کہتے ہیں جب بیٹا پہلی بار اسکول جاتا ہے تو اپنی ماں کے پاس پورا واپس نہیں آتا ہے ۔ اپنا کچھ نہ کچھ اسکول چھوڑ کر اور ان کی یادیں لے کر آتا ہے ۔
میرا بیٹا جب پہلی بار اسکول سے اپنی چہرے پر مسکراہٹ سجائے گھر آیا اور آتے ہی کہا امی آج اسکول میں بہت مزہ آیا تو مجھے یہ بات یاد آگئی ۔ میں بھی اپنے بیٹے کو دیکھ کر مسکرائی۔
اسی طرح دن گزرتے گئے ۔ میرا بیٹا اسکول پھر کالج اور پھر یونیوڑسٹی تک پہنچ گیا ۔ اور ایک دن اعلٰی تعلیم حاصل کرنے ملک سے باہر چلا گیا ۔
یونہی دنہی دن گزرتے گئے ۔ ایک دن اس کا خط آیا کہ امی میری ایک کلاس فیلو ہے میں اس سے شادی کررہا ہوں ۔ میں بھی اپنے بیٹے کی خوشی میں خوش ہوگئی۔
بھر کچھ عرصہ بعد اس نے مجھے بتایا کہ میں ایک بیٹی کا باپ بن گیا ہوں اور بہت خوش ہوں
میں اس کو اور اس کی بچی کو ڈھیر ساری دعائیں دیں ۔
کچھ عرصے بعد وہ ایک بیٹے کا باپ بھی بن گیا ۔
میں بہت بوڑھی ہوگئی تھی اور بیمار بھی رہنے لگی تھی میں نے اپنے بیٹے کو پہلی بار کہا کہ
اب تم لوگ واپس آجاؤ اب یہاں مجھ سے اکیلے نہیں رہا جاتا
اس کا خط آیا کہ میری بیوی واپس آنے پر راضی نہیں
میں یہ سن کر خاموش ہوگئی
کچھ دنوں+بعد میرا بیٹا اچانک واپس آگیا ۔ لیکن اکیلا ۔ اس نے کہا کہ امی میں آپ کے پاس آگیا ہوں کبھی واپس نہ جانے کے لیے ۔ میں پریشان تو ہوئی لیکن اس کے واپس آنے کی خوشی اتنی تھی کہ میں کچھ اور سوچ نہ سکی
کچھ دن یونہی گزر گئے ۔ پھر میں نے اپنے بیٹے کی آنکھوں میں اداسی دیکھی۔ وہ اداس اداس رہنے لگا لیکن کہتا کچھ نہیں تھا
ایک دن میں نے اس سے اس کی اداسی کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا
امی مجھے اپنے بچے بہت یاد آتے ہیں ۔ میں اپنے بچوں کے بغیر نہیں رہ سکتا ۔
امی میں کیا کروں۔