Page 6 of 6 FirstFirst ... 456
Results 51 to 59 of 59

Thread: Ishq Ka Qaaf

  1. #1
    Mohammad Sajid's Avatar
    Mohammad Sajid is offline * خاک نشین *
    Join Date
    Mar 2008
    Location
    Hijr
    Posts
    152,881
    Mentioned
    108 Post(s)
    Tagged
    8578 Thread(s)
    Rep Power
    21475005

    Default Ishq Ka Qaaf

    عشق کا قاف
    مصنف : سرفراز احمد راہی



    موسم‘ طوفان ِ باد و باراں کےاشاروں پر رقص کررہا تھا۔
    سپیڈ کم ہوئی اور کار رک گئی۔اس نےہا رن دبایا۔تیسری آواز پرگیٹ کھل گیا۔
    بادل ایک بار پھر بڑےزور سےگرجی۔ بارش میں اور شدت آگئی۔کار آگےکو سرکی مگر اس سےپہلےکہ کار گیٹ سےاندر داخل ہو تی‘بجلی زور سےچمکی۔فانوس سےروشن ہوگئی۔
    وہ چونک اٹھا۔
    اس کی تیز نظریں گیٹ کےباہر بائیں ہاتھ بنےچھوٹےسےسائبان تلےچھائےاندھیرےمیں جم گئیں۔
    ”کیا بات اےصاب! “ پٹھان چوکیدار نےبارش میں بھیگتےہوئےپوچھا۔
    ”خان۔۔۔“لیکن اس سےپہلےکہ وہ فقرہ پورا کرتا‘برق پھر کوندی۔وہ تیزی سےکار کا دروازہ کھول کر باہر کو لپکا۔اس دوران خان بھی گیٹ سےباہر نکل آیا۔
    بارش اور تیز ہوا کی پرواہ کئےبغیردو تین لمبےلمبےڈگ بھر کر وہ اس اندھیرےکونےمیں پہنچ گیا‘جہاں دو بار برق نےاجالا کیا تھا۔
    ایک سایہ تھا جو بیدِ مجنوں کی طرح لرز رہا تھا۔
    ”کون ہو تم؟“ اس نےجلدی سےپوچھا اورایک بار پھر اس کی نظریں چندھیا گئیں۔
    ”میں۔۔۔“ ایک کمزور سی نسوانی آواز ابھری ۔ پھراس سےپہلےکہ وہ اجنبی وجود زمین پر آرہتا‘ اس کےمضبوط اور گرم بازوؤں نےاسےسنبھال لیا۔
    ”خان۔“ اس نےپلٹ کر پکارا۔
    ”جی صاب۔ “قریب ہی سے آواز ابھری۔
    ”میں کمرےمیں جارہا ہوں ۔گاڑی گیراج میں بند کرکےوہیں چلے آؤ۔ جلدی۔“
    ”جی صاب۔ “وہ تعمیل حکم کےلئےجلدی سےگاڑی کی طرف بڑھ گیا۔
    اس نےاس نازک ، برف سےزیادہ سرد اور لہروں سےزیادہ نرم وجود کو باہوں میں بھر لیا‘جو اَب لکڑی کی مانند کھردرا اور پتھر کی مانند سخت ہوا جارہا تھا۔تیز تیز چلتا ہواوہ پورچ پار کرکےبر آمدےمیں پہنچا۔ پاؤں کی ٹھوکر سےدروازہ کھولااور مختصر سی راہداری کو طےکرکےہال میں چلا آیا۔ایک لمحےکو کچھ سوچا‘ پھرسیڑھیاں چڑھتا چلا گیا۔
    ایک کمرہ چھوڑ کر دوسرےکمرےکےدروازےپر پہنچ کر اس نےپھر دائیں پاؤں سےکام لیا ۔اندر داخل ہوا اور بستر کی طرف بڑھ گیا۔
    دھیرےسےاس نےاپنےبازوؤںمیں بھرےاس ریشمیں خزانےکو احتیاط سےسمیٹ کر بیڈ پر رکھ دیا‘پھراسےگرم لحاف میں چھپا دیا۔ شاید اس لئےکہ کوئی اور دیکھ نہ لی۔ایک لمحےکو اس کی نظریں اس سمٹےپڑےخزانےکےتر بتر چہرےپرجم گئیں‘جہاں سیاہ لانبی زلفیں کسی بادلوں میں چھپےچاندیا گھٹاؤں میں قید برق کا سماں پیش کررہی تھیں۔اسی وقت خان اندر داخل ہوا۔
    ”اوہ خان۔“ اس نےجلدی سےکہا۔کچھ سوچا پھر تیزی سےٹیلی فون کی طرف بڑھ گیا۔
    ڈاکٹر کو فون کرکےوہ حکم کےمنتظر اور چور نظروں سےاس خوابیدہ حسن کو تکتےخان کی طرف متوجہ ہوا اور ہولےسےمسکرایا۔
    ”خان۔“
    ”جی صاب۔“ وہ گھبرا سا گیا۔
    ”تمام نوکر تو سوچکےہوں گی۔“
    ”جی صاب۔“ اس نےاپنا مخصوص جواب دہرایا۔
    ”ہوں ۔“وہ کچھ سوچنےلگا۔پھر کہا۔”تم نیچےچلےجاؤ ۔ اپنےڈاکٹر صاحب آرہےہیں۔ان کو لےکر اوپر چلے آنا۔“
    ”جی صاب!“ اور خان ایک نظر بستر پر ڈال کر دروازےکی طرف بڑھ گیا۔
    اس نے آگےبڑھ کر سوئچ بورڈ پر ایک بٹن دبا دیا۔ایر کنڈیشنڈ سسٹم گہری نیند سےجاگ گیا۔پھر اس کی نادیدہ تپش نےدھیرےدھیرےکمرےکو گرم کرنا شروع کیا۔اس نےمطمئن انداز میں سرہلا کر بند کھڑکیوں کی جانب دیکھا اور کرسی گھسیٹ کر بسترکےقریب لے آیا۔ بیٹھتےہوئےوہ قدرےجھک گیا اور نظریں اس خاموش گلاب پر جما دیں جس کی دو پنکھڑیاں اپنی سرخی کھونےلگی تھیں۔ نیلاہٹ ابھری چلی آرہی تھی۔
    وہ آہستہ سےلرزی تو بےچینی سےوہ کلائی پر بندھی رسٹ واچ پر نظر ڈال کر رہ گیا۔ رات کا ایک بج رہا تھا۔
    اس کی بےتاب نظریں اس غنچہ دہن پر جم گئیں‘جس میں اب پھر کوئی حرکت نہیں تھی۔ آہستہ سےاٹھا۔ جھکا اور لحاف کو اچھی طرح اس پر لپیٹ کر سیدھا کھڑا ہوگیا۔اب وہ بےچینی سےٹہلنےلگا۔ اسی وقت ایسا محسوس ہوا جیسےکوئی تیزی سےسیڑھیاں چڑھتا چلا آرہا ہو۔
    ” آئیے آیئےانکل۔ “وہ کمرےمیں داخل ہوتےادھیڑ عمر مگر مضبوط جسم کےمالک ڈاکٹر ہاشمی کی طرف بڑھا۔ڈاکٹر ہاشمی نےرین کوٹ اتار کر اس سےمصافحہ کیا۔
    ”کیا بات تھی بیٹی۔ میں تو تمہارا فون سنتےہی۔۔۔“اور ان کی آواز حلق ہی میںاٹک گئی۔حیرت زدہ نظریں بستر پر پڑی جوان اور نیلی پڑتی لڑکی کےوجود پر ٹھہر گئیں۔وہ تیزی سےاس کی طرف بڑھی۔چند لمحوںبعدان کا تجربہ کارہاتھ لڑکی کےماتھےسےہٹا تو وہ کچھ مضطرب سےنظر آرہےتھی۔
    ”خان۔ ۔۔میرا بیگ ۔“ وہ بولےاور خان کےساتھ ہی وہ بھی ان کےقریب چلا آیا۔
    بیگ کھلا اور ڈاکٹر اپنےفرض میں ڈوبتا چلا گیا۔وہ خاموشی سےڈاکٹر ہاشمی کی کوششوں کا جائزہ لیتا رہا۔کتنی ہی دیر گذر گئی اور تب ڈاکٹر ہاشمی ایک طویل سانس لےکر بستر کی پٹی سےاٹھ کھڑےہوئی۔
    ”انکل!“ وہ مضطربانہ انداز میں اتنا ہی کہہ سکا۔
    ”الحمدللہ ۔خطرہ ٹل چکا ہی۔ “ وہ آگےبڑھ کر کرسی پر بیٹھ گئی۔”خان۔ کچن سےدودھ لے آؤ۔“انہوں نےکہا اور خان کمرےسےنکل گیا۔”ہاں۔اب کہو۔ یہ سب کیا چکر ہی؟“ ڈاکٹر ہاشمی کےہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
    ”چکر۔۔۔؟“ وہ جھینپ گیا۔”چکر تو کوئی نہیں ہےانکل! میں پکچر دیکھ کر لوٹا تو یہ باہر گیٹ کےپاس کھڑی نظر آئی۔ میں کار سےنکل کر اس کےقریب پہنچامگرکچھ پوچھنےاور بتانےکی نوبت ہی نہ آئی اور یہ بےہوش ہوگئی۔ میں اسےاٹھا کر اندر لے آیا اور آپ کو فون کردیا۔ بس ‘یہ ہےساری بات۔“
    ”ہوں ۔ڈاکٹر ہاشمی کےہونٹ شرارت سےپھڑکی۔” بیٹے۔ لڑکی تھی ناں۔ اگر صنف کرخت ہوتی تو۔۔۔“
    ” آپ مجھےاچھی طرح جانتےہیں انکل۔“وہ مسکرا کر بولا اور ڈاکٹر ہاشمی ہنس دیی۔
    ”میں تو مذاق کررہا تھا۔ ہاں۔۔۔بیگم صاحبہ زمینوں سےنہیں لوٹیں ابھی؟“
    ”جی نہیں ۔ابھی کافی دن رکیں گی وہاں۔“
    اسی وقت خان دودھ کا بھر ا جگ اور گلاس لئےاندر داخل ہوا۔”صاب۔ دودھ بہوت تا۔ہم گرم کر لائی۔ “وہ جگ میز پر رکھتےہوئےبولا۔
    ”یہ تو بہت اچھا کیاخان۔ “وہ دودھ گلاس میں انڈیلتا ہوا بولا۔
    دودھ پی کر فارغ ہوگئےتو ڈاکٹر ہاشمی اٹھ کھڑےہوئی۔”اچھا بیٹی۔ میں چلتا ہوں۔بارش کا زور کم ہو رہا ہے۔کہیں پھر زور نہ پکڑلی۔“
    ”بہتر انکل۔ “وہ بھی اٹھ کھڑا ہوا۔خان نےڈاکٹر کا بیگ تھام لیا۔
    ”صبح دس بجےسےپہلےہوش نہیں آئےگا۔ پریشان نہ ہونا۔ “وہ پھر مسکرا دیےاور وہ جھینپ کران کی ہدایات کو ذہن نشین کرنےلگا۔” نیند کےانجکشن کا اثر کم از کم نو گھنٹےرہےگا۔ کیپسول تپائی پر پڑےہیں۔ ہوش آنےپر ہر چار گھنٹےبعد گرم دودھ سےدو کیپسول دیتےرہنا۔“ ڈاکٹر ہاشمی رخصت ہوگئی۔
    کمرہ خاصا گرم ہوچکا تھا۔نیلےہونٹ اب کچھ کچھ گلابی نظر آرہےتھی۔اس نےمطمئن انداز میں سر ہلایااور بستر کےقریب چلا آیا۔ سانس اب مناسب رفتار سےچل رہا تھا۔چہرہ پُرسکون تھا۔کتنی ہی دیر تک وہ اس محو استراحت حسنِ بےپرواہ کو تکتا رہا۔
    ”صاب۔“ خان کی آواز اسےبچھو کےڈنک ہی کی طرح لگی۔
    وہ تیزی سےپلٹا۔ ”تم ابھی تک یہیں ہو۔“اس کےلہجےمیں کچھ اکتاہٹ تھی مگر خان بھی مجبور تھا۔ اسےنیند نےتنگ کررکھا تھا۔ وہ بلاوجہ اس کی محویت کو ختم کرنےکا قصور وار نہ ہوا تھا۔
    ”کوئی حکم صاب؟“ وہ ڈر سا گیا۔
    ”کچھ نہیں۔بس جاؤ۔اور دیکھو۔ اس کمرےمیں کوئی مت آئی۔ میںساتھ والےکمرےمیں آرام کروں گا۔ “
    ”جی صاب۔“وہ سلام کرکےدروازےکی طرف بڑھ گیا۔
    چند لمحےوہ بستر پر پڑےمصور کےاس حسین خیال کوگل پاش نظروں سےدیکھتا رہا۔ پھر پلٹ کر دھیرےدھیرےچلتا ہوا کمرےسےباہر نکل گیا۔
    پھر یوں ہوا کے درد مجھے راس آ گیا

  2. #51
    Mohammad Sajid's Avatar
    Mohammad Sajid is offline * خاک نشین *
    Join Date
    Mar 2008
    Location
    Hijr
    Posts
    152,881
    Mentioned
    108 Post(s)
    Tagged
    8578 Thread(s)
    Rep Power
    21475005

    Default Re: Ishq Ka Qaaf

    صوفےپر بیٹھ کر کیپٹن آدیش نےایک نظر ان تینوں کو مسکرا کر دیکھا۔ پھر اس کی نظر طاہر کےچہرےپر آ جمی۔
    ”وہ الفاظ جو سرمد کا ہمہ وقت ورد ہیں مسٹر طاہر۔ وہ ہیں۔“دھیرےسےاس نے آنکھیں بند کیں اور کہا:
    ”صلی اللہ علیہ وسلم۔“
    ایک دم جیسےکمرےمیں ہوا ناچ اٹھی۔ فضا جھوم اٹھی۔ لمحات وجد میں آ گئی۔ گھڑیاں رقصاں ہو گئیں۔خوشبونےپر پھیلا دیی۔ مہک ان کےبوسےلینےلگی۔ ان کےدل دھڑکنا بھول گئی۔پلکوں نےجھپکنا چھوڑ دیا۔ہوش و حواس ہاتھوں میں ہاتھ ڈالےہلکورےلینےلگی۔
    کیپٹن آدیش خاموش ہو چکا تھا مگر اس کی زبان سےنکلےہوئےالفاظ کی بازگشت کمرےمیں پھڑپھڑا رہی تھی۔ اجالوں سےگلےمل رہی تھی۔ اندھیروں کا نصیب بدل رہی تھی۔مانیابُت بنی بیٹھی تھی اور طاہر۔۔۔ وہ ایسی نظروں سےکیپٹن آدیش کو دیکھ رہا تھا‘ جن میں رشک تھا تو عروج پر۔ عقیدت تھی تو انتہا پر۔اور پیار تھا تو اوج پر۔
    کتنےہی لمحےسکوت کےعالم میں دبےپائوں گزر گئی۔ پھر مانیا نےایک طویل اور گہرا سانس لیا تو سب لوگ آہستگی سےچونکی۔ کیپٹن آدیش نےسر اٹھایا اور مانیا کےبعد طاہر کی جانب دیکھا‘ جو اسےبڑی عجیب سی نظروں سےدیکھ رہا تھا۔
    ”کیا دیکھ رہےہیں مسٹر طاہر؟“ آدیش مسکرایا۔
    ”دیکھ نہیں سوچ رہا ہوں کیپٹن آدیش۔“ طاہر نےاس کےہاتھ پر ہاتھ رکھ دیا۔”تم کتنےخوش قسمت ہو کہ سرمد کےاتنا قریب رہتےہو۔“
    ” اب کیا آپ میری ایک بات کا جواب دینا پسند کریں گی؟“
    ”ضرور۔ “ طاہر نےبڑےخلوص سےکہا۔
    ”یہ الفاظ کیا ہیں جن کےاثر نےمجھےپتھر سےموم بنا دیا ۔“
    ”یہ الفاظ۔۔۔“ طاہر کےلہجےمیں ادب در آیا۔ ”کیپٹن آدیش۔ یہ ہمارےدین کی اساس ہیں۔ یہ درود شریف ہی۔ ہمارےاللہ ‘ ہمارےمعبود ِ برحق کی آخری کتاب میں اس کا فرمان ہےکہ ’ میں اور میرےفرشتےاللہ کےحبیب ‘ رحمت للعالمین ‘ ہمارے آقا و مولا ‘ آخری نبی اور رسول جناب محمد مصطفی پر درود و سلام بھیجتےہیں۔ اےایمان والو۔تم بھی اپنے آقا پر درود پڑھو اور سلام بھیجا کرو‘۔۔۔ درود شریف پڑھنا اللہ کی سنت ہےاور سرمد اس سنت کی ادائیگی میں ہمہ وقت مصروف رہتا ہی‘ ایسا تم نےبتایا۔“
    ”اسی لئی۔۔۔ اسی لئی۔“ آدیش کہہ اٹھا۔”یہ الفاظ مجھ پر عجب جادو سا کر دیتےہیں مسٹر طاہر۔ میں اپنے آپ میں نہیں رہتا۔“
    ”اگر آپ کو اور مس مانیا کو برا نہ لگےتو میں کہوں گا کیپٹن آدیش۔۔۔کہ آپ بہت جلد ہم سے آ ملیں گی۔میں ایسےہی آثار دیکھ رہا ہوں۔ آپ پر دورد شریف کا یہ اثر کوئی معمولی بات نہیں ہی۔“ طاہر نےبڑےمحتاط الفاظ استعمال کئی۔
    ” آپ کا مطلب ہے آدیش مسلمان ہو جائےگا؟“ مانیا نےدھیرےسےکہا۔
    ”شاید۔“ طاہر نے آہستگی سےجواب دیا۔”لیکن اس میں کوئی زبردستی نہیں ہےمس مانیا۔ ہمارےدین میں جبر ہےنہ اکراہ۔ دائرہ اسلام میں آتا وہی ہےجس کےنصیب میں ہدایت لکھی ہی۔جسےکائنات کا وہ مالک و خالق منتخب کر لی۔“
    ”چلیں۔ “مانیا مسکرائی۔”اس معاملےکو آنےوالےوقت پر چھوڑ دیجئی۔ اس وقت ہم جس مسئلےکا شکار ہیں اس پر سوچئی۔“
    ”کیپٹن آدیش۔ کل رات سیل میں کون کون ہو گا؟“ طاہر اس کی طرف متوجہ ہوا۔
    ”جیسا کہ میں بتا چکا ہوں ‘کل کےلئےکرنل رائےکا حکم ہےکہ صرف میں اور وہ وہاں سرمد کےپاس ہوں گی۔ باقی سب لوگوں کو چھٹی دےدی جائےگی۔“ آدیش نےبتایا۔
    ”اور یہ کتنےبجےرات کا وقت ہو گا؟“
    ”سوا آٹھ بجےتک سیل خالی ہو جائےگا۔“
    ”کیا ایسا ہو سکتا ہےکہ کل رات سرمد کو وہاں سےنکال لیا جائے؟“
    ”بہت مشکل ہی۔ “ آدیش سو چتےہوئےبولا۔ ”ایک تو کرنل رائےکی کوٹھی آبادی سےہٹ کر ہی۔ دوسرے آپ دیکھ چکےہیں کہ اس کےگرد حفاظتی باڑھ ہی‘ جس کےچاروں طرف دن رات آٹھ فوجی پہرہ دیتےہیں۔تیسرےیہ کہ کوٹھی کےگیٹ پر باقاعدہ دو فوجیوں کا کیبن ہےجو اندر کوٹھی اور سیل تک پہنچنےوالےکےلئےپہلےسخت چیکنگ کرتےہیں۔ اس کےبعد سیل کےدروازےپر کمپیوٹرائزڈ سسٹم چوبیس گھنٹے آن رہتا ہی۔ اگر آپ پہلےسےوہاں آنےجانےوالےہیں یا وہاں سےمتعلق فرد ہیں تو آپ کےفنگر پرنٹس آلریڈی کمپیوٹر میں فیڈ ہوں گےاور آپ کا سیل میں جانا ممکن ہو گا۔اور اگر آپ پہلی بار وہاں آئےہیں تو میںیا کرنل رائے آپ کو کلیر کریں گی‘ تب آپ وہاں داخل ہو پائیں گی۔“
    ”ہوں۔‘ ‘ طاہر نے آدیش کی ایک ایک بات غور سےسنی۔ کچھ دیر سوچتا رہا پھر کہا۔ ”اگر ہم ذرا سی کوشش کریں تو یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہےکیپٹن آدیش۔“
    ” وہ کیسی؟“ اس نےاچنبھےسےپوچھا۔ مانیا صرف سن رہی تھی۔ اس نےابھی تک کسی بات پر رائےزنی نہ کی تھی۔
    ”کیاایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ میرےفنگرپرنٹس کسی طرح کمپیوٹر سسٹم میں فیڈ کر دیں۔“
    ”جی نہیں۔“ کیپٹن آدیش نےنفی میں سر ہلایا۔ ” یہ کسی طرح بھی ممکن نہیں۔“
    ”دوسری صورت یہ ہےکہ آپ مجھےکسی قسم کا انٹری پاس بنا دیں۔۔۔“
    ”ہاں۔ یہ ہو سکتا ہی۔“ ایک دم آدیش نےاس کی بات اچک لی۔ ” یہ آسان بھی ہی۔“
    ”بس تو آپ ایسا کر دیں ۔“ طاہر نےپُرجوش لہجےمیں کہا۔ ”میں چاہتا ہوں کہ کل کرنل رائےجب سیل میں سرمد کےپاس آئےتو میں وہاں موجود ہوں۔“
    ”یہ تو ہو جائےگا۔ سوچنےوالی بات صرف یہ ہےکہ آپ کو کس خانےمیں فٹ کیا جائےکہ کرنل رائےکو آپ کی آمد مشکوک لگےنہ ناگوار گزری۔ اگر آپ پہلےسےوہاں موجود ہوئےتو یہ بات اسےہضم نہیں ہو گی ۔“
    ”کیا ایسا ہو سکتا ہےکہ اگر خطرےکی کوئی بات ہو تو آپ مجھےفوراً مطلع کر سکیں؟“
    ”اس کا ایک ہی طریقہ ہی۔“ آدیش نےجواب دیا۔ ”اور وہ یہ کہ ایسا کوئی بھی لمحہ آتےہی میں موبائل پر آپ کو بیل کر دوں۔ تب آپ وقت ضائع کئےبغیر کوٹھی میں انٹر ہو جائیں۔ “
    ”مگر میں سیل میںکیسےداخل ہو سکوں گا؟“
    ”وہ آپ مجھ پر چھوڑ دیں۔ میں سیل کا خودکار سسٹم آف کر دوں گا۔ آپ کو صرف یہ کرنا ہو گا کہ سیل کےدروازےپر پہنچ کر دروازےپر ہاتھ کا دبائو ڈالیں۔ وہ کھل جائےگا۔اور اب آپ مجھ سےوہاں کا نقشہ سمجھ لیں۔“
    آدیش نےمانیا کی طرف دیکھا۔ اس نےجلدی سےاپنا ہینڈ بیگ کھولا۔ پیڈ اور قلم نکالا اور آدیش کی جانب بڑھا دیا۔ پیڈ آدیش نےمیز پر رکھا۔ طاہر اور مانیا آگےکو جھک آئی۔ آدیش نےبڑی مہارت سےکوٹھی کی انٹرنس سےلےکر رہائشی حصےاور سیل تک کا نقشہ بنا کر یوں سمجھایا کہ طاہر کےساتھ ساتھ مانیا کو بھی ازبر ہو گیا۔
    ”بس تو یہ طےہو گیا کہ کل رات آٹھ بجےہم کرنل رائےکی کوٹھی سےایک فرلانگ دور سیتا مندر کےبالمقابل پارک میں موجود رہیں گےاور سگنل موصول ہوتےہی آپ کی طرف چل پڑیں گی۔“طاہر نےنقشےپر نظر دوڑاتےہوئےتہہ کر کےاسےجیب میں ڈال لیا۔”مگر ہم اندر کیسےداخل ہوں گےکیپٹن آدیش؟“
    ”یہ لیجئی۔“ آدیش نےایک پیڈ کےایک کاغذ پر اپنےسائن کر کےمخصوص کوڈ میں کچھ لکھااور طاہر کی طرف بڑھا دیا۔ ”یہ آپ دونوں کےلئےانٹری پاس کا کام دےگا۔ بیرونی گیٹ پر آپ کو روکا جائےگا۔ انہیں یہ پاس دکھا دیجئےگا۔ میں انہیں آپ کےبارےمیں زبانی بھی انسٹرکشن دےدوں گا۔“
    سارا مسئلہ ہی حل ہو گیا۔ طاہر کےرگ و پےمیں سکون کی ایک لہر سی تیر گئی۔اس نےممنونیت سے آدیش کی جانب دیکھا۔
    ”کچھ مت کہئےمسٹر طاہر۔ میں جس کےلئےیہ سب کر رہا ہوں‘ اس سےمجھےکسی شکریےکی طلب نہیں۔ بس یہ خیال رہےکہ مس ریحا کےبارےمیں میرےجذبات کبھی آپ میں سےکسی کےلبوں پر نہ آئیں۔یہی میرا شکریہ ہے آپ کی طرف سی۔“ آدیش نےپھیکی سی مسکراہٹ کےساتھ کہا تو طاہر کی نگاہ مانیا کی جانب اٹھ گئی جو بڑی محبت سے آدیش کو تک رہی تھی۔
    ”یہ ٹھیک کہہ رہا ہےمسٹر طاہر۔“ آخر وہ بولی۔ ”لیکن کیا سب محبت کرنےوالےایسےہی ہوتےہیں؟“ اس نےطاہر کی جانب عجیب سی نظروں سےدیکھا۔
    ”کیا اب بھی پوچھنےکی ضرورت باقی ہےمس مانیا؟“ طاہر ہولےسےہنسا۔جواب میں مانیا خاموش ہو گئی۔
    پھر آدیش جانےکےلئےاٹھ گیا۔ طاہر نےاس سےبڑی گرمجوشی سےہاتھ ملایا۔ مانیا نےاسےگلےلگایا اور ماتھا چوم لیا۔
    ”دھرم پر میرا وشواس کبھی بھی نہیں رہا آدیش۔ تم ضد کر کےمجھ سےہر سال راکھی بندھواتےرہی۔ آج تم نےپانچ روپےکی اس راکھی کو انمول کر دیا۔“
    ”دیدی۔ تم خوش تو وہ خوش۔“ اس نےاوپر دیکھا۔ ” اس کےعلاوہ مجھےکسی بات کی پرواہ نہیں۔“ وہ رخصت ہو گیا ۔
    دروازہ بند کر کےلوٹی تو مانیا کو طاہر کمرےکےبیچوں بیچ کھڑا ملا۔دونوں کی نظریں ملیں اور مانیا کےلبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
    ”بیٹھئےمسٹر طاہر۔ “ وہ صوفےپر ٹک گئی۔ طاہر بھی اس کےسامنے آ بیٹھا۔ ” آپ نےمیری نظریں پڑھ لیں تھیں کیا؟“
    ”جی ہاں۔“ طاہر تنائو کےشکار اعصاب پر قابو پاتےہوئےمسکرایا۔” یہ فن بھی آ ہی گیا ہی۔ میں نےجانا کہ آپ مجھ سےکچھ کہنا چاہتی ہیں۔“
    ”جی ہاں۔ مگر کیا کہنا چاہتی ہوں‘ کیا یہ نہیں سمجھے آپ؟“
    ” آپ جب تک بتائیں گی نہیں میں کیسےجان پائوں گا مس مانیا۔“ طاہر بیحد محتاط ہو رہا تھا۔
    ”اب آپ اتنےنادان بھی نہیں ہیں مسٹر طاہر کہ میری نظر کو تو پڑھ لیں اور بات کو نہ سمجھ سکیں۔ “ وہ ہنسی۔ ”ہم جس صورتحال سےیہاں آ کر دوچار ہو گئےہیں اس کےحوالےسےاگلا کوئی بھی لمحہ کچھ بھی گل کھلاسکتا ہی۔ آپ خوب جانتےہیں کہ میں صرف آپ کےلئےاپنےملک سےغداری کر رہی ہوں اور آدیش ایک طرف اپنی محبت سےمجبور ہو کر اور دوسری طرف میری وجہ سےایسا کر رہا ہی۔پھر انجان بننےکا فائدہ؟“مانیا نےجیسےکھیل کےپتےبانٹی۔
    ” آپ کہنا کیا چاہتی ہیں مس مانیا؟ کھل جائیی۔“ طاہر نےپتےاٹھا لئی۔
    ” آپ کی دوستی کاثبوت۔“ مانیا نےشانےاچکائےاور ریلیکس ہو کر بیٹھ گئی۔
    ”کیسےپیش کروں؟“ اس نےپہلا پتہ الٹ دیا۔حکم کا نہلا تھا۔
    ”کیا مجھےزبان سےکہنا ہو گا؟“ ساڑھی کا پلو ڈھلک گیا۔مانیا کےہاتھ میں پان کی بیگم تھی۔
    ”کوئی اور راستہ نہیں؟“ دوسرا پتہ حکم کا غلام نکلا۔
    ”ہی۔“ اینٹ کی دکی سامنے آ گئی۔
    ”مجھےدوسرا کوئی بھی راستہ منظور ہی۔“ تیسرا پتہ جوکر تھا۔اس نےپتےپھینک دیی۔
    ”صرف ایک سوال کا جواب۔“ اس نےطاہر کےچہرےپر نظریں مرکوز کر دیں۔ ”یہ صفیہ وہی ہےناں‘ جس کےطاہر آپ ہیں؟“
    ایک دم سےکیا جانےوالا یہ سوال طاہر کےلئےحواس شکن ثابت ہوا۔اس نےبری طرح چونک کر مانیا کی طرف دیکھاجو اسےبڑی گہری نظروں سےدیکھ رہی تھی۔
    ”جھوٹ نہیں مسٹر طاہر۔“ اس نےشہادت کی انگلی کھڑی کی۔ ”اب تک سارا معاملہ سچ ہی پر چلتا آ رہا ہی۔ اگر آپ سچ بولیں گےتو میں بھی اپنےجھوٹ کا پردہ فاش کر دوں گی‘ یہ میرا آپ سےوعدہ ہی۔“
    ” آپ کا جھوٹ؟“ طاہر سرسرایا۔ اب وہ اسےغور سےدیکھ رہا تھا۔
    ”وہ بعد میں۔ پہلےمیرےسوال کا جواب۔“ وہ مسکرائی۔
    ”ہوں۔“ طاہر جیسےمجبور ہو گیا۔ اس نےہاتھ دونوں گھٹنوں میں دبا لئےاور نظریں جھکا لیں۔ ” آپ کا کہنا ٹھیک ہےمگر۔۔۔“
    ”بس۔۔۔“ ±مانیا نےاسےکچھ بھی کہنےسےہاتھ اٹھا کر روک دیا۔ ”کچھ مت کہئےمسٹر طاہر۔پہلےمجھےاس سچ کا مزہ لینےدیجئی۔“ اس نے آنکھیں بند کر کےسسکاری لی۔ ”ایسی لذت کہاں ہو گی کسی جھوٹ میں۔جب سےریحا گئی‘ میں آپ سےاسی ایک سوال کا جواب لینےکےلئےبیتاب تھی۔ شکر ہےکہ اس وقت آپ نےمیری نگاہ کی چوری پکڑ لی ۔ اب میں رات کو الجھےبغیر نیند لےسکوں گی۔“
    ”مگر میں یہ کہنا چاہتا تھا مس مانیا۔۔۔“
    ”کسی کو کبھی خبر نہ ہو گی مسٹر طاہر۔“ اس نے آنکھیں کھول دیں۔ ”یہ مہک تو دل میں چھپانےکی چیز ہی۔دھڑکن کی طرح۔ آپ اس بارےمیں بےفکر ہو جائیں۔ اور اب میری بات۔۔۔“ وہ بڑےپُراسرار انداز میں مسکرائی۔پھر اس نےساڑھی شانےپر درست کر لی۔”میں پہلی ملاقات سے آپ کی اسیر ہوں مسٹر طاہر۔ آج سےپیشتر تک میں اپنےجھوٹ میں خوش تھی۔ چاہتی تھی کہ آپ کو حاصل کر لوں‘ چاہےایک رات ہی کےلئی۔مگر سرمد اور صفیہ کےساتھ جب آپ کا نام سنا تو چونکی۔ ہوش آیا۔ پھر آدیش نےاور بھی عجب کھیل رچا ڈالا۔ محبت کیا ہوتی ہی؟ ایثار کس شےکا نام ہی؟ بغیر کسی غرض کےانسان کسی کیلئےجان دےدینےکی حد تک کیوں چلا جاتا ہی؟جب آپ نےکوئی بھی دوسری شرط سنےبغیر مان لی تو میرا جھوٹ ہار گیا ۔ آپ ایک پُرشباب جسم سےپہلےدن سےبھاگ رہےہیں‘ یہ میں جانتی ہوں۔ میں آپکی مجبوری سےفائدہ اٹھا کر بھی آپ کو پا لینا چاہتی تھی۔ ۔۔ مگر آج جب کچھ اَن چھوئی حقیقتیں مجھ پر آشکار ہوئیں تو میں فریب کےجال سےنکل آئی۔ میں آپکو اپنی شرط سےمُکت کرتی ہوں مسٹر طاہر۔ آپ آزاد ہیں۔ میں آپکی دوستی جیتنا چاہتی تھی مگر محسوس ہوا ہےکہ میں تو آپکی دوستی کےلائق ہی نہیں ہوں۔ ہوس اور دوستی کا کیسا ساتھ مسٹر طاہر۔“ اسکی آواز بھرا گئی۔ نظر جھک گئی اور اضطراب کےعالم میں وہ ہونٹ کاٹنےلگی۔
    ”بس یاکچھ اور کہنا ہے آپ کو؟“ طاہر نےچند لمحےانتظار کےبعد بڑےپُرسکون لہجےمیں پوچھا۔
    ”اور کیا کہوں گی میں؟“ وہ ہاتھوں سے آنکھیں مسلتی ہوئی بولی۔ شاید نمی میں پوشیدہ شرمندگی طاہر سےچھپا نا چاہتی تھی۔”سوائےاس کےکہ اب مجھ پر شک نہ کیجئےگا ۔ میں آخر دم تک آپ کےساتھ ہوں۔“
    ”اور دوستی کسےکہتےہیں مس مانیا؟“ طاہر نےمسکرا کر کہا ۔ ”دوستی کےجس معیار پراس وقت آپ ہیں ‘ اس کےلئےتو لوگ ترستےترستےمر جاتےہیں۔“
    ”یعنی۔۔۔؟“ اس نےہاتھ ہٹا کر اسےحیرت سےدیکھا۔
    ”یہ شبنم بتاتی ہےکہ پھول کیسا پاکیزہ ہی۔“ طاہر کا اشارہ اس کے آنسوئوں کی طرف تھا۔
    ”جھوٹ۔۔۔جھوٹ بول رہےہیں آپ۔“ بےاعتباری سےاسنےطاہر کی جانب دیکھااور ہنس پڑی۔ ساتھ ہی اسکےرکےہوئے آنسوچھلک پڑی۔ دھوپ چھائوں کا یہ امتزاج اسکےحسین چہرےپر عجب بہار دےرہا تھا۔
    ”جھوٹ بول کر میں آپ کی توہین نہیں کرنا چاہتا مس مانیا۔“ طاہر اب بھی مسکرا رہا تھا۔ ”اپنےدل سےپوچھئےجس میں اس وقت اطمینان ہی اطمینان دھڑک رہا ہو گا۔“
    اور مانیا نے آہستہ سےپلکیں موند لیں۔ طاہرسچ کہہ رہا تھا۔

    پھر یوں ہوا کے درد مجھے راس آ گیا

  3. #52
    Mohammad Sajid's Avatar
    Mohammad Sajid is offline * خاک نشین *
    Join Date
    Mar 2008
    Location
    Hijr
    Posts
    152,881
    Mentioned
    108 Post(s)
    Tagged
    8578 Thread(s)
    Rep Power
    21475005

    Default Re: Ishq Ka Qaaf

    ریحا ‘ سوجل کےسینےسےلگی سسک رہی تھی‘ جو کسی سوچ میں ڈوبی اس کی کمر پر بڑی محبت سےدھیرےدھیرےہاتھ پھیر رہی تھی ۔
    ”میں اس کےبغیر زندہ نہیں رہ سکتی ماما۔ اور پاپا اس کےساتھ آج رات کیا سلوک کرنےوالےہیں ‘ اس کےبارےمیں وہ کچھ بتانےکو تیار نہیں۔“ ریحا روئےجا رہی تھی۔
    ”دھیرج میری بچی دھیرج۔“ سوجل نےجیسےکسی فیصلےپر پہنچ کر کہا اور اس کا چہرہ سامنےکر کےاس کےرخسار خشک کرنےلگی۔”میں ابھی زندہ ہوں۔ تم میرےراکیش کی نشانی ہو اور میں نےکبھی تم سےیہ نہیں چھپایا کہ میں نےرائےسےشادی کی ہی اس لئےتھی کہ مجھے آج بھی شک ہےکہ راکیش کا قتل اسی نےکرایا تھا۔ میں جس روز اس حقیقت سے آگاہ ہو گئی ‘ وہ دن میرےاور اس کےتعلق کا آخری دن ہو گا۔ رہ گئیں تم۔۔۔ تو میری جان۔ تمہاری خوشی مجھےاپنےدھرم سےبڑھ کر عزیز ہی۔ اس دھرم نےمجھےسوائےدُکھ اور جبر کےدیا کیا ہےکہ میں تمہارےاور تمہاری پسند کےدرمیان دیوار بن جائوں۔ ہو گا وہی جو تم چاہو گی۔ تم فکر مت کرو۔“
    ”مگر ماما۔ آپ کریں گی کیا؟ پاپا کےہاتھ بہت لمبےہیں۔“ ریحا نےبھیگی آنکھیں اس کےچہرےپر مرکوز کر دیں۔
    ”ہاتھ کتنےبھی لمبےہوں ریحا۔ انہیں کاٹ دیا جائےتو انسان معذورہو جاتا ہی۔“ سوجل نےعجیب سےلہجےمیں جواب دیا۔ریحا نےماں کےسینےپر سر رکھ کر پلکیں موند لیں ۔ اسےنجانےکیوں یقین ہو گیا کہ سوجل جیسا کہہ رہی ہے‘ ویسا ہی ہو گا۔
    ”تم یہ بتائو کہ کیپٹن آدیش پر کس حد تک اعتماد کیا جا سکتا ہی؟“ کسی خیال کےتحت سوجل نےپوچھا تو ریحا سوچ میں پڑ گئی۔
    ”ماما۔ میں آپ کو بتا چکی ہوں کہ میں نےدو تین بار کی ملاقاتوں اور اس کےبعد اس کے آنےجانےکےدوران محسوس کیا ہےکہ وہ مجھےپسندیدگی کی نگاہوں سےدیکھتا ہی۔ اس کی جھجک ہمارےاور اس کےدرمیان سٹیٹس کےفرق کی وجہ سےہی۔ “
    ”کیا تم اسےاپنی مدد پر آمادہ کر سکتی ہو؟“ سوجل نےاس کےبالوں میں انگلیاں پھیرتےہوئےکہا۔
    ”کیسےماما؟“ ریحا نےحیرانی سےپوچھا۔
    ”دیکھو بیٹی۔ جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہوتا ہی‘ یہ ایک یونیورسل ٹرُتھ ہی۔میں چاہتی ہوں کہ تم اگر وقتی طور پر تمہیں آدیش کو فریب دےکر بھی اپنا کام نکالنا پڑےتوسرمد کو بچا لو۔بعد کی بعد میں دیکھی جائےگی۔“
    ”مگر ماما۔۔۔“
    ”صرف ایک بات کا دھیان رکھنا بیٹی۔“ سوجل نےاس کی بات کاٹ دی۔ ”اور وہ یہ کہ تمہاری آبرو پر آنچ نہیں آنی چاہئی۔باقی پیسہ ہو یا کوئی وعدہ۔ اس کی فکر نہ کرنا۔ میں اپنا آپ ہار کر بھی تمہارےالفاظ کی لاج رکھ لوں گی۔“
    ریحا نےماں کےچہرےسےنظر ہٹا لی اور کسی سوچ میں ڈوب گئی۔”ماما۔“ کچھ دیر بعد اس نےکہا۔ ”اس میں ففٹی ففٹی کےچانس ہیں۔ وہ ہماری مدد بھی کر سکتا ہےاور مخبری بھی۔“
    ”میں سمجھتی ہوں ریحا مگر یہ رسک ہمیں لیناہی پڑےگا جان۔“ سوجل نےاس کی جانب بڑی گہری نظروں سےدیکھا۔ ”میری طرف دیکھو۔“
    ریحا نےماں کی آنکھوں میں جھانکا تو عجیب سےسحر میں گرفتار ہو گئی۔ سوجل کی آنکھیں ویسےہی بڑی خوبصورت تھیں اور اس وقت ان میں کچھ ایسی چمک لہرا رہی تھی جس سےایک پاکیزگی کا احساس ہوتا تھا۔
    ”تم میری بیٹی ہو ۔ مجھےتمہارےساتھ ایسی گفتگو نہیں کرنی چاہئےمگر جذبےکیا ہوتےہیں؟ انہیں نبھانےکےلئےکیا کچھ نچھاور کیا جاتا ہے؟ تمہیں سمجھانےکےلئےیہ گفتگو ضروری ہی۔ سنو ریحا۔ راکیش کےبعد ‘ میں نے آج تک رائےکےبستر پر جتنےپل گزارےہیں‘ اس ایک حقیقت کو جاننےکی قیمت کےطور پر گزارےہیں‘ جو مجھےاس کےراکیش کاقاتل ہونےسے آگاہ کر دےگی۔ یہ ففٹی ففٹی کا چانس نہیں ہےریحا۔ یہ ایک اندھا دائو ہےجومیں نےصرف اپنا شک دور کرنےکےلئےکھیلا ہی۔ اپنےاس عشق کےہاتھوں مجبور ہو کر ‘ جو مجھےراکیش‘ تمہارےباپ سےتھا نہیں‘ آج بھی ہی۔ اگر آخر میں رائےبےقصور نکلا تو میری ساری زندگی کی تپسیا بیکار جائےگی مگر مجھےیہ پچھتاوا نہیں رہےگا کہ میں نےاپنی محبت کا حق ادا نہ کیا۔میں نےاپنےراکیش کی جان لینےوالےکا پتہ لگانےکی کوشش نہ کی۔ ۔۔ میری اس عقیدت کو سمجھو ریحا جس کا محور صرف اور صرف راکیش ہی۔ وہ راکیش جو اب صرف میری یادوں میں زندہ ہی۔ میری دھڑکنوں میں موجود ہی۔ جس کا وجود مٹ چکا ہے۔اور سرمد۔۔۔ وہ تو ابھی سانس لےرہا ہی۔ تم اسےموت کےہاتھوں سےچھین سکتی ہو ۔ اس لئےففٹی ففٹی کےچکر میں مت پڑو ریحا۔ اگر آدیش نےہم سےدھوکا کیا اور رائےسےجا ملا تب بھی۔۔۔ تب بھی میری جان۔ تمہیں اپنی سی کرلینےکا جو موقع ہاتھ آ رہا ہی‘ اسےگنوائو مت۔یاد رکھو۔ اگر تم جیت گئیں تو سرمد تمہارا ہو جانےکی امید تو ہےاور اگر آدیش نےپیٹھ میں خنجر بھونک دیا تو اپنی محبت پر قربان ہو جانےکا تاج سر پر پہن کر اس کےساتھ دوسری دنیا کےسفر پر روانہ ہو جانا۔ ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر ۔ ساتھ ساتھ۔جدائی اور تنہائی کا دُکھ بڑا جان لیوا ہوتا ہےریحا۔ میری جان ۔ اس دُکھ کو پالنےسےبہتر ہےانسان مر جائی۔اس کےساتھ ہی مر جائےجس کےبعد جینا موت سےبدتر ہو جاتا ہی۔“ سوجل نےاس کےبالوں میں منہ چھپا لیا اور سسک پڑی۔
    ”ماما۔“ ریحا اس سےلپٹ گئی۔ ”میں سمجھ گئی۔میں سمجھ گئی ماما۔اب کوئی خوف نہیں۔ کوئی ڈر نہیں۔ میں سرمد کو بچا نہ سکی تو اس کےساتھ مر تو سکتی ہوں ماما۔یہی بہت ہی۔“
    ”کوئی ماں اپنی اولاد کےلئےایسےشبد منہ سےنہیں نکالتی ریحا۔“ سوجل نےاس کا بالوں کو چوم کر کہا۔ ”مگر میں تمہیں دعا دیتی ہوں کہ تم اپنےپیار کو حاصل کر لو یا اس پر نثار ہو جائو۔“
    ”شکریہ ماما۔“ریحا نےاس کےشانےپر بوسہ دیا۔ ” آپ کی دعا مجھےلگ گئی ۔ مجھےاس کا پورا یقین ہی۔ “
    کچھ دیر خاموش رہنےکےبعد اچانک سوجل کو کچھ یاد آ گیا۔ ”مانیا اور سرمد کاپاکستانی رشتہ دار کس ہوٹل میں ٹھہرےہوئےہیں؟“اس نےپوچھا۔
    ”کشمیر پوائنٹ میں ماما۔“ ریحا نےکہا اور ایک دم ہڑبڑا کر اس سےالگ ہو گئی۔”ارےساڑھے آٹھ ہو گئی۔ مجھےنو بجےان کےپاس پہنچنا ہی۔“
    ”احتیاط سےجانا ۔ رائےنےتمہارےپیچھے آدمی نہ لگا دیےہوں؟“ سوجل نےتشویش سےکہا۔ ”اس سےکچھ بعید نہیں۔“
    ” آپ فکر نہ کریں ماما۔ میں دھیان رکھوں گی۔“ وہ جلدی جلدی تیار ہوتےہوئےبولی۔ ”پاپا ادھر کس وقت آئیں گےناشتےکےلئی؟“
    ”ناشتہ تو وہ کر چکےبیٹی۔ اب تو گیارہ بجےکی چائےکےلئے آئیں گی۔“ نہ چاہتےہوئےبھی اسےرائےکےلئےادب کا صیغہ استعمال کرنا پڑا۔
    ”تب تک میں ویسےہی لوٹ آئوں گی ۔“ کہتےہوئےاس نےپرس کندھےپر ڈالااور ہاتھ ہلاتی ہوئی کمرےسےنکل گئی۔
    ”بھگوان تمہاری رکھشا کرےبیٹی۔“ سوجل نےکھڑکی سےباہر دیکھتےہوئےکہا جہاں سےاپنی ٹو سیٹر کی طرف جاتی ریحا نظر آ رہی تھی۔
    پھر یوں ہوا کے درد مجھے راس آ گیا

  4. #53
    Mohammad Sajid's Avatar
    Mohammad Sajid is offline * خاک نشین *
    Join Date
    Mar 2008
    Location
    Hijr
    Posts
    152,881
    Mentioned
    108 Post(s)
    Tagged
    8578 Thread(s)
    Rep Power
    21475005

    Default Re: Ishq Ka Qaaf

    نو بج کر تین منٹ پر ریحا‘ مانیا کےکمرےمیں موجود تھی۔
    سب سےپہلےاس نےانہیں سوجل سےہونےوالی اپنی گفتگو سے آگاہ کیا۔ آدیش کےذکر پر وہ تینوں مسکرا دیی۔ اب وہ اسےکیا بتاتےکہ آدیش اس کےراستےکےسارےکانٹےاپنی پلکوں سےچُننےکا بیڑہ اٹھا چکا ہی۔ جب مانیا نےاسےگزشتہ رات کی آدیش سےملاقات کےبارےمیں مختصراً بتایاتو ریحا آنکھیں پھاڑےبےاعتباری سےسنتی رہی۔ اسےیقین نہ آ رہا تھا کہ قسمت نےاس کےلئےراہ یوں آسان کر دی ہی۔
    ”تو اس کا مطلب ہے آدیش ہماری پوری پوری سہائتا کرےگا؟“ اس نےمانیا کی جانب دیکھ کر سوال کیا۔
    ”بالکل۔“ مانیا نےمسکرا کر جواب دیا۔
    ”پلان کےمطابق سرمد کےپاس سیل میں آدیش‘ پاپا ‘ آپ اور مسٹر طاہر موجود ہوں گی؟“ ریحا نےمانیا سےپوچھا۔
    ”ہاں۔ رات ٹھیک سوا آٹھ بجےسیل کا خودکار سسٹم آف یا فیل کر دیا جائےگا۔ میں اور مسٹر طاہر آدیش کی طرف سےخطرےکا سگنل ملتےہی کوٹھی میں داخل ہو جائیں گےاور سیدھےسیل میں پہنچ جائیں گی۔ آگےپھر جو ہو سو ہو۔“
    ”موجودہ پلان میں کامیابی کےنتیجےمیں تین سوال پیدا ہوں گےمس مانیا۔“ طاہر نےکچھ سوچتےہوئےکہا۔
    ”وہ کیا؟“ مانیا اور ریحا اس کی جانب متوجہ ہو گئیں۔
    ”نمبر ایک۔ “ طاہر نےشہادت کی انگلی کھڑی کی۔ ”سرمد اپنےپیروں پر چلنےکےقابل نہیں ہی۔ ہم اسےلےکر کہاں جائیں گی؟“
    ”اس کےلئےماما سےبات کی جا سکتی ہی۔ “ ریحا نےجلدی سےکہا۔” وہ کوئی نہ کوئی بندوبست کر دیں گی۔“
    ”اب دوسرا سوال۔ سرمد کو میں ہر صورت یہاں سےپاکستان لےجاناچاہتا ہوں۔ یہ کیسےممکن ہو گا؟“
    ”اس پر بعد میں سوچیں گےمسٹر طاہر۔ پہلےسرمد کو وہاں سےنکال لیا جائی۔“ مانیا نےپُرخیال لہجےمیں کہا۔
    ”اور تیسرا سوال یہ ہےکہ ۔۔۔“ طاہر نےریحا کی جانب دیکھا۔ ” آپ کا کیا ہو گا؟“
    ”مطلب؟“ ریحا نےپوچھا۔
    ”مطلب یہ کہ آپ اور آپ کی ماما پورےطور پر کرنل رائےکی دشمنی مول لےرہی ہیں۔ سرمد کےبعد آپ اور آپ کی ماما کا کیا بنےگا؟“
    ”پہلےسرمد صحیح سلامت سیل سےنکل آئےمسٹر طاہر۔ پھر ایک بار اس سےپوچھوں گی کہ وہ مجھےاپنےساتھ لےجانا پسند کرےگا یا نہیں؟ اس کےجواب پر ہی میرےمستقبل کا دارومدار ہی۔“ ریحا نےصاف گوئی سےجواب دیا۔
    مانیا اور ریحا نےاثبات میں سر ہلا دیا ۔اس کےبعد ان تینوں نےاپنےاپنےموبائل کا وقت ملایا۔ ایک دوسرےکےنمبر فیڈ کئے۔ آدیش کا موبائل نمبر وہ رات ہی فیڈ کر چکےتھی۔اب ریحا کو بھی وہ نمبر دےدیا گیا۔
    تمام باتوں پر ایک بار پھر غور کیا گیا۔ کہیں جھول نظر نہ آیا تو ریحا ان سےرخصت ہو گئی۔ اس وقت دن کےدس بج کر پچیس منٹ ہوئےتھی۔

    ٭
    ہوٹل سےواپس آتےہی ریحا نےسرمد کو وہاں سےلےجانےکےبارےمیں سوجل سےبات کی تو اس نےاسےبےفکر ہو جانےکو کہا۔ راکیش کا ایک فلیٹ ‘ جو اس نےاپنی زندگی میں سوجل کےنام خریدا تھا‘ اس کی چابی آج بھی سوجل کےپاس تھی اور اس بات کا کرنل رائےکو قطعاً علم نہیں تھا۔ ریحا نےاس فلیٹ کےبارےمیں دن ہی میں مانیا کو فون کر کےبتا دیا تھا۔دوسرےسوجل نےصاف صاف کہہ دیا تھا کہ وہ آج رات ہونےوالےمعرکےکےاختتام سےپہلےاپنےبارےمیں کسی قسم کا فیصلہ نہیں کر سکتی۔ حالات اس وقت جو رخ اختیار کریں گی‘ اسےدیکھ کر ہی کوئی بھی قدم اٹھایا جائےگا۔
    رات ٹھیک آٹھ بجےریحا اور سوجل نےاپنےاپنےکمرےمیں پہنچ کر بیڈ سنبھال لئی۔ یوں جیسےوہ سونےکی تیاری کر رہی ہوں۔ دونوں مرد ملازم کوارٹر میں جا چکےتھےاور ملازمہ آج ویسےہی چھٹی پر تھی۔
    ٹھیک اسی وقت طاہر اور مانیا سیتا مندر کےسامنےوالےپارک کےگیٹ پر آ رکی۔ کار سےنکل کر وہ پارک میں گیٹ کےقریب ہی ایک بنچ پر آ بیٹھی۔ سردیوں کی وجہ سےپارک میں اکا دکا لوگ ہی رہ گئےتھےجو دور دور بیٹھےتھی۔
    آٹھ بج کر پانچ منٹ پر کرنل رائےکا ٹارچر سیل خالی ہو گیا۔ کسی شخص کےذہن میں کوئی سوال پیدا نہ ہوا کہ ان سب کو رخصت کیوں دی جا رہی ہی؟ وہ تو حکم کےغلام تھی۔کرنل رائےنےجو کہہ دیا ‘ اس پر عمل ان کی ڈیوٹی تھی۔ اس کےبارےمیں ”کیوں “کا لفظ ان کی ڈکشنری سےنکال دیا گیا تھا۔
    آٹھ بج کر دس منٹ پر کیپٹن آدیش نےاپنےموبائل سیٹ کو ریڈی کر کےسامنےکی جیب میں ڈال لیا۔ اب اس کےصرف بٹن دبانےکی دیر تھی کہ مانیا کےسیٹ پر بیل ہو جاتی اور وہ اور طاہر خطرےسے آگاہ ہوتےہی اس کی طرف چل پڑتی۔
    آٹھ بج کر پندرہ منٹ پر اس نےکرنل رائےکو لائن کلیر ہو جانےکی اطلاع دی ۔ وہ کسی گہری سوچ میں ڈوبا اپنے آفس میں بیتابی سےٹہل رہا تھا۔کیپٹن آدیش کا پیغام سن کر اس نےریسیور انٹر کام پر ڈالا ۔ ہولسٹر میں ریوالور کو چیک کیا۔ سر پر کیپ جمائی اور دبےقدموں اپنی خوابگاہ کےدروازےپر پہنچا۔ آہستہ سےدروازہ کھول کر اندر جھانکا۔ سوجل حسب عادت سونےکےلئےلیٹ چکی تھی۔ کمرےمیں ہلکی سبز روشنی پھیلی ہوئی تھی ۔ اس نےدروازہ بند کیا اور سامنےکےکمرےکی کھڑکی پر پہنچا۔ جالی میں سےاندر جھانکا۔یہ ریحا کا کمرہ تھا۔ وہ کمبل اوڑھےبیڈ پر سیدھی لیٹی کسی سوچ میں گم تھی۔ سینےپر ایک انگلش میگزین کھلا پڑا تھا۔ پُراطمینان انداز میں سر ہلا کر کرنل رائےنےباہر کا راستہ لیا۔ دبےقدموںباہر آ کر اس نےبر آمدےکی لائٹ بھی آف کر دی۔ چاروں اطراف تاروں کی باڑھ کےساتھ برابر فاصلےپر آٹھ گارڈ مستعدی سےپہرہ دےرہےتھی۔ گیٹ پر اندر کی جانب آمنےسامنےکرسیوں پر گنیں سنبھالےدونوں فوجی خاموش بیٹھےتھی۔ سارےانتظام کا جائزہ لےکر وہ نیم اندھیرےمیں کسی بد روح کی طرح ٹارچر سیل کی جانب روانہ ہو گیا۔
    ادھر کرنل رائےنےٹارچر سیل کےدروازےپر قدم روکا‘ ادھر سوجل اور ریحا نےکچن میں کھڑکی کےپاس کرسیاں ڈال لیں۔ اتنی ہی دیر میں ریحا نےکپڑےبدل لئےتھی۔ اب وہ کشمیری شلوار سوٹ میں ملبوس تھی۔اندھیرےمیں ڈوبےکچن کی کھڑکی سےٹارچر سیل کا دروازہ کھلتا صاف نظر آ رہا تھا جس سےکرنل رائےداخل ہو رہا تھا۔
    ادھر کرنل رائےنےسرمد والےکمرےمیں قدم رکھا ادھر کیپٹن آدیش نےبڑی آہستگی سےمکینزم آف کر دیا۔ اس کےساتھ ہی سیل کےداخلی دروازےکاکمپیوٹرائزڈ سسٹم بیکار ہو گیا۔
    کیپ سر سےاتار کر کرنل رائےنےمیز پر پھینکی اور دیوار کےسہارےنیم دراز سرمد کی جانب بڑی سرد نظروں سےدیکھا۔ پھر کیپٹن آدیش کےسیلوٹ کو نظر انداز کرتےہوئےہاتھ سینےپر باندھ لئی۔ سرمد نےنیم باز آنکھوں سےاس کی جانب دیکھا اور اس کےہونٹوں کی حرکت ہلکی سی مسکراہٹ میں بدل گئی۔
    ”اس نےزبان کھولی یا نہیں؟“ اچانک کرنل رائےدو تین قدم آگےبڑھ کر سرمد کےقریب چلا آیا۔
    ”نو سر۔“ کیپٹن آدیش اس کےپیچھےدو قدم کےفاصلےپر آ کھڑا ہوا۔
    ”ہوں۔“ اس نےہونٹ بھینچ کر کہا۔”بہت ڈھیٹ لگتا ہی۔“
    کیپٹن آدیش کا جسم تن گیا۔ اسےکرنل کےلہجےسےشر کی بو آ رہی تھی‘ جو کرسی پر پائوں رکھےسرمد کی طرف جھک کر اسےبڑی کینہ توز نظروں سےدیکھ رہا تھا۔
    ”اسےکرسی پر بٹھائو کیپٹن۔“ ایک دم کہہ کر وہ پیچھےہٹ گیا۔
    پھر یوں ہوا کے درد مجھے راس آ گیا

  5. #54
    Mohammad Sajid's Avatar
    Mohammad Sajid is offline * خاک نشین *
    Join Date
    Mar 2008
    Location
    Hijr
    Posts
    152,881
    Mentioned
    108 Post(s)
    Tagged
    8578 Thread(s)
    Rep Power
    21475005

    Default Re: Ishq Ka Qaaf

    ”یس سر۔“ کیپٹن آدیش نےجلدی سےکہا اور آگےبڑھ کر سرمد کو بغلوں میں ہاتھ دےکر اٹھانےلگا۔ بڑی آہستگی اور احتیاط سےاس نےسرمد کو کرسی پر بٹھایا‘ جو اپنے آپ حرکت کرنےسےبھی معذور تھا۔ اس کےزخم دوا سےمحروم تھی۔ خون ہونٹوں‘ پیشانی اور جسم کےجوڑوں پر جم چکا تھا۔ جسم کی ہڈیاں ابھر آئی تھیں۔ہاتھوں اور پیروں کےزخم پھوڑوں کی طرح مواد سےبھرےلگ رہےتھی۔حلقوں سےگھری آنکھوں کا ورم کسی حد تک کم ہو چکا تھا تاہم شیو ہو جانےکےباعث چہرہ اب صاف پہچان میں آ رہا تھا۔
    اس کےگھٹنوں کےجوڑ کام نہیں کر رہےتھی۔ تشدد کےباعث وہ تقریباً بیکار ہو چکےتھےاس لئےوہ دونوں ٹانگیں سمیٹ نہ سکا اور آدیش نےاس کےچہرےپر پھیلتےکرب کےپیش نظر ٹانگوں کو کرسی کےدائیں بائیں پھیلا دیا۔ سرمد دونوں ہاتھوں سےسائڈز کو تھامےبڑی مشکل سےکرسی پر جما بیٹھا تھا۔بخار سےپھنکتا ہوا جسم ‘ درد سےکراہتا ہوا رواں رواں اور چکراتا ہوا دماغ ۔ وہ تھوک نگل کر رہ گیا۔ اسےخطرہ تھا کہ وہ کسی بھی لمحےکرسی سےگر جائےگا۔
    ”تو تمہارا نام سرمد ہی؟“ سگار کا دھواں اڑاتا کرنل رائےاس کی جانب پلٹا تو سرمد نےچونک کر اس کی جانب دیکھا۔ کیپٹن آدیش کےذہن کو ایک جھٹکا سا لگا۔ ایک ہی پل میں وہ سمجھ گیا کہ کرنل رائےسرمد کےبارےمیں معلومات حاصل کر چکا ہی۔
    ”سرمد ہاشمی۔ باپ کا نام ڈاکٹر دلاور ہاشمی۔ لندن یونیورسٹی سےایم بی اےکی ڈگری لی۔ اپنےخدا کےگھر گئےاور وہاں سےسیدھےہماری گود میں آ رہی۔“ طنزیہ انداز میں کہتےہوئےکرنل رائے آہستہ آہستہ اس کےسامنےجا کھڑا ہوا۔اس کی سرد نظریں سرمد کی آنکھوں میں ایکسریز کی طرح اترتی جا رہی تھیں۔
    ”ریحا کو کب سےجانتےہو؟“ اچانک اس نےپائوں اٹھا کر سرمد کی ران پر رکھ دیا۔ وہ تکلیف سےکراہ کر رہ گیا۔
    ”لندن سے۔“ کرنل نےاس کی ران پر دبائو بڑھا دیا۔ ”ہےناں؟“ وہ پھر طنز سےبولا۔”بہت چاہتی ہےوہ تمہیں؟ میری بیٹی ہو کر۔ ایک کٹر ہندو کی بیٹی ہو کر وہ ایک مسلمان آتنک وادی سےعشق کرتی ہی۔ کیا یہ اچھی بات ہی؟“ وہ چیخ پڑا۔
    ” آ۔۔۔۔ہ۔۔۔ آہ۔۔۔“سرمد اس کا دبائو اپنی ران پر مزید نہ سہہ سکا اور جل بن مچھلی کی طرح تڑپا۔ایک دم کرنل رائےنےپائوں اس کی ران سےاٹھایا اور کرسی کی سائڈ پر جمےسرمد کےبائیں ہاتھ پر ٹھوکر رسید کر دی۔ سرمد تڑپا اور مچل کر فرش پر گر پڑا۔ آدیش کانپ کر رہ گیا۔ اسےلگا کرنل نےیہ ٹھوکر سرمد کو نہیں ‘ اسےماری ہی۔
    لوٹ پوٹ ہوتا سرمد کسی نہ کسی طرح سیدھا ہوا اور کراہتا ہوا کرسی کےسہارےاٹھنےکی کوشش کرنےلگا۔اس کا چہرہ اور اب جسم بھی پسینہ میں بھیگنےلگا تھا۔درد کے آثار اس کی کراہوں سےنمایاں تھی۔
    ”کیا تم بھی ریحا کو چاہتےہو؟“ ایک گھٹنا فرش پر ٹیک کر کرنل رائےاس کےقریب بیٹھ گیا اور اس کی آنکھوں میں جھانکنےلگا۔ ”یہ جانتےہوئےبھی کہ وہ ہندو ہی۔ کیا تم اس سےپیار کرتےہو؟“
    جواب میں سرمد نےاسےبڑی درد بھری نظروں سےدیکھا۔اس کا سانس پھول رہا تھا اور لگتا تھا اس کا حلق پیاس کےمارےخشک ہو چکا ہی۔
    ”نہیں ناں؟“ کرنل رائےنےنفی میں سر ہلایا۔”ایسا ہی ہونا چاہئی۔ “ وہ جیسےاسےسمجھانےلگا۔ ”وہ ہندو ہی۔ تم ملیچھ مسلمان ۔ اسےتم سےپیار نہیں کرنا چاہئےتھا۔ تم سےنفرت کرتی تو کوئی بات بھی تھی۔ اس نےجرم کیا ہی۔تم سےمحبت کا جرم۔ مگر سزا اسےنہیں‘ تمہیں ملےگی۔جانتےہو کیوں؟ اس لئےکہ تم مسلمان ہو۔ ملیچھ مسلمان۔“ نفرت سےکرنل کا چہرہ بگڑ گیا۔ایک دم اس نےجلتا ہوا سگار سرمد کےسینےپر رکھ کر زور سےدبا دیا۔ کراہتےہوئےسرمد کےلبوں سےچیخ نکل گئی۔ وہ معذوروں کی طرح اپنےکانپتےہوئےزخمی ہاتھوں سےکرنل رائےکا سگار پرےہٹانےکی کوشش کرنےلگا مگر ناکام رہا۔ کمرےمیں گوشت جلنےکی چراند پھیل گئی۔ کیپٹن آدیش نےبےبسی سےادھر ادھر دیکھا۔ وہ کیا کری؟ اس کا دماغ الجھ کر رہ گیا۔ کیا مانیا اور طاہر کو بیل کر دی؟ ابھی وہ اسی ادھیڑ بُن میں تھا کہ کرنل رائےکی بھیڑیےجیسی غراتی ہوئی آواز نےاسےاپنی جانب متوجہ کر لیا۔
    ”تم سےنفرت ہر ہندو کا دھرم ہی۔ ہاں ۔ ایک صورت ہےکہ تم سزا سےبچ جائو۔ سزا سےبچ بھی جائو اور انعام کےحقدار بھی ہو جائو۔ ریحا جیسی خوبصورت لڑکی‘ آزادی اور لاکھوں کروڑوں روپےکےانعام کےحقدار۔ بولو کیا یہ سب پانا چاہو گی؟“اس نےسگار ہٹا لیا۔ سرمد کا سینہ بری طرح جل گیا تھا۔زخم سےابھی تک دھواں نکل رہا تھا۔ وہ یوں ہانپ رہا تھا جیسےمیلوں دور سےبھاگتا آ یا ہو۔اس کا جسم اب پوری طرح پسینےمیں تر تھا اور چہرےپر تو جیسےکسی نےپانی کا جگ انڈیل دیا ہو۔
    بُت بنا کیپٹن آدیش سب سن رہا تھا ۔ اسےسمجھ نہ آ رہی تھی کہ کرنل رائےکرنا کیا چاہتا ہی؟ کہنا کیا چاہتا ہی؟ اس کی ہر بات دوسری بات کی ضد تھی۔
    ”اپنا دھرم چھوڑ دو۔“ کرنل رائےنےکرسی کےسہارےبیٹھےسرمد کےسامنےتن کر کھڑےہوتےہوئےکہا۔ اس کی آواز تھی یا بجلی کا کڑاکا۔ ایک دم سرمد کا سانس رک گیا۔ اس کی آنکھیں پوری طرح کھل گئیں۔وہ کرنل کو یوں دیکھ رہا تھا جیسےاس کےسر پر سینگ نکل آئےہوں۔
    ”ہندو ہو جائو۔‘ ‘ کرنل نےیوں کہا جیسےاسےلالی پاپ دےرہا ہو۔ ”ریحا بھی مل جائےگی۔ آزادی بھی اور دولت بھی۔ بولو۔ کیا کہتےہو؟“
    سرمدچند لمحےکرنل رائےکو دیکھتا رہا۔ ساری تکلیف‘ ساری اذیت‘ سارا درد جیسےاس کےحواس کا ساتھ چھوڑ گیا تھا۔
    ”زیادہ مت سوچو۔ سوچو گےتو بہک جائو گی۔ ہاں کر دو۔ ہاں کہہ دو۔ تمہارا صرف ”ہاں“کا ایک لفظ تمہاری ساری اذیتوں کا خاتمہ کر دےگا۔ اور ایک ”نہ “ کا لفظ تم پر نرک کےدروازےکھول دےگا‘ یہ مت بھولنا۔“ کرنل اس کی آنکھوں میں دیکھتےہوئےسمجھانےکےانداز میں کہےجا رہا تھا۔
    ”کیا کہا تم نی؟“ اچانک سرمد نےاس کی جانب کانپتی ہوئی انگلی اٹھائی۔
    کرنل نےاس کےطرزِ تخاطب پر اسےچونک کر دیکھا۔ کیپٹن آدیش کا بھی یہی حال ہوا۔ جب سےوہ ان کےہاتھ لگا تھا‘ تب سے آج وہ پہلی بار بولا تھا۔۔۔ اور یوں بولا تھا کہ کیپٹن آدیش حیرت زدہ رہ گیا اور کرنل رائےکےماتھےپر شکنیں نمودار ہو گئیں۔
    ”بہرےنہیں ہو تم۔ میں نےجو کہا تم نےاچھی طرح سنا ہی۔ “ کرنل رائےنےاسےگھورتےہوئےدانت بھینچ لئی۔
    ”ہاں۔ مگر میں چاہتا ہوں کہ تم بار بار یہ ناپاک الفاظ دہرائو اور میں بار بار انکار کروں۔ تم اپنےباطل دھرم کا لالچ دو اور میں اپنےسچےاللہ کی وحدانیت بیان کرتےہوئے‘ اس کےپسندیدہ دین کےاظہار کےلئےاپنی زبان پر وہ الفاظ بار بار سجائوں جو اسےسب سےزیادہ پسند ہیں۔ قل ھو اللہ احد۔ اللہ الصمد ۔ لم یلد ولم یولد ۔ ولم یکن لہ‘ کفواً احد۔“
    الفاظ کیا تھی۔ پگھلا ہوا سیسہ تھا جو کرنل رائےکےکانوں میں اترتا چلا گیا۔ آتش فشاں کا لاوا تھا جواسےاپنےساتھ بہا لےگیا۔ بھڑکتا ہوا الائو تھا جس میں اس کی ساری نرمی ‘ سارا فریب ‘ سارابطلان جل کر خاک ہو گیا۔
    ”کیا کہا تم نی؟“ آگ بگولہ ہوتےکرنل رائےکےہونٹوں سےپاگل کتےکی طرح کف جاری ہو گیا۔
    ”قل ھو اللہ احد۔“ سرمد نےاس طرح مسکرا کر جواب دیا‘ جیسےکسی بچےکی ضد پر اسےدوبارہ بتا رہا ہو۔ ”اس نےاپنےحبیب کریم سےفرمایا کہ آپ ان کافروں اور مشرکوں سےکہہ دیجئےکہ اللہ ایک ہی۔ اللہ بےنیاز ہی۔ نہ اسےکسی نےجنا اور نہ وہ کسی سےجنا گیا۔ اور اس ”احد “کا کوئی ہمسر نہیں۔ “
    ”بکو مت۔۔۔۔“ کرنل رائےغصےمیں دیوانہ ہو کر سرمد پر پل پڑا۔ لاتیں‘ ٹھوکریں‘ گھونسی‘ مغلظات۔ ایک طوفان غیظ و غضب تھا سرمد جس کی لپیٹ میں آ گیا۔ کیپٹن آدیش جو سرمد کےلبوں سےنکلنےوالےالفاظ کےسحر میں گرفتار تھا‘ ایک دم کرنل رائےکےچیخنےچلانےاور سرمد پر ٹوٹ پڑنےپر گھبرا کر ہوش میں آ گیا۔ اسےاور تو کچھ نہ سوجھا‘ ایک دم اس نےاوپری جیب میں پڑےموبائل کا بٹن دبا دیا۔
    ”اللہ ایک ہی۔“ سرمد مسکرائےجا رہا تھا۔ اس پر جیسےکرنل رائےٹھوکریں‘ لاتیں اور گھونسےنہیں‘ پھول برسا رہا تھا۔ اذیت جیسےمحسوس ہی نہ ہو رہی تھی۔ اس کی ہر چوٹ کےجواب میں سرمد ایک ہی بات کہتا:
    ”قل ھواللہ احد۔ اللہ ایک ہی۔“
    اس کےہر بار کہےہوئےیہ الفاظ کرنل رائےکےغصےاور دیوانگی میں مزید اضافہ کر دیتی۔ وہ اور بھی شدت سےاسےٹھوکروں پر رکھ لیتا۔ کیپٹن آدیش بےبسی سےادھر ادھر قدم پھینک رہا تھا۔ اس کا بس چلتا تو وہ کسی طرح سرمد کو بچا لیتا مگر اس وقت تو کرنل پاگل کتےکی طرح قابو سےباہر ہو رہا تھا۔ اس کےراستےمیں آنا خود کو عتاب کےحوالےکر دینےوالی بات تھی۔
    ”سر۔۔۔“ اچانک اس نے آگےبڑھ کر کرنل رائےسےکہا۔ ”سر۔۔ ۔ یہ بیہوش ہو چکا ہی۔“ اور کرنل رائےکےہاتھ پائوں اور زبان ایک دم یوں رک گئی جیسےکسی نےاس کا بٹن آف کر دیا ہو۔
    ”مگر ۔۔۔ اس کی زبان ۔۔۔ اس کی زبان۔۔۔“ وہ ہانپتےہوئےبولا۔ ”وہ تو۔۔۔ وہ تو چل رہی ہی۔“
    کیپٹن آدیش نےکرنل کےسرمد کی طرف دراز بازو کےہدف کو تاکا۔ واقعی سرمد کےہونٹ ہل رہےتھی۔ سرگوشی کےانداز میں آواز ابھر ری تھی۔
    ”قل ھو اللہ احد۔۔۔ قل ھو اللہ احد۔۔۔قل ھواللہ احد۔“وہ ہولےہولےپکار رہا تھا۔ بتا رہا تھا۔ سنا رہا تھا۔ سمجھا رہا تھا۔
    ”یہ اپنےہوش میں نہیں ہےسر۔“ آدیش نےدزدیدہ نگاہوں سےشیشےکےپار دیکھا۔ کاریڈور خالی تھا مگر کسی بھی لمحےطاہر اور مانیا وہاں نمودار ہو سکتےتھی۔اس نےکنکھیوں سےکرنل کےہولسٹر پر نظر ڈالی‘ جس کا بٹن کھلا ہوا تھا۔
    ”اسےہوش میںلائو۔“ کٹکھنےکتےکی طرح کرنل غرایا۔
    ”یس ۔۔۔ یس سر۔“ آدیش نےہکلا کر کہا اور میز پر پڑےپانی کےجگ کی طرف بڑھ گیا۔
    پھر یوں ہوا کے درد مجھے راس آ گیا

  6. #55
    Mohammad Sajid's Avatar
    Mohammad Sajid is offline * خاک نشین *
    Join Date
    Mar 2008
    Location
    Hijr
    Posts
    152,881
    Mentioned
    108 Post(s)
    Tagged
    8578 Thread(s)
    Rep Power
    21475005

    Default Re: Ishq Ka Qaaf

    یہ کون لوگ ہیں؟“ نیم روشن میدان میں دو سایوں کو ٹارچر سیل کی جانب بڑھتےدیکھ کر سوجل چونکی۔ ریحا پہچان چکی تھی ۔
    ”ماما۔ یہ مسٹر طاہر اور مس مانیا ہیں۔اوہ۔۔۔ اوہ۔۔۔ماما۔“
    ”کیا ہوا ریحا؟ بات کیا ہی؟“ سوجل نےاسےبےچین دیکھ کر پوچھا۔
    ”ماما۔“ ریحا نےہاتھ جھٹکی۔ ”میں نےبتایا تو تھا ۔طےیہ ہوا تھا کہ اگر اندر خطرہ ہوا تو کیپٹن آدیش مس سونیا کو الرٹ کرےگا اور وہ اس کا دیا ہوا انٹری پاس دکھا کر ٹارچر سیل میں داخل ہو جائیں گی۔ خطرہ ماما۔۔۔ خطرہ۔“
    ”تو چلو ۔ جلدی کرو بیٹی۔“ سوجل نےاپنےپاس رکھا ہوا ریوالور اٹھالیا۔ ” آئو۔ ہمیں بھی وہاں چلنا چاہئی۔“
    ”مگر ماما۔ گارڈز۔۔۔“ اس نےکہنا چاہا۔
    ” آ جائو۔ یہ سوچنےکا وقت نہیں ہی۔گارڈز کی نظروں سےبچ کر ہمیں وہاں پہنچنا ہو گا۔“ سوجل کچن کےدروازےکی جالپکی۔ ریحا اس کےپیچھےدوڑ پڑی۔
    ٭

    ”سر۔ اس میں پانی نہیں ہی۔“ کیپٹن آدیش نےخالی جگ اٹھاکر کرنل رائےکو دکھایا۔ ”میں پانی لےکر آتا ہوں۔“ وہ جلدی سےکمرےکےکونےمیں بنےباتھ روم کی جانب بڑھ گیا۔
    ”ڈیم فول۔“ کرنل اسےقہر سےگھورتا رہ گیا۔پھر بجھا ہوا سگار دیوار پر کھینچ مارا۔
    ”قل ھواللہ احد۔“ اچانک سرمد کی آواز بلند ہو گئی۔وہ کراہتا ہوا ان الفاظ کا جیسےورد کر رہا تھا۔اٹھنےکی کوشش میں بار بار فرش پر گر پڑتےسرمد کےلہو لہان جسم کو دیکھ کر کرنل رائےکا پارہ ایک بار پھر چڑھ گیا۔
    ”ملیچھ۔“ اس نےسرمد کےزخمی گھٹنےپر ایک زور دارٹھوکر رسید کر دی۔جواب میں چیخ یا کراہ کےبجائےسرمد کےلبوں سےرک رک کر نکلا۔
    ”قل ۔۔۔ ھواللہ ۔۔۔احد۔ ۔۔لا الٰہ ۔۔۔الا اللہ ۔۔۔ محمد۔۔۔ رسول اللہ۔“ اور اس نے آنکھیں کھول دیں۔
    ”تو تیری زبان بند نہیں ہو گی۔“ غصےمیں کھولتےہوئےکرنل رائےنےہولسٹر سےریوالور کھینچ لیا۔ سیفٹی کیچ ہٹایا اور سرمد کےسینےکا نشانہ لیا۔
    ”قل ۔۔۔ ھو اللہ ۔۔۔ احد۔“ سرمد کےلبوں پر بڑی آسودہ سی مسکراہٹ ابھری۔
    ” آخری بار کہہ رہا ہوں مُسلی۔“ کرنل رائےکےدل میں نجانےکیا آئی۔ ”ہماری طرف لوٹ آ۔ میں تیری سب سزائیں ختم کر دو ں گا۔ “اس کی انگلی ٹریگر پر جم گئی۔
    ”قل ھو اللہ احد۔“ سرمد اب بھی مسکر ارہا تھا۔”اللہ الصمد۔“اس کی آواز بلند ہو گئی۔
    کرنل رائےکی انگلی ٹریگر پر دب گئی۔
    دو بار۔
    مگر دھماکےتین ہوئی۔
    پہلےدو دھماکوں نےسرمد کا سینہ چھلنی کر دیا۔
    تیسرےدھماکےنےکرنل رائےکا ہاتھ اڑادیا۔ اس کا ریوالور ہاتھ سےنکل کر دور جاگرا۔
    ایک ہچکی لےکر سرمد کا جسم جھٹکےسےساکت ہو گیا مگر اس کےہونٹ اب بھی ہل رہےتھی۔”قل ھو اللہ احد۔ قل ۔۔۔ ھو اللہ ۔۔۔ احد۔۔۔“
    کرنل رائےکےہونٹوں سےبڑی مکروہ چیخ خارج ہوئی اور وہ اپنا خون آلود ہاتھ دوسرےہاتھ سےدبائےتڑپ کر پلٹا۔
    ”تم۔۔۔“ اس نےدروازےسےاندر داخل ہوتےطاہر اور مانیا کو دیکھا جو تیزی سےفرش پر بےسدھ پڑےسرمد کی طرف بڑھ رہےتھی۔ پھر اس کی نظر باتھ روم کےدروازےکےپاس کھڑے آدیش پر جم گئی جو اس پر ریوالور تانےکھڑا بڑی سرد نظروں سےاسےدیکھ رہا تھا۔
    ”تم نےمجھ پر گولی چلائی ۔۔۔ ؟“ اسےکیپٹن آدیش پر یقین نہ آ رہا تھا۔
    جواب میں کیپٹن آدیش نےپائوں کی ٹھوکر سےاس کا ریوالور دور پھینک دیا ۔ مگر نہیں۔ دور نہیں۔ ریوالور شیشےکےدروازےسےاندر داخل ہوتی سوجل کےپائوں سےٹکرا کر رک گیا¾ جسےاس نےاٹھا لیا۔
    اسی وقت ریحا ماں کو ایک طرف ہٹاتی ہوئی اندر آئی اور فرش پر پڑےسرمد کی طرف بھاگتی چلی گئی‘ جس کا سر طاہر نےگود میں لےرکھا تھا اور مانیا جسےوحشت آلود نگاہوں سےتک رہی تھی۔
    ”سرمد۔۔۔“ریحا گھٹنوں کےبل اس کےقریب جا بیٹھی اور اس کےزخم زخم جسم کو دیکھ کر بلکنےلگی۔اس کےلبوں سےسوائے”سرمد۔ سرمد“ کےکچھ نہ نکل رہا تھا اور آنکھوں سے آنسودھاروں دھار بہہ رہےتھی۔
    سوجل نےکرنل رائےکا ریوالور تھام لیا اور کیپٹن آدیش اسےکور کئےہوئےتھا۔ کرنل اس طرح کمرےمیں پیدا ہو جانےوالی صورتحال کو جانچ رہا تھا جیسےخواب دیکھ رہا ہو۔
    ٭
    ”سرمد۔۔۔“ طاہر نےاس کےخون آلود چہرےکو ہاتھوں کےپیالےمیں لےلیا ۔ اس کا دل ٹکڑےٹکڑےہو رہا تھا۔ سرمد کی یہ حالت اس سےبرداشت نہ ہورہی تھی۔سینےکا زخم اتنا گہرا تھا کہ خون مانیا کےروکےنہ رکا۔
    ”مسٹر طاہر۔“ اس نےگھبرائی ہوئی نظروں سےاس کی جانب دیکھا۔ ” لگتا ہےبارود نےسینہ چیر کر رکھ دیا ہی۔ خون رک ہی نہیں رہا۔“ مانیا نےاپنی شال پھاڑ کر زخم پر پٹی باندھتےہوئےاسےبتایا۔
    ”سرمد۔۔۔“ ریحا سرمدکو والہانہ دیکھےجا رہی تھی اور روئےجا رہی تھی۔ ”میرےسرمد۔ آنکھیں کھولو۔ آنکھیں کھولو سرمد۔“
    پھر اسےمحسوس ہوا جیسےسرمد کےہونٹوں کو حرکت ہوئی ہو۔ اس نےوحشت بھری نظروں سےطاہر اور مانیا کی جانب دیکھا۔” یہ ۔۔۔ یہ کچھ کہہ رہا ہےمسٹر طاہر۔“ اور طاہر نےجلدی سےاس کےلبوں کےساتھ اپنا کان لگا دیا۔
    ”قل ۔۔۔ ھواللہ ۔۔۔ احد۔۔۔ قل ھو اللہ ۔۔۔ احد۔“ سرمد کےہونٹ ہل رہےتھی۔
    ”سرمد۔۔۔“ طاہر نےاس کا خون آلود ماتھا چوم لیا اور اس کی آنکھیں چھلک پڑیں۔ گرم گرم آنسو سرمد کےچہرےپر گرےتو ایک دو لمحوں کےبعد اس نے آہستہ سے آنکھیں کھول دیں۔
    ”تم۔۔۔؟“ بمشکل دھندلائی ہوئی نظروں سےاس نےطاہر کو پہچانا تو اس کےلہجےمیں حیرت سےزیادہ مسرت نمایاں ہوئی۔”یہاں۔۔۔ مگرکیسی؟“
    ”کچھ مت بولو سرمد۔“ طاہر نےاس کی پیشانی پر بوسہ دیا۔ پھر مانیاکی جانب دیکھا۔ ”مس مانیا۔ اسےفوری طور پر طبی امداد ۔۔۔“ اس کےالفاظ پورےہونےسےپہلےمانیا نےکرنل رائےپر ریوالور تانےکیپٹن آدیش کی طرف نظر اٹھائی۔ مگر اس سےپہلےکہ وہ کچھ کہتا ‘ سرمد کی نگاہ روتی ہوئی ریحا پرپڑ گئی۔
    ”ارےتم۔۔۔ ریحا۔۔۔“ وہ مسکرایا۔ ”چلو اچھا ہوا۔ سب اپنےاکٹھےہو گئی۔“ اس کی آوازمیں نقاہت بڑھتی جا رہی تھی۔
    ”یہاں سےانہیں اس حالت میں باہر لےجانا ممکن نہیں ہےدیدی۔“ کیپٹن آدیش نےبیچارگی سےکہا۔
    ”ہاہاہا۔۔۔ ہاہاہاہا۔۔۔ہاہاہا۔۔۔“ اسی وقت کرنل رائےکےحلق سےقہقہہ ابل پڑا۔ ”یہاں سےتم لوگ زندہ واپس نہیں جا سکو گی۔۔ ۔ اور کیپٹن آدیش۔۔۔ تمہیں تو میں کتےکی موت ماروں گا۔“اس کی قہر آلود نظریں آدیش پر چنگاریاں برسانےلگیں‘ جس نےاسےریوالور کےاشارےپر دیوار سےلگ کر کھڑا ہونےپر مجبور کر دیا تھا۔
    جواب میں آدیش خاموش رہا تو اس نےنظروں کا ہدف سوجل کو بنا لیا۔ ” تم ریوالور ہاتھ میں لئےچپ چاپ کھڑی ہو۔ اس سےصاف ظاہر ہےتم بھی ان کےساتھ ہو۔ ایک ہندو پتنی اپنےپتی کےدشمنوں سےمل کر اسےمارنےکےدرپےہی۔بچ تم بھی نہیں سکو گی سوجل۔“ وہ دانت پیستےہوئےخاموش ہو گیا۔سوجل اسےسرد نظروں سےگھورتی رہ گئی۔
    ”سرمد۔۔۔“ طاہر بےچین ہواجا رہا تھا۔”کچھ کرو مس مانیا۔ کیپٹن آدیش۔“
    ”ماما۔ “ اچانک ریحا اٹھی اور ماں کی طرف بڑھی۔”ماما۔ اسےبچا لو ماما۔ اسےبچا لو۔ میرےسرمد کو بچا لو۔“
    ”مجھےکچھ سوچنےدو ریحا۔“ سوجل نےاسےسینےسےلگا لیا۔
    ”گھبرائو نہیں طاہر۔“ سرمد نےاس کےہاتھوں میں دبا اپنا ہاتھ سینےپر رکھ لیا۔ اس کی بار بار بند ہوتی آنکھیں اور چھل چھل بہتا خون طاہر کو اس کی لمحہ بہ لمحہ قریب آتی موت کی خبر دےرہےتھی۔”میں جانتا ہوں میرےجانےکاوقت آ چکا ہی۔“ وہ ہولےہولےبولا۔ ”یہ تو پگلی ہی۔ میری تکلیف سےدیوانی ہوئی جا رہی ہی۔نہیں جانتی‘ میں نےکس مشکل سےاپنی منزل پائی ہی۔ اب تم لوگ مجھےدوبارہ کانٹوں میں مت گھسیٹو یار۔“
    ”سرمد۔ ۔۔“ طاہر سسک کر بولا۔اسی وقت ریحا ان کےقریب لوٹ آئی۔ مانیا نےپرےہو کر اسےجگہ دی تو وہ سرمد کا دوسرا ہاتھ تھام کر فرش پر گھٹنےٹیک کر بیٹھ گئی اور اسےپاگلوں کےاندازمیں تکنےلگی۔بار بار وہ ہچکی لیتی اور معصوم بچوں کی طرح سسکی بھر کر رہ جاتی۔
    ”اچھا طاہر۔۔۔ میرےبھائی۔ میرےدوست۔۔۔ اب جانےکا لمحہ آن پہنچا۔ میرےپاپا کا خیال رکھنا۔ اگر ہو سکےتو مجھےپاکستان لےجانا۔اور اگر ایسا ہو سکا تو میرےپاپاسےکہنا کہ میں نےاپنا وعدہ پورا کر دیا۔ میں عمرےکےبعد لندن واپس نہیں گیا ۔ پاکستان آیا ہوں۔ بس ذرا سفر طویل ہو گیا۔ میں نےانہیںدُکھ دیا ہےطاہر۔ بہت دُکھ دیا ہی۔ میری طرف سےان سےمعافی مانگ لینا۔“ وہ آنکھیں بند کر کےہانپنےلگا۔
    طاہر اس کا ہاتھ ہونٹوں سےلگائےخاموشی سےسنتا رہا۔ اس کی برستی آنکھیں اس کےجذبات کا آئینہ تھیں۔
    ”ریحا۔۔۔ “ ذرا دیر بعد اس نے آنکھیں کھولیں۔ ”میں تم سےکیا ہوا کوئی وعدہ نبھا نہیں سکا ۔ برا نہ ماننا۔ وقت ہی نہیں ملا۔“
    ”سرمد۔۔۔“ ریحا پچھاڑکھا کر رہ گئی۔ کیسی بےبسی تھی کہ وہ اسےبچا نےکی اک ذرا سی بھی کوشش نہ کر سکتےتھی۔ بیچارگی نےانہیں چاروں طرف سےگھیر لیا تھا۔زخمی ہاتھ بغل میں دبائےکرنل رائےان کی حالت سےلطف اندوز ہو رہا تھا۔ اسےاپنےانجام کی کوئی فکر نہ تھی۔ وہ سمجھتا تھا کہ جلد یا بدیر وہ سب اس کےرحم و کرم پر ہوں گی۔
    ”کچھ اور کہو سرمد۔“ اچانک طاہر نےاسےاپنی طرف متوجہ کر لیا۔ اس کا لہجہ بیحد عجیب ہورہا تھا۔مانیا نےچونک کر اسےدیکھا۔
    ”کیا کہوں طاہر ۔ کچھ کہنےکو بچا ہی نہیں۔“ نقاہت سےاس کی آواز ڈوب گئی۔”ہاں۔ ایک کام ہےاگر تم کر سکو۔“
    ”کہو سرمد۔ میری جان ۔“ طاہر بیتاب ہو گیا۔
    ”یہ۔۔۔“ اس نےاپنی اوپری جیب کی طرف اشارہ کیا۔ ” اس جیب میں میرے آقا کےدیار کی خاک ہی۔ اسےمیری قبر کی مٹی میں ملا دینا۔ جنت کی مہک میں سانس لیتا رہوں گا قیامت تک۔ کر سکو گےایسا؟“
    ”کیوں نہیں سرمد۔“ طاہر نےاس کےسر کےبالوں کو چوم لیا۔” ایسا ہی ہو گا۔ مگر کچھ اور بھی ہےسرمد جو تم بھول رہےہو ۔“ طاہر نےاس کےگال پر ہاتھ رکھ دیا۔ ”ایک ہستی اور ہےجس کےلئےتمہارا پیغام میں امانت کی طرح پلکوں پر سجا کر لےجا سکتا ہوں۔“
    ”شش۔۔۔“ سرمد نےاس سےہاتھ چھڑایا اور ہونٹوں پر رکھ دیا۔”کبھی ایسا خیال دل میں بھی نہ لانا طاہر۔ میرےلئےوہ نام اتنا پرایا ہےکہ میں اسےزبان پر لائوں گا تو اللہ کا مجرم ٹھہروں گا۔اتنا محترم ہےکہ اس کےباعث اللہ نےمجھےاپنےحضور طلب فرما لیا۔ اور کیا چاہئی؟ کچھ نہیں ۔ کچھ نہیں۔ “ پھر اس نےنظروں کا محور کرنل رائےکو بنا لیا۔ ” شرک کےاس پتلےنےمجھےاپنےاللہ سےبرگشتہ کرنےکےلئےریحا سےلےکر آزادی اور دولت کا جو لالچ دیا ‘ وہ کسی بھی سرمد کو بہکانےکےلئےکافی تھا مگر میں اس پکار کا کیا کروں طاہر جو میرےرگ وپےمیں خون بن کر دوڑتی ہی۔ قل ۔۔۔ ھواللہ۔۔۔ احد۔“ اچانک سرمد کی سانس اکھڑ گئی۔
    ”سرمد۔۔۔“ طاہر اور ریحا اس پر جھک گئی۔ ” بس طاہر۔ بس ریحا۔ الوداع۔۔۔“ اس کی آنکھیں پتھرانےلگیں۔جسم میں ایک دم تیز حرارت کی لہر دوڑ گئی۔”میرےاللہ گواہ رہنا۔ میں نےعشاق کا نام بدنام نہیں ہونےدیا۔ ۔۔ یہ تیری دی ہوئی توفیق ہی۔ تیرےحبیب پاک اور میرے آقا کا صدقہ ہی۔قل ھواللہ احد۔“ اس کی آنکھیں مند گئیں۔
    ”سرمد۔۔۔“ طاہر نےاس کا ہاتھ دونوں ہاتھوں میں لےکر دبایا۔
    ”سرمد۔۔۔“ ریحا اس کےچہرےپر جھک گئی۔
    ”قل ھواللہ احد۔ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔“ اس کی آواز بلند ہوئی۔
    ”صلی اللہ علیہ وسلم۔“ سرمد کےہونٹ مسکرانےکےانداز میں وا ہوئی۔
    ”صلی اللہ علیہ وسلم۔“ مسکراہٹ مہک اٹھی۔ ایک دم کمرےمیں خوشبو کےجھونکوں داخل ہوئی۔ سرمد کی نظریں اپنےسامنےدیوار کی جانب یوں جم گئیں جیسےوہ کسی کو دیکھ رہا ہو۔ مگر کسی؟ کسےدیکھ رہ ا تھا وہ جس کےدیدار نےاس کی آنکھوں میں مشعلیں روشن کر دی تھیں۔ چہرےپر عقیدت و احترام کی سرخیاں جھلملا دی تھیں۔ ایک گہرا سانس ¾ اطمینان بھرا سانس اس کےہونٹوں سےخارج ہوا۔لرزتےہوئےدونوں ہاتھ آپس میں کسی کو تعظیم دینےکےانداز میں جُڑ ی۔۔۔ ”صلی اللہ علیہ وسلم “ لبوں پر مہکا اور سرمد کےمسکراتےہونٹ ساکت ہو گئی۔
    خوشبوان کےگرد لہراتی رہی۔ سرمد کو لوریاں دیتی رہی ۔ اور وہ سو گیا۔کسی ایسےمعصوم بچےکی طرح جسےاس کا من پسند کھلونا مل جائےاور وہ اسےباہوں میں لےکر نیند کی وادیوں میں اتر جائی۔
    پھر یوں ہوا کے درد مجھے راس آ گیا

  7. #56
    Mohammad Sajid's Avatar
    Mohammad Sajid is offline * خاک نشین *
    Join Date
    Mar 2008
    Location
    Hijr
    Posts
    152,881
    Mentioned
    108 Post(s)
    Tagged
    8578 Thread(s)
    Rep Power
    21475005

    Default Re: Ishq Ka Qaaf

    کمرےمیں عجیب سا سکوت طاری تھا۔
    کرنل رائےاس انوکھی مہک کے آنے‘ کمرےمیں پھیلنےاور پھر آہستہ آہستہ ناپید ہو جانےکا گواہ تھا مگر ذہنی کج روی اور فطری ہٹ دھرمی اسےاس کےاقرار سےروک رہی تھی۔
    طاہر نےدھیرےسےسرمد کو باہوں میں اٹھایا اور میز پر لٹا دیا۔ کیپٹن آدیش اب بھی کرنل رائےکو کور کئےکھڑا تھا‘ مگر اس کےرخساروں پر آنسو کیوں بہہ رہےتھی۔ وہ خود نہ جانتا تھا۔ یا شاید جانتا تھا‘ بتا نہ سکتا تھا۔
    دل گرفتہ مانیا نےریحا کو سنبھالنےکی کوشش کی مگر وہ ہاتھ چھڑا کر لڑکھڑاتےقدموں سے آگےبڑھی اور میز سےنیچےلٹکتےسرمد کےپیروں سےجا لپٹی۔ خون آلود‘ زخم زخم پیروں کو بوسےدیتی دیتی وہ میز کےساتھ ماتھا ٹکا کر یوں بےسدھ ہو گئی کہ سرمد کےدونوں پائوں اس کےسینےکےساتھ بھنچےہوئےتھی۔
    سوجل ویرا ن ویران آنکھوں سےریحا اور سرمد کو دیکھتی رہی۔ پھر اس کی نظر کرنل رائےپر آ کر جم گئی۔
    ”بہت دیر ہو گئی کرنل رائی۔“ اچانک اس نےبڑی سرد آواز میں کہا تو کرنل رائےاس کی جانب متوجہ ہوا۔دونوں کی نظریں ملیں۔ نجانےکیا ہوا کہ کرنل نےگھبراکر نظریں پھیرلیں۔
    ”نظریں نہ چرائو کرنل۔ میں صرف ایک سوال کا جواب چاہتی ہوں۔راکیش کا قتل تم نےکرایا تھا؟ہاں یا نہیں۔ “
    کرنل رائےنےپھر چونک کر اس کی جانب دیکھا۔
    ”ہاں یا نہیں؟“ سوجل نےاس کا ریوالور اسی پر تان لیا۔
    ”تم پاگل ہو سوجل۔“ گھبرا کر کرنل رائےنےکہا۔
    ”ہاں یا نہیں کرنل۔“ سوجل نےٹریگر پر انگلی رکھ دی۔
    ”میں اسےکیسےقتل کرا سکتا تھا سوجل۔ میری اس سےکیا دشمنی تھی؟“ اس کی آواز میں خوف ابھر آیا۔
    ”دشمنی کا نام سوجل ہےکرنل رائی۔ آج میں اس دشمنی ہی کو ختم کر دوں گی مگر اپنےراکیش کےپاس جانےسےپہلےجاننا چاہتی ہوں کہ تم گناہ گار ہو یا بےگناہ؟“
    ”میں بےگناہ ہوں سوجل۔“ زخمی ہاتھ اٹھا کر حلف دینےکےانداز میں کرنل رائےنےجلدی سےکہا۔
    ”بہت بزدل ہو تم کرنل رائی۔“ سوجل کےہونٹوں پر بڑی اجڑی اجڑی مسکراہٹ ابھری۔” آخری وقت میں بھی جھوٹ بول رہےہو۔“
    ” آخری وقت؟“ ہکلا کر کرنل رائےنےکہا۔
    ”ہاں۔“ تم راکیش کےقاتل ہو‘ یہ بات تم مان لیتےتو شاید میں تمہیں زندہ چھوڑ دیتی مگر۔۔۔“
    ”اگر ایسی بات ہےتو میں اقرار کرتا ہوں سوجل کہ میں نےراکیش کا قتل کرایا تھا مگر صرف تمہاری محبت کےسبب۔ میں تمہارےبغیر نہیں رہ سکتا تھا سوجل۔ اسی لئےمیں نےراکیش کو راستےسےہٹا دیا۔ “
    ”شکر ہےبھگوان کا۔“ سوجل نےایک پل کو آنکھیں بند کیں اور دھیرےسےکہا۔ پھر آنکھیں کھولیں اور کرنل رائےکی جانب بڑی سرد نگاہی سےدیکھا۔
    ”اب تو تم مجھےنہیں مارو گی سوجل؟“ اس نےلجاجت سےپوچھا۔
    ”تم نےمیری پوری بات سنےبغیر ہی اپنےجرم کا اقرار کر لیا رائی۔‘ ‘سوجل بڑےٹھہرےہوئےلہجےمیں بولی۔” میں کہہ رہی تھی کہ شاید میں تمہیں زندہ چھوڑ دیتی مگر ۔۔۔ تم نےمیرےراکیش کی نشانی‘ میری بیٹی ریحا کی زندگی کی سب سےبڑی خوشی چھین کر اپنا قتل مجھ پرلازم کر لیا ہے۔“
    پھر اس سےپہلےکہ کوئی کچھ سمجھ سکتا‘ پےدر پےچھ دھماکےہوئے۔ کرنل رائےکا گول مٹول جسم اچھل اچھل کر گرتا رہا۔ چوتھےفائرپر اس نےدم توڑ دیا مگر سوجل نےریوالور خالی ہونےپر ہی انگلی کا دبائو ٹریگر پر ختم کیا۔حیرت زدہ ‘ ڈرےہوئے‘ فرش پر آڑےترچھےلہولہان پڑی‘ کرنل رائےکی بےنور آنکھیں سوجل پر جمی ہوئی تھیں‘ جس کا ریوالور والا ہاتھ بےجان ہو کر پہلو میں لٹک گیاتھا۔ کسی نےاپنی جگہ سےحرکت کی نہ اسےروکنا چاہا۔
    دھماکوں کی بازگشت ختم ہوئی تو کیپٹن آدیش نےبھی غیر شعوری انداز میں ریوالور ہاتھ سےچھوڑ دیا۔ لڑکھڑایا اور دیوار سےجا لگا۔
    طاہر میز پر دونوں ہاتھ ٹیکےسر جھکائےسسک رہا تھا۔ پھر مانیا آئی اور اس کےشانےپر سر رکھ کر رو دی۔ سوجل تھکےتھکےانداز میں آگےبڑھی اور ایک کرسی پر گر کر دونوں ہاتھوں میں چہرہ چھپا کر بیٹھ گئی۔ کیپٹن آدیش کی سسکیاں ‘ طاہر اور مانیا کا ساتھ دےرہی تھیںاور ریحا ‘ سرمد کےپیروں سےلپٹی خاموش بیٹھی تھی۔
    ٭
    کتنی دیر گزری‘ کسی کو اس کا احساس نہیں تھا۔
    وہ سب چونکےتو اس وقت جب اچانک سیل کی سیڑھیاںبھاری اور تیز تر قدموںکی دھڑدھڑاہٹوں سےگونج اٹھیں۔پھر اس سےپہلےکہ وہ سنبھلتی‘ کتنی ہی لوہےکی نالیاں انہیں اپنےنشانےپر لےچکی تھیں۔وہ سب اپنی اپنی جگہ ساکت رہ گئی۔
    طاہر نےان کی جانب دیکھا۔وہ تعداد میں بیس سےکم نہ تھی۔ کچھ کمرےمیں اور باقی کاریڈور میں پھیلےہوئےتھی۔ ان کےجسموں پر فوجی وردیاں اور سرو ں پر سفید رومال بندھےتھی۔ وہ یقیناً بھارتی فوجی نہیں تھی۔
    سب سےاگلا شخص‘ جو اُن کا لیڈر لگتا تھا‘ اس کی عقاب جیسی نگاہوں نےایک ہی بار میں پورےکمرےکا جائزہ لےلیا۔مردہ کرنل رائےکو دیکھ کر وہ ایک پل کوحیران ہوا ‘ پھر اس کی نگاہیں میز پر پڑی سرمد کی لاش پر آ کر جم گئیں۔ ایک پل کو اس کی نظروں میں اضطراب نےجنم لیا پھر وہ تیزی سے آگےبڑھا۔ سرمد کو بےحس و حرکت پا کر اس کےچہرےپر مایوسی چھا گئی۔
    ”ہمیں دیر ہو گئی۔“ آہستہ سےوہ بڑبڑایا۔ پھر اس کی نگاہوں میں آگ سی دہک اٹھی۔
    ”یہ۔۔۔“ اس نےسرمد کی جانب اشارہ کیا اور تھرتھراتی آواز میں کہا۔ ” کس نےجان لی اس کی؟“اس کا سوال سب سےتھا۔
    ”سب کچھ بتایا جائےگا ۔ پہلےتم بتائو ۔ تم کون ہو؟“طاہر نےاسےاپنی جانب متوجہ کر لیا۔
    ”تم مجھےان میں سےنہیں لگتی۔“ وہ طاہر کی طرف پلٹا۔
    ”تم بھی مجھےاپنوں میں سےلگتےہو۔ میرا نام طاہر ہی۔ اب تم بتائو۔ کون ہو تم؟“ طاہر اس کےقریب چلا آیا۔
    ”یہ بتانےکا حکم نہیں ہی۔ تم کہو اس کےکیا لگتےہو؟“
    ”یہ بھائی ہےمیرا۔“ طاہر نےسرمد کی طرف بڑےدرد بھرےانداز میں دیکھا۔” اسےڈھونڈ تو لیا مگر بچا نہ سکا۔“
    ”غم نہ کرو۔“ اس نےطاہر کےشانےکو گرفت میں لےکر اس کی آنکھوں میں دیکھا۔ ”وہ شہید ہوا ہی۔۔۔ شہید۔۔۔“ آنکھیں بند کر کےاس نےایک گہرا سانس لیا۔ ”کاش اس کی جگہ میں ہوتا۔“ اس کےلہجےمیں حسرت در آئی۔
    ”یہ باقی سب کون ہیں اور اس کتےکو کس نےمارا؟“اس نےنفرت سےفرش پر پڑےکرنل رائےکو دیکھا۔
    ”یہ سب اپنےہیں۔ “ طاہر نےکیپٹن آدیش سمیت سب کی گواہی دی۔ ” اور اسی۔۔۔“ اس کی نظر کرنل رائےکی لاش تک پہنچی۔
    ”میں نےمارا ہےاسی۔“ اچانک سوجل بول اٹھی۔ ”اس کی بیوی ہوں میں۔“
    ”مگر تم تو کہہ رہےتھےیہاں سب اپنےہیں۔“ وہ حیرت سےطاہر کی جانب مڑا۔
    ”ہاں۔ میں نےسچ کہا ہی۔“ طاہر نےپھر کہا۔ ”صرف ایک ہی بیگانہ تھا یہاں۔“ اس نےکرنل رائےکی جانب اشارہ کیا۔
    ”ہمارےپاس بحث کرنےکا وقت ہےنہ عورتوں پر ہاتھ اٹھانا ہمارا مسلک ہی۔ ہم سرمد کو لینے آئےتھی۔ لےکر جا رہےہیں۔ تم میں سےجو ساتھ چلنا چاہی‘ چل سکتا ہی۔“ وہ سپاٹ لہجےمیں بولا۔ ”مگرکسی غیر مسلم کو ہم ساتھ نہیں لےجا سکیں گی۔“
    ”سرمد کا کوئی رشتہ دار غیر مسلم نہیں ہو سکتا۔ “ طاہر نےاس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں۔”میں اس کا بھائی ہوں۔ یہ ۔۔۔“ اس نےریحا کی جانب اشارہ کیا جو سرمد کےپیروں سےلپٹی ویران ویران نگاہوں سےانہیں دیکھ رہی تھی۔ ۔۔” یہ اس کی منگیتر ہی۔۔۔ اور یہ ۔۔۔“ اس نےکیپٹن آدیش کی طرف ہاتھ اٹھایا۔
    ”میں سرمد کا دوست ہوں ۔ یہ وردی ان میں شامل ہونےکےلئےضروری تھی۔“ اس نےسر سےکیپ اتاری اور دور پھینک دی۔پھر شرٹ بھی اتار ڈالی۔ اب وہ سیاہ جرسی اور خاکی پینٹ میں تھا۔
    بےاختیار طاہر کےلبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ اس نےبازو دراز کیا۔ آدیش لپک کر آیا اور اس کےپہلو میں سما گیا۔وہ بچوں کی طرح سسک رہا تھا۔
    ”اور یہ میری دوست ہیں۔ مس مانیا۔ ان کی وجہ سےہم یہاں تک پہنچ پائی۔“ طاہر نےکہا تو مانیا اس کےدوسرےبازو سے آ لگی۔
    ”رہی میں تو میں تم لوگوں کےساتھ نہیں جا رہی۔“ اسی وقت سوجل نےاپنی جگہ سےاٹھ کر کہا۔ ”میں اپنےانجام سےبےخبر نہیں ہوں۔ تم لوگ سرمد کی منگیتر کو لےجائو۔ “
    آہستہ سےریحا اٹھی اور ماں کےسینےسےلگ گئی۔
    ”ستی ہو جانا اگر ان کےمذہب میں جائز ہوتا ریحا تو میں خود تجھےاس کےلئےسجا سنوار کر تیار کرتی مگر یہ بڑا پیارا دین ہی۔ تجھےیہ لوگ زندہ بھی رکھیں گےتو اس طرح جیسےپلکوں میں نور سنبھال کر رکھا جاتا ہی۔ ان کےساتھ چلی جا۔ سرمد کی سمادھی پر روزانہ پھول چڑھاتےسمےمجھےیاد کر لیا کرنا۔ میں جس حال میں بھی ہوئی‘ تیرےلئےپرارتھنا کرتی رہوں گی۔“ سوجل کی طویل سرگوشی نےاسےکچھ بھی کہنےسےروک دیا۔ وہ ماں سےالگ ہوئی تو سوجل نےاس کےماتھےاور گالوں کےپےدر پےکتنےہی بوسےلےڈالی۔پھر بھیگی آنکھوں سےطاہر کی طرف دیکھا۔ مانیا آگےبڑھی اور اسےباہوں میں لےلیا۔
    ”تو چلیں؟“ لیڈر نےطاہر کی جانب سوالیہ نظروں سےدیکھا۔جواب میں اس نےاثبات میں سر ہلا دیا۔”اوکی۔“ اس نےساتھیوں کو اشارہ کیا۔
    دو جوانوں نےسرمد کی لاش کو بڑی احتیاط سےکندھوں پر ڈالا اور سب سےپہلےباہر نکلی۔ پھر باقی کےلوگ بھی تیزی سےچل پڑی۔ چند لمحوں کےبعد سیل کےکھلےدروازےسےسیٹی کی آواز سنائی دی۔ سب سےپہلےطاہر‘مانیا‘ ریحا اور آدیش باہر نکلی۔ آخر میں لیڈر نےباہر قدم رکھنےسےپہلےپلٹ کر دیکھا۔ شیشےکےکمرےمیں سر اٹھائےکھڑی سوجل اسےایسی قابل احترام لگی کہ اس نےبےاختیار اسےماتھا چھو کر سلام کیا۔ جواب میں سوجل کےہونٹوں پر جو مسکراہٹ ابھری ‘ اس میں صرف اور صرف آسودگی کروٹیں لےرہی تھی۔
    ٭
    جس ٹرک میں سرمد کی لاش پوری احتیاط سےرکھی گئی وہ کوٹھی کےمین گیٹ سےکچھ ہٹ کر اندھیرےمیں کھڑا تھا۔ٹرک انڈین آرمی کا تھا اس لئےکسی خطرےکا امکان نہیں تھا۔
    ”اوکےدیدی۔“ آدیش اس سےگلےملا۔ ” زندگی رہی تو پھر ملیں گی۔“
    ”راکھی باندھنےخود آیا کروں گی تجھی۔ میرا انتظار کیا کرنا۔“ وہ نم آنکھوں سےاسےدیکھ کر بولی۔ آدیش جواب میں ہونٹ دانتوں میں داب کر رہ گیا۔
    ریحا سےگلےمل کر اس نےسوائےاس کا ماتھا چومنےکےکچھ نہ کہا۔ آخر میں وہ طاہر کی طرف بڑھی۔ دونوں نےہاتھ ملایا۔
    ”اپنا پاسپورٹ مجھےدےدیں مسٹر طاہر۔ میں نہیں چاہتی کہ آپ کسی بھی طرح قانون کی زد میں آئیں۔ میں آپ کےباضابطہ پاکستان روانہ ہونےکی کارروائی کےبعد اسے آپ تک پہنچا دوں گی۔“
    کچھ کہےبغیر طاہر نےجیب سےاپنا پاسپورٹ نکالا اور اسےتھما دیا۔ پھر ہوٹل کےکمرےکی چابی بھی اس کےحوالےکر دی۔
    ”میں شکریہ اد کر کےتمہاری توہین نہیں کرنا چاہتا مانیا۔“ وہ آپ اور مس ‘ دونوں تکلفات سےدور ہو کر بولا۔”ہاں۔ میری کسی بھی قسم کی مدد کی ضرورت ہو تو ۔۔۔“
    ”میں کبھی جھجکوں گی نہیں طاہر۔“ وہ بھی مسکرائی۔ دیواریں گریں تو اپنائیت کا چہرہ صاف صاف دکھائی دینےلگا۔
    ”اوکی۔ گڈ بائی۔“طاہر نےاس کا ہاتھ دوبارہ تھاما اور دبا کر چھوڑ دیا۔
    ”گڈ بائی۔“ ان کےٹرک میں سوار ہو جانےکےبعد وہ تب تک وہاں کھڑی رہی جب تک ان کا ٹرک نظر آتا رہا۔ پھر تھکےتھکےقدموں سےاپنی گاڑی کی طرف بڑھ گئی۔
    ٭
    ”میرا نام جاوداں صدیقی ہی۔“ اس نےٹرک میں ڈرائیور کےساتھ بیٹھےطاہر کو بتایا۔ ”کمانڈر کا حکم تھا کہ آج رات سرمد کو اس ٹارچر سیل سےبہر صورت نکال لیا جائی۔ دراصل ہمیں بڑی دیر میں پتہ چلا کہ سرمد یہاں ہےورنہ ۔۔۔“ وہ ہونٹ کاٹنےلگا۔ ”مگر شہادت اس کی قسمت میں تھی۔ خوش نصیب تھا وہ۔ کاش ہم بھی یہ مقام پا سکیں۔“
    ” آپ کچھ بتا رہےتھی۔“ وہ کچھ دیر خاموش رہا تو طاہر نےاسےیاد دلایا۔
    ”ہاں۔“ وہ آہستہ سےچونکا۔ ” ہمیں گارڈز پر قابو پانےمیں کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔ کل ملا کر دس بونےتو تھےوہ۔ ہم نےایک ہی ہلےمیں انہیں موت کی نیند سلا دیا۔ ٹارچر سیل کا دروازہ بھی توڑنا نہ پڑا ۔ کھلا مل گیا مگر آپ لوگوں کو وہاں دیکھ کر حیرت ضرور ہوئی۔“
    ”بس ۔ یہ ایک طویل قصہ ہی۔ “ طاہر نےبات گول کر دی۔ ”اب ہم جا کہاں رہےہیں؟ کیا آپ بتانا پسند کریں گی؟“
    ”جہاں کمانڈر کا حکم ہو گا وہاں آپ کو پہنچا دیا جائےگا۔“ جاوداں نےمحتاط لہجےمیں کہا۔ ”ابھی کچھ دیر میں اس کی کال آنےوالی ہی۔“
    جونہی ٹرک نےکشمیر روڈ کا ساتواں سنگ میل عبور کیا‘ جاوداں صدیقی کی جیب میں پڑےسیٹ پر بزر نےاشارہ دیا۔ اس نےفوراً سیٹ نکالا اور رابطہ قائم کیا۔
    ”یس۔ جاوداں بول رہا ہوں خانم۔“
    ”کیا رہا؟“ دوسری جانب سےبڑی شیریں مگر تحکم آمیز آواز سنائی دی۔
    ”سرمد شہید ہو گیا خانم۔“ جاوداں نےاداسی سےجواب دیا۔
    ”تو اداس کیوں ہوپگلے؟ کل ہمارےحصےمیں بھی یہ اعزاز آئےگا۔“خانم نےبڑےجذبےسےکہا۔
    ”انشا ءاللہ خانم۔“ جاوداں نےجلدی سےکہا۔ پھر اس نےٹارچر سیل کی ساری کارروائی خانم کو بتائی۔
    ”اس کی لاش کہاں ہی؟“
    ”ہم ساتھ لا رہےہیں خانم۔“
    ”کمانڈر کا حکم ہےکہ سرمد اور اس کےساتھیوں کو مظفر آباد کےراستےپاکستان پہنچا دیا جائےمگر اس سےپہلےدریائےنیلم کےدوسرےگھاٹ پر سرمد کی لاش کو پورےاہتمام کےساتھ تابوت کیا جائی۔“
    ” جی خانم۔ ایسا ہی ہو گا۔“
    ”اوکی۔ تم خود رابطہ اس وقت کرو گےجب اس کےسوا کوئی چارہ نہ رہی۔“
    ”میں سمجھتا ہوں خانم۔“
    ”عشاق۔ “ دوسری جانب سےکہا گیا۔
    ”عزت کی زندگی یا شہادت۔“ جاوداں کےلبوں سےنکلااور دوسری طرف سےبات ختم کر دی گئی۔ طاہر ہمہ تن گوش بنا سن رہا تھا کہ اسے آخری لفظ نےچونکا دیا۔ ”عشاق “ کا لفظ سرمد کےہونٹوں سےبھی نکلا تھا۔
    ”جاوداں ۔ آپ پلیز بتائیںگےکہ یہ عشاق کیا ہی؟“ اس نےجاوداں کی طرف دیکھا جو ونڈ سکرین سےباہر اندھیرےمیں گھور رہا تھا۔
    ”عشاق۔۔۔“ وہ بڑبڑایا۔ ” ہمیں کسی باہر کےفرد پر یہ راز کھولنےکی اجازت نہیں ہےمسٹرطاہر ¾ لیکن آپ کےساتھ سرمد شہید کا ایک ایسا رشتہ ہےجسےمیں نظرانداز نہیں کر سکتا۔ “ وہ چند لمحےخاموش رہا پھر کہا۔ ”عشاق۔۔۔ سرفروشوں کی ایک ایسی تحریک ہےجس کا کمانڈر ‘ خانم اور ہر رکن ‘ جذبہ شہادت سےسرشار ہی۔ ہم لوگ سر پر یہ سفید رومال کفن کی علامت کےطور پر پہن کر نکلتےہیں۔اس کا رکن بننےکےلئےلازم ہےکہ پہلےعمرہ کیا جائی۔ بس اس سےزیادہ میں آپ کو کچھ نہیں بتا سکتا۔“
    ”سرمد بھی تو عمرہ کرنےکےبعد ہی انڈیا آیا تھا۔ تو کیا۔۔۔؟“ طاہر کےدماغ میں ایک سوال نےسر اٹھایا۔پھر وہ جاوداں سےپوچھےبغیر نہ رہ سکا۔
    ”میں اس بارےصرف یہ جانتا ہوں مسٹرطاہر کہ سرمد شہید نےعمرہ پہلےکیا اور تحریک کا رکن بننےکےبارےمیں اس شرط کا اسےبعد میں پتہ چلا۔ یوں لگتا ہےکہ جیسےاسےاللہ اور رسول نےقبولیت کےبعد اس تحریک تک پہنچایا۔ تبھی تو وہ سالوں کا فاصلہ دنوں میں طےکر کےاپنےرب کےحضور حاضر ہو گیا۔“جاوداں نےا س کےپوچھنےپر کہا۔
    طاہر کےلئےاب کوئی بھی دوسرا سوال کرنا بےمعنی تھا۔ اسےسرمد کے آخری الفاظ یاد آئےاور بےاختیار اس کا دل دھڑک اٹھا۔
    ”صلی اللہ علیہ وسلم۔“
    ہاں۔ یہی الفاظ تو تھےاس کےلبوں پر۔عجیب سی رقت طاری ہو گئی اس پر۔ سر سینےپر جھکتا چلا گیا۔ آنکھیں بند ہوئیں تو تصور میں گنبد ِ خضریٰ مہک اٹھا۔غیر اختیاری طور پر اس کےلبوں کو حرکت ہوئی اور ”صلی اللہ علیہ وسلم “ کےالفاظ یوں جاری ہو گئےجیسےبرسوں کا بھولا ہوا سبق اچانک یاد آ جائی۔
    ٹرک رات کےاندھیرےمیں پوری تیزی سےانجانےراستوں پر رواں تھا اور ایک انجانی خوشبو ٹرک کےساتھ ساتھ محو ِ سفر تھی۔ درود کی خوشبو۔ حضوری کی خوشبو۔ قبولیت کی خوشبو۔
    پھر یوں ہوا کے درد مجھے راس آ گیا

  8. #57
    Mohammad Sajid's Avatar
    Mohammad Sajid is offline * خاک نشین *
    Join Date
    Mar 2008
    Location
    Hijr
    Posts
    152,881
    Mentioned
    108 Post(s)
    Tagged
    8578 Thread(s)
    Rep Power
    21475005

    Default Re: Ishq Ka Qaaf

    صبح ہونےسےپہلےدریائےنیلم کےدوسرےگھاٹ پر ٹرک چھوڑ دیا گیا۔ وہاں پہلےسےایک بڑی کشتی میں ساگوان کی لکڑی کا تابوت لئےچار عشاق موجود ملی۔ سرمد کی لاش کو سبز کشمیری شال میں لپیٹ کر تابوت میں رکھا گیا۔ اکیس رائفلوں کی سلامی دی گئی۔ پھر جاوداں صدیقی اور ا س کےساتھی تو وہیں رہ گئےاور چار نئےساتھیوں کےساتھ وہ رات ہونےتک وہیں جنگل میں چھپےرہی۔
    رات کےپہلےپہر اگلا سفر شروع ہوا۔ یہ سفر اسی کشتی میں تھا۔ ان چار عشاق کا کام ہی کشتی کھینا تھا۔ کشتی میں پھل اور خشک میوہ جات موجود تھےجن سےوہ جب چاہتےلذت ِ کام و دہن کا کام لےسکتےتھےمگر بھوک کسےتھی جو ان کی طرف نظر اٹھاتا۔
    ریحا تابوت پر سر رکھے آنکھیں بند کئےپڑی رہتی۔ چار دن میں وہ سوکھ کر کانٹا ہو گئی تھی۔ آدیش سر جھکائےنجانےکس سوچ میں ڈوبا رہتا ۔ ہاں طاہر اس کےہونٹ ہلتےاکثر دیکھتا۔ وہ جانتا تھا کہ وہ کیا پڑھتا رہتا ہی۔ اسےیقین تھا کہ اس کی طرح آدیش بھی ”صلی اللہ علیہ وسلم“ کا اسیر ہو چکا ہی۔
    وہ رات کو سفر کرتےاور دن میں کشتی کنارےپر روک کر لمبی لمبی گھاس میں ‘ یا گھنےدرختوں تلےچھپ کر پڑ رہتی۔سات دن گزر گئی۔ آٹھویں دن صبح کاذب نمودار ہو رہی تھی جب کشتی کنارےپر لگا دی گئی۔ ایک ساتھی نصیر نےبتایا کہ یہاں سے آگےکا سفر انہیں پیدل کرنا ہو گا۔
    تابوت کو دو د و ساتھیوں نےباری باری کندھوں پر لیا اور وہ سب ایک خشک برساتی نالہ عبور کر کےپاکستانی علاقےمیں داخل ہو گئی۔طاہر اور آدیش نےتابوت اٹھانا چاہا تو ان چاروں نےمنت بھرےلہجےمیں کہا کہ ان سےیہ سعادت نہ چھینی جائی۔ مجبوراً طاہر نےتابوت ان چاروں کےحوالےکر دیا اور خود ریحا اور آدیش کےساتھ ان کےپیچھےہو لیا۔
    ”ہم اس وقت کہاں ہیں؟“ چلتےچلتےطاہر نےنصیر سےپوچھا۔
    ”مظفر آباد کے آخری حصےمیں۔ یہاں سےہم وسطی آبادی کی طرف جا رہےہیں۔ شام تک پہنچیں گی۔وہاں سے آپ کو سواری مل سکےگی۔“
    ”ذرا رکئی۔“ اس نےنصیر سےکہا۔ اس کےکہنےپر انہوں نےتابوت ایک ٹیلےپر رکھ دیا اور اس کی طرف سوالیہ نظروں سےدیکھنےلگی۔
    طاہر نےاپنےدماغ میں جنم لینےوالےخیال پر ایک بار پھر غور کیا۔پھر نصیر سےپوچھا۔
    ”نصیر بھائی۔ یہ بتائیےیہاں سےنور پور کس طرف ہی؟“
    ”نور پور۔“ نصیر چونکا۔ ”یہ کیوں پوچھ رہےہیں آپ؟“
    ”اگر آپ کو علم ہےتو بتائیی۔ شاید ہمیں وسطی علاقےکی طرف جانا ہی نہ پڑی۔“طاہر نےنرمی سےکہا۔
    ”سائیاں والا کا رہائشی ہےیہ خادم حسین۔سائیاں والا سےتیسرا گائوں ہےنور پور۔“ نصیر نےاپنےایک ساتھی کی طرف اشارہ کیا۔ ”اس علاقےکےبارےمیں یہ زیادہ بہتر بتا سکتا ہے۔“
    طاہر نےاس کی طرف دیکھا تو وہ بولا۔ ” نور پور کا گائوںیہاں سےپیدل سات گھنٹےکی مسافت پر ہی۔ آج کل وہاں سیلاب کی وجہ سےایک قدرتی نہر بن گئی ہےاس لئےکشتیاں چلنےلگی ہیں۔ ایک گھنٹےکےسفر کےبعد ہم اس عارضی پتن پر پہنچ جائیں گےجہاں سےسائیاں والا اور نور پور کےلئےکشتی مل جائےگی۔“
    ”بس۔۔۔“ اچانک طاہر کےلہجےمیں جوش بھر گیا۔”تو سمجھ لیجئےکہ ہمیں نور پور جانا ہی۔ راستہ بدل لیجئےاور اس پتن کی طرف چل دیجئے۔“
    راستہ بدل دیا گیا۔ ریحا اور آدیش ‘ طاہر کےلہجےسےکسی خاص بات کا اندازہ تو لگا رہےتھےمگر وہ بات کیا تھی؟ یہ انہیں کیا معلوم۔
    ان سےذرا پیچھےرہ کر طاہر نےجیب سےموبائل نکالا اور دھڑکتےدل کےساتھ گھر کا نمبر ملایا۔ اتنےدنوں بعد وہ فون کر رہا تھا اور وہ بھی کیا بتانےکےلئی۔ اس کا دل بھر آیا۔ اس نےدعا کی کہ فون ¾ صفیہ نہ اٹھائی۔ اس کی اللہ نےشاید نزدیک ہو کر سنی۔ دوسری طرف سےبیگم صاحبہ نےفون اٹھایا۔
    ”ہیلو۔ امی ۔ میں طاہر بول رہا ہوں۔“اس نےلہجےپر قابو پاتےہوئےکہا۔
    ”طاہر۔ “ بیگم صاحبہ ایک دم ہشاش بشاش ہو گئیں۔ ” کیسا ہےبیٹی۔ تو نےاتنےدن فون کیوںنہیں کیا؟ یہاں فکر کےمارےسب کی جان عذاب میں آئی ہوئی ہی۔ “
    ”میں بالکل ٹھیک ہوں امی۔ آپ میری بات دھیان سےسنئی۔“ اس نےحلق تر کرتےہوئےبمشکل کہا۔
    ”ٹھہر میں صفیہ کو بلاتی ہوں۔۔۔“
    ”نہیں امی۔ رکئی۔ اسےمت بلائیی۔ میں جو کہہ رہا ہوں اسےغور سےسنئی۔“ طاہر نےجلدی سےکہا۔ ” میں نےاسی لئےموبائل پر فون نہیں کیا کہ مجھےصرف آپ سےبات کرنا ہی۔“
    ”خیر تو ہےناں بیٹا؟“ وہ تشویش سےبولیں۔ گھبراہٹ ان کےلہجےمیں نمایاں تھی۔
    ” آپ ڈاکٹر ہاشمی اور صفیہ کو لےکر نور پور میں بابا شاہ مقیم کےمزار پر پہنچ جائیں۔ ابھی چل پڑیں تو شام تک پہنچیں گی۔ میں آپ سےوہیں ملوں گا۔“
    ”مگر طاہر۔ وہاں کیوںبیٹا؟ تو سیدھا گھر کیوں نہیں آ رہا ؟“ وہ بےطرح گھبرا گئیں۔
    ”میرےکندھوں پر بڑا بوجھ ہےامی۔“ اس کی آواز بھرا گئی۔ ” میں یہ بوجھ لئےگھر تک نہ آ سکوں گا۔ آپ وہیں آ جائیےانکل اور صفیہ کو لےکر۔“
    ”بوجھ؟ کیسا بوجھ؟ “ وہ حیرت سےبولیں۔ ” سرمد تو خیریت سےہے؟ اور وہ تیرےساتھ ہی ہےناں؟“
    ”ہاں امی۔“ اس کی آواز بھیگ گئی۔ ” اسی کو تو کندھوں پر اٹھائےلا رہا ہوں۔“
    ”کیا۔۔۔؟“ بیگم صاحبہ کا دل جیسےدھڑکنا بھول گیا۔
    ”ہاں امی۔ “ وہ بھرائی ہوئی آواز میں کہتا گیا۔ ” وہ بالکل چپ ہو گیا ہی۔ بولتا ہےنہ چلتا ہی۔ خاموش لیٹا ہے۔ تابوت میں۔“ اس کی ہچکی بندھ گئی۔
    ” طاہر۔۔۔“ بیگم صاحبہ کےہاتھ سےریسیور گر پڑا۔
    طاہر نےموبائل آف کیا اور بازو آنکھوں پر رکھ کر سسکیاں بھرنےلگا۔ اس کا دل ایسا رقیق تو کبھی بھی نہ تھا۔ نجانےکیوں آج کل وہ بات بےبات رونےلگتا تھا۔
    ایک گھنٹےکا راستہ چالیس منٹ میں طےہوا۔ عصر اتر رہی تھی جب وہ اس عارضی پتن پر جا پہنچی۔پتن پر اس وقت بھی خاصےمسافر تھے۔ کشتیاں ایک درجن سےزائد موجود تھیں۔طاہر نےایک کشتی والےسےخود بات کی۔
    ”بابا شاہ مقیم تک جانا ہےبھئی۔ چلو گی؟“
    ” کتنےجی ہیں؟“ ملاح نےتابوت کی طرف نگاہ اٹھائی۔ ”اور اس میں کیا ہےجی؟“
    ”پانچ جی ہیں اس تابوت سمیت۔ اور اس میں ۔۔۔‘ ‘ طاہر کا حلق درد کر اٹھا۔ ”اس میں ایک شہید ہی۔“
    ”سو بسم اللہ جی۔ کیوں نہیں چلیں گی۔ آ جائیں جی ‘ آ جائیں۔“ ملاح نےعقیدت سےکہا اور آگےبڑھ کر نصیر اور خادم حسین کےساتھ مل کر تابوت کشتی میں رکھوانےلگا۔
    چاروں عشاق ان دونوں سےبڑی گرمجوشی سےہاتھ ملا کررخصت ہو گئی۔طاہر اور آدیش اگلےحصےمیں جبکہ ریحا تابوت کےپہلو میں بیٹھ گئی۔ ملاح نےجھک کر تابوت کو بوسہ دیااور پتن پر کھڑےاپنےساتھیوں کی طرف منہ کر کےبولا۔
    ”اوئےشیدو۔ گھر پر بتا دینا میں رات دیرسےلوٹوں گا۔“
    ”ارےفیقی۔تو کہاں چل دیا ۔ میں ادھر تیری دیہاڑی لگوانےکی بات کر رہا ہوں۔“ شیدو دو قدم اس کی طرف چلا۔
    ”میرا دیہاڑا لگ گیا ہےری۔“ فیقا ہنسا۔” ایسا دیہاڑا جس میں نفع ہی نفع ہی۔ نصقان ہےہی نہیں جانی۔ اللہ راکھا۔“ اس نےکشتی پانی میں دھکیل دی ۔ پھراچھل کر کشتی میں سوار ہوا اور چپو سنبھال لئی۔سیلاب کا پانی خاصا کم ہو چکا تھا مگر اب بھی کشتی چلنےکےلئےکافی تھا۔
    ریحا نےتابوت پر سر رکھ کر آنکھیں بند کر لیں۔ آدیش پہلو کےبل نیم دراز ہو گیا اور طاہرنےچھل چھل کرتےپانی پر نگاہیں جما دیں۔وہ اپنےاس فیصلےپرغور کر رہا تھا جس کےتحت اس نےاچانک بابا شاہ مقیم کےمزار پر‘ درویش کےپاس جانےکا فیصلہ کر لیا تھا۔ اسےاب تک یہ پتہ نہ چل سکا تھا کہ وہ کون سا احساس تھا جو اس فیصلےکےروپ میں ایک دم اس پر حاوی ہو گیا تھا اور اس نےسوچےسمجھےبغیر اس پر عمل کر ڈالا ۔ وہ کونسی طاقت تھی‘ جس نےاس کا راستہ بدل دیا تھا۔
    اسی وقت ملاح نےتان لگائی اور اس کا دل اچھل کر حلق میں آ گیا۔اس نےدل پر ہاتھ رکھ لیا ۔ ملاح کےلبوں سےنکلنےوالےالفاظ اس کےدل و دماغ میں اودھم مچا رہےتھی۔
    آ یا ماہی میرے ویہڑی
    دُکھ دساں میں کیہڑےکیہڑی
    بولے نہ بولے‘ واری جاواں
    بس رکھے قدماں دے نیڑی
    آیا ماہی میرے ویہڑی
    شام ڈھل چکی تھی نیم اندھیرےجب نور پورکا وہ ٹبہ طاہر کو دور سےدکھائی دےگیا جہاں حافظ عبداللہ روزانہ آ کر منزل کیا کرتا تھا۔ اور ایک عجیب بات اور نظر آئی کہ بابا شاہ مقیم کا مزار روشنیوںمیں ڈوبا ہوا تھا۔ بجلی آ گئی تھی وہاں۔اس نےملاح کو ٹبےکی طرف جانےکو کہا ۔ پھر ٹبےکو غور سےدیکھا تو اسےوہاں کچھ ہلچل محسوس ہوئی۔ اس کا دل سینےمیں زور سےدھڑکا۔ وہاںکوئی موجود تھا۔مگر کون؟ اس کا دل گواہی دےرہا تھا کہ وہاں جو کوئی بھی ہے‘ اس کےلئےاجنبی نہیں ہی۔
    کشتی جونہی ٹبےکےقریب پہنچی‘ اس پر سب روشن ہو گیا۔ وہ درویش ہی تو تھا جو ٹبےسےاتر کر پانی کےکنارےکھڑا باہیں پسارےاسےپکار رہا تھا۔
    ”پگلی۔ آ گیا تو۔۔۔ لے آیا میرےدولہےکو۔ ارےدلہن بھی ہےساتھ میں۔ “ وہ جیسےحیرت سےبولا۔
    آدیش اور ریحا اس کی باتوں پر حیران ہو رہےتھے۔ طاہر سر جھکائی‘ دانت بھینچےاپنے آنسو ضبط کرنےکی کوشش کر رہا تھا۔ نجانےکیوں اس کا جی چاہ رہا تھا وہ چیخ چیخ کر روئی۔ یوں روئےکہ جیسےاسےچپ± کرانےوالا کوئی نہیں رہا۔
    ملاح نےکشتی ٹبےکےپاس روکی۔ پانی میں اترا۔ رسہ کھینچ کر کشتی کنارےپر لگائی۔ طاہر نےکنارےپر قدم رکھا تو درویش نےاسےباہوں میں بھر لیا۔ اس کا ماتھا چوم لیا۔
    ”نہ ری۔ روتا کیوں ہی۔ پگلےکا پگلا ہی رہا۔‘ ‘ وہ اس کا َچہرہ ہاتھوں میں تھام کر بولا۔ ”ارےزندوں کےلئےرونا گناہ ہے۔ جانتا نہیں کیا؟“
    طاہرنےاثبات میں سر ہلایااور ہچکیاں لےکر رو دیا۔ اس کا دل بس میں تھا ہی کب جو وہ درویش کی بات سہہ پاتا۔
    ”بس بس۔ آ‘ اسےکشتی سےاتاریں۔وہ انتظار کر رہاہےہمارا۔“ درویش نےاس کا بازو تھاما اور ملاح کےپاس پہنچا ‘ جو ان کا منتظر کھڑا تھا۔
    ”لا بھئی نصیباں والیا۔ ہماری امانت اتار دے۔“ درویش نےکہا تو ملاح نے”بسم اللہ“ کہہ کر طاہر اور درویش کےساتھ مل کر تابوت کشتی سےاتار کر ٹبےپر رکھ دیا۔ ریحا کو بازو سےلگائےکھڑا آدیش خاموشی سےسب کچھ دیکھتا رہا۔
    طاہر نےخود کو سنبھالا ۔ جیب سےپرس نکالا کہ ملاح نےاس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
    ”سوہنیو۔ ساری کمائی خود ہی کر لو گی۔ کچھ ہمیں بھی کما لینےدو۔“
    طاہر نےملاح کو حیرت سےدیکھا۔
    ”ٹھیک کہتا ہےیہ پگلی۔ “ درویش نےملاح کا شانہ تھپکا۔ ” جا بھئی جا۔ تیری منظوری ہو گئی۔ جا شاواشی۔ موجاں مان۔ دیہاڑا لگایا ہےتو نےدیہاڑا۔جا بال بچےمیں جا۔ “
    ملاح انہیں دعائیں دیتا ہوا رخصت ہو گیا۔ تب ایک دم طاہر کو احساس ہوا کہ ریحا اور آدیش بالکل چپ کھڑےہیں۔
    ”بابا۔ یہ۔۔۔“ طاہر نےان کےبارےمیں بتانا جاہا۔
    ”کچھ کہنےکی ضرورت نہیں۔ آ جا۔ ادھر کتنےہی لوگ کب سےتم سب کا انتظار کر رہےہیں۔ آ جا۔“ درویش نےکہا۔ پھر ریحا کےسر پر ہاتھ پھیرا۔ ” سسرال آ گئی ہےدھی رانی۔ “
    اور نجانےکیا ہوا کہ چیخیں مار کر روتی ہوئی ریحا درویش کےسینےسےلگ گئی۔اس کی ہچکیاں بتاتی تھیں کہ کتنے آنسو تھےجو اس نےسینےمیں روک رکھےتھی۔ آج بند ٹوٹا تو سب کچھ بہا لےگئی۔ صبر‘ قرار‘ چین۔سب کچھ۔
    ”بس بس ۔ میری دھی بس۔ سارے آنسو ابھی بہا دےگی کیا؟ انہیں سنبھال کےرکھ۔ ساری زندگی پڑی ہے۔ کہیں کم نہ پڑ جائیں۔“ وہ اس کا سر تھپکتا رہا۔ آخر ریحا کوسکون آیا۔ تب درویش نےاسےالگ کیا اور آدیش کی طرف دیکھا۔
    ”تو بڑا قسمت والا ہےاللہ والیا۔ چل ۔ آ جا۔ لےچل میرےدولہا کو پنڈال میں۔ آجا۔“
    نم دیدہ آدیش نےطاہرکےساتھ مل کر سرمد کا تابوت اٹھایا اور بابا شاہ مقیم کےمزار کی طرف چل پڑی۔ درویش سب سے آگےاور ریحا ان سب کےپیچھےسر جھکائےچل رہی تھی۔
    مزار کےپاس پہنچےتو طاہر کےقدم من من کےہو گئی۔ اس سےچلنا مشکل ہو گیا۔ آنکھیں ایک بار پھر دھندلا گئیں۔ ہونٹ دانتوں میں دبانےپر بھی پھڑکتےرہی۔ اس کاحلق آنسوئوں سےلبالب ہو گیا۔ درد کی لہر خار بن کر سینہ چیرنےلگی۔
    مزار کےباہر وہ سب کھڑےتھی۔بےحس و حرکت ۔ مجسموں کی طرح ایستادہ۔ ایک دوسرےکو سنبھالا دینےکی کوشش کرتےہوئی۔ مگریہ بتانےکی ضرورت کسےتھی کہ وہ ایک لٹےہوئےقافلےکےمسافر تھی۔

    ٭
    سرمد کا تابوت مزار کےسامنےبرگدکےدرخت تلےرکھ دیا گیا۔وہاں تک مزار کےدروازےپر لگا بلب روشنی دےرہا تھا۔ ارد گرد کی ہر شےصاف دکھائی رہی تھی۔طاہر تابوت رکھ کر سیدھا ہوا تو ڈاکٹر ہاشمی لرزتےکانپتےاس کےشانےسے آ لگی۔
    ”لے آئےمیرےسرمد کو ۔“ ان کےلبوں سےکپکپاتی ہوئی آواز نکلی۔طاہر نےتڑپ کرانہیں اپنےسینےمیں چھپا لیا۔ قابل ِ رشک صحت کےمالک ڈاکٹر ہاشمی کا جسم ایک بیمار بچےکا سا ہو رہا تھا۔ ہڈیوں کا وہ ڈھانچہ اگر ڈاکٹر ہاشمی تھا تو طاہر کےلئےاس پر یقین کرنا مشکل تھا۔
    ”انکل۔۔۔“ وہ ضبط کھو بیٹھا۔
    ”رو لو۔ خوب رو لو۔ “ درویش نےان کےقریب آ کر کہا۔ ” یہ آنسو محبت کےہیں۔ دُکھ کےہیںتو خوب رو لولیکن اگر پچھتاوےکےہیں تو ان کو روک لو۔ گناہ بن جائےگا تمہارا یہ رونا۔ میرےدولہےکےلئےبوجھ نہ بنانا ان آنسوئوں کو۔ “
    ”نہیں بابا۔“ ڈاکٹر ہاشمی طاہر کےسینےسےالگ ہو گئی۔ ” پچھتاوا کیسا؟پھر بھی اولاد تو ہےناں۔“
    ”ہاں۔ اولاد تو ہی۔“ درویش نےڈاکٹر ہاشمی کی آنکھوں میں دیکھا۔ ” مگر کیسی اولاد ہےبابا‘ جس نےتیرا سر دونوںجہانوں میں فخر سےاونچا کر دیا۔ارےکیسا نصیبوں والا ہےتو ۔ کچھ پتہ ہےتجھی؟ آنسو بہا مگر اس خوشی پر بہا کہ اللہ نی‘ اس کےحبیب نےتیری اولاد کو اپنےلیےچُن لیا۔“
    ڈاکٹر ہاشمی اثبات میں سر ہلاتےہوئے آنکھیں خشک کرنےلگی۔ اتنےہی دنوں میں ان کی کمر جھک گئی تھی۔وہ ایک دم بوڑھےہو گئےتھی۔
    اب اس کےسامنےبیگم صاحبہ اور صفیہ کھڑی تھیں۔ بیگم صاحبہ سفید لباس اور سفید چادر میں کوئی پاکیزہ روح لگ رہی تھیں۔ اسےسینےسےلگا کر دل کی پیاس بجھائی۔ ماتھا چوما اور آنسو اپنےپونچھنےلگیں۔
    ”صفو۔“ اس نےروتی ہوئی صفیہ کی جانب دیکھا۔ وہ بلک کر اس کےسینےسےلگ گئی۔
    یہ آنسو کیا کچھ نہ کہہ رہےتھی؟ دونوں سن رہےتھی۔سمجھ رہےتھی۔
    ”طاہر صاحب۔“ ایک آواز سن کر اس نےصفیہ کو خود سےالگ کیااور گردن گھمائی۔ حافظ عبداللہ ‘ سکینہ کےساتھ اس کےبائیں طرف کھڑا تھا۔ طاہر نےاسےبھی گلےلگایا ۔ سکینہ سر جھکائےچپ چاپ کھڑی رہی۔ حافظ عبداللہ نےاپنا لنجا ہاتھ بڑھایا تو طاہر نےاسےدونوں ہاتھوں میں تھام کر چوم لیا اور آنسو بہاتی سکینہ نجانےکیوں مسکرا پڑی۔
    درویش نےسرمد کا تابوت ‘ حافظ عبداللہ کےساتھ مل کر اٹھایا اور آگےلا کر مزار کےپاس پوری طرح روشنی میں رکھ دیا۔ طاہر کےوضو کرکےلوٹ آنےپر درویش نےتابوت کےسرہانےکھڑےہو کر اس کی جانب دیکھا جو اس سےکچھ دور رک گیا تھا۔
    ”پگلی۔ تو نےمجھ سےعشق کےقاف کےبارےمیں پوچھا تھا۔یاد ہےناں؟ “
    ” ہاں بابا۔ “ طاہر نےاس کی جانب دیکھا۔
    ”تو لی۔ آج عشق کےقاف سےبھی آشنا ہو جا۔ ‘ ‘ درویش نے آنکھیں بند کر لیں۔”عشق کا قاف۔ ۔۔تجھےیاد ہےپگلی۔ سرمد کے آخری الفاظ کیا تھی؟“
    ”ہاں بابا۔“ طاہرنے آنکھیں بند کر کےجیسےکچھ یاد کرنا چاہا۔
    ”تو دہرا ذرا ان کو۔“ درویش کی آنکھیں بھی بند ہو گئیں۔ حافظ عبداللہ‘ آدیش اور ڈاکٹر ہاشمی خاموشی بھری حیرت مگر پورےدھیان سےان کی باتیں سن رہےتھی۔سکینہ‘ صفیہ اور ریحا کا بھی یہی حال تھا۔
    ” اس نےکہا تھا۔ قل ھواللہ احد۔۔۔“
    ”تو عشق کا قاف سمجھ میں نہیں آیا اس وقت تجھی؟“ ایک دم درویش نے آنکھیں کھول دیں۔
    ”بابا۔۔۔“ طاہر کا اندر باہر جیسےروشن ہو گیا۔ اس نےایسی نظروں سےدرویش کو دیکھا جن میں حیرت کےساتھ ساتھ ادراک کی لپک بھی تھی۔
    ”ہاں ری۔“ درویش کےہونٹوں پر بڑی پُراسرارمسکراہٹ تھی۔ ” عشق ِمجازی جب انسان کا ہاتھ عشق ِ حقیقی کےہاتھ میں دیتا ہےتو شہادت مانگتا ہےاس کےایک ہونےکی۔ اس کےاحد ہونےکی۔ اس کےلاشریک ہونےکی۔جانتا ہےکیوں پگلی؟“درویش نےاس کی جانب مستی بھری نگاہوں سےدیکھا۔
    ”کیوں بابا؟“ طاہر نےیوںپوچھا‘ جیسےکسی سحر میں گرفتار ہو۔اس کی آواز میں عجیب سا کیف چھلک رہا تھا۔
    ”اس لئےکہ عشق کی انتہا ہےعشق کا قاف۔ وہ جو عشق کا سب سےپہلا مبتلا ہے¾ اس نےجب چاہا کہ خود کو دیکھی‘ تو اس نےاپنےنور سےایک مٹھی بھری اور کہا۔ ”محمد ہو جا۔“ اور جب اس کا اپنا نور مجسم ہو کر اس کےسامنے آ یا تو وہ خود اپنےنور پرعاشق ہو گیا۔اس نےاپنےنور کو اپنا حبیب بنا لیا۔کہا۔ ”میرا حبیب ہو جا۔“پھر دوئی کا تصور تک مٹانےکےلئے‘ اس نےاپنےحبیب سےاپنےہونےکی ‘ اپنےاحد ہونےکی‘ اپنےواحد ہونےکی شہادت چاہی اور کہا۔ ”قل (کہہ دی)۔“
    حبیب نےپوچھا۔ ”کیا کہہ دوں؟“
    محب نےفرمایا۔”قل ھو اللہ احد۔۔۔ کہہ دے¾ شہادت دےکہ اللہ ایک ہی۔“
    حبیب نےشہادت دی اس کی وحدانیت کی۔ اس کےلا شریک ہونےکی۔ اس کےاحد ہونےکی۔اس کےخالق ہونےکی۔ اس کےمعبود ہونےکی۔ اس کی وحدانیت کی گواہی دینا اس کےحبیب کی سب سےپہلی سنت ہی۔
    پھر یوں ہوا کے درد مجھے راس آ گیا

  9. #58
    Mohammad Sajid's Avatar
    Mohammad Sajid is offline * خاک نشین *
    Join Date
    Mar 2008
    Location
    Hijr
    Posts
    152,881
    Mentioned
    108 Post(s)
    Tagged
    8578 Thread(s)
    Rep Power
    21475005

    Default Re: Ishq Ka Qaaf

    پھر جب اس نے آدم کو بنایا تو اس میں عشق کا یہ جذبہ سب سےپہلےودیعت کیا۔ عشق ۔۔۔ اسی خالق ِ واحد کی سنت ہےجسےجو اختیار کرتا ہے‘ اسےپہلےعشق ِ مجازی کی سیڑھی چڑھنا پڑتی ہی۔ عشق کےعین یعنی عبادت ‘ عجز اور عبودیت کےبعد عشق کےشین یعنی شک کی باری آتی ہی۔ تب بندےکو سمجھایا جاتا ہےکہ اپنےخلوص میں‘ اپنےجذب میں ‘ اپنےعشق کی انتہا کےبارےمیں ہر وقت اس شک میں مبتلا رہےکہ ابھی اس میں کچھ کمی ہے۔اس شک سےاپنےعشق کو مہمیز کرتا رہی۔ بتایا جاتا ہےکہ جس سےعشق کیا جاتا ہےاس کی توجہ پانےکےلئے‘ اس کی نظر میں جگہ پانےکےلئےاس کی عزیز ترین شی‘ جس سےوہ خود بےپناہ پیار کرتا ہو‘ کو اپنا حبیب بنا لیا جائی۔ پگلی۔ یہ وہ پڑائو ہےجس کےبعد منزل ہی منزل ہی۔ اللہ کا حبیب جس کےلئےاس نےکائنات یہ کہہ کر بنائی کہ ”اےحبیب ۔ اگر ہم نے آپ کو پیدا نہ کرنا ہوتا تو کچھ بھی نہ بناتی“۔ بندہ اس پڑائو پر اپنےمعبود کےمحبوب کےعشق میں مبتلا ہو جاتا ہی۔ اپنےعشق‘ اپنےجذبی‘ اپنےخلوص میں کمی کا شک انسان کو اس مقام پر لےجاتا ہےجہاں انسان اپنےاللہ کےحبیب کےعشق میں یوں بےخود ہو جاتا ہےکہ سمیعہ جان ہار کر اسلام کی پہلی شہید ہونےکا اعزاز پاتی ہیں ۔ کیوں؟ اس لئےکہ جان دینا قبول کر لیتی ہیں مگر اپنےحبیب کےبارےمیں ناگوار کلمہ زبان پر لانا پسند نہیں کرتیں۔تب اپنےبندےکو اپنےحبیب کےعشق میں مجذوب دیکھ کر محبوب ِبرحق اس کےلئےعشق کا تیسرا پردہ بھی اٹھا دیتا ہےاور ۔۔۔۔ اس مقام پر عشق کا قاف نمودار ہوتا ہی۔ تب بلال ” احد احد “ پکارتا ہی۔ اسےتپتی ریت پر لٹایا جاتا ہی۔ دہکتےانگاروں پر ڈالا جاتا ہی۔ ناک میں نکیل دےکر بازاروں میں گھمایا جاتا ہی۔کانٹوںپر گھسیٹا جاتا ہی۔کوڑوں سےکھال ادھیڑی جاتی ہےمگر۔۔۔ اس کےلبوں سےاحد احد کےسوا کچھ نہیں نکلتا۔۔۔قل ھو اللہ احد۔ ۔۔عشق کا قاف نمودار ہوتا ہےتو حسین کےگلےپر خنجر چلتا ہےمگر احد احد کی پکار ہر قطرہ خون سےبلند ہوتی ہی۔ تن سےجدا ہو جاتا ہےمگر سر نیزےپر آویزاں ہو کر بھی قر آن کی تلاوت کرتا ہی۔ یہ تلاوت وہ پیار بھری ‘ محبت بھری گفتگو ہےجس کا عنوان عشق کا قاف ہی۔ عشق کا قاف جس پر نازل ہو جاتا ہےناں ۔ اسےکسی دُکھ‘ کسی تکلیف کا احساس نہیں رہتا۔ اسےہر درد میں لذت اور ہر چوٹ میں سرور ملتا ہی۔ عشق کےقاف کی مستی ہی ایسی ہےکہ جسےاپنی باہوں میں لےلےاسےاپنےمعبود کےسوا کچھ سوجھتا ہی نہیں۔ اورجسےاس کےسوا کچھ نہیں سوجھتا وہ اس کےحضور مقبول ہونےکےلئےکیا کرے۔ اپنی جان نہ دےدےتو کیا کری؟“ درویش کےلبوں سےچیخ کی صورت ایک نعرہ مستانہ نکلا اور اس نےاپنا گریبان تار تار کر ڈالا۔
    ”بابا۔“ طاہر نےبمشکل پلکیں وا کیں۔ اسےلگ رہا تھا اس کی آنکھوں پر مستی کا ‘ سرور کا‘ کیف کا بےاندازہ بوجھ ہےجو اس سےاٹھائےنہیں اٹھ رہا۔
    ”ہاں۔“ وہ پھر چیخا۔ ” وہ اس پر اپنی جان نہ دےدےتو کیا کری۔ اس سےبڑھ کر اس کےپاس ہےکیا جو وہ اس کی نذر کری۔“ وہ روتا ہوا گھٹنوں کےبل گر پڑا۔
    ”قل ھو اللہ احد۔۔۔ عشق کا قاف۔۔۔ اس کےواحد ‘ محبوب ِ اول اورعزیز ترین ہونےکی شہادت۔ اور شہادت لکھی کس سےجائےگی پگلی۔ خون سی۔ اپنےخون سی۔ زبانی کہہ دینا کیا کافی ہوتا ہی؟ نہیں۔ ہر گز نہیں۔ شہادت دی ہےتو اسےلکھا بھی جائےگا اور عشق ‘ اپنےعاشق کو اپنی دلہن تب مانتا ہےجب سرخ جوڑا پہن کر شہادت دی جائی۔ اپنےخون میں ڈبویا ہوا سرخ جوڑا۔عشق کا قاف۔۔۔ قل ھواللہ احد۔۔۔ اس کی وحدانیت کی گواہی۔ اس کےلاشریک ہونےکی گواہی۔اس کےمحبوب ترین ہونےکی گواہی۔۔۔عشق کا قاف۔۔۔عشق کاقاف۔۔۔عشق کا قاف ۔۔۔“ درویش کہتا ہوا زمین پر سر بسجود ہو گیا۔ ایک لمحےبعد طاہر بھی لہراتا ہو ا اس کےقریب ڈھیر ہو گیا۔
    سب لوگ گونگےبہرےبنےچپ چاپ کھڑےدیکھ رہےتھی۔ سن رہےتھی۔ کسی کےجسم و جان میں اتنی ہمت نہ تھی کہ آگےبڑھ کر ان میں سےکسی ایک کو بھی اٹھاتا۔
    پھر حافظ عبداللہ نےاپنی جگہ سےحرکت کی۔ وہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا ان کےقریب آیا اور جھجکتےجھجکتےدرویش کےکندھےپر ہاتھ رکھا۔پھر گھبرا کر ایک دم اس نےہاتھ کھینچ لیا۔ اسےلگا جیسےاس نےجلتا ہوا انگارہ چھو لیا ہو۔
    اسی وقت درویش کےجسم میں حرکت ہوئی۔ وہ آہستہ سےاٹھا اور اشکوں میں تر اس کا چہرہ دیکھ کر ان کےدل موم کی طرح پگھل گئی۔ ان کا جی چاہا ‘ اس نرم و گداز چہرےکو دیکھتےرہیں۔تکتےرہیں۔
    درویش نےپاس پڑےطاہر کی جانب دیکھا اور اس کی آنکھوں میں بےپناہ پیار امڈ آیا۔ اس نےطاہر کےشانےپر ہاتھ رکھا۔
    ”پگلی۔“ دھیرےسےاس نےپکارا۔ ”ابھی بات باقی ہےری۔ اٹھ جا۔ “
    اور طاہر زمین سےاٹھ گیا۔ اس کا چہرہ۔۔۔ اس کا اپنا چہرہ لگتا ہی نہ تھا۔ عجیب سا نور چھایا ہوا تھا اس پر۔ آنکھیں بڑی مشکل سےکھول کر اس نےدرویش کی جانب دیکھا۔
    ”اٹھ جا ری۔“ درویش نےاس کا ہاتھ پکڑ کر کھڑ اکر دیا۔ ” آ۔ اب آخری بات سمجھا بھی دوں تجھےاور دکھا بھی دوں۔“وہ اس کا ہاتھ تھامےتابوت کےسرہانے آ کھڑا ہوا۔
    ”تم سب لوگ بھی آ جائو۔ کیا اپنےشہید کا ‘ عشق کےقاف کےگواہ کا دیدار نہ کرو گی؟“
    درویش نےکہا تو سب لوگ یوں دبےپائوں چلتےہوئےتابوت کےپاس آگئی‘ جیسےان کی ذرا سی آہٹ سرمد کے آرام میں خلل ڈال دےگی۔حافظ عبداللہ‘ آدیش اور ڈاکٹر ہاشمی درویش کےبالکل سامنےاور سکینہ‘ ریحا ‘بیگم صاحبہ اور صفیہ تابوت کےپیروں کی جانب تھیں۔
    ”وہ جو عشق کا خالق ہی۔ جب اس کا بندہ اس کےعشق کےقاف‘ اس کی وحدانیت کی گواہی اپنےخون سےدیتا ہےناں تو وہ اس کےلئےپہلا انعام تو یہ رکھتا ہےکہ وہ اس سےراضی ہو جاتا ہےاور اسےاپنےحضور اذن ِباریابی دےدیتا ہی۔“ درویش نےایک انگلی اٹھائی۔
    ”دوسرا انعام یہ دیتا ہےکہ اس کی شہادت‘ اس کی گواہی دینےپر اس کےخون کا پہلا قطرہ زمین پر گرنےسےپہلےاس کی شہادت‘ اس کی قربانی قبول فرما لیتا ہی۔“اس نےدوسری انگلی اٹھائی۔
    ”اور تیسرا انعام یہ دیتا ہےکہ اپنےشہید کو عمر ِ جاوداں ‘ ابدی زندگی ‘ لازوال حیات عطا کر دیتا ہی۔ وہ بظاہر دنیا سےرخصت ہو جاتا ہی۔ اسےقبر میں بھی اتار دیا جاتا ہےمگر وہ فرماتا ہےکہ ”جو اس کی راہ میں شہید کئےجائیں‘ انہیں مردہ مت کہو۔ وہ زندہ ہیں۔ انہیں اس کےہاں سےرزق دیا جاتا ہےمگر ہم لوگوں کو ان کی زندگیوں کا شعور نہیں۔“ درویش نےتیسری انگلی اٹھائی۔
    سب لوگ حیرت سےبُت بنےدرویش کی جانب دیکھ رہےتھے۔ اس کی باتیں ان کےدلوں میں اتر رہی تھیں۔ کانوں میں رس گھول رہی تھیں۔ جی چاہتا تھا وہ کہتا رہےاور یہ سنتےرہیں۔عمر تما م ہو جائےمگر اس کی بات نہ رکی۔
    ”وہ جو کہتا ہےاس کا دوسرا کوئی مفہوم نہیں ہوتا۔“ درویش نےان کےخوابیدہ چہروں پر نگاہ ڈالی۔ ” اگر اس نےکہا کہ شہید زندہ ہےتو وہ زندہ ہی۔یہ دیکھو۔“
    درویش نےتابوت سےتختہ اٹھا دیا۔
    وقت رک گیا۔ لمحےساکت ہو گئی۔ ہر شےکو قرار آ گیا۔صرف ایک انجانی خوشبو تھی جو ان کےسروں پر تھپکیاں دےرہی تھی۔ انہیں اندر باہر سےجل تھل کر رہی تھی۔ ان کےچاروں طرف ‘ اوپر نیچی‘ ہر طرف اسی ایک مہک کا راج تھا۔
    ان کی نظروں کےسامنےسرمد کاچہرہ کیا آیا ‘ دل دھڑکنا بھول گئی۔پلکوں نےحرکت کرنا چھوڑ دیا۔دماغوں سےشعور کی گرفت ختم ہو گئی۔ان کےجسم تنکوں سےہلکےہو کر جیسےہوا میں اڑنےلگی۔وہ حیرت اور عقیدت کےسمندر میں غوطےکھا رہےتھی۔
    گلاب جیسےترو تازہ سرمد کےلبوں پر ایک ابدی مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔اس کےجسم کےہر زخم سےخون رِس رہا تھا۔ رِس رِس کر تابوت کی تہہ میں جم رہا تھا۔ اس کےدل کےزخم پر مانیا نےشال کا جو ٹکڑا باندھا تھا‘ وہ اب بھی زخم سےنکلنےوالےخون میں تر ہو رہا تھا۔ایک لازوال سکون کےہالےمیں دمکتےسرمد کےچہرےسےیوں لگتا تھا کہ وہ ابھی آنکھیں کھول دےگا۔ ابھی بول اٹھےگا۔ ڈاکٹر ہاشمی نےحافظ عبداللہ کا ہاتھ تھام کر اپنےامڈ آنےوالے آنسوئوں کو راستہ دےدیا۔ بیگم صاحبہ کی نم آنکھیں‘ سکینہ کی آنکھوں میں چھاتی ہوئی دھند اور ۔۔۔ صفیہ کا لرزتا کانپتا جثہ ‘ اس بات کا شاہد تھا کہ ان میں سےکسی کو بھی سرمد کی موت کا یقین نہیں آ رہا۔
    ” یہ کیسےہو سکتا ہی؟“ اچانک آدیش کی آواز نےانہیں چونکا دیا۔اس نےکہا اور ریحا کی طرف دیکھا‘ جو اسی کی طرح نظروں میں بےاعتباری لئےسرمد کےچہرےاور زخموں کو حیرت سےتک رہی تھی۔ دونوں کی نظریں ملیں۔اسی وقت درویش نے آدیش کی جانب نگاہ کی۔
    ”کیا نہیں ہو سکتا ری؟ کچھ ہمیں بھی تو بتا۔“ اس کےہونٹوں پر بڑی پُراسرار مسکراہٹ تھی۔اس نے آہستہ سےساتھ کھڑےطاہر کا ہاتھ تھام کر ہولےسےتھپتھپایا جس کےچہرےپر حیرت کےبجائےایک فخر‘ ایک ناز دمک رہا تھا۔
    ”یہ۔۔۔ یہ۔۔۔“ آدیش نےدایاں ہاتھ سرمد کےچہرےکی طرف دراز کر دیا۔ ”یہ کیسےہو سکتا ہی؟ “
    ”کھل کر بول ناں۔“ درویش نےاسےڈانٹا۔ ”کیوں سب کو خلجان میں مبتلا کر رہا ہی۔ کیا نہیں ہو سکتا؟ بول۔“
    آدیش کا ہاتھ پہلو میں بےجان ہو کر گر پڑا۔ اس نےایک نظر پاگلوں کی طرح سرمد کےچہرےکو تکتی ریحا کو دیکھا پھر سرمد کےچہرےپر نگاہ جما دی۔
    ”جس رات سرمد کو قتل کیا گیا‘ اس دن صبح میں نےاپنےسامنےاس کی شیو کرائی۔ خود اس کےناخن تراشےتھی۔ اس بات کو آج آٹھ سےدس دن ہو چکےہیں مگر۔۔۔“اس کی آواز حلق میں پھنس گئی۔
    ”مگر۔۔۔‘ ‘ درویش نےطاہر کا ہاتھ چھوڑ دیا۔”مگر آج اس کےناخن بھی بڑھےہوئےہیں اور داڑھی بھی۔ کیوں؟ یہی بات ہےناں؟“اس نے آدیش کی جانب بچوں جیسی خوشی سےدیکھتےہوئےکہا۔
    ”ہاں۔۔۔“ آدیش کےلبوں سےسرگوشی سی نکلی۔
    ”یہی سیدھی سی بات تو میں سمجھا رہا ہوں تمہیں۔ “ درویش نےمست آواز میں کہا۔ ”میرےاللہ نےکہا کہ شہید وہ ہےجو اس کی راہ میںجان دےاور یہ کہ شہید زندہ ہی‘ اسےرزق دیا جاتا ہے۔ عشق کےقاف کا نکتہ سمجھانےکےلئےیہ شہید کہاں سےچل کر یہاں آیا ہی؟ کیا کسی مردےکےناخن اور بال بڑھتےہیں؟ نہیں ناں۔ تو اور شہید کیسےبتائےکہ وہ زندہ ہی۔ کہو تو ابھی زبان سےاس کی وحدانیت کی گواہی دےدی۔ مگر سوچ لو کیا تم اسےبرداشت کر سکو گی؟ کچھ اور ثبوت درکار ہےتمہیں؟“
    ”نہیں بابا نہیں۔“ آدیش نےنفی میں سر ہلایا۔” اب کسی گواہی ‘ کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ۔ سب کچھ روشن ہو گیا۔ سب کچھ عیاں ہو گیا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہےاس کا کوئی شریک نہیں۔ محمد اس کےرسول ہیں۔“ اس نےیوں کہا جیسےکوئی ماورائی طاقت اس سےکہلوا رہی ہی۔ ” اشھد ان لا الٰہ الا اللہ و اشھد ان محمد رسول اللہ ۔صلی اللہ علیہ وسلم۔“ اس کےلبوں سےنکلا اور وہ لڑکھڑا کر زمین پر بیٹھتا چلا گیا۔گرتےگرتےاس کےہاتھ تابوت کی دیوار پر آ ٹکی۔ اس نےماتھا ہاتھوں کےدرمیان تابوت کی دیوار پر ٹیک کر آنکھیں بند کر لیں۔اس کےہونٹ اب بھی متحرک تھی۔
    ”سرمد۔۔۔“ اچانک ریحا کی بھیگی ہوئی سرگوشی نےان سب کےحواس پر تھپکی دی۔ وہ تابوت میں لیٹےسرمد کےچہرےکو والہانہ دیکھےجا رہی تھی۔ ” میں جان گئی تم زندہ ہو سرمد۔ میں تمہارےسامنےتمہارےسچےمعبود کا کلمہ پڑھتی ہوں۔ وہ جس کا فرمان اتنا سچا ہےوہ خود کیسا سچا ہو گا؟ گواہ رہنا سرمد۔ میں نےتمہارےسامنےاس کی سچائی کا دامن تھاما ہے۔“ ایک پل کو رک کر اس نےسسکی لی۔ پھر کہا۔ ” اشھد ان لا الٰہ الا اللہ و اشھد ان محمد رسول اللہ۔“
    ”جب بھی اس کےحبیب کا نام لو ریحا۔ اس پر درود ضرور بھیجو۔ سرمد کا آخری ورد یہی تھا۔ “ آدیش نےسر اٹھایا اور ریحا کی جانب دیکھ کر کہا۔”کہو ۔محمدرسول اللہ ۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔“
    ”محمد رسول اللہ۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔“ ریحا نےبےاختیار کہا اور سرمد کےپیروں کی طرف زمین پر بیٹھتی چلی گئی۔
    ”واہ ۔۔۔ واہ میرےرب۔“ درویش جھوم اٹھا۔ ”کس کےنصیب میں کیا ہےاوراسے کہاں جاکرملےگا‘ صرف تو جانتا ہی۔ صرف تو۔“پھر اس نےحافظ عبداللہ کی جانب دیکھا۔ ”حافظ۔ جا ۔ ان کو وضو کرا لا۔ رات بہت جا چکی ہی۔اب شہید سےاجازت لےلیں۔“
    حافظ عبداللہ آدیش اور ریحا کو لےکر ہینڈ پمپ کی طرف چل دیا۔
    ”کیوں بابا۔“ درویش نےجھکی کمر کےساتھ کھڑےڈاکٹر ہاشمی کی جانب مسکرا کر دیکھا۔ ”کچھ قرار آیا۔ کچھ چین ملا۔ کچھ سکون ہوا؟“
    ”ہاں بابا۔“ ڈاکٹر ہاشمی نےکمر پر ہاتھ رکھ کر سیدھا ہوتےہوئےکہا۔ ”اب کوئی دُکھ نہیں۔ کوئی غم نہیں۔ اولاد کےچلےجانےکی پھانس تو آخری دم تک دل میں کسک بن کر چبھتی رہےگی مگر ۔۔۔“ انہوں نےسرمد کےپُرسکون چہرےکو یوں دیکھا جیسےاس کی شبیہ دل میں اتار لینا چاہتےہوں۔ ” اب بےقراری نہیں رہی۔ چین آ گیا ہی۔ سرمد نےمجھےایک شہید کا باپ ہونےکا جو اعزاز دلایا ہی‘ اس کےبعد اب کوئی بےچینی ‘ کوئی بےسکونی نہیں رہی۔میرےاللہ۔“ انہوں نے آسمان کی جانب دیکھا۔ ” تیرا جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہی۔ پھر بھی اپنےاس ناقص بندےکا شکر قبول فرما۔ الحمد للہ۔الحمد للہ۔ الحمد للہ۔“ انہوں نےدونوں ہاتھ جوڑ کر پیشانی ان پر ٹکا دی اور سر جھکا لیا۔
    درویش جو انہیں مسکراتی ہوئی نظروں سےدیکھ رہا تھا‘ ایک دم چونک پڑا۔ اس نےٹبےکی طرف سے آنےوالےراستےپر نگاہ جمائی۔ پھر بڑبڑایا۔”وقت ہو گیا بابا۔ “ پھر اس نےحافظ عبداللہ کےساتھ وضو کر کےلوٹتےان دونوں کو دیکھا۔ وہ پاس آ گئےتو درویش نےاپنےکندھےسےرومال اتارا اور ریحا کےسر پر دوپٹےکی طرح ڈال دیا۔اس کا چہرہ یوں چھپ گیا جیسےاس نےگھونگٹ نکا ل لیا ہو۔
    ”سب لوگ شہید کا آخری دیدار کر لو۔ رخصتی کا وقت ہو گیاہی۔“ درویش نےذرا اضطراب سےکہا اور خود تابوت سےذرا ہٹ کر کھڑا ہو گیا۔
    وہ ایک دائرےکی شکل میں سرمد کےگرد آن کھڑےہوئی۔ان کا جی ہی نہ بھرتا تھا۔مگر کب تک۔ آخر کتنی ہی دیر بعد نہ چاہتےہوئےبھی سسکیوں اور آہوں کا نذرانہ پیش کرتےہوئےوہ ایک طرف ہٹ گئی۔ ڈاکٹر ہاشمی نےجھک کر سرمد کےماتھےپر بوسہ دیا اور طاہر انہیں پرےلےگیا۔ بیگم صاحبہ نےسرمد کےگال کو چھو کر اپنی انگلیاں چوم لیں۔ سکینہ نےاسےسر جھکا کر سلام کیا اور صفیہ اسےعجیب سی نظروں سےدیکھتی ہوئی الٹےپائوں لوٹ گئی۔
    آدیش نےسرمد کو سیلوٹ کیا۔ جھک کر اس کےپائوں چھوئےاور ایک طرف تن کر کھڑا ہو گیا جیسےپہرہ دےرہا ہو۔
    طاہر لوٹا۔ چند لمحےسرمد کےچہرےکو والہانہ دیکھتا رہا۔ پھر اس نےریحا کی جانب دیکھاجو سرمد کےپیروں کی جانب آنکھیں اس کےچہرےپر گاڑےہاتھ باندھےیوں خاموش کھڑی تھی جیسےکوئی من ہی من میں اپنےدیوتا کی پوجا کر رہا ہو۔طاہر نےسرمد کی اوپری جیب سےخون میں بھیگا ہوا رومال نکالا جس میں مدینہ شریف کی مٹی بندھی تھی اور درویش کی جانب بڑھا دیا۔ اس نےاسےکھولا۔ ہتھیلی پر رکھ کر غور سےدیکھا۔ مٹی سرمد کےخون سےبھیگی ہوئی تھی۔اس نےاسےبوسہ دیا اور حافظ عبداللہ کی طرف بڑھا دی۔
    ”اسےشہید کی قبر کی مٹی میں ملا دو حافظ۔“
    حافظ عبداللہ نےچپ چاپ مٹی والا رومال لیا اور مزار کےصحن میں کھدی قبر کی طرف بڑھ گیا۔ مدینہ شریف کی مٹی۔ اللہ کےحبیب کےدیار کی مٹی۔ ایک عاشق کی قبر کی مٹی میں ملا دی گئی۔ نصیب ایسےبھی تو اوج پر آتےہیں۔
    اس وقت اچانک درویش ریحا کےقریب آیا۔سرمد کےدل کےزخم سےرِستےلہو میں شہادت کی انگلی ڈبوئی اور وہ لہو ریحا کی مانگ میں بھر دیا۔
    ”سدا سہاگن رہو۔ سہاگ کا یہ جھومر سدا تمہارےماتھےپر جگمگاتا رہےمیری بچی۔“ درویش نےکہا اور ایک دم ریحا کا چہرہ کھل اٹھا۔ اس کےچہرےپر سرخی بکھر گئی۔ اشک برساتی آنکھوں میں مسکراہٹ کےدیپ جل اٹھی۔اس نے آخری بار سرمد کےچہرےکو جی بھر کےدیکھا پھر آنکھیں موند کر پیچھےہٹ گئی۔ وہ اس کےچہرےکو ہمیشہ کےلئےاپنےقصر تصور میں سجا لینا چاہتی تھی۔
    تب طاہر نےجھک کر سرمد کےچہرےکو دونوں ہاتھوں کےہالےمیں لیا ۔ اسےپیار کیا اور دل پر جبر کر کےسیدھا کھڑا ہو گیا۔ درویش آگےبڑھا اور تابوت کا تختہ گرا دیا۔ پھر اس نےطاہر کےساتھ مل کر تابوت کو ایک طرف یوں رکھا کہ اس کےپیچھےصف باندھ کر کھڑا ہونےکی جگہ کشادہ ہو گئی۔
    ” آئو بھئی۔ نماز کےلئےکھڑےہو جائو۔“ اس نےمردوں کو اشارہ کیا۔ ڈاکٹر ہاشمی‘ آدیش ‘ طاہر اور حافظ عبداللہ اس کےپاس چلے آئی۔عورتیں ان سے آٹھ دس فٹ دور برگد تلےخاموش کھڑی تھیں۔
    ”امامت آپ کرائیں بابا۔“ حافظ عبداللہ نےدرویش کی جانب دیکھ کر کہا۔
    ”نہیں۔“ درویش نےاندھیرےمیں ایک طرف نظریں گاڑ دیں۔ ” امام وہ آ رہا ہی۔“ اس نےاشارہ کیا۔
    ان چاروں نےحیران ہو کر اس طرف دیکھا۔ مزار کی پچھلی طرف سے آنےوالےراستےپر کوئی چلا آ رہا تھا۔ سفید براق لباس میں اس کےسر پر سفید عمامہ اور اس پر سفید ہی رومال اس طرح پڑا تھا کہ اس کا چہرہ نظر آنا ممکن نہیں تھا۔ درویش نےڈاکٹر ہاشمی اور آدیش اپنےکو بائیں اور طاہر اور حافظ عبداللہ کو دائیں کھڑا کر لیا۔
    بڑےنپےتلےقدم اٹھاتا وہ شخص آیا اور ”السلام علیکم و رحمت اللہ“کہتا ہواسیدھا سرمد کےتابوت کےسامنےامام کی جگہ جا کھڑا ہوا۔ چاروں عورتیں حیرت اور اچنبھےسے آنےوالےکودیکھ رہی تھیں۔اور حیرت میں تو حافظ عبداللہ بھی گم تھا۔ اس نےیہ آواز پہلےبھی سنی تھی۔ مگر کہاں؟ اس کا دماغ الجھ گیا۔
    اسی وقت امام نےتکبیر کےلئےہاتھ اٹھا دیی۔
    ”اللہ اکبر۔“ اس کےلبوں سےبڑی گھمبیر سی آواز نکلی۔
    ”اللہ اکبر۔“ مقتدیوں کےلبوں سےادا ہوا۔۔۔ اور مقتدیوں میں حافظ عبداللہ بھی تو تھا‘ جس کا دماغ یاد داشت کےورق الٹ رہا تھا۔
    ”السلام علیکم و رحمت اللہ۔“ امام نےباری باری دائیں بائیں سلام پھیر ا ۔ سب نےاپنی اپنی جگہ چھوڑ دی۔ امام نےدعا کےلئےہاتھ اٹھائےاور رومال میں چھپےچہرےکو اور بھی سینےپر جھکا لیا۔ پھر جب اس نے” آمین“ کہتےہوئےچہرےپر ہاتھ پھیرےتو ان سب نےبھی آمین کہہ کر دعا ختم کر دی۔ حافظ عبداللہ نےچاہا کہ آگےبڑھ کر اس پراسرار ہستی کو جا لےمگر جب تک وہ اپنےجوتےپہنتا‘ آنےوالا ”السلام علیکم و رحمت اللہ“ کہہ کر رخصت ہو گیا۔ ان سب نےچاہا کہ اس کا رستہ روکیں۔ اس سے آگےبڑھ کر ملیں۔مگر ان کےقدم من من بھر کےہو گئی۔پھر جب تک وہ لوگ ہوش میں آتی‘ جانےوالا مزار کی دیوار کےساتھ مڑ کراندھیرےمیں غائب ہو چکاتھا۔
    اور اس وقت اچانک حافظ عبداللہ کو یاد آ گیا کہ اس نےیہ آواز کہاں سنی تھی؟اس کےہوش و حواس میں طوفان برپا ہو گیا۔ یہ وہی آواز تو تھی جو اس نےاس وقت سنی تھی جب وہ سکینہ کو سیلاب کےپانی سےنکال کر لایا تھا۔ درویش کےکمرےکےباہر رکا تو اندر سےامام کی اسی آواز میں مغرب کی نماز میں قرات کی جا رہی تھی۔ وہ اس آواز کو ہزاروں لاکھوں میں پہچان سکتا تھا۔
    ”یہ۔۔ ۔ یہ کون تھےبابا؟“ حافظ عبداللہ نےدرو یش کو بےقراری سےدیکھتےہوئےپوچھا۔اس کی نظریں خالی رستےپر بار بار بھٹک رہی تھیں۔
    ”یہ۔۔۔“ درویش ہنسا۔ ”اولیا ءاللہ زندہ ہوتےہیںحافظ۔ وہ خود زندہ ہےتو اس کےدوست بھی تو زندہ ہی ہوں گےناں۔ مُردوں سےتو اس کی دوستی ہونےسےرہی۔ زندہ کی نماز زندہ ہی پڑھائےگا ناں۔مسافر ہوتا تو کسر پڑھتا۔ مقیم تھا ۔ پوری پڑھا کر گیا۔“
    حافظ عبداللہ کو تو پتہ نہیں اس بات کی سمجھ آئی یا نہیں‘ مگر طاہر کا اندر باہر روشن ہو گیا۔ اس نےبابا شاہ مقیم کے
    مزار کی جانب دیکھاجو روشنیوں میں بقعہ نور بنا اسےمسکرا مسکرا کر تک رہا تھا۔ پلٹ کر اس نےدرویش کی طرف دیکھا جس کےلبوں پر بڑی دل آویز مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔ پھر اس کی دلوں کو چھو لینےوالی آواز ابھری۔
    ”چلو بھئی۔ کندھا دو۔ شہید کو اس کےمسکن تک چھوڑ آئیں۔“
    طاہر جلدی سے آگےبڑھا۔ ان پانچوں نےتابوت کندھوں پر اٹھایا اور مزار کی طرف چل پڑی۔ جس کےصحن میں سرمد کا مسکن اس کا منتظر تھا۔سرمد۔۔۔ جس پر عشق کا قاف نازل ہو گیا تھا۔ وہ سرمد‘ جو عشق کےقاف کی گواہی دینےکےلئےبڑی دور سے آیا تھا¾ تھک گیا تھا۔ اب اسے آرام کرنا تھا۔
    درویش سب سے آگےتھا۔ اس نےقدم اٹھایا اور بلند آواز میں صدا دی:
    ”کلمہ شہادت۔“
    ”اشھد ان لا الٰہ الا اللہ۔ وحدہ‘ لا شریک لہ‘ و اشھد ان محمداً عبدہ‘ و رسولہ¾۔ “جواب میں ان کےہونٹوں پر بےاختیار ورد ِ اکبر جاری ہو گیا۔
    چہار جانب احدیت اور رسالت کےنور نےپر پھیلا دیی۔ ہر دل کی دھڑکن میں یہی الفاظ سانس لےرہےتھی۔
    دور آسمانوں میں فرشتےعشق کےقاف کےکشتہ کےاستقبال کےلئےنغمہ سرا تھی:
    ”قل ھو اللہ احد۔“
    فرش سےعرش تک حور و غلماں زمزمہ پیرا تھی:
    ”صلی اللہ علیہ وسلم۔“
    دور برگد تلےصفیہ کےکندھےسےلگی کھڑی ریحاکا دل پھڑکا۔اس کا سرمد پانچ کندھوں پر سوار اپنےگھر میں داخل ہو رہا تھا۔ ایک شفاف لہراٹھی اور آنکھوں میں پھیلتی چلی گئی ۔منظر دھندلا گیا۔ تب اس نےمحسوس کیا‘ کوئی اس کےکانوں کےقریب سرگوشیاں کر رہا ہی۔ اس نے آنکھوں میںامڈتےہوئےچمکدار ‘ بھیگےبھیگےغبار کو پلکیں جھپک کر رخساروں پر پھیلا دیا۔ کان لگا کر سنا۔۔۔اری۔ یہ تو اس کےسرمد کی آواز تھی۔ اس کےدل سے آ رہی تھی۔ دھیرےسےاسی مانوس مہک ‘ اَن چھوئی خوشبو نےاسےاپنےہالےمیں لےلیا‘ جو اس صدا کا خاصا تھی اور غیر اختیاری طور پر اس صدا کا ساتھ دینےکےلئےریحا کےہونٹ بھی متحرک ہو گئی:
    ”صلی اللہ علیہ وسلم۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔“

    ختم شد
    پھر یوں ہوا کے درد مجھے راس آ گیا

  10. #59
    Join Date
    Aug 2012
    Location
    Baazeecha E Atfaal
    Posts
    14,528
    Mentioned
    1112 Post(s)
    Tagged
    210 Thread(s)
    Rep Power
    27

    Default

    Nice Sharing :-)
    (-: Bol Kay Lab Aazaad Hai'n Teray :-)


Page 6 of 6 FirstFirst ... 456

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •