جو تم نے ٹھان ہی لی ہے
ہمارے د ل سے نکلو گے ، تو اتنا جان لو پیارے
وفا کی سیڑھیوں پہ ہرقدم پھیلا ہوا
آرزوؤں کا لہو ضائع نہ جائے گا
سمندر سامنے ہوگا اگر ساحل سے نکلو گے
ستارے جن کی آنکھوں نے ہمیں اِک ساتھ دیکھا تھا
گواہی دینے آئیں گے
پرانے کاغذوں کی بالکونی سے بہت سے لفظ جھانکیں گے
تمہیں واپس بُلائیں گے
کئ وعدے فسادی قرض خواہوں کی طرح رستے میں
روکیں گے،تمہیں دامن سےپکڑیں گے
تمھاری جان کھائیں گے،چُھپا کر کس طرح چہرا
بھری محفل سے نکلو گے
ذرا پھرسے سوچ لو جاناں ، نکل تو جاؤ گے شاید
مگر مشکل سے نکلو گے