہ حق ہےجو مجھ پر قرض تھا۔ آج کےبعد بھی تمام معاملات ویسےہی چلتےرہیں گےجیسےاب تک چلتے آ رہےتھی۔ صرف ایک شق ختم ہو جائےگی اور وہ یہ کہ آج کےبعد کسی چیک پر‘ کسی دستاویز پر تمہیں میرےدستخط درکار نہیں ہوں گی۔ اب تم خود فائنل اتھارٹی ہو۔بس ایک بات یاد رکھنا کہ ہم دونوں کےدرمیان جو اس کام کو نسل در نسل جاری رکھنےکا عہد ہوا تھا اس میں کوئی دراڑ نہیں آنی چاہئی۔ کوتی تعطل نہیں آنا چاہئی۔ the proudکو آسمان ِ خیر پرہمیشہ دمکتا رہنا چاہئی۔ ہم رہیں نہ رہیں‘ اس عہد کو زندہ رہنا چاہئی۔ میںتمہاری شادی پر تمہیں اس ذمےداری کےتحفےکےسوا کچھ نہیں دےسکتا۔“
    ”سر۔۔۔“ امبر نےلفافےکو چوم کر پلکوں پر رکھ لیا۔اس کی آنکھوں سےچھلکتی شبنم نےاس عہد نامےپر پاکیزگی کی مہر ثبت کر دی۔
    ”قمر صاحب۔“ طاہر نےپروفیسر قمر کی جانب دیکھا اور اس کا ہاتھ تھام لیا۔” میرا خیال ہے آپ کو اس پر تو کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ یہ کوئی جاب نہیں ہی۔“
    ”قطعاً نہیں طاہر صاحب۔یہ تو ایک سعادت ہےجس میں مَیں خودامبر کا ساتھ دینا چاہوں گا۔“ وہ بڑےجاندار انداز میں مسکرایا۔
    ”شکریہ۔“ طاہر نےاس کا ہاتھ دبایا اور چھوڑ دیا۔پھر اس نےنادر کو اشارہ کیا۔ وہ تحائف دو تین پھیروں میں باہر طاہر کی کار میں رکھ آیا۔
    ”امبر۔ ایک آخری بات۔“ طاہر نےاپنی کار کی چابی اس کےہاتھ پر رکھ دی۔”یہ تمہاری کار کی چابی ہی۔“
    ”یہ تو آپ کی ۔۔۔“ امبر نےکہنا چاہا۔
    ”اب یہ کار تمہاری ہی۔ the proudکی چیئر پرسن کو ادارےکی جانب سےکار اور رہائش کی سہولت دی جائی‘ یہ ادارےکےچارٹر میں طےہی۔اس سفید لفافےمیں تمہاری نئی رہائش کےکاغذات بھی موجود ہیں۔ انکار مت کرنا کہ یہ تمہارا حق ہی۔“
    ”اوکےسر۔“ امبر بےاختیار مسکرا دی۔” میں بار بار حیرت اور انکار کےچکر میں پڑ کر کیوں آپ کا دل دکھائوں۔ آپ کا حکم سر آنکھوں پر۔“
    ”دیٹس گڈ۔“ طاہر بھی مسکرا دیا۔
    ”نائٹ سر“۔کار میں بیٹھ کر امبر نےلرزتےہاتھ کو پیشانی تک لےجا کر اسی مخصوص انداز میں کہا اور بےساختہ اس کی آنکھیں بھر آئیں۔
    ”نائٹ امبر۔ “وہ دل گرفتہ لہجےمیں مسکراتےہوئےبولا۔
    پھر دعاؤں‘ آنسوؤں‘ محبتوں اور بےپناہ بوجھل جذبات کی چھاؤں میں وہ دونوں رخصت ہوگئی۔
    ویران ویران آفس کی ہر چیز اداس تھی۔مندر سونا ہوگیا تھا‘ دیوتا کےدل کی طرح۔دیوتا کی داسی جاچکی تھی ناں۔ شاید اسی لئے!
    پھر یوں ہوا کے درد مجھے راس آ گیا

  5. #14
    Mohammad Sajid's Avatar
    Mohammad Sajid is offline * خاک نشین *
    Join Date
    Mar 2008
    Location
    Hijr
    Posts
    152,881
    Mentioned
    108 Post(s)
    Tagged
    8578 Thread(s)
    Rep Power
    21475005

    Default Re: Ishq Ka Qaaf

    ”طاہر۔“ بیگم صاحبہ کی آواز نےسیڑھیوں کی جانب جاتےہوئےاس کےقدم روک لئی۔
    ”جی امی۔“ وہ ان کی طرف لوٹ آیا۔
    ”بیٹھو۔“ انہوں نے آنکھ سےاشارہ کیا ۔ وہ ان کےسامنےصوفےپر بیٹھ گیا۔”بہت تھکےتھکےسےلگ رہےہو۔“ انہوں نےغور سےاس کا چہرہ دیکھا۔
    ”کام بہت تھا آج آفس میں۔“ اس نےگردن پیچھےڈال دی۔
    چند لمحےخاموشی میں گزر گئی۔”جائو۔ فریش ہو جائو۔ کھانےکی میز پر بات کریں گی۔“ بیگم صاحبہ کی آواز میں بیحد نرمی تھی۔
    ”کوئی خاص بات امی؟“ اس نےدھیرےسےپوچھا اور سیدھا ہو بیٹھا۔
    ”ایسی بھی خاص نہیں مگر ضروری ہی۔“
    ”تو ابھی کر لیجئی۔ میں بھوک محسوس نہیں کر رہا۔“
    ”تم جانتےہو‘ ابھی تک ہم نےاپنی عادت نہیں بدلی۔ تم نہیں کھائو گےتو ہم بھی بھوکےسوجائیں گی۔“
    ”یہ زیادتی ہےامی۔“ وہ انہیں شکوےبھری نظروں سےدیکھ کر بولا۔” کسی وقت مجبوری بھی ہوتی ہی‘ میں باہر کھانا کھا کر آئوں ۔۔۔“
    ”تب ہم نےکبھی اصرار نہیں کیا طاہر۔۔۔ مگر آج تم کھا کر نہیں آئی۔“
    ”امی۔۔۔“ وہ مسکرایا۔” آپ سےجیت نہیںسکتا میں۔ “ وہ اٹھ گیا۔ ” ٹھیک ہی۔ میں فریش ہو کر آتا ہوں۔“ اس نےاپنا بریف کیس اٹھایا اور سیڑھیوں کی طرف بڑھ گیا۔
    آدھ گھنٹےبعد دونوں ماں بیٹا کھانےسےفارغ ہو چکےتھےاور اب کافی کا دور چل رہا تھا۔
    ”جی امی۔“ اس نےچسکی لےکر ¾ مگ میز پر رکھا۔” اب کہئی‘ کیا بات تھی؟“
    ”بات نئی ہےنہ بحث طلب طاہر۔بس تمہاری طرف سےکسی پیشرفت کےمنتظر ہیں ہم۔“
    طاہرنےبےاختیار سر جھکا لیا۔ وہ سمجھ گیا کہ ان کا اشارہ کس طرف ہی۔ دونوں ہاتھ سینےپر باندھ کر اس نے آنکھیں موندلیں اور جیسےکسی گہری سوچ میں ڈوب گیا۔ بیگم صاحبہ اسےخاموشی سےتکتی رہیں اور کافی کا کپ خالی کرتی رہیں۔
    ”جیومیٹری کا مسئلہ حل کر رہےہو بیٹی؟“ کافی دیر گزر گئی تو وہ بول اٹھیں۔
    ”نہیں امی۔“ بیساختہ وہ ہنسا اور آنکھیں کھول دیں۔” لیکن یہ میرےلئےمسئلہ فیثا غورث سےکم بھی نہیں ہی۔“
    ”تم زندگی کو اپنےلئےاتنا مشکل کیوں بنا رہےہو طاہر۔“ بیگم صاحبہ نےاسےمحبت سےدیکھا۔”بیٹی۔ زندگی اللہ کی نعمت ہی۔ اسےاس طرح ضائع مت کرو کہ یہ کفران بن جائی۔ زندگی کی خوشیوں پر تمہارا جتنا حق ہےا تنا ہی خوشیوں کا تم پر بھی حق ہی۔اپنا حق چھوڑو نہ کسی کا حق غصب کرو‘ کاروبارکی طرح یہ کلیہ زندگی کےشب و روز پر بھی لاگو ہوتا ہی۔“
    ”میں نےاپنی سی کر کےدیکھ لی امی۔ میں تو اپنی زندگی سےوہ مسرت کشید نہیں کر سکاجس کا خواب میں نے ہمیشہ دیکھا۔ جو کچھ ہوا آپ کےسامنےہی۔ پھر بھی۔۔۔“
    ”تم نے آج تک جو بھی کیا‘ اس میں کہیں تمہاری جلدبازی کو دخل ہےاور کہیں دیر کو۔ ہم نےایک ماں ہونےکا تمہیں بھرپور ایڈوانٹیج دیا ہےطاہر۔ ہم نےتمہارےاچھےیا بری‘ غلط یا صحیح ‘ کسی بھی فیصلےکو خوشی سےیا مجبوراً بہر حال قبول کیا۔ تم یہ نہیں کہہ سکتےکہ ہم تمہاری خوشیوں میں کہیں بھی حائل ہوئےہیں۔ اس کےباوجود اگر تم نےٹھوکر کھائی ہےتو تمہیں سنبھلنےکےلئےہم نےوقت بھی دیا ہےاور یہ بات تو تم بھی تسلیم کرو گےکہ ہم نےتمہیں ہر بار جی بھر کےوقت دیاہی۔ ۔۔ لیکن بیٹی۔کب تک؟ کب تک تم اپنےمفروضےپر اڑےرہو گےاور ہم تمہاری ناکامیوں پر چھپ چھپ کر آنسو بہاتےرہیں گی؟“ ان کی آواز ٹوٹ سی گئی۔
    ”امی۔“ وہ بیتاب سا ہو گیا۔” میں نےاپنی طرف سےکبھی بدنیتی سےکام نہیں لیا۔ جسےبھی انتخاب کیا‘ پورےخلوص اور محبت سےکیا مگر میری قسمت ہی میں کسی کا پیار نہیںہی۔ شاید مجھےتنہائی کا زہر ۔۔۔“
    ”غلط کہہ رہےہو تم طاہر۔“ بیگم صاحبہ نےاس کی بات کاٹ دی۔ ” اپنی قسمت کو دوش مت دو۔ ہم سمجھتےہیں کہ تمہارا انتخاب نہیں‘ انتخاب کا طریقہ غلط تھا۔ بحث کریں گےتو وقت بھی ضائع ہو گا اور زخموں کےمنہ بھی کھل جائیں گےجبکہ اس وقت ہمارا مقصدیہ نہیں ہی۔ ہم تو چاہتےہیں کہ بہار کےوہ لمحےجو ناکامیوں کی ٹھوکر سےبکھر گئےہیں‘ انہیں خزاں آ جانےسےپہلےسمیٹ کر تمہارےدامن میں ڈال دیں۔ تمہاری تنہائی کو ایک ایسےساتھی کی ضرورت ہےطاہر جو اپنی وفا شعاری اور رفاقت کی پلکوں سےتمہاری زندگی میں خود رو پودوں کی طرح اُگ آنےوالےساری تھکن ‘ ساری محرومی کےکانٹےچن لی۔“
    ”امی۔۔۔“ طاہر نےکچھ کہنےکےلئےلب کھولےمگر بیگم صاحبہ نےہاتھ اٹھا کر اسےخاموش کرا دیا۔
    ” آج ایک ماں کی حیثیت سےنہیں‘ ایک دوست بن کر ہم تمہیں سمجھانا چاہتےہیں طاہر کہ تم جو چاہتےہو شاید وہ تمہارےمقدر میں نہیں ہےیعنی کوئی ایسی ہستی جو تمہاری زوجیت میں آنےسےپہلےتمہیں ٹوٹ کر چاہی‘ ایسا ہونا ممکن ہےتمہارےہاتھ کی لکیروں میں نہ لکھا ہو لیکن یہ تو ممکن ہو سکتاہےناں کہ جو لڑکی بیوی بن کر تمہاری زندگی میں آئی‘ وہ تمہیں اتنی محبت دےدےکہ تمہاری ساری ناکامیاں ‘ ساری محرومیاں سیراب ہو جائیں۔ اور یہ اس لئےبھی ممکن ہےبیٹےکہ ہم مشرق کےلوگ ہیں۔ یہاں کی بیویاں جسےاپنےماتھےکا جھومر بنا لیتی ہیں اسےخدا کےبعد وہ درجہ دیتی ہیں‘ جسےصرف سجدےکا حق حاصل نہیں ہی‘ باقی تمام حقوق وہی ہیں جو خدا کےبعد صرف اور صرف ایک شوہر کو دیےگئےہیں۔پسند کی چیز ایک دکان سےنہ ملےتو دوسری دکان میں نہ جانا حماقت کےسوا اور کچھ نہیں ہوتا طاہر۔ جو شےتمہیں درکار ہےوہ صرف اور صرف ایک بیوی کی محبت ہےاور اسےتم شادی سےپہلےہی حاصل کرنےپر کیوں مصر ہو‘ یہ ہماری سمجھ سےباہر ہی۔“
    ”مجھےخوف آتا ہےامی ۔“اچانک وہ میز سےاٹھ گیا اور کھڑ کی میں جا کھڑا ہوا۔
    ”خوف؟“ بیگم صاحبہ نےحیرت سےکہا۔”کیسا خوف اور کس سی؟“
    ”کیا ضروری ہےامی کہ جو لڑکی میری بیوی بن کر آئےوہ مجھ سےپہلےکسی اور سےانوالو نہ ہو؟“
    ”یہ بات تم پہلےبھی کہہ چکےہو طاہر۔ آخر تم اس وہم میں کیوں مبتلا ہو؟“انہوں نےاپنا رخ اس کی جانب پھیرلیا۔
    ”میرا دوست جمال اسی حادثےکا شکار ہوکر موت کی آغوش میں جا سویا تھا امی جان۔ اس نےجس لڑکی سےشادی کی ‘ وہ شادی سےپہلےکسی اور لڑکےکو چاہتی تھی۔ جمال سےشادی کےبعد بھی وہ اس لڑکےکو نہ بھول سکی اور اس سےچھپ چھپ کر ملتی رہی۔ جمال نےاس بات سےواقف ہونےکےبعد اسےطلاق دےدی مگر اپنی بیوی پروین کی جدائی اور بےوفائی برداشت نہ کر سکا۔ دو ماہ بعد اس نےخودکشی کر لی۔“
    ”کیا؟“ بیگم صاحبہ کا منہ کھلےکا کھلا رہ گیا۔
    ”ہاں امی۔“ طاہر کی آواز بھیگ گئی۔ ”وہ میرابچپن کا دوست تھا۔ اس کا خیال آج بھی مجھےرلا دیتا ہی۔ میں اسی خوف سےاس وہم کا شکار ہو گیا ہوں کہ کہیں ایسی ہی بیوی میرےنصیب میں بھی نہ لکھی ہو۔اسی لئےمیں چاہتا تھا امی کہ جس سےشادی کروں ‘ شادی سےپہلےاس سےمیرا محبت کا ایسا تعلق استوار ہو چکا ہو جس میں کسی اور کےسائےکا بھی شائبہ نہ ہو۔“
    ”طاہر۔“ بیگم صاحبہ اٹھ کر اس کےقریب چلی آئیں۔” بیٹےتم نےکیسا وہم پال لیا ہےدل میں۔ یہ تو ناسور بن کر تمہیں چاٹ جائےگا۔“ انہوں نےاس کےماتھےاور پھر بالوں میںپیار سےہاتھ پھیرتےہوئےکہا۔”میری جان۔ ہر لڑکی ایسی نہیں ہوتی۔یہ تو پروین یا اس جیسی کسی بھی دوسری لڑکی کےماں باپ کو چاہئےکہ وہ شادی سےپہلےبالکل اسی طرح بیٹی سےبھی اس کی پسند اور مرضی معلوم کریں جیسےبیٹےسےمعلوم کرتےہیں۔ میں سمجھتی ہوں اس میں قصور ایسی لڑکی کا کم اور اس کےسرپرستوں کا زیادہ ہوتا ہےجو بیٹی کو اس کی پسند بتانےکا وہ حق نہیںدیتے‘ جو اسےہمارےمذہب نےدیا ہی۔ لڑکا ہو یا لڑکی‘ دونوں کو شادی میں اپنی پسند اور ناپسند یدگی کےاظہار کا یکساں حق حاصل ہی۔ اگر پروین کےوالدین بیٹی کی مرضی سےاس کی شادی کر دیتےتو اسےطلاق ہوتی نہ جمال خودکشی کرتا۔بہرحال تمہارےوہم کا علاج ہےمیرےپاس۔“
    ”یہی ناں کہ مجھےشادی سےپہلےلڑکی سےملاقات کا موقع دیا جائےگا اور میں اس سےایک دو ملاقاتوں میں یہ بات صاف کرنےکی کوشش کر سکوں گا کہ وہ کسی اور سےتو۔۔۔“
    ”ہاں۔“ بیگم صاحبہ نےاثبات میں سر ہلایا۔” اس کا یہی ایک حل ہےمیرےپاس۔“
    “ نہیں امی۔“ طاہر نےان کےہاتھ تھام کر گالوں سےلگا لئی۔” میں ایسانہیں چاہتا۔“
    ”تو پھر۔۔۔؟“ وہ الجھ گئیں۔
    ”دو بار میں نےاپنی سی کر کےدیکھ لی۔ اب آپ کو اختیار ہے آپ جو چاہےکریں۔ مجھے آپ کا ہر فیصلہ منظور ہو گا۔“
    ”طاہر۔۔۔“ وہ حیرت زدہ رہ گئیں۔
    ”ہاں امی۔“ میں اب اندھا دائو کھیلنا چاہتا ہوں۔ آپ جو لڑکی میرےلئےپسند کریں گی‘ میں اس سےشادی کر لوں گا۔ اسےشادی سےپہلےدیکھوں گا نہ اس سےملوں گا۔ “
    ”ایسا۔۔۔؟“ بیگم صاحبہ کےچہرےپر پھلجھڑیاں سی چھوٹیں۔
    ”ہوں۔“ طاہر نے آنکھیں موند کر ان کےہاتھوں کوہونٹوں سےلگا لیا۔
    ”پھر سوچ لو طاہر۔“
    ”سوچ لیا امی۔“ وہ سرشاری سےبولا۔”مجھےسمجھ آ رہا ہےکہ جب اپنےفیصلےٹھیک نہ بیٹھ رہےہوں تب کسی ایسی ہستی پر اعتماد کر لینا چاہئےجسےدل اپنا خیرخواہ مانتاہو۔ اور ماں سےبڑھ کر کون ہو گا امی‘ جسےاولاد کی بھلائی عزیز ہو۔“
    ”جیتےرہو طاہر۔“ بیگم صاحبہ کا دل گلاب کی طرح کھل گیا۔ آنکھیںچھلک نہ جائیں‘ یہ چھپانےکےلئےانہوں نےطاہر کی جانب سےرخ پھیر لیا۔
    ”امی۔“ طاہر پیچھےسےان کےگلےمیں باہیں ڈال کر لپٹ گیا۔
    ”بس کرو طاہر۔ اتنا لاڈ کرو گےتو ہم رو دیں گی۔“ انہوںنےنچلا ہونٹ دانتوں میں داب لیا۔
    ”کبھی نہیں امی۔“ طاہر نےان کےشانےپر سر رکھ کر انہیں زور سےبھینچ لیا۔” میں آپ کو رونےدوں گا تب ناں۔“
    بیگم صاحبہ نےاس کےہاتھوں پر اپنےہاتھ رکھ دیےاور ہولےہولےیوں تھپکنےلگیں جیسےاس کی محرومیوں کو ‘ اس کی ناکامیوں کوگہری نیند سلا دینا چاہتی ہوں۔
    ٭
    بیگم صاحبہ نےبہت زور دیا مگر طاہر نےایک ہی انکار پر کمر باندھےرکھی۔ لڑکی کی تصویر تک دیکھنےسےانکار کر دیا۔اس کی بس ایک ہی رٹ تھی۔”امی۔ آپ جو چاہیں‘ جیسےچاہیں کریں۔ میں آپ کی بہو کو دیکھوں گا تو اسی وقت جب وہ دلہن بن کر اس گھر میں آ جائےگی۔“
    بیگم صاحبہ کو اس کی اس بات پر محتاط ہو جانا پڑا۔وہ نہیں چاہتی تھیں کہ ان سےکوئی ایسا فیصلہ ہو جائےجو طاہر کےاس اعتماد کو لےڈوبی۔
    ڈاکٹر ہاشمی کےمشورےسی‘ بڑا پھونک پھونک کر سوچتےہوئےانہوں نےایک متوسط گھرانےکی ایسی لڑکی کا انتخاب کیاجو اپنےماں باپ کےمرنےکےبعد اپنی بیوہ ممانی کےپاس رہ رہی تھی۔ ممانی نےاسےحتی الامکان سہولت سےپالا تھا۔ بی اےتک پڑھایا اور سلائی کڑھائی سےلےکر کچن تک ‘ گھر کےتمام کاموں میں طاق کر دیا۔ ممانی کی اپنی دو بیٹیاں تھیں جن کی شادیاں ہو چکی تھیں اور وہ اپنےگھروں میں خوش تھیں۔ لڑکی کےماں باپ اور پھر ماموں اتنا کچھ چھوڑ گئےتھےکہ تینوں بچیوں کی شادی کےبعد بیوہ ممانی آرام سےزندگی گزار سکتی تھی۔
    طاہر کےرشتےنےباوقار‘ وسیلہ خاتون کو کتنےہی دن گم صُم رکھا۔ اتنےبڑےگھرانےمیں اپنی بیٹیوں یا اب صفیہ کی شادی کا تو انہوں نےخواب بھی نہ دیکھا تھا۔وہ دمےکی مریضہ اور کئی سال سےڈاکٹر ہاشمی کےزیر ِ علاج تھیں۔ ڈاکٹر ہاشمی انہیں سالوں سےجانتےتھی۔ انہوں نےاس خاندان کےبارےمیں بیگم صاحبہ کو پوری پوری ضمانت دی۔ صفیہ کو بھی وہ بہت اچھی طرح جانتےاور سمجھتےتھی۔ وہ درجنوں بار وسیلہ خاتون کےساتھ ان کےکلینک آ چکی تھی بلکہ بی اےکے آخری سال میں تو وہ ڈاکٹر ہاشمی کےنوجوان بیٹےسرمد ہاشمی سےکئی ماہ تک پڑھائی میں مدد بھی لیتی رہی تھی۔ انہی دنوں وہ صفیہ کےبارےمیں زیادہ جان پائےتھی۔ یتیم اور ہونہار صفیہ کےبارےمیں کبھی کبھار سوچتےتو انہیں بہت اچھا لگتا۔ صفیہ اس لئےبھی انہیں اچھی لگتی تھی کہ ان کی کوئی بیٹی نہ تھی۔گھر میں صرف وہ اور سرمد تھی۔ بیوی کےمرنےکےبعد انہوں نےدوسری شادی نہ کی تھی۔ بیٹےکو پالا اور ایم بی اےکےلئےلندن بھجوا دیا۔ اب وہ اپنےہاسپٹل میں مگن رہتےتھے۔ سرمد کی واپسی میں ابھی کچھ عرصہ باقی تھا۔ ایک آدھ بار ان کےدل میں صفیہ اور سرمد کی شادی کا خیال بھی آیا مگر وہ سرمد کی تعلیم میں ایسی کسی بات سےروڑا نہ اٹکانا چاہتےتھےجو اس کا دھیان تعلیم سےہٹا دی۔ اس لئےیہ بات اس کی واپسی پر اٹھا رکھی۔ پھر جب بیگم صاحبہ نےان کےسامنےطاہر کی تازہ صورتحال بیان کرکےجلد از جلد کسی متوسط گھرانےکی لڑکی تلاش کرنےکو کہاتو سب سےپہلےان کےتصور میں صفیہ کا چہرہ ابھرا۔ انہوں نےبیگم صاحبہ سےذکر کیا۔ بیگم صاحبہ نےان کےہاسپٹل ہی میں آ کر ایک دن صفیہ کو بہانےسےدیکھ لیا۔ سرو قد صفیہ کی بھولی بھالی صورت‘ سرخ و سفید رنگ روپ اور شیریں کلامی نےان کا دل پہلی نظر ہی میں مٹھی میں کر لیا۔ انہوں نےڈاکٹر ہاشمی کو وسیلہ خاتون سےبات کرنےکا عندیہ دےدیا۔
    تیسرےدن جب ڈاکٹر ہاشمی نےوسیلہ خاتون سےصفیہ کےلئےطاہر کےبارےمیں بات کی تو ان کا منہ حیرت سےکھل گیا۔ انہوںنےسوچنےکےلئےچند دن کی مہلت مانگی‘ جو ڈاکٹر ہاشمی نےطاہر اور اس کی فیملی کےبارےمیں مکمل معلومات فراہم کرتےہوئےانہیں دےدی۔ساتھ ہی کہا کہ ”جیسےوسیلہ خاتون کےگھرانےکی طرف سےہر قسم کی ذمہ داری مجھ پر ہےاسی طرح بیگم صاحبہ کی طرف سےبھی ہر طرح سےمیں ضامن ہوں۔“
    یہ بہت بڑی بات تھی مگر وسیلہ خاتون زمانےکےنشیب و فراز سےڈرتی تھیں۔ انہیں اپنی بیٹیوں سےزیادہ اپنی یتیم و یسیر بھانجی کا خیال تھا۔ اس لئےوہ کئی دن تک ڈاکٹر ہاشمی سےدوبارہ ملنےنہ آئیں۔ بال آخر ڈاکٹر ہاشمی نےانہیں فون کر کےبلایا اور کسی حتمی فیصلےپر پہنچنےکےلئےبیگم صاحبہ کےخاندان کےبارےمیں چھان بین کی مکمل آزادی دی۔ ساتھ ہی کہا کہ روپےپیسےجائدادوغیرہ جیسی کوئی بھی اور کسی بھی انتہاکو چھوتی ہوئی ضمانت انہیں دی جا سکتی ہی۔
    وسیلہ خاتون نےڈاکٹر ہاشمی کی اس بات پر پھیکےسےانداز میں مسکراتےہوئےکہا۔ ”ڈاکٹر صاحب۔ اگر روپیہ پیسہ ہی بیٹیوں کےسُکھ کا ضامن ہوتا تو آج کسی کروڑ پتی کی کوئی بیٹی دُکھی نہ ہوتی‘ اجڑ کر میکےنہ آ بیٹھتی اور شوہر کےسلوک کی شاکی نہ ہوتی۔ بات تو ساری نصیبوں کی ہےاور نصیب میں کیا لکھا ہی‘ یہ کون جانی؟“
    ”میں آپ کی بات سےسو فیصد متفق ہوں وسیلہ خاتون۔ اور اگر آپ غور کریں تو آپ کی اس بات ہی میں آپ کےاندیشوں اور سوچوں کا حل موجود ہی۔“
    ”یعنی۔۔۔“ ڈاکٹر ہاشمی کی جانب دیکھ کر انہوں نےاستفسار کیا۔
    ”دیکھئی۔ جب آپ مانتی ہیں کہ ہو گا وہی جو نصیب میں لکھا ہےتو پھر خوف کیسا؟ ہم بےاختیار انسان تو صرف یہی کر سکتےہیں کہ اپنےطور پر پورا اطمینان کر لیں کہ جو قدم ہم اٹھانےجا رہےہیں وہ ہمیں کہیں کسی گڑھےمیں تو نہیں لےجا رہا۔ اگر یہ اطمینان حاصل ہو جائےتو اس کےبعد ہم پرصرف یہ واجب ہےکہ ہم اپنےاللہ کی بارگاہ میں بیٹی کےسُکھ کی دعا کرتےہوئےسرِتسلیم خم کر دیں۔ میں جانتا ہوں کہ بیٹی کا دُکھ کیا ہوتا ہے؟ اس لئےکہ ساری زندگی بیٹی کےلئےترسا ہوں۔ میرےخالق کی مرضی نہ تھی کہ مجھےبھی بیٹی کا باپ ہونےکا اعزاز ملتاوگرنہ میں ‘ سرمد کی ماں کےمرنےتک اس خواہش میں برابر کا شریک تھا کہ ہمارےہاں بھی ایک بیٹی جنم لیتی۔ ہمارےگھر میں بھی اللہ کی رحمت اترتی۔ یہ ساری باتیں کرنےکا سبب یہ ہےوسیلہ خاتون کہ ایک طرف تو میں بیگم صاحبہ کی طرف سےہر بات کا ضامن ہوں‘ دوسری طرف میں نے آپ کو مکمل آزادی دی ہےکہ آپ ان کےبارےمیں جیسےچاہیں چھان بین کر سکتی ہیں۔تیسری بات یہ کہ آپ کی تسلی کےلئےبیگم صاحبہ ایسی ہر ضمانت۔۔۔“
    ”یہ بات رہنےدیں ڈاکٹر صاحب۔“ وسیلہ خاتون نےان کی بات کاٹ دی۔ ”میری کسی بات کا یہ مطلب ہےہی نہیں۔“
    ”تو پھر کھل کر کہئے‘ بات کیا ہےجو آپ گومگوکا شکار ہیں؟“
    ”بات صرف سٹیٹس کی ہےڈاکٹر صاحب۔“ وسیلہ خاتون نے آخر کہہ ہی دیا۔ ”ہم اس پائےکےلوگ نہیں ہیں جس سطح سےطاہر کا رشتہ آیا ہی۔ یہی بات میرے”ہاں “کہنےمیں مانع ہی۔“
    ”بس۔۔۔“ ڈاکٹر صاحب نےبغور وسیلہ خاتون کی جانب دیکھا۔”اس کےعلاوہ تو کوئی بات نہیں ہی؟“
    ”جی نہیں۔ میں چھان بین کرنےسےبھی انکاری ہوں کہ آپ جیسا زمانہ شناس اور ذمہ دارشخص درمیان میں موجود ہی۔ میری ہچکچاہٹ کا اور کوئی سبب نہیں ہی۔“
    ”تو پھر سینےمیں رکےہوئےخوف سےبوجھل سانس کو آزاد کر دیجئےوسیلہ بہن۔ اگر صفیہ کو کبھی کانٹا بھی چبھ گیا تو دوسرےجہان میں میرا گریبان ہو گا اور آپ کا ہاتھ۔۔۔“
    ”بس ڈاکٹر صاحب۔“ وسیلہ خاتون نےہاتھ اٹھا کر انہیں مزید کچھ کہنےسےروک دیا۔ ” آپ کی اس معاملےمیں موجود گی ہی میرےلئےبہت بڑی ضمانت ہی۔ اب آپ نےبہن کہہ دیا تو میں دوسرےجہان کےبوجھ سےابھی آپ کو بری الذمہ کرتی ہوں ۔ اس لئےکہ بیٹیوں کےنصیب اچھےہوں ‘ ہم صرف یہ دعا کر سکتےہیں اس کےلئےکوئی اشٹام لکھا جا سکتا ہےنہ کوئی بوجھ ذمےلیا جا سکتا ہی۔“
    ”تو میں آپ کی طرف سے۔۔۔“
    ”جی ہاں۔ آپ بیگم صاحبہ کو میری طرف سےہاں کہہ دیجئی۔“ وسیلہ خاتون کی آواز بھیگ سی گئی۔ ”ساتھ ہی ان سےصرف یہ عرض کر دیجئےگا کہ صفیہ میری بھانجی نہیں‘ بیٹی ہی۔“
    ”میں انہیں پہلےہی بتا چکا ہوں وسیلہ بہن کہ صفیہ آپ کےلئےاپنی بیٹیوں سےبڑھ کر ہی۔“ڈاکٹر ہاشمی نےجلدی سےکہا۔ ”تاہم ایک بات آپ سےمیں بھی کہنا چاہوں گا۔“
    ”جی جی۔ “ وسیلہ خاتون نے آنکھوں کےگوشےخشک کئی۔
    ”کیا آپ نےصفیہ سےپوچھ لیا؟“
    ”لوگ عام طور پر ایسی باتوں سےگریز کرتےاور ایسا کرنا اپنی غیرت اور شان کےخلاف سمجھتےہیں ڈاکٹر صاحب‘ لیکن میں نےصفیہ سےبرابر پوچھ لیا ہی۔ جواب میں خاموشی اس کی رضامندی کا ثبوت ہی۔“
    ”تو میری طرف سےمبار ک قبول کیجئی۔“ ڈاکٹر ہاشمی نےخوش ہو کر کہا۔ ”میں آج دوپہر یہاں سےسیدھا بیگم صاحبہ کےہاں جائوں گا اور انہیں بھی یہ خوشخبری سنا دوں گا۔ بتانےکو تو یہ بات انہیں فون پر بھی بتائی جا سکتی ہےمگر میرا جی چاہتا ہےکہ میں یہ خبر انہیں خود جاکر سنائوں۔“
    ”اب جیسے آپ کی مرضی ڈاکٹر صاحب۔ مجھےاجازت دیجئی۔“ وسیلہ خاتون اٹھ کھڑی ہوئیں۔
    ”ضرور ضرور۔“ ڈاکٹر ہاشمی بھی سیٹ سےاٹھ گئی۔ ”میں آج کل ہی میں اگلا پروگرام آپ کےگوش گزار کر دوں گا۔“
    ”جی۔ اللہ حافظ۔“ وسیلہ خاتون رخصت ہو گئیں اور ڈاکٹر ہاشمی ایسےبیتاب ہوئےکہ وقت سےپہلےہی ہاسپٹل سےنکل پڑی۔
    بیگم صاحبہ نےجب ان کی زبان سےصفیہ کےبارےمیں نوید سنی تو بےاختیار ان کی زبان سے”الحمد للہ“ نکلا۔ڈاکٹر ہاشمی نےانہیں وسیلہ خاتون کےتمام اندیشوں کےبارےمیں کھل کر بتایا تو انہوں نےایک عجیب فیصلہ سنا دیا۔
    ”ڈاکٹر صاحب۔ صفیہ کی ممانی کےاندیشےزمانےکی چال دیکھتےہوئےبےبنیاد نہیں ہیں۔ اس لئےہم نےفیصلہ کیا ہےکہ اپنی میکےکی پشتینی جائداد طاہر کی دلہن کےنام کر دیں گی۔ اس گھر میں آنےپر ہماری طرف سےیہ جائداد اسےمنہ دکھائی میں دی جائےگی۔“
    ”بیگم صاحبہ۔“ ڈاکٹر ہاشمی کا منہ کھلےکا کھلا رہ گیا۔” آپ جانتی ہیں کہ آپ نےکیا فیصلہ کیا ہی؟“
    ”جی ہاں ڈاکٹر صاحب۔“ وہ بڑےاطمینان بھرےانداز سےمسکرائیں۔ ”ہم خوب جانتےہیں ۔ اور یہ بہت ضروری ہی۔ ایک تو اس لئےکہ صفیہ اور اس کےمیکےوالوں کو زندگی بھر کا اطمینان دلانا ہےاور دوسرےاس لئےبھی کہ ہماری بہو جب اس گھر میں داخل ہو تو کروڑوں کی مالک بن چکی ہو۔“
    اور ڈاکٹر ہاشمی کی زبان تھم گئی۔ انہوں نےمزید کچھ کہنےکاارادہ ترک کر دیا۔بیگم صاحبہ جو فیصلہ کر چکی تھیں اس کےپیچھےخاندانی جاہ وحشم اور وقار بول رہا تھا‘ جس پر وہ کوئی سمجھوتہ کرنےکو کبھی تیار نہ ہوتیں۔
    اگلےدن سےشادی کی تیاریاں ایک بار پھر پورےزور شور سےشروع ہو گئیں۔ زاہدہ کے آنےپر جس کام کی ابتدا ہوئی تھی‘ اب اسےانجام تک پہنچانےمیں بیگم صاحبہ کسی قسم کی دیر نہ چاہتی تھیں۔اس لئےمحض دو ہفتوں کےوقفےسےنکاح کی تاریخ رکھ دی گئی۔ وسیلہ خاتون کو بھی کوئی اعتراض نہ تھا کہ وہ مدت سےصفیہ کی شادی کا سامان کئےبیٹھی تھیں۔
    طاہر نےپروفیسر قمر اور امبر کو بلا کر بیگم صاحبہ کےسپرد کر دیا۔ اب وہ تینوں تھےاور شادی کےہنگامی۔ طاہر خاموشی سےایک طرف ہو گیا۔ اسےاگر شادی کی بہت زیادہ خوشی نہ تھی تو کوئی دُکھ بھی نہ تھا ۔ اس نےخود کو حالات کےسپرد کر دیا۔ وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ اب مقدر اس کےساتھ کیا کھیل کھیلتا ہی؟ اس سےقبل ‘وہ شادی سےپہلےکسی کی محبت پانےکےجنون میں مبتلا تھا۔ اب وہ شادی کےبعد محبت مل جانےکی امید سےدل بہلا رہا تھا ۔
    مگر اس کےساتھ کیا ہونےوالاتھا؟ اس سےوہ بالکل ایسےہی بےخبر تھا جیسےہر انسان اپنےساتھ پیش آنےوالےکسی بھی سانحےیا اچانک نکل آنےوالےانعام سےلا علم ہوتا ہی۔
    پھر یوں ہوا کے درد مجھے راس آ گیا

  6. #15
    Mohammad Sajid's Avatar
    Mohammad Sajid is offline * خاک نشین *
    Join Date
    Mar 2008
    Location
    Hijr
    Posts
    152,881
    Mentioned
    108 Post(s)
    Tagged
    8578 Thread(s)
    Rep Power
    21475005

    Default Re: Ishq Ka Qaaf

    صفیہ نےطاہر کی دلہن کےروپ میں ” سلطان وِلا“ میں قدم رکھا تواسےطاہر کےساتھ دیکھ کر بیگم صاحبہ کےہونٹوں پر سُکھ بھری مسکراہٹ نےجنم لیا۔
    امبر کےساتھ دوسری لڑکیاں اپنےگھیرےمیں اسےاور طاہر کو بقعہ نور بنےہال کےدرمیان کھڑی بیگم صاحبہ تک لے آئیں۔ بیگم صاحبہ نےانہیں خود سےدو قدم کےفاصلےپر ہاتھ اٹھا کر روک دیا۔
    ”ذرا رک جائو بہو۔“ ان کا تخاطب صفیہ سےتھا جو سرخ جوڑےمیں ملبوس ‘ زیورات اور پھولوں میں لدی چہرےپر گھونگھٹ ڈالےفرش کی جانب دیکھ رہی تھی۔ بیگم صاحبہ کی آواز پر اس نےدھیرےسےاوپر دیکھا۔ وہ اسی کی جانب دیکھ رہی تھیں۔
    ”ہماری طرف دیکھو۔“ انہوں نےبڑی محبت سےکہا۔
    صفیہ نےسمجھ میں کچھ نہ آنےکےسےانداز میں ان کی جانب دیکھا۔
    ”ہم تمہیں تمہارا حق دینا چاہتےہیں بہو۔ “ بیگم صاحبہ نےاس کا دایاں ہاتھ تھام کر اوپر اٹھایا اور اس میں ایک گفٹ پیک جیسا لفافہ تھما دیا۔صفیہ نےلفافہ تھام لیا مگر وہ اب بھی الجھی ہوئی نظروں سےانہیں دیکھ رہی تھی۔
    ”یہ تمہاری منہ دکھائی ہی۔ ہم نےاپنی میکےکی ساری جائداد تمہارےنام کر دی ہی۔“
    صفیہ کا ہاتھ لرز گیا۔ اس نےگھبرا کر دائیں ہاتھ کھڑےطاہر کی طرف دیکھا جو پہلےحیران ہوا پھر ایک دم مسکرا دیا۔اس کےمسکرانےسےصفیہ کو کچھ حوصلہ ہوا۔
    ”اب آئو۔ ہمارےسینےمیں ٹھنڈک ڈال دو۔“ انہوں نےبازو وَا کر دیی۔
    صفیہ بےاختیار آگےبڑھی اور ان کےسینےسےلگ گئی۔ اسی وقت ہال تالیوں کےشور سےگونج اٹھا۔ وہاں موجود ہر شخص اس اچانک نمودار ہو جانےوالی خوشی میںخود کو شریک ثابت کر رہا تھا جبکہ ڈاکٹر ہاشمی ہونٹوں پر بڑی آسودہ مسکراہٹ لئےپروفیسر قمر کا ہاتھ اپنےدونوں ہاتھوں سےدبا رہےتھی۔
    ”امبر۔ دلہن کو اوپر لےجائو بیٹی۔“ کچھ دیر بعد بیگم صاحبہ نےصفیہ کو خود سےالگ کیا۔ امبر ‘ دوسری خواتین کےساتھ صفیہ کو لئےہوئے آہستہ قدموں کےساتھ سرخ قالین میں لپٹی سیڑھیوں کی جانب بڑھ گئی ۔
    طاہر نےزربفت کی شیروانی اور سر سےکلاہ اتار کرملازم کےحوالےکیا اور ایزی ہو کر اپنے آفس کےلوگوں میں آ بیٹھا ۔ یہی اس کےدوست تھی۔ یہی اس کےساتھی۔ اس نےجمال کی موت کےبعد کسی کو اپنی دوستی کےدائرےمیں داخل ہونےکی اجازت ہی نہ دی تھی۔ اس وقت بھی اسےجمال بےطرح یاد آ رہا تھا۔ اگر آج وہ زندہ ہوتا تو اس کی شادی کا رنگ ہی کچھ اور ہوتا۔ سینےمیں جلن دیتےاس کےخیال سےراہ ِفرار اختیار کرتےہوئےوہ نجانےکس دل سےہنس رہا تھا۔ تاہم کچھ دیر بعد وہ موجودہ صورتحال میں جذب ہوتا چلا گیا۔
    ہنگامہ فرو ہوتےہوتےرات کےگیارہ بج گئی۔ سب لوگ رخصت ہو گئی۔ گائوں سے آئےہوئےمزارعوں اور ان کی خواتین کا انتظام گھر کےپائیں باغ میں ٹینٹوں میں کیا گیا۔ وہ سب وہاں چلےگئےاور کھانےپینےسےلطف اٹھانےلگےجس کا وسیع پیمانےپر اہتمام تھا۔
    سب سے آخر میں ڈاکٹر ہاشمی ‘ امبر اور پروفیسر قمر رخصت ہوئی۔ امبر نےطاہر کو پورا ایک ماہ آفس نہ آنےکا نادر شاہی حکم سنایاجس پر بیگم صاحبہ نےتصدیق کی مہر لگا دی۔
    ”میں سب سنبھال لوں گی سر۔ آپ پورا ایک ماہ چھٹی پر ہیں اور یہ چھٹی ایکسٹینڈ بھی ہوسکتی ہی۔ نو پرابلم۔“ وہ بےنیازی سےبولی۔
    ”میں تمہارےساتھ ہوں امبر بیٹی۔ “ بیگم صاحبہ ہنسیں۔ ” اسے آفس سےجتنا دور رکھ سکتی ہو ‘ تمہیں اختیار حاصل ہی۔“
    ” آپ فکر نہ کریں بیگم صاحبہ۔“ امبر نےطاہر کی جانب دیکھا۔ ” یہ آفس میں گھسنا تو درکنار‘ کم از کم ایک ماہ تک فون بھی نہیں کر سکیں گی۔“
    ”جانےدو بھئی۔ کیوں میرا کورٹ مارشل کرنےپر تُلی ہو تم۔“ طاہر گھبرا گیا۔
    ” آپ یہی سمجھیں سر کہ آپ کا کورٹ مارشل ہو چکا ہےاور مجھےپورا یقین ہےکہ جب آپ اپنی سزا کا گھونگھٹ اٹھائیں گےتو ایک ماہ کےایک سال میں بدل جانےکی دعا کریں گی۔“
    اس پر سب لوگوں کا ملا جُلا قہقہہ گونجا۔ طاہر کو بھاگتےہی بنی۔ ڈاکٹر ہاشمی اور پروفیسر قمر سےہاتھ ملا کروہ پلٹا اور سیڑھیوں کی جانب بڑھ گیا۔
    تھوڑی دیر بعد امبر اور پروفیسر قمر رخصت ہو گئےاور اب ہال میں صرف ڈاکٹر ہاشمی اور بیگم صاحبہ رہ گئیں۔
    ”مجھےبھی اب اجازت دیجئےبیگم صاحبہ۔“ ڈاکٹر ہاشمی نےجانےکا ارادہ ظاہر کیا۔
    ”ہم آپ کےہمیشہ ممنون رہیں گےڈاکٹر صاحب۔“ بیگم صاحبہ نےشال کندھےپر درست کرتےہوئےکہا۔
    ”ایسا نہ کہئےبیگم صاحبہ۔ طاہر کا مجھ پر بڑا حق ہی۔“ وہ مسکرائی۔
    ”یہ آپ کا بڑا پن ہےڈاکٹر صاحب۔ اور ہم آپ کا شکریہ ادا کر کےاس بڑائی کا قد گھٹانا نہیں چاہتی۔ہاں ‘ اس وقت ہم آپ سےایک مشورہ اور کرنا چاہتےہیں۔“
    ”جی جی ۔ فرمائیی۔“ وہ جلدی سےبولی۔
    ” چاہتےہیں کہ زندگی کی سب سےبڑی تمنا پوری ہونےپر اپنےاللہ کا شکر اس کےگھر میں جا کر سجدہ ریز ہو کر ادا کریں۔“
    ”اس سےبڑی سعادت اور کیا ہو گی بیگم صاحبہ۔ آپ نےبہت اچھا سوچا۔“ ڈاکٹر ہاشمی واقعی متاثر ہوئی۔
    ”لیکن اگر ہم یہ چاہیں کہ اس متبرک سفر میں آپ بھی ہمارےساتھ چلیں تو۔۔۔“
    ”میں حاضر ہوں بیگم صاحبہ۔“ ڈاکٹر ہاشمی کےچہرےپر پھول سےکھِلی۔ شاید یہ سفر ان کےاندر کی آواز تھا۔
    ”کوئی رکاوٹ تو مانع نہیں ہی۔“ بیگم صاحبہ نےپوچھا۔
    ”رکاوٹ کیسی بیگم صاحبہ۔ سرمد لندن میں ہی۔ ہاسپٹل کون سامیرےسینگوں پر کھڑا ہی‘ اسےسنبھالنےوالےموجود ہیں۔ اور کوئی ایسی ذمہ داری ہےنہیں جو راستےکا پتھر بنی۔“
    ”تو بس۔ “بیگم صاحبہ نےجیسےفیصلہ سنا دیا۔ ” آپ انتظام کریں ۔ اگلےہفتےمیں کسی بھی دن ہم دونوں بہن بھائی عمرےکےلئےروانہ ہو جائیں گی۔“
    ”انشا ءاللہ۔“ ڈاکٹر ہاشمی نےبےساختہ کہا۔
    پھر وہ سلام کر کےرخصت ہو گئےاور بیگم صاحبہ اپنےکمرےکی جانب بڑھ گئیں۔ ان کا رواں رواں اپنےخالق کےسامنےسجدہ ریز ہونےکو بیتاب تھا۔ کمرےمیں داخل ہو کر انہوں نےدروازہ بند کر لیا اور اس وقت اگر وہاں کوئی سننےوالا ہوتا تو سنتا کہ چند لمحوں بعد کمرےسےبھیگی بھیگی شکرانےکی صدائیں جو بلند ہوئیں تو ان کےسبب ہر طرف کیسا عاجزی اور انکساری کا دھیما دھیما نور پھیل رہا تھا۔
    پھر یوں ہوا کے درد مجھے راس آ گیا

  7. #16
    Mohammad Sajid's Avatar
    Mohammad Sajid is offline * خاک نشین *
    Join Date
    Mar 2008
    Location
    Hijr
    Posts
    152,881
    Mentioned
    108 Post(s)
    Tagged
    8578 Thread(s)
    Rep Power
    21475005

    Default Re: Ishq Ka Qaaf

    کتنی ہی دیر گزر گئی۔
    پھولوں کےبستر پر گھونگھٹ نکالےصفیہ سر جھکائےبیٹھی تھی۔ طاہر اس کےپاس بستر کی پٹی پر بیٹھا کچھ سوچ رہا تھا۔وقت یوں دبےپائوں چل رہا تھا جیسےاسےوہم ہو کہ اس کی آہٹ ان لمحوں کو چونکا دےگی۔
    کنکھیوں سےصفیہ نےطاہر کی جانب دیکھا اور بڑےغیر محسوس انداز میں پہلو بدلا۔ اسےالجھن ہونےلگی تھی۔
    طاہر اس کےہلنےپر چونکا۔ پھر اس کےچہرےپر خجالت کے آثار نمودار ہوئی۔ وہ سوچوں میں گم تھا اور نئی نویلی دلہن اس کی کسی بھی پیشرفت کےانتظار میں سوکھ رہی تھی۔ پہلو بدل کر اس نےگھونگھٹ میں چھپےچہرےپر ایک نگاہ ڈالی اور اس کا دل سینےمیں اتھل پتھل ہونےلگا۔
    بڑا عجیب اور جاں گسل لمحہ تھا۔ اسےگھونگھٹ اٹھانا تھا۔ اپنی باقی زندگی کےساتھی کو دیکھنا تھا۔ اس سےباتیں کرنا تھیں۔ اسےکچھ بتانا تھا۔ اس سےکچھ پوچھنا تھا مگر اسےحوصلہ نہ ہو رہا تھا۔ سمجھ نہ آ رہی تھی کہ یہ سارےمراحل کیسےطےکری؟
    پھر اسےکچھ خیال آیا اور اس کےسینےسےجیسےبوجھ سا ہٹ گیا۔ بڑوں کی بنائی ہوئی رسمیں کبھی کبھار کتنا کام آتی ہیں‘ دل ہی دل میں اسےاقرار کرنا پڑا۔
    اس نےکرتےکی جیب میں ہاتھ ڈالا اور چھوٹی سی نیلی مخملیں ڈبیا نکال کر کھولی۔ اندر نیلم جڑی وائٹ گولڈ رِنگ جگمگا رہی تھی۔
    انگوٹھی نکال کر اس نےڈبیا تپائی پر ڈالی اور دھڑکتےدل کےساتھ بائیں ہاتھ سےصفیہ کا دایاں ہاتھ تھاما۔ اسےصفیہ کےہاتھ میں واضح لرزش اور ایک دم در آنےوالی تپش کا احساس ہوا۔ طاہر نےخشک لبوں پر زبان پھیری ۔
    ”امی نےتو آپ کو منہ دکھائی دےدی۔ یہ میری طرف سےرونمائی کا تحفہ ہی۔“ کہتےہوئےاس نےانگوٹھی اس کےہاتھ کی درمیانی انگلی میں پہنا دی۔
    صفیہ نےہاتھ واپس کھینچنا چاہا۔ کھینچ نہ سکی۔طاہر نےدھیرےسےاس کا ہاتھ چھوڑا تو اس کی جان میں جان آئی۔ اس نےہاتھ دوبارہ کھڑےگھٹنوں پر رکھ لئےاور ان پر گھونگھٹ کر لیا۔ بےاختیار طاہر کو ہنسی آ گئی۔
    ” زندگی بھر گھونگھٹ میں رہنےکا ارادہ ہےکیا؟“ اس نےبےتکلفی کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھا۔
    جواب میں صفیہ کا بدن ذرا سا ہلا اور شرما کر اس نےسر اور جھکا لیا۔
    ”دیکھئی۔ اب تو ہم آپ کادیدار کرنےکا پروانہ بھی آپ کےحوالےکر چکےہیں۔ کیا اب بھی اجازت میں کوئی امر مانع ہی؟“
    ” آپ اتنےگاڑھےگاڑھےالفاظ کیوں بول رہےہیں؟“ اچانک ایک مدھر آواز نےطاہر کےکانوں میں رس گھول دیا۔
    ”اتنی خوبصورت آواز۔“ بیساختہ اس کا دل پکارا۔ ” اتنا حسین لہجہ۔“ وہ بےقرار سا ہو گیا۔
    آہستہ سےاس کےہاتھ بڑھےاور چاند سےبدلی ہٹا دی۔
    بےخودی نےطاہرکو جکڑ لیا۔ اس کی نگاہوں میں نشہ سا اترا اور سارےوجود میں پھیلتا چلا گیا۔اس کےسامنےایک انسانی چہرہ ہی تھا مگر اس پر کیسا حسن ضوفشاں تھا کہ جس نےطاہر کی رگ رگ میں مستی بھر دی۔ وہ عجب بہکےبہکےانداز میں صفیہ کےچہرےکو تکےجا رہا تھا۔ وہ اپنےگھٹنوں پر ٹھوڑی ٹکائے‘ آنکھیں بند کئےخاموش بیٹھی تھی۔ گلاب رنگ رس بھرےگداز ہونٹوں کےگوشےہولےہولےلرز رہےتھی۔ پلکیں تھرتھرا رہی تھیں اور رخسار شرم سےدہک رہےتھی۔
    ساری ہچکچاہٹیں‘ ساری بےحوصلگیاں دم توڑ گئیں۔ طاہر کی وارفتگی نےاسےبےبس کر دیا۔ اس نےچاہا کہ اس چاند چہرےکو ہاتھوں کےپیالےمیں لےکر اس کےہونٹوں کا سارا رس پی جائی۔۔۔ مگر اسی وقت صفیہ کےہاتھوں نےحرکت کی اور اس کا چہرہ دوبارہ گھونگھٹ میں چھپ گیا۔ طاہر کےبڑھتےہوئےہاتھ رک گئےاور ساتھ ہی اس کےحواس لوٹ آئی۔
    ایک گہرا سانس لےکر اس نےاپنےتپتےجسم کی ناگفتنی کیفیت پر قابو پانےکی کوشش کی۔ پھر بستر پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا۔
    ”اگر آپ مناسب سمجھیں تو تکلف کی یہ دیوار گرانےکی باہمی کوشش کی جائی۔“ ذرا دیر بعد اس نےکہا۔
    جواب میں صفیہ خاموش رہی۔ ہوں نہ ہاں۔ طاہر نےچند لمحےانتظار کیا۔
    ”اس کےلئےضروری ہےکہ سب سےپہلے آپ یہ بدلی اپنےچاند چہرےسےہٹا دیں۔“ وہ دونوں ہاتھ گود میں رکھتےہوئےبولا۔
    ”پہلے آپ یہ مشکل مشکل الفاظ بولنا بند کریں۔“ صفیہ نےاپنی مست آواز سےطاہر کو پھر گرما دیا۔ساتھ ہی جیسےوہ ہولےسےہنسی۔ طاہر کےلبوں پر بھی مسکراہٹ ابھر آئی۔
    ”میں نےکوئی مشکل لفظ نہیں بولا۔ صرف آپ کےحسن کی تعریف کی ہی۔“ طاہر نےبےتکلفی کی جانب چھلانگ لگائی اور ساتھ ہی ہاتھ بڑھا کر صفیہ کا گھونگھٹ الٹ دیا۔
    صفیہ اس اچانک حملےسےبےخبر تھی‘ اس لئےکچھ کر نہ سکی اور اس کی نظر سیدھی طاہر کےچہرےپر جاپڑی۔ دونوں کی نگاہیں ملیں اور چند لمحوں کےلئےوہ ایک دوسرےمیں کھو کر رہ گئی۔ پھر صفیہ نےشرما کر نظر جھکا لی۔ طاہر کا دل سینےمیں مچل کر رہ گیا۔ اس کےشرمانےکا انداز اسےاور بھی دلفریب لگا۔
    ” دیکھئی۔ یہ زیادتی ہی۔“ طاہر نےشکایتی لہجےمیںکہا۔
    جواب میں صفیہ نےمسکراہٹ دباتےہوئےاسےاستفسارانہ انداز میں دیکھا۔
    ” آپ نےمنہ دکھائی دیےبغیر ہی ہمیں دیکھ لیا۔“ طاہر نےکہا توصفیہ کےچہرےپر قوسِ قزح کے لہریےپھیل گئی۔
    ” آپ بھی تو گھونگھٹ کےبغیر ہی آ بیٹھی۔“ دھیرےسےاس نےکہا اور طاہر کےہونٹوں سےایسا جاندار قہقہہ ابلا کہ صفیہ نےگھبرا کر بےاختیار دروازےکی جانب دیکھا۔ پھر دروازہ بند دیکھ کر جیسےاسےاطمینان ہو گیا۔
    ایسی ہی چند اور باتوں نےکمرےکا ماحول تکلف کی قید سے آزاد کرا لیا اور تھوڑی دیر بعد دونوں ایک دوسرےکی ہلکی پھلکی باتوں سےلطف اندوز ہو رہےتھی۔
    دیوار گیر کلاک نےرات کےدو بجنےکا اعلان کیاتو دونوںچونکی۔صفیہ نےلمحوں میں طاہر کو موہ لیا ۔وہ اس کی باتوں اور خیالات سےبہت متاثر نظر آ رہا تھا۔ کلاک نےدو بجائےتو انہیں رات کا آخری پہر شروع ہونےکا پتہ چلا۔ تبھی طاہر کو ایک دم سنجیدگی نےگھیر لیا۔ ایک بار پھر اس کا دل ‘ دماغ سےالجھنےلگا۔ اس نےبڑی کوشش کی کہ کسی طرح اس خیال سےپیچھا چھڑا لےمگر گزشتہ وقت کےسائےاس کی سوچوں پر منڈلا رہےتھی۔ وہ کچھ دیر الجھا الجھا بیٹھا رہا۔ صفیہ اسےایک دم خاموش ہوتا دیکھ کر خود بھی الجھن میں پڑ گئی۔ جب نہ رہ سکی تو بول اٹھی۔
    ” آپ کسی الجھن میں ہیں طاہر؟“صفیہ کی آواز اور استفسار نےطاہر کو حواس لوٹا دیی۔ اس نےصفیہ کی جانب دیکھا اور بیچارگی سےسر ہلا دیا۔
    ”خیریت؟“ صفیہ کا دل دھڑکا۔
    ”خیریت ہی ہی۔“ وہ ہولےسےبولا۔ پھر جی کڑا کر کےاس نےصفیہ کی آنکھوں میں دیکھا۔ ” صفیہ۔ میں تم سےایک دو خاص باتیں کرنا چاہتا ہوں۔“
    ”تو کیجئےناں۔اس میں الجھن یا اجازت کی کیا بات ہی۔“ وہ سنبھل کر بولی۔
    ”دیکھو صفیہ۔ “ طاہر نےاس کی آنکھوں میں جھانک کر کہنا شروع کیا۔ ” آج سےپہلےہم ایک دوسرےکےلئےاجنبی تھی۔ اب اتنےانجان نہیں ہیں جتنےچند گھنٹےپہلےتھی۔ آگےایک پوری زندگی پڑی ہےجو ہمیں ساتھ ساتھ بِتانی ہی۔“ وہ رکا۔
    ”رکئےنہیں۔ کہتےرہئی۔“ صفیہ نےاسےحوصلہ دیا اور طاہر نےنظر جھکا کر کہنا شروع کیا۔
    ”کہنا صرف یہ چاہتا ہوں کہ شوہر اور بیوی کا رشتہ صرف اور صرف اعتماد کےدھاگےسےبندھا ہوتا ہےاور یہ دھاگہ اتنا مضبوط ہوتا ہےکہ اسےبڑےسےبڑاجھٹکابھی توڑ نہیں پاتا لیکن شک کا ہلکا سا احساس اس مضبوطی کو بودےپن میں تبدیل کر کےاس دھاگےکو توڑ دیتاہے۔ اس رشتےکو ہوا کا بدبو دار جھونکا بنا دیتا ہی۔ اس لئےمیں تم سےپوچھ لینا چاہتا ہوں کہ کیامجھ سےتمہاری شادی تمہاری مرضی سےہوئی ہی؟ اس بندھن میں کوئی زبردستی‘ کوئی مجبوری تو شامل نہیں ہی؟ یا یہ کہ ۔۔۔“
    ”میری زندگی میں آپ سےپہلےکوئی دوسرا مرد تو نہیں رہا۔“ صفیہ نےبات کاٹتےہوئےاس کی دُکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا۔
    طاہر نےچونک کر اس کی طرف دیکھا۔ کیسی آسانی سےصفیہ نےوہ بات کہہ دی تھی جو کہنےکےلئےوہ اب تک خود میں ہمت نہ پا رہا تھا۔تمہیدیں باندھ رہا تھا۔
    ”یہی پوچھنا چاہتےہیں ناں آپ؟“ بڑےاطمینان سےاس نےپوچھا۔
    جواب میںطاہرغیر محسوس انداز میں محض سر ہلا کر رہ گیا۔
    ”اگر میں کہوں کہ میرا جواب اثبات میں ہےتو؟“ یکایک صفیہ نےجیسےطاہر کےپائوں تلےسےزمین کھینچ لی۔
    ”کیا مطلب؟“ اس کےلبوں سےفوراً نکلا۔
    ”میںنے آپ کی طرح شاعری نہیں کی طاہر۔ سیدھےسادےالفاظ میں پوچھا ہےکہ اگر میری زندگی میں آج سےپہلےتک کوئی مرد رہا ہو‘ جس کا وجود صرف اس حد تک میری آج سےپہلےکی زندگی میں رہا ہو کہ وہ مجھےاور میں اسےپسند کرتی رہی ہوں اور بس ۔۔۔لیکن کسی وجہ سےمیں اس کےبجائے آپ سےشادی کرنےپر مجبور ہو گئی اور اب میں یہ کہوں کہ آج کےبعد میری زندگی میں آپ کےسوا کوئی دوسرا مرد نہیں آئےگاتو آپ ±کیا کہیں گی؟“
    ”پہلےیہ کہو کہ واقعی ایسا ہےیا تم صرف فرض کر رہی ہو؟“ طاہر کی آواز بکھر سی گئی۔
    ” آپ یوں سمجھ لیں کہ میں جسےپسند کرتی تھی وہ بےوفا نکلا ۔ اس نےکسی اور سےشادی کر لی۔ اب میں آپ سےشادی کرنےمیں آزاد تھی اس لئے آپ کےعقد میں آ گئی۔ اس صورتحال میں آپ کیا کہیں گی؟“
    ”یعنی تم بھی اَن چھوئی نہیں ہو۔“ وہ تلخی سےبولا۔
    ”غلط۔“ ایک دم صفیہ ہتھےسےاکھڑ گئی۔ ”ایسا بُرا اور زہریلالفظ آپ نےزبان سےکیسےنکال دیا طاہر۔ میں نےصرف پسند کی بات کی ہے‘ تعلقات کی نہیں۔ اور آپ نےمجھےسیدھا کسی کی جھولی میں ڈال دیا۔“ اس کےلہجےمیں احتجاج تھا۔
    بات کا رخ ایسا ہو گیا کہ لگتا ہی نہ تھا کہ وہ دونوں زندگی میں پہلی بار ملےہیں اور یہ ان کی سہاگ رات کےلمحات ہیں۔
    ”میرا وہ مطلب نہیں تھا جو تم نےسمجھ لیا۔“ طاہر سنبھلا۔ ”تاہم میں یہ کہنےپر مجبور ہوں کہ اگر بات پسند کی حد تک بھی رہی ہو تو میں اسےسہنےکا حوصلہ نہیں رکھتا۔“
    ”پھر۔۔۔ “ صفیہ کےلبوں پر تمسخر ابھرا۔ ”پھر کیا کریں گے آپ‘ اگر یہ بات سچ ہی نکل آئےتو۔۔۔؟“
    ”میں۔۔۔ میں۔۔۔“ وہ گڑبڑا گیا اور بستر سےاٹھ گیا۔اس کاسانس بےقابو ہو رہا تھا۔
    ”طلاق کا لفظ لبوں سےبغیر سوچےسمجھےنہ نکالئےگاطاہر۔ یہ سوچنےپر بھی لاگو ہو جاتی ہی۔“ صفیہ نےتیزی سےکہا۔
    ”پھر میں۔۔۔ میں کیا کروں؟“ وہ اس کی طرف پلٹا تو بےبسی اس پر پوری طرح حاوی ہو چکی تھی۔
    ”وہ بھی میں آپ کو بتاتی ہوں مگر پہلے آپ میرےایک سوال کا جواب دیجئی۔“ صفیہ بھی بستر سےاتر کر اس کےقریب چلی آئی۔
    طاہر نےبجھی بجھی نظروں سےاس کی جانب دیکھا۔ دل کی دنیا ایک بار پھر تہہ و بالا ہو چکی تھی۔ بسنےسےپہلےہی وہ ایک بار پھر برباد ہو گیا تھا۔
    ”جہاں تک میں سمجھ پائی ہوں آپ کا مسئلہ یہ ہےکہ آپ ایسی شریک حیات چاہتےہیں جو صرف اور صرف آپ سےمنسوب ہو۔ جس کی زندگی میں آپ سےپہلےکوئی مرد نہ آیا ہو۔ پسند کی حد تک بھی اس کےخیالوں پر کسی کا سایہ نہ پڑا ہو۔صاف صاف کہئے‘ ایسا ہی ہےناں؟“
    ”ہاں۔“ بڑی مشکل سےکہہ کر طاہر نےرخ پھیر لیا۔
    ”لیکن اس کےجواب میں آپ کی شریک حیات آپ سےبھی ایساہی مطالبہ کرنےمیں حق بجانب ہےیا نہیں؟“
    ”کیا مطلب؟“ وہ ایک جھٹکےسےاس کی طرف پلٹا۔
    ”مطلب صاف ہےطاہر۔ اگر آپ اپنےلئےایسی بیوی چاہتےہیں جس کی زندگی میں کوئی مرد تصور کی حد تک بھی دخیل نہ رہا ہو تو وہ بیوی بھی تواپنےلئےایسا ہی مرد چاہ سکتی ہےجس کی زندگی میں پسند کی حد تک بھی کوئی لڑکی نہ داخل ہوئی ہو۔“
    طاہر کی آنکھوں میں بےیقینی کی کیفیت ابھری اور وہ صفیہ کو تکتا رہ گیا۔ اس بارےمیں تو اس نےکبھی سوچا ہی نہ تھا۔
    ”کیا آپ خود بھی ایسےہی ہیں طاہر‘ جیسا آپ مجھےدیکھنا چاہتےہیں؟“صفیہ نےاس کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا۔
    ”میری زندگی میں ۔۔۔“
    ”جھوٹ مت بولئےگا طاہر۔ میاں بیوی کا رشتہ اعتماد کےساتھ ساتھ سچ کی بنیاد پر قائم ہوتا ہےاور میں کسی اور کےبارےمیں نہیں تو کم از کم زاہدہ کےبارےمیں تو جانتی ہی ہوں۔“ صفیہ نےاس کی بات کاٹ دی۔
    طاہرکےسر پر جیسےبم ساپھٹا۔ اس کےحواس مختل ہو گئی۔وہ حیرت اور خجالت بھری نظروں سےصفیہ کو دیکھتا رہ گیا‘ جو کہہ رہی تھی۔
    ”اس کےباوجود میں نے آپ سےشادی کےلئےہاں کہہ دی۔جانتےہیں کیوں؟“ وہ ہولےسےمسکرائی۔” صرف اس لئےکہ انکل ہاشمی نےمجھے آپ کےاور زاہدہ کےبارےمیں ایک ایک سچ بتا دیا تھا۔ اس میں آپ بےقصور تھی۔ اور وہ بھی۔ حالات نےجو تانا بانا بُنا اس میں آپ دونوں الجھ کر رہ گئی۔ جب الجھنوں کےبادل چھٹےتو وہ اپنی منزل پر تھی اور آپ نےتو ابھی سفر شروع ہی نہیں کیا تھا۔مجھےلگا کہ اس صورتحال میں اگر میں آپ کی ہمسفر ہو جائوں تو آپ کی تنہائی آسان ہو جائےگی اور میرا فیصلہ مجھےکبھی پچھتاوےکی آگ سے آشنا نہیں کرےگا۔ اور اس کی بہت بڑی اور شاید ایک ہی وجہ تھی میرےپاس۔“
    ”وہ کیا؟“ بےاختیار طاہر نےپوچھا۔
    ”صرف یہ کہ ۔۔۔“ وہ پل بھر کو مسکرائی۔”میری زندگی میں پسند کی حد تک بھی کوئی مرد کبھی داخل ہی نہیں ہو پایا۔“ وہ بڑےاطمینان سےکہہ گئی۔
    طاہر کو لگا جیسےاسےبھرےبازارمیں بےعزت کر دیا گیا ہو۔ اس کا سر جھک سکا نہ اٹھ سکا۔
    ”اس کی بھی ایک وجہ تھی۔ امی اور ابو کےبعد ممانی نےمجھےاپنی بیٹیوں کی طرح پالا اور گھر سےباہر جاتےہوئےایک بات کہی کہ بیٹی‘ زندگی میں ایک دن آتا ہےجب مرد ‘ عورت کی زندگی میں کسی طوفان کی طرح داخل ہوتا ہےیا پھر بہار کےجھونکےکی طرح۔ شادی سےپہلے آنےوالا مرد اکثر طوفان کی مثل آتا ہےجو اپنےپیچھےصرف اور صرف بربادی چھوڑ جاتا ہے۔ ایسی بربادی جو اگر جسم کو پامال نہ بھی کرےتو روح پر اپنی خراشیں ضرور ڈالتی ہی۔ جسم کےزخم بھر جاتےہیں لیکن روح کےگھائو کبھی مندمل نہیں ہوتےاور اس بربادی کی یادیں عورت کو کبھی اپنےشوہر سےپوری طرح وفادار نہیں ہونےدیتیں۔ اور شوہر ‘ عورت کی زندگی میں اس بہار کےجھونکےکی طرح آتا ہےجسےجلد یا بدیر آنا ہی ہوتا ہی‘ کہ اس کےساتھ عورت کا جوڑا اس کےدنیا میں آنےسےپہلے آسمانوں پر بن چکا ہوتا ہی۔ اس جھونکےکا انتظار ذرا کٹھن ضرور ہوتا ہےمگر بیٹی۔ یہ اپنےساتھ آبادی ‘ سکون اور محبتیں لےکر آتا ہی۔ اس لئےکوشش کرنا کہ تم اس انتظار سےسانجھ پیدا کر سکو۔ میرا تم پر نہ کوئی زور ہےنہ میں تم پر نگاہ رکھوں گی۔ میں تم پر اعتماد بھی کر رہی ہوں اور تمہیں پوری آزادی بھی دےرہی ہوں کیونکہ تم جاہل ہو نہ غلام۔طوفان سے آشنائی میں تمہارا بھلا ہےیا بہار کےانتظار میں ۔ یہ فیصلہ اب تمہیں کرنا ہی۔ میں اس لئےبھی یہ اعتبار کا کھیل کھیل رہی ہوں کہ مجھےاپنی تربیت کا امتحان مقصود ہی۔“
    صفیہ ذرا رکی۔ چمکتی ہوئی آنکھوں سےدم بخود کھڑےطاہر کی طرف دیکھا اور پھر گویا ہوئی۔
    ”میں نےاس بات پر زیادہ غور نہیں کیاطاہر۔ بس یہ سوچ لیاکہ جب کسی ایک مرد سےواسطہ ہونا ہی ہےتو پھر وہ میرا اپنا شوہر ہی کیوں نہ ہو۔ کوئی غیر کیوں ہو؟ ایسا مرد کیوں ہو جس سےدائمی بندھن باندھنےکا موسم بعد میں آئےاور طوفان کا خطرہ ہر وقت اس کےخیال کےساتھ بندھا رہی۔ میں اس سےکیوں نہ آشنائی رکھوں جس کےساتھ میرا جنم جنم کا بندھن پہلےبندھےاور جب وہ آئےتو میرےدامن میں ڈالنےکےلئےبہاریںساتھ لےکر آئی۔ بس یہ سوچا اورمیں نےاپنی ساری توجہ صرف اپنی تعلیم پر مرکوزکر دی۔ اب اس دوران مجھےکسی نےپسندیدہ نظر سےدیکھا ہو تو میں کہہ نہیں سکتی‘ بہرحال میں نےاس طرف اپنےکسی خیال کو بھی کبھی نہ جانےدیا۔مگر لگتا ہے آپ کو میری باتوں پر یقین نہیں آیا۔“ صفیہ کےلبوں پر بڑی عجیب سی مسکراہٹ ابھری۔
    طاہر تھرا کر رہ گیا۔ اسےہوش سا آ گیا۔ شرمندگی اس کےروئیں روئیں سےپسینہ بن کر ابلی پڑ رہی تھی۔ سردیوں کی رات اس کےلئےحبس کی دوپہر بن گئی تھی۔
    ”میں ۔۔۔ میں۔۔۔“ آواز طاہر کےگلےمیںدرد کا گولہ بن کر پھنس گئی۔
    ”میں آپ کی مشکل آسان کر دیتی ہوں طاہر۔“ صفیہ کی مسکراہٹ کچھ اورگہری ہوگئی۔ ”کہتےہیں کہ انسان اپنی عزیز ترین شےکی جھوٹی قسم کھائےتو وہ چیز اس سےچھن جاتی ہی۔ میرا جی تو چاہ رہا ہےکہ میں آپ کی قسم کھائوں کیونکہ میں جھوٹ نہیں بول رہی لیکن آپ کو یقین دلانےکےلئےمیں اپنی جان کی قسم کھاتی ہوں کہ کسی کو بھی اپنی جان سےزیادہ پیارا کچھ نہیں ہوتا۔ میں قسم کھاتی ہوں کہ میں نےجو کہا سچ کہا‘ سچ کےسوا کچھ نہیں کہا می لارڈ۔“ اس کا دایاں ہاتھ یوں بلند ہو گیا جیسےوہ عدالت میں حلف دےرہی ہو۔ ” اگر میں نےجھوٹ بولا ہو تو مجھ پر خدا کا قہر نازل ہو اور صبح کا سورج مجھےزندہ ۔۔۔“
    ”بس۔۔۔ بس ۔“ طاہر نےلپک کر اس کےہونٹوں پر ہاتھ رکھ دیا۔ ”جو منہ میں آ رہا ہے‘کہےجا رہی ہو۔ “ اس نےصفیہ کو بازوئوںمیں بھرکر اپنےسینےکےساتھ بھینچ لیا۔ اس کےبالوں میں چہرہ چھپایا اور پھٹ پڑا۔ ” اک ذرا سی بات کو آتش فشاں بنا دیا ہےتم نی۔ ایک زخمی دل کامالک ہوں میں۔ اگر تم سےمرہم مانگ لیا تو کون سی قیامت آ گئی جو تم مجھےیوں بےستر کئےدےرہی ہو۔“
    ” آپ نےکم نشتر چلائےہیں کیا؟“ صفیہ کی آواز بھیگ گئی۔” اپنی عزت کو دوسرےکےساتھ منسوب کر دیا۔“
    ”میں نےایسا ہرگز نہیں کہا تھا ۔ پھر بھی مجھےمعاف کر دو۔“ اس نےاپنی گرفت اور سخت کر دی۔
    ”کبھی نہیں۔ ہر گز نہیں۔“ وہ مچل گئی۔
    ”صفو۔“ طاہر نےالتجائیہ سرگوشی کی۔
    ”ایک شرط پر۔“ وہ اس سےالگ ہوتےہوئےبولی۔
    ”کیا؟“ طاہر نےاس کےپھیلتےکاجل کو نظروں سےچوم لیا۔
    ”غدر مچانےکے آغاز میں آپ نےپوچھا تھاکہ میں کیا کروں؟“
    ”تو۔۔۔؟“ طاہر کا لہجہ سوالیہ ہو گیا۔
    ”میں نےکہا تھا کہ یہ بھی میں آپ کو بتاتی ہوں کہ آپ کیا کریں۔ یاد ہی؟“
    ”بالکل یاد ہی۔“
    ”تو شرط یہ ہےکہ جو میں کہوں گی آپ کریں گی۔ بولئےمنظور ہی؟“وہ شاید طاہر کا امتحان لےرہی تھی مگر طاہر اب کوئی رسک لینےکو تیار نہ تھا۔
    ” مجھےسنےبغیر ہی منظور ہی۔“ اس نےجلدی سےکہا۔
    ”نہیں۔ پہلےسن لیجئی۔ ہو سکتا ہےبعد میں آپ سوچنےپر مجبور ہو جائیں۔ “
    ”جلدی سےکہہ ڈالو‘ جو کہنا ہےتمہیں۔“ طاہر بےصبرا ہو گیا۔
    ”تو می لارڈ۔ مجھ پر ‘ اپنی شریک حیات پر‘ جس کے آپ مجازی خدا ہیں‘ اعتماد کیجئی۔ اندھا نہ سہی ‘ دیکھ بھال کر ہی سہی لیکن اعتماد ضرور کیجئےتاکہ میں اس بہار کی آمد کو محسوس کر سکوں جس کےانتظار میں ‘ جس کی امید میں مَیں نےزندگی کےبائیس برس اندھی‘ بہری بن کر گزار دیی۔“
    ”کیا مجھےزبان سےکہنا پڑےگاکہ میں اب تم پر ویسےہی اعتماد کرتا ہوں جیسےخود پر۔“ طاہر نےاس کےشانوں پر ہاتھ رکھ کر اس کی آنکھوں میں دیکھا۔
    ” اگر آپ کو خود پر اعتماد ہوتا تو ہماری پہلی ہی ملاقات یوں بادِ سموم کا شکار نہ ہوتی ۔“ صفیہ کا لہجہ شکایتی ہو گیا۔”اچھا تو یہ ہےکہ مجھ سےپہلےخود پر‘ اپنےجذبوںپر اعتماد کرنا سیکھئےطاہر۔ورنہ یہ کج بحثیاں زندگی کا معمول بن جائیں گی۔“
    ”ایسا کبھی نہیں ہو گا۔ میں تمہیں یقین دلاتا ہوں۔“ طاہر کا لہجہ بدل گیا۔ ایک عزم سا جھلکا اس کی آواز میں۔
    ”کیا میں اس پر یقین کر لوں؟“ صفیہ نےبراہ راست طاہر کی آنکھوں میں جھانکا۔
    ”ہوں۔“ طاہر نےبیباکی سےاس کی نظروں کا سامنا کرتےہوئےاثبات میں سر ہلایا۔
    ”تو جائیی۔ ہم نے آپ کو معاف کیا۔“ صفیہ نےایک شان ِ بےنیازی سےکہا اور ایک دم اس کےقدموں پر جھک گئی۔”میرےمجازی خدا ہیں آپ۔ لیکن کبھی میری ایسی آزمائش نہ لیجئےگا کہ جس میں پوری نہ اتر سکوں۔“
    ”صفو۔“ طاہر تڑپ کر جھکا اور اسےبازئووں سےتھام کر اٹھایا۔ نجانےکب سےرکےہوئے آنسو صفیہ کی پلکوں تک آ گئےتھی۔”بس۔ یہ پہلےاور آخری نمکین قطرےہیں جو تمہاری آنکھوں سےچھلک پڑی۔ دوبارہ کبھی نہیں۔کبھی نہیں۔“
    کسی ہلکی پھلکی گڑیا کی طرح اس نےصفیہ کو بازئووں میں اٹھاکر پھولوں کی سیج کی طرف قدم بڑھا دیےاور صفیہ نےشرما کر اسکےسینےمیں چہرہ چھپا لیا ۔
    پھر یوں ہوا کے درد مجھے راس آ گیا

  8. #17
    Mohammad Sajid's Avatar
    Mohammad Sajid is offline * خاک نشین *
    Join Date
    Mar 2008
    Location
    Hijr
    Posts
    152,881
    Mentioned
    108 Post(s)
    Tagged
    8578 Thread(s)
    Rep Power
    21475005

    Default Re: Ishq Ka Qaaf

    صفیہ اور طاہر کی شادی کو پندرھواں دن تھا جب بیگم صاحبہ اور ڈاکٹر ہاشمی عمرےکےلئےروانہ ہو گئی۔
    محرم کےطور پر بیگم صاحبہ نےاپنا ایک یتیم بھانجااعجاز ساتھ لےلیا ۔ فرسٹ ایئر کا طالب علم اعجاز انہی کی زیر ِ کفالت تھا۔ڈاکٹر ہاشمی مردانہ گروپ میں انہی کےساتھ مگر ان سےالگ اپنےطور پر سفر کر رہےتھی۔ دوران ِ سفر ان کا رابطہ بیگم صاحبہ سےاعجاز ہی کی معرفت رہنا تھا ¾ کیونکہ بیگم صاحبہ کےلئےوہ اس مقدس سفر کےحوالےسےبہرحال نامحرم تھی۔
    انہیں ائرپورٹ پر خدا حافظ کہہ کر وسیلہ خاتون اور صفیہ طاہر کی کار میں واپس لوٹ رہےتھےکہ راستےمیںوسیلہ خاتون کا موبائل گنگنا اٹھا۔
    ”ہیلو۔ “ انہوںنےکال اٹنڈ کی۔”کون سرمد بیٹا؟“ ایک دم ان کےچہرےپر بشاشت پھیل گئی۔کیسےہوتم؟“
    ذرا دیر وہ سرمد کی بات سنتی رہیں۔ گردن گھما کر انہیں دیکھتی ہوئی صفیہ نےصاف محسوس کیا کہ دوسری طرف سےجو کہا جا رہا ہےاس کا رد ِ عمل وسیلہ خاتون کےچہرےپر اضطراب کی شکل میں ظاہر ہو رہا ہی۔طاہر خاموشی سےڈرائیو کر رہا تھا۔
    ”ڈاکٹر ہاشمی کےبیٹےسرمد کا فون ہےناں؟“ اس نےروا روی میں پوچھا۔
    ”جی ہاں۔ میں تو اسی ایک ہی سرمد کو جانتی ہوں۔“ صفیہ اس کی جانب متوجہ ہو کر ہولےسےمسکرائی۔”پورا ایک سال میں اس سےٹیوشن لیتی رہی ہوں۔اس طرح میں اس کی شاگرد بھی ہوں۔ آپ کےساتھ تو بڑی بےتکلفی ہو گی اس کی؟“
    ”نہیں۔“ طاہر نےنفی میں سر ہلایا۔ ” بس علیک سلیک اچھی خاصی کہہ سکتی ہو۔ اس سےزیادہ نہیں۔ ڈاکٹر ہاشمی ہمارےفیملی ممبر جیسےہیں تاہم سرمد چونکہ زیادہ تر اپنی بیرون ملک تعلیم میں محو رہا اس لئےاس کےساتھ بہت زیادہ وقت نہیں گزرا۔ہماری شادی میں بھی وہ اسی لئےشریک نہیں تھا کہ ان دنوں وہ لندن میں ایم بی اےکر رہا ہی۔“
    ”طاہر بیٹی۔“ اسی وقت وسیلہ خاتون کی آواز نےان کو اپنی جانب متوجہ کر لیا۔ان دونوں کوپتہ ہی نہ چلا کہ کب انہوں نےسرمد سےگفتگو کا سلسلہ ختم کیا۔”مجھےگھر پر اتار دینا۔“
    ”جی نہیں آنٹی۔ آپ ہمارےساتھ چل رہی ہیں۔ جب تک امی واپس نہیں آ جاتیں‘ آپ وہیں رہیں گی۔“طاہر نےجواب دیا۔
    ”ارےنہیں بیٹا۔“ وہ جلدی سےبولیں۔ ”گھر بالکل اکیلا ہےاور زمانہ چوری چکاری کا ہی۔“
    ” آپ کےپاس جو سب سےقیمتی شےتھی‘ وہ تو آپ نےمجھےدےڈالی آنٹی۔ اب کس چیز کی چوری کا اندیشہ ہے؟“ طاہر نےدزدید ہ نگاہوں سےصفیہ کی جانب دیکھا۔
    صفیہ کےرخ پر شرم نےسرخی بکھیر دی ۔ اس نےحیا آلود مسکراہٹ کےساتھ طاہر کےبازو پر چٹکی لی اور منہ پھیر لیا۔
    ”ٹھیک کہہ رہےہو بیٹی۔“ وسیلہ خاتون کےلبوں سےنکلا۔ ”لیکن میرا گھر پر رہنا ضروری ہی۔ ہاں اگر تم محسوس نہ کرو تو ایک آدھ دن کےلئےصفیہ کو میرےپاس چھوڑ دو۔“
    ”ایک آدھ دن کی بات ہےتو کوئی حرج نہیں آنٹی۔“ طاہر نےگاڑی ان کےگھرکو جانےوالی سڑک پر موڑ دی۔” ابھی میں اسے آپ کےہاں چھوڑ جاتا ہوں۔ رات کا کھانا آپ کےساتھ کھائوں گا اور اس کےبعد ہم اپنےگھر چلےجائیں گی۔ رات کو رکنےسےمعذرت۔“
    ”اللہ تم دونوں کو یونہی آباد اور خوش رکھےبیٹا۔“ وسیلہ خاتون نےتشکر سےکہا۔ ”یہ تمہاری محبت ہےاور میں اس میں دخل دینا پسند نہیں کروں گی۔ رات کو تم لوگ بیشک واپس چلےجانا۔“
    ”شکریہ آنٹی۔“ طاہر نےگاڑی وسیلہ خاتون کےگھر کےسامنےروک دی۔
    ” آپ اندر تو آئیی۔ باہر ہی سےرخصت ہو جائیں گےکیا؟“ صفیہ نےاترنےسےپہلےاس کی جانب دیکھ کر کہا۔
    ”نہیں۔ میں ذرا آفس کا چکر لگا ئوں گا۔ شام کو آئوں گا تو تینوں گپ شپ کریں گی۔“ طاہر نےمسکرا کر کہا۔” اس وقت دس بجےہیں۔ شام تک آنٹی سےجی بھر کر باتیں کر لو۔ رات کو ہمیں گھر لوٹ جانا ہی۔“ وہ انگلی اٹھا کر اسےتنبیہہ کرنےکےانداز میں یوں بولا‘ جیسےوعدہ لےرہا ہو۔
    وسیلہ خاتون ”شام کو جلدی آ جانا بیٹی“ کہہ کر پچھلی سیٹ سےاتر گئیں۔ صفیہ اسےمحبت پاش نگاہوں سےدیکھتی ہوئی گاڑی سےنکلی اور گھر کےدروازےپر کھڑی تب تک اسےہاتھ ہلا تی رہی ‘ جب تک اس کی گاڑی موڑ نہ مڑ گئی۔
    ٭
    ”ممانی ۔“ صفیہ نےوسیلہ خاتون کےسامنےبیٹھتےہوئےایک پل بھی صبر نہ کیااور بول پڑی۔ ”کیا بات ہی؟ میں دیکھ رہی ہوں کہ سرمد کےفون نے آپ کو پریشان کر دیا ہی۔ کیا کہہ رہا تھا؟ خیریت سےتو ہےناں وہ؟“
    ”بتاتی ہوں بیٹی۔“ وسیلہ خاتون نےتھکےتھکےلہجےمیں کہا۔ ” تم ذرا مجھےپانی پلائو۔“
    صفیہ اٹھی اور پانی کا گلاس لے آئی۔ وسیلہ خاتون نےپانی پیا۔ شال کےپلو سےہونٹ خشک کئےاور گلاس تپائی پر رکھ دیا۔
    ”اب جلدی سےکہہ دیجئےممانی۔ میرا دل گھبرا رہا ہی۔“ صفیہ ان کےچہرےکی جانب دیکھتےہوئےبولی۔
    ”صفیہ۔ پہلےمجھےایک بات بتائو بیٹی۔“ وسیلہ خاتون نےاس کا ہاتھ تھام لیا۔ ”حالانکہ مجھےیہ بات پوچھنا نہیں چاہئےکیونکہ مجھےتم نےکبھی ایساکوئی اشارہ تک نہیں دیا پھر بھی اپنا وہم دور کرنےکو پوچھ رہی ہوں ۔“ وہ رک گئیں۔
    ”پوچھئےممانی۔جھجکئےمت۔“ صفیہ نےان کا ہاتھ تھپکتےہوئےمحبت سےکہا۔
    ”بیٹی۔ کیا سرمد تمہیں پسند کرتا تھا؟“ انہوں نےصفیہ کی طرف دیکھا۔
    ”مجھی؟“ صفیہ حیران سی ہو گئی۔”مگر یہ بات اب کیوں پوچھ رہی ہیں ممانی؟جب پوچھنا چاہئےتھی تب تو آپ نےکسی کا نام لےکر نہ پوچھا۔ صرف یہ پوچھا تھا کہ کیا میں کسی کو پسند کرتی ہوں؟ میں نےاس سوال کا جواب نفی میں دیا تھااور آپ نےطاہر کےساتھ میرےنام کی گرہ باندھ دی۔ اب اس سوال کا کیا موقع ہی؟“
    ”یہی بات تومجھےالجھن میں ڈال رہی ہےصفیہ بیٹی۔ تم اسےپسند نہیں کرتی تھیں مگر وہ تمہیں پسند کرتاتھا۔ یہی بات اس نے آج مجھےفون پر کہی۔“
    ”کیا؟“ صفیہ نےحیرت سےکہا اور اس کا رنگ فرق ہو گیا۔”ممانی۔ یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ؟“
    ”میں ٹھیک کہہ رہی ہوں صفیہ بیٹی۔ گاڑی میں اس سےکھل کر بات نہیں کی میں نی۔ وہاں طاہر بھی تھا۔ ڈاکٹر صاحب نےشاید اسےبتایا نہیں کہ تمہاری اور طاہر کی شادی ہو چکی ہی۔ “
    ”یہ اسےبتانےوالی بات تھی بھی تو نہیںممانی۔“ صفیہ حواس میں لوٹ آئی۔ ”لیکن وہ کہہ کیا رہا تھا؟“
    ”یہ کہ اس کا رزلٹ آئوٹ ہو گیا ہی۔ وہ پندرہ بیس دن میں پاکستان آ رہا ہےاور آتےہی ڈاکٹر ہاشمی کو میرےپاس تمہارا ہاتھ مانگنےکےلئےبھیجےگا۔“
    ”نہیں۔“ صفیہ پوری جان سےلرز گئی۔ ”ممانی۔ یہ کیا ہو رہا ہی؟ آپ اسےروکئی۔ میرا گھر ۔۔۔ میرا گھر۔“ اس کا گلا رندھ گیا۔ بات ادھوری رہ گئی ۔
    ”صفیہ۔ “وسیلہ خاتون گھبرا گئیں۔ ”بیٹی۔ اس میں ایسی پریشانی کی کیا بات ہی۔ میں نےاسےکہا تھا کہ اس وقت میں بازار میں ہوں۔ وہ مجھے آدھ گھنٹےبعد فون کری۔ ابھی اس کا فون آئےگا تو میں اسےساری بات کھل کر بتا دوں گی کہ تمہاری شادی طاہر سےہو چکی ہی۔ اصل بات یہی ہےکہ اسےتمہاری اور طاہر کی شادی کےبارےمیں علم نہیں ہی۔ جب اسےپتہ چلےگا تو وہ معاملےکو یہیں ختم کر دےگا۔ وہ ایک شریف زادہ ہے۔ مجھےاس سےکسی غلط ردِ عمل کی توقع نہیں ہی۔ تم پریشان نہ ہو۔اگر بات کرنا پڑی تو میں ڈاکٹر صاحب سےبھی کروں گی۔“
    ”بات معمولی نہیں ہےممانی۔“ صفیہ نے آنکھیں خشک کیں اور وسیلہ خاتون کو اس ساری گفتگو کےلب لباب سے آگاہ کر دیا جس سےطاہر کےساتھ سہاگ رات کی شروعات ہوئی تھی۔
    ” اب بتائیی۔“ اس نے آخر میں کہا۔ ”اگر طاہر کو معلوم ہو گیا کہ سرمد مجھےپسند کرتا ہےتو۔۔؟“ وہ بات ادھوری چھوڑ کر ہونٹ کاٹنےلگی۔ بےبسی اور پریشانی نےاس کا رنگ روپ لمحوں میں کملا دیا تھا۔
    ”تم حوصلےسےکام لو بیٹی۔“ وسیلہ خاتون نےاس کی ہمت بندھائی۔” اول تو یہ بات طاہر تک پہنچےگی نہیں۔ اسےکون بتائےگا؟ میں یا تم؟اور سرمد بھی اس کےسامنےزبان کھولنےسےرہا۔اور بالفرض ایسا ہو بھی گیا تو طاہر کو یہ سوچنا ہو گا کہ سرمد تمہیں چاہتا ہےنہ کہ تم سرمد کو۔“
    ”یہ بات طاہر کو سمجھانا اتنا آسان نہیں ہےممانی۔“ صفیہ پھیکےسےانداز میں مسکرائی۔
    ”اول تو ایسا موقع نہیں آئےگا بیٹی اور آ گیا تو میں خود طاہر سےبات کروں گی۔“ وسیلہ خاتون نےاسےتسلی دی۔
    ”نہیں ممانی۔ہر گز نہیں۔“ صفیہ نےگھبرا کر کہا۔ ” یہ غضب نہ کیجئےگا۔ بات بگڑ جائےگی۔ میں خود ہی اس الجھن کو سلجھانےکی کوئی راہ نکالوں گی۔ آپ پلیز کبھی طاہر سےاس بارےمیں کوئی بات نہ کیجئےگا۔“
    ”بیٹی۔“ وسیلہ خاتون نےاسےسینےسےلگا لیا۔ ”یہ تم کس مصیبت میں آ گئیں؟“صفیہ نےان کےسینےسےلگ کر آنکھیں موند لیں اور گہرےگہرےسانس لینےلگی۔
    اسی وقت پاس تپائی پر پڑےفون کی بیل ہوئی۔ پٹ سےچونک کر صفیہ نے آنکھیں کھول دیں۔ وسیلہ خاتون بھی ادھر متوجہ ہوئیں۔ سکرین پر سرمد کا موبائل نمبر ابھر چکا تھا۔ اس بار اس نےموبائل کےبجائےگھر کےنمبر پر رِنگ کیا تھا۔
    ”ممانی۔“ گھبرا کر صفیہ نےوسیلہ خاتون کی جانب دیکھا۔
    ”شش۔“ انہوںنےہونٹوں پر انگلی رکھ کر خاموش رہنےکا اشارہ کیا اور اسےخود سےالگ کر دیا۔ وہ سیدھی ہو بیٹھی۔ ” صرف سننا۔ درمیان میں ہر گز بولنا نہیں۔“ انہوں نےکہا اور چوتھی بیل پر وائس بٹن دبا کر ریسیور اٹھا لیا۔ اب سرمد کی ساری گفتگو صفیہ بھی سن سکتی تھی۔
    ”ہیلو آنٹی۔“ وسیلہ خاتون کےریسیور اٹھاتےہی سرمد کی بیتاب آواز ابھری۔
    ”ہاں سرمد بیٹی۔ میں بول رہی ہوں۔“ انہوں نےبیحد سنجیدگی سےکہا۔ کوئی اضطراب یا پریشانی لہجےسےہویدا نہ تھی۔البتہ پیشانی پر ایک ہلکی سی شکن ضرور ابھر آئی تھی۔
    ”جی آنٹی۔میں آپ سےصفیہ کےبارےمیں بات کر رہا تھا؟“ سرمد کےلہجےمیں اشتیاق کروٹیں لےرہا تھا۔
    ”کہو بیٹی۔ کیا کہنا چاہتےہو؟“ وسیلہ خاتون نےبڑےاطمینان سےپوچھا۔
    ” آنٹی۔ تفصیلی بات تو آپ سےابو کریں گی۔ اس وقت تو میں آپ سےصرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر ابو آپ کےپاس صفیہ کا میرےلئےہاتھ مانگنے آئیں تو ۔۔۔“
    وہ رکا تو وسیلہ خاتون کےماتھےکی شکن ذرا گہری ہو گئی۔ انہوں نےصفیہ کی جانب دیکھا جو سرمد کی آواز صاف صاف سن رہی تھی اور اس کا دل سینےمیں یوں دھک دھک کر رہا تھا جیسےکوئی روڑی کوٹ رہا ہو۔
    ”ہاں ہاں۔ رک کیوں گئےسرمد۔ بات مکمل کرو بیٹا۔“ وسیلہ خاتون بولیں۔
    ”بس آنٹی۔ یہی کہنا چاہتا ہوں کہ آپ کو اس رشتےپر کوئی اعتراض تو نہیں ؟“
    ”اس بات کا جواب تو میں بعد میں دوں گی بیٹی۔ پہلےیہ بتائو کیا صفیہ بھی تمہیں پسند کرتی ہی؟“ ان کا لہجہ بڑا ٹھہرا ہوا تھا۔
    ” آنٹی۔“ ایک دم سرمد کی آواز میں اضطراب امنڈ آیا۔ ”یہ تو میں یقین سےنہیں کہہ سکتا کہ صفیہ مجھےپسند کرتی ہے؟ تاہم یہ جانتا ہوں کہ وہ مجھےناپسند نہیں کرتی۔“
    ”پسند یا ناپسند کرناایک الگ بات ہےبیٹےاور زندگی کےساتھی کی حیثیت سےکسی کو چُن لینا اور بات۔ تم صفیہ کو اس نظر سےدیکھتےاور پسند کرتےہو لیکن کیا اس نےبھی کبھی تمہیں اس نظر سےدیکھا ہےیا اس کی کسی بات سےایسا ظاہر ہوا ہےکہ وہ تم سےشادی کرنےمیں انٹرسٹڈ ہی؟ ذرا سوچ کرجواب دینا بیٹی۔“
    ”نہیں آنٹی۔“ سرمد نےصاف صاف کہا۔ ” صفیہ نےکبھی کوئی اشارتاً بھی مجھےایسا رسپانس نہیں دیا جس سےپتہ چلےکہ وہ مجھےاس حوالےسےپسند کرتی ہی۔“
    ”الحمد للہ۔“ بےاختیار وسیلہ خاتون کےلبوں سےنکلا اور ان کےماتھےکی شکن نےدم توڑ دیا۔
    ”جی آنٹی۔“ سرمد چونکا۔ ”کیا کہا آپ نی؟“
    ”میں نےاللہ کا شکر ادا کیا ہےبیٹی۔“ انہوں نےکھینچ کر صفیہ کو اپنےساتھ لگا لیا‘ جو کسی ننھی بچی کی طرح ان کےپہلو میں سمٹ کر یوں بیٹھ گئی جیسےاسےپناہ گاہ میسر آ گئی ہو۔
    ”جی۔“ وہ جیسےکچھ بھی نہ سمجھا۔
    ”تو بیٹی۔ بات صاف ہو گئی کہ تم یک طرفہ طور پر صفیہ کو پسند کرتےہو۔“
    ”جی آنٹی۔ ایسا ہی سمجھ لیں۔“ وہ ادب سےبولا۔
    ”اگر ایسی ہی بات تھی تو تم نےیہاں ہوتےہوئےکیوںاس بات کو نہ چھیڑا بیٹی؟“
    ”ابو چاہتےتھےکہ میں ایم بی اےسےپہلےکسی ایسی بات میں نہ الجھوں جو میری تعلیم میں رکاوٹ بنے آنٹی۔ اسی لئےمیں اب تک خاموش رہا۔“
    ”لیکن کیا تم نےڈاکٹر صاحب پر اپنی پسند کا اظہار کیا ؟ اشارتاً ہی سہی۔“
    ”جی نہیں آنٹی۔“ وہ صاف گوئی سےبولا۔ ”میں اس سےپہلے آپ کا عندیہ چاہتا ہوں۔ اگر آپ کو کوئی اعتراض نہ ہو تومیں ان سےبات کروں۔“
    ”اور اگر مجھےاس رشتےپر اعتراض ہو تو۔۔۔؟“
    ”جی۔“ سرمد جیسےبھونچکا رہ گیا۔ ”میں سمجھا نہیں آنٹی۔“
    ”تم نےبہت دیر کر دی بیٹی۔“ وسیلہ خاتون کا لہجہ گھمبیر ہو گیا۔ ”صفیہ کی شادی ہو چکی ہی۔“
    ”جی۔“ سرمد چونک کر بولا۔ ”کب آنٹی؟“
    ”اسی مہینےکے آغاز میں۔“ انہوں نےدھیرےسےکہا۔
    ”او۔۔۔۔ہ“ سرمد کےلہجےمیں تاریکی سی چھا گئی۔ ” آنٹی۔۔۔“ وہ اس سےزیادہ کہہ نہ سکا۔
    ”تم نےخود دیر کر دی بیٹی۔ اگر تم جانےسےپہلےاپنےابو سےبات کرتےتو شاید تمہاری آج کی مایوسی جنم نہ لیتی۔“
    جواب میں سپیکر پر سرمد کےگہرےگہرےسانسوں کی بازگشت کےسوا کچھ سنائی نہ دیا۔ وسیلہ خاتون بھی خاموش رہیں۔کتنی ہی دیر بعد دوسری جانب سےایک شکستہ سی آواز ابھری۔
    ”مقدر آنٹی۔ ۔۔ مقدر ۔ ۔۔میں اس کےسواکیا کہہ سکتا ہوں۔ بہر حال اب کیا ہو سکتا ہی؟ یہ کہئےصفیہ کی شادی کس سےہوئی اور کیا اس میں اس کی پسند بھی شامل تھی؟“
    ”یہ ارینج میریج تھی سرمد۔ اور بیگم وجاہت کےبیٹےطاہر سےصفیہ کی شادی ہوئی ہی۔“
    ”کیا؟“ سرمد پر حیرت کا ایک اور حملہ ہوا۔”طاہر سی؟“
    ”ہاں۔ لیکن تم اس پر اتنےحیران کیوں ہو سرمد؟“ وسیلہ خاتون چونکیں۔
    ”کچھ نہیں آنٹی۔“ وہ سنبھل گیا۔ ” ایسےہی بس۔۔۔“
    ”شاید دونوں خاندانوں کا سطحی فرق تمہیں حیران کر رہا ہےبیٹی۔“ وہ ہنسیں۔
    ”جی آنٹی۔“ سرمد خجل سا ہو گیا۔ ”شاید یہی بات ہی۔“
    ”شاید نہیں۔ یقیناً یہی بات ہےسرمد بیٹی۔ تاہم یہ بتا دوں کہ یہ شادی بیگم صاحبہ کی پسند اور اصرار پر ہوئی ہی۔ اور اب میری تم سےایک درخواست ہی۔“
    ” آپ حکم دیجئے آنٹی۔“ سرمد نےدھیرےسےکہا۔
    ”بیٹا۔عورت کی ازدواجی زندگی کانچ کا گھر ہوتی ہےجو شک کےسنگریزےکی ضرب بھی سہہ نہیں پاتا۔ میں چاہوں گی کہ صفیہ کےبارےمیں تمہارےخیالات کبھی صفیہ یا طاہر تک نہ پہنچیں بیٹی۔ یہ ایک ماں کی التجا ہی۔“
    ” آپ ایسا کیوں کہہ رہی ہیں آنٹی۔ آپ نےمجھ میں بازاری آدمیوںجیسی کیا بات دیکھی ہےجو آپ نےایسا سوچا۔ “
    ”یہ بات نہیں ہےبیٹی۔“ وسیلہ خاتون نےکہنا چاہا۔
    ”میں سمجھتا ہوں ۔ آپ کےاندیشےدرست ہیں مگر میں ڈاکٹر ہاشمی کا خون ہوں آنٹی۔ نجابت کیا ہوتی ہی‘ اس کا پاس رکھنا ہو گا مجھی۔ آپ بےفکر رہئی۔ میرےلبوں پر کبھی ایسی کوئی بات نہیں آئےگی جو صفیہ کو دُکھ دےیا اس کی زندگی میں گرداب پیدا کر دی۔“
    ”شکریہ سرمد ۔ “ وسیلہ خاتون کی آواز بھرا گئی۔ ” تم نےمیرا مان رکھ لیا ۔ میں تمہارےلئےہمیشہ دعا گو رہوں گی۔“
    ”اچھا آنٹی۔“ سرمد کےلبوں سے آہ نکلی۔ ”میری تمنا ہےصفیہ خوش رہی۔ آباد رہے۔۔۔ لیکن ایک پچھتاوا زندگی بھر میری جان سےکھیلتا رہےگا آنٹی۔ کاش میں دیر نہ کرتا ۔۔۔کاش۔“ اس کی آواز ٹوٹ سی گئی۔
    ”سرمد۔“ وسیلہ خاتون مضطرب سی ہو گئیں۔” خود کو سنبھالو بیٹی۔ ابھی تو زندگی کا بڑا طویل راستہ طےکرنا ہےتمہیں۔ تم جوان ہو۔ خوبصورت ہو۔ پڑھےلکھےہو۔ تمہیں بہت اچھی شریک حیات مل سکتی ہی۔۔۔“
    ”نہیں آنٹی۔ “ وہ تھکےتھکےسےلہجےمیں بولا۔ ” یہ باب تو اب بند ہو گیا۔ “
    ”مگر کیوں سرمد۔ ایسی مایوسی کیوں؟“
    ” آنٹی۔ میں صفیہ کو پسند ہی نہیں کرتا ‘ اس سےمحبت کرتا تھا آنٹی۔ اور یہ حق مجھ سےکوئی نہیں چھین سکتا کہ میں آخری سانس تک اسےچاہتا رہوں۔“ سرمدنےدل کا پھپھولا پھوڑ دیا۔ ”اس کی جگہ کوئی اور لےلی‘ یہ تو میرےبس میں نہیںہے آنٹی۔“
    ”سرمد۔ “ وسیلہ خاتون اس کےلہجےمیں چھپےجذبےکو محسوس کر کےسو جان سےلرز گئیں۔ کچھ ایسا ہی حال صفیہ کا تھا۔” یہ تم کیا کہہ رہےہو بیٹی؟“
    ”بس آنٹی۔ جو کہنا تھا کہہ دیا۔ یہ آخری الفاظ تھےجو اس سانحےپر میری زبان سےنکلی۔ اب آج کےبعد اس بارےمیں کبھی کوئی بات نہ ہو گی۔“
    ”سرمد۔“ وسیلہ خاتون نےکہنا چاہا۔
    ”اللہ حافظ آنٹی۔ کبھی لوٹا تو آپ کی قدم بوسی کو ضرور حاضر ہوں گا۔ آپ نےدعا کا وعدہ کیا ہی۔ تو بس میرےلئےصرف یہ دعا کرتی رہئےگا کہ جس الائو نےمجھےاپنی لپیٹ میں لےلیا ہےوہ کبھی سرد نہ ہونےپائی۔ مرنےکےبعد میری قبر کی مٹی سےبھی اس کی مہک آئے آنٹی۔ اللہ حافظ۔“
    سرمد نےرابطہ کاٹ دیا۔
    وسیلہ خاتون کےلبوں پر اس کا نام بکھر کر رہ گیا۔
    صفیہ گم صُم ان کےپہلو سےلگی بیٹھی شاں شاں کی وہ آواز سن رہی تھی جو اس کےدماغ میں بگولےاڑا رہی تھی۔ آہستہ سےانہوں نےریسیور کریڈل پر ڈال کر وائس بٹن پُش کیا اور سگنل کی ٹوں ٹوں نےدم توڑ دیا۔صفیہ دھیرےسےسیدھی ہوئی۔ اپنےسُتےہوئےچہرےپر ہاتھ پھیرتےہوئےوہ اٹھی۔ پلٹی اور سُن ہو کر رہ گئی۔
    ” آپ۔۔۔“ اس کےہونٹوں سےسرسراتی ہوئی سرگوشی آزاد ہو گئی۔ اس کی آواز پر وسیلہ خاتون نےبھی پلٹ کر دیکھا اور ان کےچہرےپربھی صفیہ کی طرح سرسوں پھیلتی چلی گئی۔ ان کی نگاہوں نےصفیہ کی نظروں کےمرکز کو اپنی گرفت میں لیا تو بُت بن کر رہ گئیں۔
    دروازےکےپٹ سےٹیک لگائےطاہر کھڑا تھا۔ کب سےکھڑا تھا ‘ کون جانی؟ اس کی آنکھیں بند تھیںاور لگتا تھا اس نےسب کچھ سُن لیا ہی۔
    صفیہ نےگھبرا ئی ہوئی ہرنی کی طرح وسیلہ خاتون کی جانب دیکھا۔ وہ خود پریشانی کی انتہا سےگزر رہی تھیں‘ اسےکیا دلاسہ دیتیں۔ تاہم ذرا دیر بعد وہ سنبھلیں۔
    ”ارےطاہر بیٹی۔ تم کب آئی؟“ وہ اٹھ کر اس کی طرف بڑھیں۔” آفس نہیں گئےکیا؟“
    دھیرےسےطاہر نےحرکت کی۔ ر خ ان کی جانب کیا اور جیسےپورا زور لگا کر آنکھیں کھولیں۔ سرخ سرخ آنکھیں دیکھ کر وہ دونوں ہی گھبرا گئیں۔
    ”تم تو رات کو آنےوالےتھےبیٹی۔“ وسیلہ خاتون کےمنہ سےبےتکی سی بات نکل گئی۔
    ”رات۔۔۔۔“ طاہر نےکھوئےکھوئےلہجےمیں کہا اور اس کی سپاٹ نظریں ان کےچہرےسےہٹ کر صفیہ پر آ جمیں جو اسےوحشت زدگی کےعالم میں دیکھ رہی تھی۔ اس کا دل سینےمیں دھڑکنا بھول سا گیا ۔ رنگ زرد سےاب بالکل سفید ہو چکا تھا ۔ لگتا تھا کسی نےاس کےبدن سےلہو کی ہر بوند نچوڑ لی ہی۔
    ” رات تو کب کی آ چکی آنٹی۔ مجھےہی پتہ نہیں چلا۔“ وہ ایک قدم آگےبڑھ آیا۔ ”کیوں صفی؟“ اس نےاسےصفو کےبجائےصفی کہہ کر پکارا تو صفیہ کی ٹانگوں نےاس کابوجھ سہارنےسےانکار کر دیا۔ وہ لڑکھڑائی اور صوفےپر گر پڑی۔
    ” آپ ۔۔۔ آپ۔۔۔“ اس کےہونٹ ہلی‘ آواز نہ سنائی دی۔ اس کی سہمی ہوئی نظریں طاہر کےویران ویران چہرےسےالجھ کر رہ گئیں۔
    ”بیٹھو بیٹی۔“ وسیلہ خاتون نےسنبھالا لیا۔
    ”چلیں صفی۔“ طاہر نےجیسےان کی بات سنی ہی نہ تھی۔ وہ صفیہ سےمخاطب تھا۔
    صفیہ نےطاہر کی طرف دیکھتےہوئےساری جان سےحرکت کرناچاہی اوربڑی مشکل سےاٹھ کھڑی ہوئی۔اس کی ٹانگوں میں ہلکی سی کپکپاہٹ صاف محسوس کی جا سکتی تھی۔
    طاہر نےہاتھ بڑھایا۔ صفیہ نےاپنا سرد اور بےجان ہاتھ اس کےتپتےہوئےہاتھ میں دےدیااور کسی کٹی ہوئی پتنگ کی طرح اس کی جانب کھنچتی چلی گئی۔ طاہر اسےلئےلئےزندگی سےمحروم قدم اٹھاتا کمرےسےنکل گیا۔
    وسیلہ خاتون کمرےکےوسط میں اجڑی اجڑی کھڑی خالی دروازےکو تک رہی تھیں جہاں سےابھی ابھی جیسےکوئی جنازہ باہر گیا تھا۔
    پھر یوں ہوا کے درد مجھے راس آ گیا

  9. #18
    Mohammad Sajid's Avatar
    Mohammad Sajid is offline * خاک نشین *
    Join Date
    Mar 2008
    Location
    Hijr
    Posts
    152,881
    Mentioned
    108 Post(s)
    Tagged
    8578 Thread(s)
    Rep Power
    21475005

    Default Re: Ishq Ka Qaaf

    وسیلہ خاتون کےگھر سےسلطان وِلا تک کا سفر قبرستان جیسی خاموشی کےساتھ طےہوا تھا۔صفیہ پر اس چُپ نےایک عجیب اثر کیا۔ اس کا دل دھیرےدھیرےقابو میں آ گیا۔ حواس میں ایک ٹھہرائو نمودار ہوا اور گھر کےپورچ میں گاڑی رکی تو وہ کافی حد تک پُرسکون ہو چکی تھی۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ رہی ہو کہ اس کا ضمیر صاف تھا۔ مطمئن تھا۔ موجودہ صورتحال میں اس کا دامن بالکل پاک تھا۔
    طاہر سارا راستہ گم صُم گاڑی ڈرائیو کرتا رہا۔ اس نےصفیہ کےجانب دیکھا نہ زبان سےایک لفظ کہا۔ گاڑی کا انجن بند کر کےوہ اپنی طرف کےدروازےسےباہر نکلا ۔ صفیہ بھی تب تک گاڑی سےاتر چکی تھی۔ طاہر نےگاڑی کی چابیاں آٹھ دس قدم دور کھڑےڈرائیور کی جانب اچھالیں اور تھکےتھکےقدموں سےگھوم کر صفیہ کی طرف آ گیا جو اسی کی منتظر کھڑی تھی۔ طاہر کا سُتا ہوا چہرہ دیکھ کر اس کا دل ایک بار پھر ہول گیا تاہم اس نےاپنےچہرےسےکسی تاثر کا اظہار نہ ہونےدیا۔ طاہر نےاس کےشانوں پر بازو دراز کرتےہوئےجیسےاس کا سہارا لیا۔ صفیہ نےجلدی سےاس کی کمر میں ہاتھ ڈالا اور اپنےدائیں شانےسےلٹکتا اس کا ہاتھ تھام لیا۔ ہاتھ تھامتےہی وہ بری طرح گھبرا گئی۔ طاہر آگ کی طرح دہک رہا تھا۔ اس نےمتوحش نظروں سےاس کےچہرےکی جانب دیکھا۔ طاہر کی آنکھیں بند ہو رہی تھیں اور لگتا تھا اگلےچند لمحوں میں وہ ہوش و حواس سےبیگانہ ہو جائےگا۔ آہستہ آہستہ چلتےہوئےطاہر کےبدن کا بوجھ صفیہ پر آ رہا تھا۔ اس نےسیف کو آواز دینےکا ارادہ کیا۔ پھر نہ جانےکیا سوچ کر اس نےخود ہی طاہر کو سنبھال لیا اور حتی الامکان سرعت سےاسےاندر لے آئی۔
    سیڑھیاں چیونٹی کی رفتار سےطےکی گئیں ۔ پھر خواب گاہ میں پہنچتےہی طاہر بستر پرگرا اور بےسُرت ہو گیا۔
    صفیہ نےاس کاجسم بستر پر ترتیب سےدرست کیا اور ڈاکٹر ہاشمی کےہاسپٹل فون کر دیا۔ پندرہ منٹ میں وہاں سےڈاکٹرہارون ایک نرس کےساتھ آ پہنچی۔ صفیہ خاموش کھڑی ان کی کارروائی دیکھتی رہی۔ فوری طور پر بخار کا انجکشن دےکر گلوکوز ڈرپ لگا دی گئی۔دوا کی تفصیل نرس کو سمجھا کر ڈاکٹر ہارون صفیہ کےقریب آئی۔
    ”مسز طاہر۔ اچانک بخار کا یہ اٹیک بڑا سیریس کنڈیشن کا حامل ہی۔ لگتا ہےمسٹر طاہر نےکوئی زبردست شاک برداشت کرنےکی کوشش کی ہی۔اب انہیں مکمل بیڈ ریسٹ کی ضرورت ہی۔ آپ چاہیں تو دوسرےکمرےمیں آرام کر سکتی ہیں۔ جاگنےکےلئےنرس موجود ہی۔ وہ مسٹر طاہر کی تمام کیفیات سےمجھےباخبر رکھےگی۔ میری ضرورت ہوئی تو میں آپ کےبلانےسےپہلےیہاں موجود ہوں گا۔ اب آپ کچھ پوچھنا چاہیں تو میں حاضر ہوں۔“
    ”جی۔ کچھ نہیں۔“ ہولےسےصفیہ نےکہا اور بڑی گہری نظر سےطاہر کی جانب دیکھا جس کا زرد چہرہ اس کا دل دہلا رہا تھا۔
    ”تو مجھےاجازت دیجئی۔ “ ڈاکٹر ہارون نےنرس کی جانب دیکھ کر ہاتھ ہلایا اور کمرےسےنکل گئی۔
    صفیہ چھوٹےچھوٹےقدم اٹھاتےبستر کےقریب چلی آئی۔ نرس نےطاہر کی نبض چیک کی اور مطمئن انداز میں سر ہلایا۔”بخار کم ہو رہا ہی۔“ وہ جیسےخود سےبولی۔
    یہ سن کر صفیہ کےسینےسےبوجھ سا ہٹ گیا۔ اس نےدونوں ہاتھ جوڑ کر اوپر دیکھا جیسےاللہ کا شکر ادا کر رہی ہو۔پھر پاس پڑی کرسی کو بستر کےمزید قریب کیا اور بیٹھ گئی۔اسی وقت اس کی نظر بوڑھےسیف پر پڑی جو دروازےکےپاس سر جھکائےکھڑا تھا۔
    ”ارےبابا۔ آپ وہاں کیوں کھڑےہیں؟“ صفیہ کرسی سےاٹھی۔
    ”بیٹھی رہئےچھوٹی بی بی۔“ سیف قریب چلا آیا۔اس نےکچھ پڑھ کر طاہر کےچہرےکی جانب پھونک ماری اور دعا ئیہ انداز میں چہرےپر ہاتھ پھیر لئی۔” اللہ کرم کر دےگا۔ آپ گھبرائیےنہیں چھوٹی بی بی۔“ سیف نےاسےاپنی بوڑھی آنکھوں سےتشفی کا پیغام دیتےہوئےکہا۔ بےاختیار وہ مسکرا دی۔
    ” آپ دعا کر رہےہیں تو میں کیوں گھبرائوں گی بابا۔“
    ” آپ کےلئےکھانا لگادوں؟“ اس نےپوچھا۔
    ”نہیں بابا۔ مجھےابھی بھوک نہیں۔ہاں ان سےپوچھ لو۔“ صفیہ نےنرس کی طرف اشارہ کیا۔
    ”میرا نام شمیم ہےمیڈم۔“ نرس نےصفیہ کو بتایا۔ پھر سیف کی جانب متوجہ ہوئی۔” ابھی بارہ بجےہیں بابا۔میں ایک بجےکھانا کھائوں گی۔“
    ”جی بہتر۔“ سیف کہہ کر کمرےسےنکل گیا۔
    دوپہر سےشام ہوئی اور شام سےرات۔ اس دوران ڈاکٹر ہارون کو نرس شمیم نےدو تین بار طاہر کی کیفیت سے آگاہ کیا۔ بخار کا زور ختم ہو گیا تھاتاہم ابھی پوری طرح اترا نہیں تھا اور طاہر ہوش میں بھی نہ آیا تھا۔صفیہ اس بات سےمتفکر ہوئی تو نرس نےاسےبتایا کہ طاہر کو گلوکوز ڈرپ میں نیند کا انجکشن دیا گیا ہی۔ اب یہ غنودگی اسی کےباعث ہی۔
    رات کےدس بجےتو شمیم نےڈاکٹر ہارون کو ایک بار پھر طاہر کی حالت سےموبائل پر آگاہ کیا اور بتایا کہ بخار ٹوٹ گیا ہی۔ اب ٹمپریچر نارمل ہی۔ ڈاکٹر ہارون نےاسےہدایت کی کہ دوسری گلوکوز ڈرپ مع انجکشنز لگا دی جائی۔ صبح تک اسےابھی مزید نیند کی ضرورت ہی۔
    ” مسز طاہر سےمیری بات کرائو۔“ ڈاکٹر ہارون نےکہا تو شمیم نےموبائل صفیہ کو تھما دیا۔”ڈاکٹر صاحب بات کریں گی۔“
    ” مبارک ہو مسز طاہر۔ بخار ٹوٹ گیا۔“
    ”شکریہ ڈاکٹر صاحب۔ یہ سب اللہ کےکرم اور آپ کی کوشش سےہوا۔“ صفیہ نےممنونیت سےکہا۔
    ”جی جی۔“ وہ ہولےسےہنسی۔ ” میں دوسری نرس کو بھیج رہا ہوں۔ شمیم کی ڈیوٹی آف ہو رہی ہی۔“
    ”ڈاکٹر صاحب۔ کیا یہ ضروری ہی؟ میرا مطلب ہےدوسری نرس کا ڈیوٹی پر آنا۔۔۔“
    ”جی ایسا ضروری بھی نہیں لیکن اگر مسٹر طاہر کےہوش میں آنےتک کوئی نرس ان کےپاس رہےتو اس میں کوئی حرج بھی نہیں۔“ڈاکٹر ہارون نےبتایا۔
    ”اگر یہ ضروری نہیں ہےڈاکٹر صاحب تو آپ دوسری نرس کو مت بھیجئی۔ میں طاہر کی دیکھ بھال خود کر سکتی ہوں۔“
    ” آر یو شیور؟“ ڈاکٹر ہارون نےپوچھا۔
    ”ویری مچ شیور ۔“ وہ جلدی سےبولی۔
    ”تو ٹھیک ہی۔ تاہم ذرا سی بھی تشویش کی بات ہو تو فوراً مجھےفون کیجئےگا۔ یہ مت سوچئےگا کہ رات یا دن کا کون سا پہر چل رہا ہی۔ شمیم سےدوا کےبارےمیں سمجھ لیجئےاور ایک تکلیف یہ کیجئےکہ اسےوہیں سےاس کےگھر بھجوا دیجئی۔“
    ”جی بہتر۔ “ صفیہ نےموبائل شمیم کو تھما دیا‘ جو طاہر کو دوسری ڈرپ لگا کر اس کی سپیڈ چیک کر رہی تھی۔
    ”شمیم۔ تم ڈرپ ارینج کر کےوہیں سےگھر چلی جائو۔ دوا مسٹر طاہر کو کب کب اور کیسےدینا ہی‘ یہ مسز طاہر کو سمجھا دو۔“
    ”یس ڈاکٹر۔“ اس نےمستعدی سےجواب دیا۔
    ”اوکی۔ گڈ نائٹ۔“
    ”گڈ نائٹ سر۔“ شمیم نےموبائل آف کر کےجیب میں ڈالا اور صفیہ کو دوا کےبارےمیں بتانےلگی‘ جو چند گولیوں اور ایک سیرپ پر مشتمل تھی۔صفیہ نےدوائوں کی ٹرےتپائی پر رکھ کر سیف کو آواز دی۔ وہ کمرےمیں داخل ہوا تو صفیہ نےکہا۔
    ”بابا۔ حمید سےکہئی‘ انہیں ان کےگھر ڈراپ کر آئی۔“
    ”جی بہتر۔ “ سیف نےمختصرجواب دیااور شمیم صفیہ کو سلام کر کےرخصت ہو گئی۔شمیم کو ڈرائیور حمید کےساتھ روانہ کر کےسیف واپس کمرےمیں آیا۔
    ”چھوٹی بی بی۔ آپ کےلئےکھانا لگائوں۔ آپ نےصبح کا ناشتہ کیا تھا۔ اس کےبعد سےاب تک آپ نےبالکل کچھ نہیں کھایا۔“
    ”بھوک نہیں ہےبابا۔“ صفیہ نےطاہر کےجسم پر کمبل درست کرتےہوئےجواب دیا۔” جب بھوک محسوس ہو گی ‘میں بتا دوں گی۔“
    ”میں ضد تو نہیں کر سکتا چھوٹی بی بی مگر اس طرح مسلسل خالی پیٹ رہ کر آپ خود بیمار ہو جائیں گی۔ اللہ نےکرم کردیا ہی۔اب پریشانی کی کیا بات ہےجو آپ کو بھوک نہیں لگ رہی۔“
    ”بابا۔“ صفیہ طاہر کو محبت پاش نظروں سےدیکھتےہوئےبولی۔ ”طاہر نےکچھ کھایا ہےجو میں کھا لوں؟ جب یہ ہوش میں آ جائیں گےتو کھانا پینا بھی سوجھ جائےگا۔“
    سیف کا منہ حیرت سےکھل گیا۔ پھر اس کی نظروں میں عجیب سی چمک ابھری۔ ایسی چمک جو کسی بوڑھےباپ کی نگاہوں میں اس وقت جنم لیتی ہےجب وہ اپنی اولاد پر فخر محسوس کرتا ہی۔ اس نےطاہر کا ہاتھ اپنےہاتھوں میں تھام کر بیٹھتی ہوئی صفیہ کی جانب دیکھا اور ”جیتی رہئےچھوٹی بی بی“ کی سرگوشی کےساتھ کمرےسےنکل گیا۔
    ٭

    کراہ کر طاہر نےپلکوں کو حرکت دی اور بستر کی پٹی پر سر رکھےبیٹھی صفیہ بجلی کی سرعت سےسیدھی ہو گئی۔طاہر کا ہاتھ اب بھی اس کےہاتھوں میں دبا ہوا تھاجسےاس نےاپنےرخسار سےلگا رکھا تھا۔
    ”طاہر۔“ اس کا ہاتھ چومتےہوئےوہ اس کےچہرےپر جھک گئی۔
    ”صفی۔“ طاہر کےلبوں سےنکلااور اس نے آنکھیں کھول دیں۔
    ”جان ِ صفو۔“ صفیہ وارفتگی سےبولی اور اس کی نگاہوں کےحلقےمیں در آئی۔”یہ صفو سےصفی کیوں کر دیا مجھے آپ نی؟“ شکایت بھرےلہجےمیں اس نےپوچھا۔
    طاہر نےجواب میں کچھ کہنا چاہا مگر ہونٹ کپکپا کر رہ گئی۔ساتھ ہی اس کی آنکھوں کےگوشوں سے آنسوڈھلک پڑی۔
    ”طاہر۔“ صفیہ کا کلیجہ پھٹ گیا۔” طاہر میری جان۔ یہ کیا کر رہےہیں آپ؟ اس طرح مجھےرگ رگ ذبح مت کیجئی۔ ایک ہی بار جان لےلیجئی۔ میں اُف نہ کروں گی مگر اس طرح خود کو اذیت دےکر مجھےپل پل ہلکان مت کیجئےطاہر۔ مت کیجئی۔“ وہ اس کےسینےپر مچل کر بلک پڑی۔
    ”میں کیا کروں صفی ۔۔۔کیا کروں؟“ طاہر سرگوشےکےلہجےمیں بولا۔ اس کی آواز زخم زخم ہو رہی تھی۔” مجھ سےبرداشت نہیں ہو رہا۔۔۔“
    ” آپ کیا کریں‘ یہ میں آپ کو پہلےبھی بتا چکی ہوں طاہر۔ مجھ پر ‘ اپنے آپ پر‘ اپنی محبت پر اعتماد کیجئی۔اور رہی بات برداشت کرنےکی تو آپ کیا برداشت نہیں کر پا رہی‘ یہ میں جانتی ہوں لیکن اس میں میرا کتنا قصور ہی‘ آپ یہ بھی تو جانتےہیں۔“
    ”ہاں۔“ طاہر کی آواز میں درد ابھرا۔” تمہارا اس میں کوئی قصور نہیں صفی مگر میں اس دل کا کیا کروں جو یہ سوچ کر ہی ہلکان ہو گیا کہ کوئی اور بھی ہےجو کہیں دور رہ کر ہی سہی‘ مگر تمہیں چاہتا ہی۔ تم سےعشق کرتا ہی۔ تمہارےلئےجوگ لےچکا ہی۔“
    ”تو اس سے آپ کو یا مجھےکیا فرق پڑتا ہےطاہر؟ ہمارا اس کےاس فعل سےکیا تعلق؟ کیا لینا دینا ہےہمیں اس کےاس فیصلےسی؟“ صفیہ نےسر اٹھایا اور اس کی آنکھوں میں دیکھا۔ ” آپ میرےلئےہیں اور میں آپ کےلئی۔ بس یہی ہماری دنیا ہےجس کےاندر ہمیں رہنا ہی۔ اس سےباہر کیا ہی‘ کیوں ہی‘ اس سےہمیں کیا سروکار طاہر۔“ اس نےطاہر کی آنکھوں سےبہتےاشکوں کو اپنےہونٹوں میں جذب کر لیا۔
    ”یہ ایسا آسان نہیں ہےصفی۔“ طاہر نےپلکیں موند لیں۔”بڑا مشکل ہےیہ سہنا کہ کوئی اور بھی میری صفو کو چاہےاور میں اس سےباخبر ہو کر بھی چین سےجیتا رہوں۔“
    ”یہ پاگل پن ہےطاہر۔“ صفیہ اسےسمجھانےکےانداز میں بولی۔” خود کو سنبھالئی۔ بےبنیاد شک کی آگ میں خود کو مت جلائیی۔“
    ”شک نہیں صفی۔“ طاہر نے آنکھیں کھول دیں۔”شک تو میں تم پر کر ہی نہیں سکتا کہ تم اس معاملےمیں کسی طور بھی انوالو نہیں ہو۔شک نہیں ‘ ایک خوف ہےجس نےمجھےاپنی لپیٹ میں لےلیا ہی۔“
    ”خوف؟“ صفیہ نےاس کا چہرہ ہاتھوں کےپیالےمیں لےلیا۔“ کیسا خوف طاہر؟ کھل کر کہئی۔“
    ”تمہارےچھن جانےکا خوف صفی۔“ وہ کہتا چلا گیا اور صفیہ بُت بنی اسےتکتی رہی۔ سنتی رہی۔
    ”خوف یہ ہےکہ وہ جو تمہارےلئےدنیا تیاگ رہا ہی‘ کسی دن سامنے آ گیا تو کیا ہو گا؟ “
    ”کیا ہو گا؟“ صفیہ نےاس کی آنکھوں میں دیکھا۔” آپ کا خیال ہےکہ وہ مجھے آپ سےچھین کر لےجائےگا۔“
    ”نہیں۔ “ طاہر نےنفی میں ہولےسےسر ہلایا۔ ” یہ نہیں۔ ایسا نہیں ہو گا مگر جو ہو گا وہ اس سےبہت آگےکی بات ہےصفی۔“
    ” آپ کہہ ڈالئےطاہر۔ اندیشےاور خوف کا جو ناگ آپ کو اندر ہی اندر ڈس رہا ہےاسےالفاظ کےراستےباہر نکال دیجئی۔ یہ مت سوچئےکہ الفاظ کتنےزہریلےہوں گی۔ بس کہہ جائیےجو آپ کو کہنا ہی۔“
    ”صفی۔ “ طاہر نےخشک لبوں پر زبان پھیرتےہوئےاس کی جانب دیکھا۔ ” پتھر پر پانی کی بوند مسلسل گرتی رہےتو اس میں چھید کر دیتی ہی۔ اس کا جوگ اگر تمہیں ایک پل کو بھی متاثر کر گیا تو وہ کنڈلی مار کر تمہارےدل میں آ بیٹھےگا اور اس کا یہ آ بیٹھنا میرےاور تمہارےدرمیان ایک پل ہی کی سہی‘ جس دوری کو جنم دےگا وہ شیشےمیں آ جانےوالےاس بال کی مانند ہو گی جس کا کوئی علاج نہیں ہوا کرتا۔“
    ”طاہر۔۔۔“ صفیہ اسےمتوحش نگاہوں سےدیکھنےلگی۔ ” یہ کیا کہہ رہےہیں آپ؟“
    ”میں ٹھیک کہہ رہا ہوں صفی۔“ اس کی آواز لرز گئی۔”میں نےاب تک کی زندگی میں صرف اور صرف ناکامیوں کامنہ دیکھا ہی۔ چاہا کہ شادی سےپہلےکسی کی اَن چھوئی محبت پا لوں ۔ نہ پا سکا۔ پھر چاہا کہ جس سےزندگی کےسفر کا سودا کروں ‘ وہ ایسا ہو جسےکسی اور سےکوئی تعلق نہ ہو‘ ایسا ہی ہوا ۔اب پتہ چلا کہ میرا ہمسفر تو اَن چھوا بھی ہےاور کسی بھی غیر سےبےتعلق بھی ‘ مگر کوئی ایک اور ایسا ہےجو کہیں دور بیٹھا اس کی پرستش کرتا ہی۔ اسےپوجتا ہی۔ اور ایسا دیوانہ پجاری کبھی سامنے آ جائےتو دیوی پر اس کی تپسیا کیا اثر کرےگی‘ یہ خوف میرےاندر ڈنک مار رہا ہی؟“
    ”طاہر۔“ صفیہ نےاسےوالہانہ دیکھےہوئےکہا۔ ” میں سرمد کی دیوانگی سےتو بےخبر ہوں کہ وہ جو کہہ رہا تھا اس میں کتنی حقیقت تھی اور کتنا فسانہ؟ مگر آپ کا پاگل پن ضرور میری جان لےلےگا۔ آپ ایک فرضی خوف کےسائےاپنی اور میری زندگی پر مسلط کر کےکیوں عذاب مول لےرہےہیں؟ اس کا کوئی علاج بھی ہے؟ مجھےصرف یہ بتائیےکہ میں کیا کروں جو آپ کےد ل سےیہ وہم نکل جائےاور آپ اور میں ایک نارمل زندگی گزار سکیں۔ بتائیےطاہر۔ اگر اس کےلئےمیں اپنی جان دےکر بھی آپ کو اس خوف سےنجات دلا سکی تو مجھےکوئی عذر نہ ہوگا اور اگر اس کےلئےسرمد کی جان لینا لازم ہےتو میں اسے آپ کےوہم پر قربان کر دں گی طاہر ۔مگر آپ کو اس اذیت سےچھڑا کر رہوں گی۔ بتائیی۔ کیا کروں میں؟ حکم دیجئی۔“ اس نےطاہر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں۔
    ”کیا کہہ رہی ہو صفی؟“ طاہر تڑپ گیا۔ ” تم اپنی جان دینےکی بات کر رہی ہو؟ میری کس بات سےظاہر ہوا کہ میں ایسا چاہتا ہوں۔ اور رہی بات سرمد کی تو اسےراستےسےہٹا دینا اگر ضروری ہوا تو یہ کام میں خود کروں گا‘ تم ایسا کیوں کرو گی؟ لیکن مجھےلگتا ہےکہ تم ٹھیک کہہ رہی ہو ۔ ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ایسا کوئی فیصلہ کیا جائی۔“
    ”تو پھر خود کو سنبھالئےطاہر۔ خود پر نہیں‘ مجھ پر رحم کیجئی۔ آپ کی حالت مجھ سےدیکھی نہیں جاتی۔ “ صفیہ نےسر اس کےسینےپر ڈال دیا۔ آہستہ سےطاہر کا ہاتھ حرکت میں آیا اور صفیہ کی زلفوں سےکھیلنےلگا۔
    صفیہ سسک رہی تھی۔
    طاہر کی آنکھوں میں پھر نمی چھلک رہی تھی۔
    وقت کیا کھیل کھیلنےوالا تھا‘ دونوں اس سےبےخبر اندیشوں اور خوف کی پرچھائیوں سےدل کا دامن چھڑانےکی کوشش کر رہےتھی۔ دل۔۔۔ جو سمجھائےنہیں سمجھتا اور بہلائےنہیں بہلاکرتا۔
    ٭
    دو ہی دن میں طاہر نچڑ کر رہ گیا۔ کہنےکو بخار تو اتر گیا مگر وہ کیسا بخار تھا کہ جس کی دی ہوئی بربادی نےطاہر کےجسم و جان میں ڈیرےڈال لئے۔ وہ بالکل خاموش ہو کر رہ گیا۔ صفیہ رات دن اس کی تیمار داری میں لگی رہتی۔ اسےبہلانے‘ ہنسانی‘ اس کےچہرےکی رونق بحال کرنےکےلئےسو سو جتن کرتی مگر طاہرسوائےپھیکےسےانداز میں مسکرا دینےاور اس کی ہر بات کا مختصر سا جواب دینےکےسوا کچھ بھی رسپانس نہ دیتا۔
    وسیلہ خاتون نےدو تین بار فون پر صفیہ سےبات کی۔ اسےکریدناچاہا کہ صورتحال کیا ہی؟ صفیہ نےانہیں سب کچھ صاف صاف بتا دیا اور کہا کہ وہ اس معاملےمیں بالکل پریشان ہوں نہ اس میں دخل دینےکی کوشش کریں۔ کسی بھی تیسرےفرد کا اس صورتحال میں در آنا مزید الجھن پیدا کر سکتا تھا‘ یہ صفیہ کی اپنی سوچ تھی اور شاید کسی حد تک یہ درست بھی تھا‘ اس لئےوسیلہ خاتون نےاس کےکہنےپر فون پر ہی طاہر کی خیر خبر پوچھ لی‘ خود آنےسےگریز کیا۔
    ڈاکٹر ہاشمی اور بیگم صاحبہ کا صرف ایک فون آیا تھا۔ وہ خیریت سےتھےاور انہوں نےاپنا قیام دیار ِ حبیب میں بڑھا لیا تھا۔ ان کی جلدواپسی کا ابھی کوئی امکان نہ تھا۔ آفس کےمعاملات امبر بخوبی کنٹرول کر رہی تھی۔ اسےطاہرکی بیماری کا قطعاً علم نہ تھا ۔ صفیہ نےبھی اسےموجودہ صورتحال سےباخبر کرنا ضروری نہ سمجھا کہ اس سےسوائےبات پھیلنےکےاور کیا ہوتا؟وہ جانتی تھی کہ یہ بات طاہر بھی پسند نہ کرےگا۔ گھر کےملازموں میں بابا سیف اور ڈرائیور حمید کو صرف یہ پتہ تھا کہ صاحب کو بڑا شدید بخار ہےاور بس۔ جو ملازمہ صفائی اور باہر کےکاموں کےلئےتھی‘ اسےاس بات کی ہوا بھی نہ لگی کہ طاہر کی طبیعت خراب ہی۔کچن کا کام ہوتا ہی کتنا تھا‘ سیف کو اس کےلئےکسی معاون کی بھی ضرورت نہ تھی۔ اس لئےاصل بات پردےہی میں رہی۔
    آج پانچواں دن تھا۔ طاہر نےشیو بنائی ‘ غسل کیا اور دس بجےکےقریب سردیوں کی دھوپ کےلئےلان میں آ بیٹھا۔
    صفیہ نےاس کےچہرےپر کچھ رونق دیکھی تو اس کی جان میں جان آئی۔ اس نےسیف سےچائےبنا کر لان ہی میں لے آنےکو کہا اور خود چھوٹا سا بیگ تھامےطاہر کےپاس چلی آئی۔
    وہ بید کی کرسی پر سر سینےپر جھکائےنجانےکس سوچ میں ڈوبا بیٹھا تھا۔ صفیہ اس کےقریب پہنچی تو اس کی آہٹ پر وہ چونکا۔
    ”کیا سوچ رہےہیں میرےحضور؟“ صفیہ نےکرسی سےکشن اٹھا کر نیچےگھاس پر ڈالا اور اس کےقدموں میں بیٹھ گئی۔
    ”ارےاری۔“ وہ جلدی سےبولا۔” یہ کیا ۔ اوپر بیٹھو ناں۔“ اس نےپائوں کھینچ لئی۔
    ”خاموش۔“ صفیہ نے آنکھیں نکالیں۔ ” چائے آنےتک مجھےاپنا کام ختم کرنا ہی۔“ کہہ کر اس نےطاہر کےپائوں تھام کر اپنی گود میں رکھ لئی۔
    ”اری۔ کیا کر رہی ہو بھئی۔ کسی ملازم نےدیکھ لیاتو ۔۔۔؟“ اس نےپائوں واپس کھینچنا چاہی۔
    ”تو کیا ہو گاجناب عالی؟ میں کون سا آپ کےساتھ کوئی نازیبا حرکت کرنےجا رہی ہوں۔ ذرا دیکھئی۔ کس قدر خشکی ہو رہی ہےجلد پر۔ “ صفیہ نےاس کےپائوں پھر گود میں ڈال لئےاور بائیں ہاتھ سےبیگ کھول کر اس میں سےنیل± کٹر نکال لیا۔
    ”ارےبابا ۔ یہ کام میں خود کر لوں گا۔ تم رہنےدو۔“طاہر نےاسےروکنا چاہا۔
    ”اگر اب آپ نےپائوں واپس کھینچا ناں تو میں یہ پیر میں چبھو دوں گی۔“ صفیہ نےاسےنیل کٹر میں لگا چھوٹا سا چاقو دکھاتےہوئےدھمکی دی۔ اس کےبچگانہ ¾ معصوم اور محبت بھرےلہجےپر طاہر بےاختیار مسکرا دیا اور پائوں ڈھیلےچھوڑ دیی۔
    ”یہ ہوئی ناں اچھےبچوں والی بات۔“ وہ خوش ہو گئی۔
    پھر پہلےاس نےطاہر کےہاتھ‘ پیروں کےناخن کاٹی۔ اس کےبعد اس کےہاتھوں ‘ پیروں اور آخر میں پنڈلیوں پر وائٹ جیل مالش کی۔ طاہر خاموشی سےاسےیہ سب کام کرتےہوئےدیکھتا رہا۔ وہ یوں اپنےکام میں مگن تھی جیسےاس سےبڑا کام آج اسےاور کوئی نہ کرنا ہو۔جب سیف چائےرکھ کر گیا تو وہ لان کےگوشےمیں لگےنل پر ہاتھ دھو کر فارغ ہو چکی تھی۔
    ”یہ ملنگوں والی عادت چھوڑ دیجئی۔ اپنا خیال رکھا کیجئی۔کل کو اگر میں نہ رہی تو آپ کو تو ہفتےبھر میںجوئیں پڑ جائیں گی۔“ واپس آ کر چائےبناتےہوئےاس نےطاہر کی طرف دیکھتےہوئےسنجیدگی سےکہا۔
    ”کہاں جانا ہےتمہیں؟“ طاہر اب اسےنام لےکر بلانےسےاحتراز کرتا تھا‘ یہ بات صفیہ نےمحسوس کر لی تھی مگر اس نےکسی بھی بات پر بحث یا اعتراض کرنےکا خیال فی الحال ترک کر دیاتھا۔ اسےحالات اور خاص طور پر طاہرکےنارمل ہونےتک انتظار کرنا تھا۔اسےعلم تھا کہ یہ انتظار سالوں پر بھی محیط ہو سکتاہی‘ مگر اس نےفیصلہ کر لیا تھا کہ طاہر کےدل میں اپنا مقام دوبارہ اجاگر ہونےتک وہ زبان سی رکھےگی ۔ حق طلب نہ کرےگی اور فرض کو اوڑھنا بچھونا بنا لےگی۔ اب رات دن یہی کر رہی تھی وہ۔
    ”زندگی کا کیا بھروسہ ہےمیرےحضور؟ جانےکب بلاوا آ جائی۔“ وہ چائےکا کپ اس کی طرف سرکاتےہوئےبولی۔”اس لئےاس کنیز کی موجودگی میں اپنا آپ سنبھال لینا سیکھ لیجئی۔ ملازم بہرحال ملازم ہوتےہیں‘ وہ وقت پر کھانا کپڑا تو مہیا کر سکتےہیں‘ بےوقت خدمت سےاکتا جاتےہیں۔“
    ”تم بھی کہیں اکتا تو نہیں گئیں ؟“ طاہر نےاسےغور سےدیکھا۔
    ”میں۔۔؟“ صفیہ نےاسےشکوےبھرےانداز میں دیکھا مگر دوسرےہی پل اس کی آنکھیں شفاف ہو گئیں۔ ”میں بھلا کیوں اکتائوں گی۔ میں ملازم نہیں آپ کی کنیز ہوں اور کنیز خریدا ہوا وہ مال ہوتا ہےمیرےحضور‘ جس کےدل سےاکتانےکی حس ختم کر کےاللہ تعالیٰ اس کی جگہ محبت‘ خلوص اور ایثار کی دھک دھک بھر دیتا ہی۔“
    ”تو میں نےتمہیں خریدا ہی؟“ طاہر نےچسکی لےکر کپ واپس رکھ دیا۔
    ”جی ہاں۔“ صفیہ نےاطمینان سےجواب دیا۔ ” اپنی محبت‘ اپنی توجہ اور اپنےپیار کےعوض آپ اس کنیز ‘ اس باندی کو کب سےخرید چکےہیں۔“
    طاہر لاجواب ہو گیا۔دل میں ایک کسک سی ابھری۔ اس کی محبت اور توجہ سےتو صفیہ کتنےہی دنوں سےمحروم تھی۔ اب شاید وہ اس پر طنز کر رہی تھی یا اسےاس کا احساس دلانا چاہتی تھی۔ اس نےدزدیدہ نگاہوں سےصفیہ کی جانب دیکھا۔ وہاں اسےطنز کی کوئی جھلک نہ ملی تو وہ سوچ میں ڈوب گیا۔
    صفیہ سےبخار کےاٹیک کی رات اس کی بڑی کھل کر بات ہوئی تھی۔ اس کےبعد اسےنارمل ہو جانا چاہئےتھا مگر وہ اب تک دل و دماغ کی جنگ میں الجھا ہوا تھا۔ابھی تک وہ خود کوواپس پہلی پوزیشن پر نہ لا سکا تھا‘ جہاں صرف وہ اور صفو تھی۔ جہاں ابھی صفی نےجنم نہ لیا تھا۔ اور اب تو صفی بھی پردےکےپیچھےچلی گئی تھی۔ وہ حتی الامکان اس کا نام لینےسےگریز کرتا تھا۔
    چائےختم ہو گئی۔ سیف برتن لےگیا۔
    ” آج کہیں باہر چلیں۔“ صفیہ نےبیگ کی زپ بند کرتےہوئےا س کی جانب دیکھا۔
    ”کہاں؟“ طاہر کی نگاہیں اس سےملیں۔
    ”جہاں بھی آپ لےجائیں۔“
    ”جہاں تم جانا چاہو‘ چلےچلیں گی۔“ طاہر نےفیصلہ اس پر چھوڑ دیا۔
    ”دوچار دن کےلئےگائوں نہ چلیں؟“ صفیہ نےاشتیاق سےکہا۔
    ”گائوں؟“ طاہر حیرت سےبولا۔ ”وہاں جا کر کیا کرو گی۔ مٹی ‘ دھول پھانکنےکےسوا وہاں کیا ہی۔“
    ”چند دن کھلی آب و ہوا میں رہنےسے آپ کی طبیعت پر بڑا اچھا اثر پڑےگا اور میں بھی کبھی کسی گائوں میں نہیں گئی‘ میری سیر ہو جائےگی۔“
    ”ہوں۔“ طاہر نےہنکارا بھرا۔
    ”اگر کوئی امر مانع ہےتو رہنےدیں۔“ صفیہ نےاسےالجھن میں دیکھ کر کہا۔
    ”نہیں۔ایسی کوئی بات نہیں۔“ طاہر نےاس کی جانب دیکھا۔ ” میں صرف یہ سوچ رہا تھا وہاں جا کر تم بور ہو جائو گی۔“
    ”سنا ہے آپ وہاں پندرہ پندرہ دن اور امی جان د و دو مہینےرہ کر آتی ہیں۔ آپ بور نہیں ہوتےکیا؟“
    ”میرا اور امی کا تو کام ہی۔ زمینوں کا حساب کتاب بڑےدقت طلب مسائل کا حامل ہوتا ہی۔ اس لئےبور ہونےکا وقت ہی نہیں ملتا مگر تم۔۔۔“
    ” آپ ساتھ ہوں گےتو بوریت کیسی؟“ صفیہ نےاسےبڑی والہانہ نظروں سےدیکھا۔
    ”تو ٹھیک ہی۔ میں فون کر دیتا ہوں۔ دو بجےنکل چلیں گی۔ ڈیڑھ گھنٹےکا راستہ ہی۔ عصر تک پہنچ جائیں گی۔“ اس نےنظریں چرا لیں۔
    ”ٹھیک ہی۔“ صفیہ بچوں کی طرح خوش ہو گئی۔ ” میں پیکنگ کر لوں؟“
    ”کر لو۔“ طاہر بیساختہ ہنس دیا۔ ” مگر بہت زیادہ دنوں کا پروگرام نہ بنا لینا۔ آج منگل ہی۔ بس جمعےتک لوٹ آئیں گی۔“
    ”جی نہیں ۔“ وہ اٹھتےہوئےبولی۔ ” یہ وہاں جا کر سوچیں گےکہ کتنےدن رکنا ہی۔ ابھی آپ کے آفس جانےمیں دس بارہ دن باقی ہیں اور امی کاتو ابھی واپسی کا کوئی ارادہ ہی نہیں ۔ اس لئےاطمینان سےلوٹیں گی۔“ وہ بیگ اٹھا کر چل دی۔ نجانےکیوں طاہر کا جی نہ چاہا کہ وہ اسےٹوکی۔ وہ بہت خوش نظر آ رہی تھی اور اسےاس کی خوشی میں رکاوٹ ڈالنا اچھا نہ لگا۔
    دوپہر کا کھانا کھا کر وہ گائوں کےلئےنکل کھڑےہوئی۔ گاڑی کی ڈگی میں صفیہ نےدو بکس رکھوائےتھی‘ جس سےاندازہ ہوتا تھا کہ اس کا ارادہ جلدی لوٹنےکا قطعاً نہیں ہی۔
    پھر یوں ہوا کے درد مجھے راس آ گیا

  10. #19
    Mohammad Sajid's Avatar
    Mohammad Sajid is offline * خاک نشین *
    Join Date
    Mar 2008
    Location
    Hijr
    Posts
    152,881
    Mentioned
    108 Post(s)
    Tagged
    8578 Thread(s)
    Rep Power
    21475005

    Default Re: Ishq Ka Qaaf

    وجاہت آباد ‘ طاہر کےوالد سر وجاہت سلطان کےنام پر آباد تھا۔
    گائوں کیا تھا ‘ قدیم بود و باش کا ایک ماڈل تھا۔ آج بھی وہاں رہٹ چلتےتھی۔ کھیتوں میں نئےدور کی کوئی کھاد نہ ڈالی جاتی تھی۔ ٹیوب ویل بھی تھےمگر آب پاشی کےلئےپرانےکنووں کو قطعاً ختم نہ کیا گیا تھا۔ وجاہت سلطان کو اپنےکلچر سےبیحد پیار تھا‘ اس لئےانہوں نےوہاں جدید آلات کے آنےپرپابندی نہ لگائی تو پرانےنظام کو ختم کرنےکی اجازت بھی نہ دی۔ ان کےمزارعےان کےایسےفرمانبردار تھےکہ حیرت ہوتی تھی۔ ورنہ یہ قوم کسی سےوفا کر جائےیہ ممکن ہی نہیں۔ نجانےوجاہت سلطان نےانہیں کیا سنگھایا تھا کہ وہ ان کےہر حکم کو جی جان سےمان لیتےتھی۔ ان کےبعد بیگم وجاہت سلطان نےبھی ان کےساتھ وہی سلوک روا رکھا جو ان کےشوہرکا خاصاتھا‘ اس لئےمعاملات خوش اسلوبی سےچل رہےتھی۔
    وجاہت سلطان کا زندگی بھر ایک ہی اصول رہا تھا:
    ”کسی کا حق مارو نہ اپناحق چھوڑو۔ اور عزت سب کےلئی۔“
    بیگم صاحبہ اور طاہر نےاس اصول میں کبھی لچک نہ آنےدی ۔ہر دُکھ سُکھ میں جب وہ گائوں والوں کےساجھی تھےتو انہیں کیا پاگل کتےنےکاٹا تھا کہ وہ ایسےمالکوں کےخلاف سوچتی۔ طاہر کی شادی پر جیسےشہر سلطان وِلا میں بلا کر ان کی پذیرائی کی گئی تھی‘ اس بات نےانہیں اور بھی گرویدہ کر دیا تھا۔
    گائوں میں’ ’بیگم حویلی“ بیگم صاحبہ کےلئےطاہر کےوالد نےتعمیر کرائی تھی۔ یہ ابتدا سےاسی نام سےمشہور تھی۔ حویلی کا انتظام شروع سےمزارعوں کےنگران اور گائوں کےمعاملات کےمنتظم بلال ملک کےہاتھ میں تھا۔ اس کی جوانی ڈھل رہی تھی مگر آج بھی اس کی کڑک اور پھڑک ویسی ہی تھی۔ کسی کو اس کےسامنےدم مارنےکی جرات نہ ہوتی تھی۔ گائوں میں بیگم صاحبہ اور طاہر کےبعد وہ سب سےبا اختیار سمجھا جاتا تھا۔
    حویلی کےباہر ہی بلال ملک چیدہ چیدہ افراد کےساتھ طاہر اور اپنی چھوٹی مالکن کےاستقبال کےلئےموجود تھا۔ طاہر نےگاڑی روکی اور صفیہ اس کےساتھ باہر نکل آئی۔ حویلی کیا تھی‘ چھوٹا موٹا محل تھا جو بڑےپُر شکوہ انداز میں سر اٹھائےانہیں فخر سےدیکھ رہا تھا۔صفیہ اس کی خوبصورتی سےبیحد متاثر ہوئی۔
    بلال ملک اور اس کےبعد دوسرےلوگوں نےان دونوں کےگلےمیں ہار ڈالےاور انہیں چھوٹےسےجلوس کی شکل میں حویلی کےاندر لایا گیا۔
    ہال کمرےمیں وہ دونوں صوفوں پر بیٹھ گئی۔ سب لوگ جیسےکسی بادشاہ کےدربار میں حاضر تھی۔ کچھ دور پڑی کرسیوں پر بیٹھ کر انہوں نےادب سےسر جھکا لئی۔ بلال ملک ان دونوں کےسامنے آ کھڑا ہوا۔
    ”چھوٹی مالکن۔ اگر چاہیں تو اندر زنان خانےمیں تشریف لےچلیں۔ گائوں کی لڑکیاں بالیاں آپ سےملنا چاہتی ہیں۔“ اس نےکہا۔
    صفیہ نےطاہر کی جانب دیکھا۔ اس نےمسکرا کر اثبات میں سر ہلا دیا۔ صفیہ نےگلےسےہار اتار کر صوفےہی پر ڈالےاور ایک ملازمہ کےعقب میںچلتی ہوئی ہال کمرےکےاندرونی دروازےکی جانب بڑھ گئی جو زنان خانےکےکاریڈور میں کھلتا تھا۔
    ”اور سنائو ملک۔ کیا حالات ہیں؟“ طاہر نےصوفےپر نیم دراز ہوتےہوئےکہا۔
    ”اللہ کا کرم ہےچھوٹےمالک۔سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہی۔“ وہ اس کےسامنےبیٹھ گیا۔
    اسی وقت ایک ملازم دودھ کا جگ اور گلاس ٹرےمیں رکھے آ گیا۔ طاہر نےدودھ پیا اور ملازم برتن واپس لےگیا۔
    ”پچھلےدنوں جو باڑ آئی تھی‘ اس سےکوئی نقصان تو نہیں ہوا؟“ طاہر نےرومال سےہونٹ صاف کرتےہوئےپوچھا۔
    ”نہیں جی۔ ہمارا علاقہ تو محفوظ ہی رہا۔ ہاں ارد گرد کافی نقصان ہوا۔ دریا ابل پڑا تھا جی۔ بڑی مشکل میں رہےہمسایہ دیہات کےلوگ۔۔۔“
    ”تم نےان کی کوئی مدد بھی کی یا ہاتھ پر ہاتھ دھرےبیٹھےرہی؟“
    ”مدد کیوں نہ کرتےجی۔ یہ تو ہم پر قرض ہوتا ہےجو ادا کئےبنا رات کو نیند نہیں آتی۔“ بلال ملک نےادب سےجواب دیا۔
    ”اب میں تھوڑا آرام کروں گا ملک۔ اپنی مالکن کو بھی جلدی فارغ کر دینا۔ وہ پہلی بار گائوں آئی ہی۔ پہلےہی دن تھک کر لمبی لمبی نہ لیٹ جائی۔“ وہ ہنستا ہوا اٹھ گیا۔اس کےساتھ ہی سب لوگ اٹھ کھڑےہوئی۔
    ”ان کی آپ فکر کریں نہ ان کےبارےمیں سوچیں۔ اب وہ جانیں اور گائوں والیاں۔ انہیں تو اگر وقت پر سونا بھی مل جائےتو غنیمت ہو گا۔“ ملک بھی ہنسا۔
    ”چلو ٹھیک ہی۔ اسےبھی گائوں آنےکا بڑا شوق تھا۔ بھگتےاب۔“ طاہر کہہ کرہال سےباہر نکل گیا۔ ملک باقی لوگوں کےساتھ دوبارہ نشستوں پر براجمان ہو گیااور ہلکی آواز میں باتیں ہونےلگیں۔
    صفیہ کو گائوں کی بڑی بوڑھیوں نےپیار کر کر کےاور سوغاتیں پیش کر کر کےنڈھال کر دیا۔ پھر لڑکیوں اور جواں سال عورتوں نےاس کےکمرےمیں ایسا ڈیرہ ڈالا کہ اسے آرام کرنا بھول ہی گیا۔ شام کےقریب وہ اسےگائوں کےکھیتوں کی سیر کو لےگئیں۔ ہر کوئی اسےدیکھ کر نہال ہو رہا تھا۔ وہ ساری کلفتیں بھول کر ان کےساتھ یوں گھل مل گئی جیسےیہ سارا ماحول اس کا صدیوں سےدیکھا بھالا ہو۔
    ٭

    سیلاب دریا کی حدود میں داخل ہوا تو دریا بپھر گیا۔ اس انجان پانی کو اس کی اجازت کےبغیر ‘ اچانک اس کےگھر میں داخل ہونےکی جرات کیسےہوئی؟ شاید یہی غصہ تھا جو دریا نےنکالا اور سینکڑوں دیہات اس کےغضب کا نشانہ بن گئی۔
    وجاہت آباد دریا سےذرا ہٹ کر واقع تھااس لئےمحفوظ رہا تاہم سب سےزیادہ نقصان جس گائوں میں ہوا وہ عزیز کوٹ تھا۔ گائوں کا گائوں پانی میں ڈوب کر رہ گیا۔ درجنوں لوگ سیلاب کےریلےمیں بہہ گئی۔ کچےمکانوں کا وجود یوں مٹ گیا جیسےوہ کبھی موجودہی نہ تھی۔ سیلاب رات کےپچھلےپہر اچانک ہی عزیز کوٹ والوں پر ٹوٹ پڑا تھا۔ نیند میں گم لوگ جب تک ہوش میں آتی‘ غرقابی ان کا مقدر بن چکی تھی۔بچے‘ عورتیں‘ بوڑھی‘ درجنوں لوگ سیلاب کی نذر ہو گئی۔ لاشوں کی تلاش اور گھرےہوئےزندہ افراد کو بچانےکا کام اب بھی انفرادی اور اجتماعی طور پر جاری تھا۔
    وجاہت آباد والوں نےدن رات عزیز کوٹ والوں کےلئےوقف کر دیی۔ لوگوں کو ان کےپانی میں گھرےمکانوں سےنکالنےسےلےکر ان کےلئےرہائش اور خور و نوش کا وافر انتظام کرنےتک وجاہت پور والوں نےحکومتی مشینری کا ایسا بےمثال ساتھ دیا کہ ہرطرف واہ واہ ہو گئی۔
    عزیز کوٹ اور وجاہت آباد کا درمیانی فاصلہ تقریباً چھ کلو میٹر تھامگر وجاہت آباد والوں نےاپنےتعاون اور محبت سےاس فاصلےکو چھ فٹ میں بدل دیا ۔ پانی اترنےتک انہوں نےبچےکھچےعزیز کوٹ والوں کو اپنےہاں سنبھالےرکھا ۔ پھر جب حکومت نےامدادی کیمپ تشکیل دےلئےتب ان لوگوں کو وہاں سےجانےدیا۔ عزیز کوٹ کےباشندےدھیرےدھیرےاپنےگائوں کو لوٹ رہےتھی۔ مکانوں کو دوبارہ تعمیر کر رہےتھی۔ سیلاب جو کیچڑ اور گارا اپنےپیچھےچھوڑ گیا تھا‘ اس کی صفائی کا کام بھی ساتھ ساتھ جاری تھا۔ اب بھی وجاہت آباد کےدرجنوں لوگ امدادی سرگرمیوں میں فوج اور سول انتظامیہ کا ہاتھ بٹانےکےلئےمتاثرہ علاقےمیں موجود تھی۔
    عزیز کوٹ کو ڈبو کر سیلابی پانی نےجب اپنا راستہ بدلا تو نور پور کےقریب سےیوں گزر گیا جیسےاس علاقےمیں اسےسر اٹھا کر چلنےکی بھی اجازت نہ ہو۔ نور پور ایک چھوٹا سا گائوں تھا جس کےنفوس کی تعداد بمشکل تین ہزار تھی۔ سیلاب ‘گائوں کےباہر باہر سےاپنا راستہ بنا کر خوش خرامی کےساتھ بہتا ہوا نکل گیا تاہم ابھی تک اس پانی کا زور کم نہ ہوا تھا۔
    حافظ عبداللہ چھوٹےموٹےدریا کا منظر پیش کرتےہوئےسیلابی کٹائو کےکنارےایک اونچےٹبےپر بیٹھا نجانےکس سوچ میں گم تھا۔ وہ حافظ قر آن تھا۔ دنیا بھر میں اکیلا اور اس وقت زندگی کےپچیسویں سال میں تھا ۔ نور کوٹ گائوں کی ایک بے آباد چھوٹی سی مسجد کو آج سےسات سال پہلے آ کر اس نے آباد کیا تو گائوں والوں نےاس کی دو وقت کی روٹی اور ضروری اخراجات کو ہنس کر اپنےذمےلےلیا ۔ اس نےاس سےزیادہ کا مطالبہ بھی نہ کیا۔ گائوں کےبچوں کو نماز فجر کےبعد قر آن پڑھانا اس کےمعمولات میں شامل تھا۔ گائوں کےچوہدری حسن دین کےگھر سےاسےخاص تعلق تھا۔ اس نےچوہدری حسن دین کےتین بیٹوں رفاقت‘ عنایت‘ لطافت اور ایک بیٹی نادرہ کو قر آن پاک پڑھایا تھا۔ اس نسبت سےیہ گھرانا اس کی بڑی عزت کرتا اور اسےاپنےگھر ہی کا ایک فرد خیال کرتا تھا۔ اس کا ماہانہ خرچہ بھی چوہدری حسن دین کی حویلی سے آتا جس کےلئےاسےخود کبھی حویلی نہ جانا پڑا تھا۔ ادھر مہینےکی پہلی تاریخ آئی‘ ادھر اس کا پہلوٹھی کا شاگرد رفاقت اس کا مشاہرہ اور دوسرا ضروری سامان لےکر مسجد میں اس کےحجرےکےدروازےپر آ دستک دیتا۔ گائوں والےاس کےعلاوہ اس کی جو خدمت کرنا چاہتی‘ وہ اکثر اس سےانکار کر دیتا۔ اکیلی جان تھی‘ اس کی ضروریات محدود سی تھیں۔ لالچ اور جمع کرنا اس کی فطرت ہی میں نہ تھا‘ اس لئےبھی گائوں والےاس کےکردار سےبیحد متاثر تھی۔ تاہم وہ جو لے آتی‘ اسےواپس لےجانا انہیں اپنی توہین لگتا‘ اس لئےاصرارکرتےتو حافظ عبداللہ کو ان کا نذرانہ قبول کرنا پڑتا۔ پھر جب اس نےدیکھا کہ اجناس اور روپوں کی آمد اس کی ضرورت سےزیادہ ہےتو اس نےمسجد کےصحن میں بائیں ہاتھ بنے‘ اپنےحجرےکےدو کمروں کےاوپر چوہدری حسن دین سےکہہ کر ایک بڑا ہال کمرہ ڈلوا لیا۔ اس مہمان خانےکا راستہ مسجد کےباہر ہی سےرکھا گیا تاکہ اسےاور نمازیوں کو دقت نہ ہو۔ یہ کمرہ اجنبی مسافروں اور بے آسرا مہمانوں کی خدمت کےلئےوقف کر دیا گیا۔ یوں اس کی زائد آمدنی کےخرچ کا ایک راستہ نکل آیا۔ اب وہ بھی خوش تھا اور گائوں والےبھی۔
    اس کا ایک عرصےسےمعمول تھاکہ روزانہ عصر کےبعد نور پور سےچار فرلانگ دور مشرق میں واقع ایک خانقاہ سےتقریباً ڈیڑھ سو گزدور ‘ ایک اونچےٹبےپر اُگےپیپل کےدرخت کےنیچے آ بیٹھتا اور قر آن حکیم کی دہرائی شروع کر دیتا۔ جب سورج ‘ شفق کی لالی سےدامن چھڑانےلگتا‘ تب وہ قر آن پاک کو چوم کر سینےسےلگاتا ۔ اٹھتا ۔ درخت کو تھپکی دیتا‘ جیسےاس سےرخصت ہو رہا ہو اور مسجد کو چل دیتا جہاں اسےپانچ وقت اذان بھی خود ہی دینا ہوتی تھی۔
    یہ خانقاہ کسی بابا شاہ مقیم نامی بزرگ کےمزار اور دو شکستہ سےکمروں پر مشتمل تھی۔ مزار کےوسیع صحن میں ایک طرف چھوٹا سا سٹور نما کمرہ تھا جس میں لوگوں کےنذرانوں کی اشیا‘ اجناس‘ دری چادریں اور دوسرا سامان بھرا رہتا تھا۔ یہاں ابھی تک بجلی کا کنکشن نہ پہنچا تھا۔ نور پور والوں نےواپڈا کو درخواست دےرکھی تھی اور امید تھی کہ جلد ہی وہاں بجلی لگ جائےگی۔ مزار سےتھوڑی دور دریا بہتا تھا جس کےپار مظفر آباد کی آبادی کا اختتام ہوتا تھا۔
    مزار کی دیکھ بھال ایک ایسا شخص کرتا تھا‘ جس کےبارےمیں کوئی نہ جانتا تھا کہ وہ کون ہےاور کہاں سے آیا ہی؟ ملگجےکپڑوں میں ملبوس وہ حال مست درویش خانقاہ کی صفائی کرتا۔ اِدھر اُدھر سےخود رَو پھول اکٹھےکر کےبابا شاہ مقیم کےمزار پر لا ڈالتا۔ وہاں موجود چھوٹی سی کھوئی سےپانی نکالتا۔ خانقاہ اور اس سےملحقہ کمروں کو دھوتااور اگر بتیاں سلگا کر پھر اپنےکمرےمیں گھس جاتا۔ یہ اس کا روزانہ کا معمول تھا۔ اسےگائوں والوں نےنہ کبھی کسی سےعام طور پر بات چیت کرتےسنا ‘ نہ وہ کسی سےکوئی چیز لیتا ۔ اگر کسی نےزیادہ نیازمندی دکھانےکی کوشش کی تو وہ اسےیوں گھورتاکہ نیازمند کو بھاگتےہی بنتی۔ اس کےکھانےپینےکا انتظام کیسےہوتا تھا؟ یہ بات کسی کےعلم میں تھی نہ کسی نےا س کا کھوج لگانےکی کوشش کی۔ اس کا سبب درویش کا رویہ تھا ‘ جس کےباعث مزار پر فاتحہ کےلئے آنےوالےافراد بھی اس سےکتراتےتھی۔ اس کاحال پوچھ کر وہ ایسےایسےجواب بھگت چکےتھےجن کےبعد اب کسی کا حوصلہ نہ پڑتا تھا کہ وہ اس سےراہ و رسم پیدا کرنےکی سوچی۔ ہاں‘ حافظ عبداللہ کا معاملہ الگ تھا۔ وہ جب بھی مزار پر فاتحہ کےلئےجاتا‘ درویش اپنےکمرےسےنکل آتا۔ اس کےجانےتک مزار کےباہر کھڑا رہتا۔ جاتےہوئےاس سےبڑی گرمجوشی سےہاتھ ملاتا۔چمکدار نظروں سےاسےدیکھتا ۔ ہولےسےمسکراتااور واپس اپنےکمرےمیں چلاجاتا۔ حافظ عبداللہ نےبھی اس سےزیادہ اسےکبھی تنگ نہیں کیا تھا۔ ہاں ¾ اگر کبھی وہ اسےنہ ملتا‘ تو وہ اس کےکمرےمیں ضرور جھانک لیتا مگر اسےوہاں موجود نہ پاتا۔ اس سےحافظ عبداللہ نےسمجھ لیا کہ درویش سےا س کی ملاقات تبھی نہیں ہوتی‘ جب وہ وہاں نہیں ہوتا۔ وہ کہاں جاتا ہی؟ کب لوٹتا ہی؟ حافظ عبداللہ نےکبھی ان سوالوں کا جواب جاننےکی سعی نہ کی۔
    آج اس کا دل کچھ عجیب سا ہو رہا تھا ۔ منزل کرنےکو جی مائل نہ تھا۔ اس کےدادا قاری بشیر احمد مرحوم کا کہنا تھا کہ زبردستی قر آن پاک پڑھنا چاہئےنہ اس پر غور کرنا چاہئی‘ بلکہ جب قر آن خود اجازت دی‘ تب اسےکھولا جائی۔ اور اس کی طرف سےاجازت کی نشانی یہ تھی کہ بندےکا دل خود قر آن پڑھنےکو چاہی۔سو آج بڑی مدت کےبعد جب حافظ عبداللہ کا دل دہرائی کو نہ چاہا تو وہ سمجھ گیا کہ آج قر آن پاک کی طرف سےاسےمنزل کرنےکی اجازت نہیں ہی۔ اس لئےوہ قر آن حکیم کا نسخہ اپنےساتھ ہی نہ لایا۔ مقررہ وقت پر ٹبےپر پہنچا اورسیلاب کی دھیرےدھیرےبہتی لہروں پر نظریں جما کر بیٹھ گیا۔ تھوڑی ہی دیر بعد وہ سوچوں کےگرداب میں ایسا گم ہوا کہ خود سےبےخبر ہو گیا ۔ وقت گزرنےکا احساس ناپید ہو گیا۔ پھرجب سورج کی ٹکیہ اپنے آخری مقام کو چھونےلگی تو اسےہوش آیا۔
    ایک طویل سانس لےکر اس نےحد ِ نظر تک پھیلی سیلابی چادر پر ایک نگاہ ڈالی اور اٹھ گیا۔ پھر ایک دم چونک پڑا۔
    اس کی نظریں پانی میں بہتے آ رہےدرخت کےایک تنےپر جم گئیں جس کےساتھ کوئی انسانی جسم چمٹا ہوا تھا۔ اس نےغور سےدیکھا۔ وہ کوئی عورت تھی‘ کیونکہ دور سےبھی اس کےپھولدار کپڑوں کی جھلک نمایاں تھی۔
    حافظ عبداللہ نےگھبرا کر اِدھر اُدھر دیکھا۔ خانقاہ کی جانب نظر دوڑائی مگر درویش کو آواز دینےکا اسےحوصلہ نہ ہوا۔ چاہا کہ گائوں سےکسی کو مدد کےلئےبلائےمگر اتنا وقت نہ تھا۔ جب تک وہ کسی کو مدد کےلئےبلاتا‘ اندھیرا مزید بڑھ جاتا۔ پھر وہ دریا میں بہتی اس عورت کو بچا پاتا ‘ اس کا اسےیقین نہ تھا۔ اس نےزیادہ تردد میں پڑنےکےبجائےکندھوں سےگرم چادر اور سرسےٹوپی اتار کر درخت کےنیچےرکھتےہوئےپائوں سےچپل بھی نکال دی۔ پھر آستینیں اُڑستےہوئےٹھنڈےیخ پانی میں چھلانگ لگا دی۔
    اس کا خیال درست تھا۔ درخت کےتنےکےقریب پہنچا تو پتہ چلا کہ اس سےچمٹی ہوئی وہ ایک جواں سال لڑکی ہی تھی جو بیچاری نجانےکہاں سےسیلاب کےریلےمیں بہتی چلی آ رہی تھی۔ اس نےبڑی مضبوطی سےدرخت کی چھوٹی چھوٹی شاخوں کو اپنےہاتھوں سےجکڑ رکھا تھا۔ آنکھیں بند تھیں اور بیہوش تھی۔ سردی اور سرد پانی کےباعث اس کےہونٹ نیلےپڑ چکےتھی۔
    حافظ عبداللہ نےاس کےجسم سےچپکےہوئےکپڑوں سےبری طرح جھانکتےاس کےپُر شباب جسم سےنظریں چراتےہوئےدرخت کےتنےکو پیروں کی جانب سےکنارےکی طرف دھکیلنا شروع کیا اور بڑی مشقت سےتقریباً پندرہ منٹ بعد ٹبےکےقریب لانےمیں کامیاب ہو گیا۔
    کنارےکی کچی زمین پر ایک چوتھائی درخت کو کھینچ لینےکےبعد اس نے آنکھیں بند کر کےجگہ جگہ سےپھٹ جانےوالےکپڑوں سےجھانکتےلڑکی کےنیم برہنہ اکڑےہوئےجسم کو اس پر سےاتارا۔ اس کی مدھم سی چلتی ہوئی سانس کو محسوس کیا۔ٹبےسےاپنی چادر اٹھائی۔ اس میں لڑکی کو لپیٹا ۔ ٹوپی سر پر رکھی۔ پائوں میں چپل ڈالی۔ درخت کو حسب ِ معمول تھپکی دی اور ٹبےسےاتر آیا۔ پھرلاحول پڑھ کر شیطانی خیالات کو دور بھگاتےہوئے آنکھیں بند کر کےلڑکی کا چادر میں لپٹا جسم کندھےپر ڈالا۔ اس کےاپنےگیلےکپڑےجسم سےچپکےہونےکی وجہ سےسردی ہڈیوں میں گھسی جا رہی تھی۔
    اسی وقت خانقاہ سے”ا للہ اکبر“ کی صدا بلند ہوئی۔ وہ ایک پل کو حیران ہوا۔ درویش خانقاہ کےباہر ایک اونچی جگہ کھڑا اذان دےرہا تھا۔ وہ لڑکی کا جسم کندھےپر لئےحتی الامکان تیز قدموں سےخانقاہ کی جانب چل دیا۔
    ٭
    جب تک وہ خانقاہ کےقریب پہنچا‘ درویش اذان دےکر اندر جا چکا تھا۔ اس نےایک لمحےکو خانقاہ سےباہر کھڑےرہ کر کچھ سوچا‘ پھر اللہ کا نام لےکر اندر داخل ہو گیا۔
    پہلےکمرےکا دروازہ بند تھا۔ وہ ایک پل کو اس کےباہر رکا۔ اندر سےکسی کےہلکی آواز میں قرات کرنےکی آواز ا رہی تھی۔ شاید درویش نماز پڑھ رہا تھا۔ اس نےدوسرےکمرےکا رخ کیا جس کا دروازہ کھلا تھا۔ باہر ہلکا ہلکا اندھیرا پھیل چکا تھا۔ کمرےکی واحد کھڑکی سے آتی ہوئی ملگجی سی روشنی کمرےکا اندھیرا دور کرنےکی اپنی سی کوشش کر رہی تھی۔ اس نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر کمرےکےماحول کو محسوس کیا۔ چند لمحےبُت بنا کھڑا رہا۔ پھر جب اس کی آنکھیں نیم اندھیرےمیں دیکھنےلگیں تو وہ قدم قدم آگےبڑھا۔ کمرےکی بائیں دیوار کےساتھ بچھی بان کی چارپائی پر لڑکی کو ڈالا اور دو قدم پیچھےہٹ کر کھڑا ہو گیا۔ اس کا سانس اعتدال پر آتے آتےدو تین منٹ گزر گئی۔ لڑکی پر ایک طائرانہ نظر ڈال کروہ آہستہ سےپلٹا۔ اس کا ارادہ تھا کہ درویش سےجا کر ملےاور اسےساری بات بتا کر اس صورتحال میں اس سےمدد مانگی۔
    ابھی وہ دو ہی قدم چلا تھا کہ رک گیا۔ کمرےمیں اچانک ہی روشنی کی ایک لہر در آئی تھی۔ اس نےٹھٹک کر دیکھا۔ درویش کمرےکےدروازےمیں جلتا ہوا چراغ ہاتھ پر رکھےکھڑا اسےعجیب سی نظروں سےدیکھ رہا تھا۔
    ” بابا۔ آپ۔۔۔“ حافظ عبداللہ نےاسےدیکھ کر کہنا چاہا۔
    ”شش۔۔۔“ درویش نےہونٹوں پر انگلی رکھ کر اسےبولنےسےروک دیا اور آگےبڑھ آیا۔ ” خاموش۔ “ وہ دبی آواز سےبولا۔” کمرہ امتحان میں بولنےکی اجازت نہیں ہوتی۔“
    ”کمرہ امتحان؟“ حافظ عبداللہ نےحیرت سےکہا۔
    ”ہاں۔“ درویش نےچراغ اسےتھما دیا۔” یہ لی۔ اسےطاق میں رکھ دی۔“
    ”بابا۔“ حافظ عبداللہ نےچراغ اس کےہاتھ سےلےلیا۔ وہ اب بھی حیرت زدہ تھا۔ ”کیسا امتحان؟ “
    ”یہ۔۔۔“ درویش نےچارپائی بےسدھ پر پڑی لڑکی کی جانب اشارہ کیا۔ ” یہ امتحان ہی تو ہےجس میں تو نےخود کو ڈال لیا ہی۔“
    ”یہ۔۔۔ یہ تو ۔۔۔ سیلاب کےپانی میں بہتی چلی آ رہی تھی۔۔۔ میں تو اسےبچاکر یہاں اٹھا لایا ہوں۔“ حافظ عبداللہ نےاسےبتایا۔
    ”اچھا کیا۔ بہت اچھا کیا۔“ درویش نےایک کونےمیں پڑا کمبل اٹھا کر اس کی طرف بڑھایا کہ لڑکی کو اوڑھا دے۔ ” نیکی کی ہےناں۔ اب بھگت۔ نیکی کرنا اتنا آسان ہوتا تو ساری دنیا کرتی پھرتی۔ نیکی کرنا اس کی مشیت کےتابع ہونا ہےحافظ۔ تابعدار ہونا چاہا ہےناں تو نی؟ ایک بار سوچ لی۔ اچھی طرح۔ ابھی وقت ہےکہ تو آزمائش میں پڑےبغیر نکر کی گلی سےنکل جائی۔ کچھ دیر اور گزر گئی تو یہ راستہ بند ہو جائےگا ۔ پھر تو چاہےنہ چاہی‘ تجھےامتحان دینا پڑےگا۔ نتیجہ کیا نکلےگا؟ نہ تو جانتا ہےنہ میں۔ بس وہ جانتا ہی۔‘ ‘ درویش نےچھت کی جانب انگلی اٹھا دی۔” وہ ۔۔۔ جو سب جانتا ہےاور کچھ نہیں بتاتا۔جسےبتاتا ہےاسےگونگا بہرہ کر دیتا ہی۔اندھا بنا دیتا ہی۔ ابھی وقت ہی۔ سوچ لی۔ سوچ لی۔“ درویش نےاپنی بےپناہ چمک دیتی آنکھوں سےاس کی جانب دیکھا۔
    ”بابا۔“ حافظ نےچراغ طاق میں پڑےقر آن پاک کےچند بوسیدہ نسخوں کےپاس رکھااور کمبل میں لڑکی کا بدن خوب اچھی طرح لپیٹ کر درویش کی جانب پلٹا۔ ”میں کچھ نہیں سمجھا۔ آپ کیا کہہ رہےہیں۔“
    ”کھل کر سمجھائوں تجھی؟“ اچانک درویش کا لہجہ جھڑکی دینےکا سا ہو گیا۔ ” تو سُن۔ جا۔ اس کو وہیں سیلاب کےپانی میں پھینک آ۔ نیکی ہےناں۔اسےاسی دریا میں ڈال آ‘ جہاں سےنکال کر لایا ہی۔نیک نہ بن۔ خطا کار بنا رہ۔ جان بچی رہےگی۔ نیک بنےگا تو امتحان میں ڈال دےگا تجھی۔ ۔۔“ اس نےسسکی لی۔ ”بڑا ڈاہڈا ہےوہ۔ رعایتی نمبر آسانی سےنہیں دیتا۔۔۔ “ پھر جیسےوہ جھلا گیا۔ ”مگر میں تجھےیہ سب کیوں سمجھا رہا ہوں؟ کیوں تیرا اور اپنا وقت خراب کر رہا ہوں؟ جو تیرےجی میں آئےکر میاں۔“ اس نےحافظ کے آگےہاتھ جوڑ دیی۔ ” کل کو تو اس کےسامنےمیرےخلاف گواہی دےدےگا کہ میں نےتجھےنیکی کرنےسےروکا تھا۔ نہ بابا نہ۔ تو اپنی مرضی کر۔ توجانےاور وہ ۔ مجھےمعاف رکھ۔“ وہ بڑبڑاتا ہوا جانےکےلئےپلٹا۔
    ”بابا۔“ حافظ عبداللہ لپک کر اس کےراستےمیں آ گیا۔” مجھےکس الجھن میںڈال کر جا رہےہیں آپ؟ میں ۔۔۔ میں ۔۔۔ اس کا کیا کروں؟“ اس نےبازو دراز کر کےلڑکی کی جانب اشارہ کیا جو ہولےسےکسمسائی تھی۔
    درویش ایک بار ساری جان سےلرز گیا۔ پھر اس نےبڑی اجنبی نظروں سےحافظ عبداللہ کی جانب دیکھا۔ حافظ ان نظروں سےگھبرا کر رہ گیا۔ عجیب سی سردمہری تھی ان میں۔
    ”میں نےکہا تھا کہ وقت گزر گیا تو امتحان شروع ہو جائےگا تیرا۔ “ درویش نےبڑےگھمبیر لہجےمیں کہا۔ ” گھنٹی بج چکی۔ پرچہ حل کرنےکا وقت شروع ہو گیا۔ اب کچھ نہیں ہو سکتا۔ تو نےباتوں میں وہ سارا وقت گزار دیا جو تجھےبھاگ جانےکےلئےدیا گیا تھا۔ نکر کی گلی بند ہو گئی۔ اب تو جس دروازےسےکمرہ امتحان میں داخل ہوا تھا اسی سےباہر جائےگا مگر اس وقت جب پرچہ حل کر لےگا۔ خالی کاغذ دےکر جانا چاہےگا تو میں نہیں جانےدوں گا۔ “ درویش نےکسمسا کر کراہتی لڑکی کی جانب اشارہ کیا۔ ”یہ پرچہ تجھےہی حل کرنا ہی۔ میں دعا کروں گا کہ تجھےاس میں زیادہ سےزیادہ رعایت دی جائی۔ اب وہ مانےیا نہ مانی‘ یہ اس کی مرضی ۔“ وہ چل دیا۔
    ”بابا۔“ حافظ اس کےپیچھےلپکا۔ ” مجھےمسجدجانا ہی۔ وہاں کسی کو پتہ نہیں کہ میں کہاں ہوں اور کس کام میں الجھ گیا ہوں۔۔۔ ا س کےوارثوں کا بھی کوئی پتہ نہیں۔ یہ کون ہی؟ کہاں سےبہتی آئی ہی؟ اسےیوں کیسےاپنےپاس رکھ سکتےہیں ہم؟“
    ”ہم نہیں۔“ درویش نےہاتھ اٹھا کر اسےٹوک دیا۔”تم۔۔۔ صرف تم۔ میرا اس سےکیا تعلق؟ “ وہ بدلحاظی سےبولا۔
    ”مگر بابا۔ رات بھر میں اس کےساتھ کیسے۔۔۔ یہاں۔۔۔ اکیلا۔“ حافظ ہکلا کر رہ گیا۔
    ”یہی تو میں تجھےسمجھا رہا تھا اس وقت۔“ درویش ملامت کےسےانداز میں بولا۔ ” اسی لئےتو میں نےکہا تھا کہ اسےجہاں سےلایا ہےوہیں ڈال آ۔ خواہ مخواہ مصیبت میں نہ پڑ۔ ۔۔ مگر۔۔۔“
    ”تمہارا مطلب ہےبابا۔ میں اسےواپس سیلاب کےپانی میں پھینک آتا؟“ حافظ عبداللہ نےحیرت سےاس کی جانب دیکھا۔
    ”ہاں۔“ درویش سر جھٹک کر بولا۔ ” یہی مطلب تھا میرا۔ مگر تو نےکج بحثی میں سارا وقت گنوا دیا۔ اب بھگت۔“
    ” بابا ۔ تم جانتےہو اس سےکیا ہوتا؟“ حافظ عبداللہ اب بھی حیران تھا۔
    ”کیا ہوتا؟“ درویش نےلاپرواہی سےپوچھا۔
    ”یہ مر جاتی۔
    پھر یوں ہوا کے درد مجھے راس آ گیا

  11. #20
    Mohammad Sajid's Avatar
    Mohammad Sajid is offline * خاک نشین *
    Join Date
    Mar 2008
    Location
    Hijr
    Posts
    152,881
    Mentioned
    108 Post(s)
    Tagged
    8578 Thread(s)
    Rep Power
    21475005

    Default Re: Ishq Ka Qaaf

    بچانےوالےکی کیا مرضی ہی‘ یہ تو کیسےجانتا ہی؟ اگر اسےبچانا ہوتا تو وہ اسےتیرےواپس پانی میں پھینکنےپر بھی بچا لیتا۔“
    ”بالکل ٹھیک۔“ حافظ کا لہجہ اچانک بدل گیا۔”مگر بابا۔ پھر میں اسےکیا منہ دکھاتا۔ اپنےاس ظلم کا کیا جواز پیش کرتا اس کےسامنی‘ جو میں اس مظلوم کی جان پر کرتا۔“
    ”تو نہ پیش کر جواز۔ اب بھگت۔ اس اندھیری رات میں ‘ اس کےساتھ اکیلا رہ اور اس کی دیکھ بھال کر۔ اس کی خدمت کر۔ اسےزندہ رکھنےکی کوشش کر۔ آزمائش کےکمرےمیں بیٹھ کر پرچہ حل کر ۔ اگر صبح تک تو اپنے آپ سےبچ گیا تو میں تجھ سے آن ملوں گا ورنہ ۔۔۔“ اس نےبات ادھوری چھوڑ دی۔
    ” آپ کہاں جا رہےہیں بابا؟“ حافظ نےگھبرا کر پوچھا۔
    ”پتہ نہیں۔ مگر یہاں بہرحال نہیں رہوں گا۔“ درویش اس کی جانب دیکھ کر عجیب سےانداز میں بولا۔” یہاں رہا تو تجھےمیرا آسرا رہےگا ۔ حوصلہ رہےگا کہ تو اکیلانہیں ہی۔ میں تیرے آس پاس ہوں۔ تجھےمیرےیہاں ہونےکی شرم مارےگی۔ تو جو کرنا چاہےگا‘ اس میں میرےیہاں ہونےکا خیال رکاوٹ بن جائےگا۔ پھر تو موقع سےفائدہ نہ اٹھا سکےگا۔ اور میں تیرےکسی بھی فعل میں اگر مدد نہیں کرنا چاہتا تو تیرےکسی موقع سےفائدہ اٹھانےمیں حائل ہونےکا بھی مجھےکیا حق ہی؟“
    ”بابا۔“ حافظ نےکہا اور چراغ کی مدھم سی روشنی میں گردن گھما کر لڑکی کی جانب دیکھا جو ایک بار پھر بالکل بےسدھ ہو گئی تھی۔ شاید کمبل کی گرمی نےاسےسکون پہنچایا تھا۔ پھر وہ درویش کی جانب متوجہ ہوا۔”اب جو ہو سو ہو۔ اب مجھےمجبوراً ایہاں رکنا پڑےگا۔“
    ”تو رک۔ میں کب نکال رہا ہوں تجھی۔ ہاں ایک پل ٹھہر۔“ درویش کمرےسےنکل گیا۔ ذرا دیر بعد وہ لوٹا تو اس کےایک ہاتھ میں چنگیر اور دوسرےہاتھ میں ایک کھیس اور تکیہ دبا ہوا تھا۔” یہ لی۔ اس میں تیرےاور اس کےلئےکھانا ہےاور یہ تیرا رات گزارنےکا سامان ہی۔ اکڑ کر مر گیا تو میں اسےکیا جواب دوں گا؟“
    حافظ عبداللہ نےاس کےہاتھ سےدونوں چیزیں لےلیں۔
    ”جا رہا ہوں۔ اب تیرےاور اس کےسوا یہاں اور کوئی نہیں ہی۔ “’
    ”ہےبابا۔“ حافظ عبداللہ مسکرایا اور کھیس اور تکیہ دیوار کےساتھ فرش پر ڈال دیا۔
    ”جس کی تو بات کر رہا ہے‘ میں اس کی بات نہیں کر رہا۔ وہ تو ہر کہیں ہی۔بس ہمیں اس کا یقین نہیں آتا۔“ درویش پلٹ گیا۔”صبح ملاقات ہو گی۔“
    ”انشاءاللہ۔“ حافظ کےلہجےمیں نجانےکیا تھا کہ درویش نےمڑ کر اس کی جانب دیکھا۔
    ”انشاءاللہ۔“ ہولےسےاس نےکہا اور دروازےسےنکل گیا۔
    خالی دروازےکو چند لمحوں تک دیکھتےرہنےکےبعد حافظ عبداللہ آہستہ سےلڑکی کی جانب پلٹا۔ چراغ کی زرد اور تھرتھراتی روشنی میں اس نےدیکھا کہ وہ چارپائی پر بالکل چت پڑی گہرےگہرےسانس لےرہی تھی۔ اس کےہونٹوں کی سرخی لوٹ رہی تھی۔ گیلےبالوں کی لٹیں چہرےپر بکھری ہوئی تھیں اور کمبل میں مستور سینےکا زیر و بم طوفان اٹھا رہا تھا۔
    حافظ عبداللہ نےگھبرا کر اس کی طرف سےنگاہیں پھیر لیں۔ شیطانی خیالات سےنجات پانےکےلئےتین بار لاحول پڑھ کر سینےپر پھونک ماری اور آگےبڑھ کر چنگیر اس الماری نما کھڈےمیں رکھ دی جو طاق کےساتھ بنا ہوا تھا۔
    کھیس اور تکیہ اٹھاتےہوئےاچانک ہی اسےسردی کا احساس ہوا ۔ اس نےکچھ سوچا ۔ پھر دونوں چیزیں اینٹوں کےفرش پر ڈال کر کمرےسےنکل آیا۔ دونوں کمرےخالی تھی۔ درویش واقعی کہیں جا چکا تھا۔ مزار سےباہر ایک طرف لگےہینڈ پمپ کی طرف جاتےہوئےاس نے آسمان پر نگاہ دوڑائی۔ تارےنکل رہےتھی۔ دل ہی دل میں اس نےچاند کی تاریخ کا حساب لگایا۔ گزشتہ دن میں ربیع الاول کی گیارہ تاریخ تھی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ بارہ ربیع الاول کی شب شروع ہو چکی تھی۔ آسمان صاف تھا اور چاند ابھرنےمیں ابھی کچھ وقت باقی تھا۔
    انہی خیالات میں ڈوبا وہ ہینڈ پمپ پر پہنچا۔ گیلا کُرتا اور بنیان اتار کر اچھی طرح نچوڑ کر دوبارہ پہننےکےبعد اس نےایک نظر مزار کےاندرونی دروازےپر ڈالی۔ پھر وہاں سےہٹ گیا۔ مزار کےپیچھےجا کر اس نےجلدی سےشلوار اتاری۔ خوب اچھی طرح نچوڑ کر پانی نکالا اور جھاڑ کر پہن لی۔ ہولےہولےچلتا ہوا ہینڈ پمپ پر آیا۔ ہتھی کو چھوا تو جسم میں کپکپی سی دوڑ گئی۔ تاہم اس نےحوصلےسےکام لیا اور ہتھی پر زور ڈال دیا۔ تھوڑی دیر تک پانی نکلنےدیا۔ پھر دوسرا ہاتھ نکلتےہوئےپانی کےنیچےکیا تو پانی کم ٹھنڈا محسوس ہوا۔ تھوڑا پانی اور نکالنےکےبعد اس نے”بسم اللہ الرحمٰن الرحیم“ کہہ کر وضو شروع کر دیا۔ فارغ ہوا تو اس کےدانت بج رہےتھی۔ گیلی ٹوپی کو سر پر جماتےہوئےوہ کانپتا ہوا اندر کو چلا۔ کمرےمیں داخل ہوا تو لڑکی بدستور اسی حالت میں چت پڑی سو رہی تھی‘ جیسےوہ چھوڑ گیا تھا۔اس نےاس کےچہرےپر ایک نظر ڈالی اور جوتی دروازےمیں اتار کر کونےمیں کھڑی کھجور کی چٹائی کی طرف بڑھا۔ اسےکھولا۔ جھاڑا اور چارپائی کےمقابل دیوار کےساتھ فرش پر بچھا دیا۔ پھر کھیس اٹھایااور کس کر اس کی بکل مار لی۔ اسی وقت کھلےدروازےسےہوا کا ہلکا سا جھونکا اندر داخل ہوا۔ ٹھنڈک کو کمرےکےماحول کےسپرد کیا اور ناپید ہو گیا۔ پلٹ کر حافظ عبداللہ نےدروازہ بھیڑ دیا۔ فوراً ہی اسےکمرےکی یخ بستگی میں کمی کا احساس ہوا۔ یہ شاید اس کےمحسوس کرنےکا اعجاز تھا‘ ورنہ اتنی جلدی سردی کا کم ہو جانا ممکن نہ تھا۔
    وہ پائوں جھاڑ کر صف پر کھڑا ہوا۔ ایک بار نظر گھما کر سارےکمرےکا جائزہ لیا۔ پھر قبلہ رخ ہو کر اس نےنماز کی نیت کی اور ہاتھ بلند کر دیی۔
    ”اللہ اکبر۔“ حافظ عبداللہ کےہونٹوں سےسرگوشی بر آمد ہوئی اور سارا ماحول عجیب سےسکون میں ڈوبتا چلا گیا۔ اس نےہاتھ ناف پر باندھےاور آنکھیں سجدےکی جگہ پر جما کر اتنی آہستہ آواز میں قرات شروع کر دی جسےوہ خود سن سکتا تھا یا پھر اس کا معبود‘ جوپہاڑ کی چوٹی پر چیونٹی کےرینگنےکی آواز سننےپر بھی قادر تھا۔ چراغ کی لو نےتھرتھرانا بند کر دیا ۔ شاید وہ بھی حافظ عبداللہ کی قرات سننےمیں محو ہو گئی تھی۔
    پھر یوں ہوا کے درد مجھے راس آ گیا

Page 2 of 6 FirstFirst 1234 ... LastLast

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •