ایک زمانے میں ملا اور مولوی کے القاب علم و فضل کی علامت ہوا کرتے تھے۔ لیکن سرکار انگلشیہ کی علمداری میں جیسے جیسے ہماری تعلیم اور ثقافت پر مغربی اقدار کا رنگ و روغن چڑھتا گیا، اسی رفتار سے ملا اور مولوی کا تقدس بھی پامال ہوتا گیا۔رفتہ رفتہ نوبت بایں جا رسید کی یہ دونوں تعظیمی اور تکریمی الفاظ تضحیک وتحقیر کی ترکش کے تیر بن گئے۔ داڑھیوں والوں کو ٹوٹھ اور ناخواندہ لوگوں کو مذاق ہی مذاق میں ملا کا لقب ملنے لگا۔ کالجوں، یونیورسٹیوں اور دفتروں میں کوٹ پتلون پہنے بغیر دینی رجحان رکھنے والوں کو طنزوتشیع کے طور پر مولوی کہا جاتا تھا۔مسجد کے پیش اماموں پر جمعراتی، شبراتی، عیدی، بقرعیدی اور فاتحہ درود پڑھ کر روٹیاں توڑنے والے قل اعوذئے ملاؤں کی پھبتیاں کسی جانے لگیں۔ لو سے جھلسی ہویہ گرم دوپہروں میں خس کی ٹٹیاں لگا کر پنکھوں کے نیچے بیٹھنے والے یہ بھول گئے کہ محلے کی مسجد میں ظہر کی اذان ہر روز عین وقت پر اپنے آپ کس طرح ہوتی ہے؟ کڑکڑاتے ہوئے جاڑوں میں نرم وگرم لحافوں میں لپٹے ہوئے اجسام کو اس بات پر کبھی حیرت نہیں ہوئی کہ اتنی صبح منہ اندھیرے اٹھ کر فجر کی اذان اس قدر پابندی سے کون دے جاتا ہے؟ دن ہو یا رات، آندھی ہو یا طوفان، امن ہو یا فساد، دور ہو یا نزدیک، ہرزمانے میں شہر شہر، گلی گلی، قریہ قریہ ، چھوٹی بڑی، کچی پکی مسجدیں اسی ایک ملا کے دم سے آباد تھیں جو خیرات کے ٹکڑوں پر مدرسوں میں پڑا تھا، اور دربدر کی ٹھوکریں کھا کر گھر بار سے دور کہیں اللہ کے کسی گھر میں سر چھپا کر بیٹھا رہا تھا۔ اس کی پشت پر نہ کوئی تنظیم تھی، نہ کوئی فنڈ تھا، نہ کوئی تحریک تھی۔ اپنوں کی بے اعتنائی، بیگانوں کی مخاصمت، ماحول کی بے حسی اور معاشرے کی کج ادائی کے باوجود اس نے نہ تو اپنی وضع قطع کو بدلا نہ اپنے لباس کی مخصوص وردی کو چھوڑا۔ اپنی استعداد اور دوسروں کی توفیق کے مطابق اس نے کہیں دین کی شمع ، کہیں دین کا شعلہ، کہیں دین کی چنگاری روشن رکھی۔ برہام پور گنجم کے گاؤں کی طرح جہاں دین کی چنگاری بھی گل ہوچکی تھی، ملا نے اس کی راکھ ہی کو سمیٹ سمیٹ کر باد مخالف کے جھونکوں میں اڑجانے سے محفوظ رکھا۔ یہ ملا ہی کا فیض تھا کہ کہیں کام کے مسلمان، کہیں نام کے مسلمان، کہیں محض نصف نام کے مسلمان ثابت و سالم برقرار رہے۔ اور جب سیاسی میدان میں ہندوؤں اور مسلمان کی درمیان آبادی کے اعدادوشمار کی جنگ ہوئی تو ان سب کا اندراج مردم شماری کے صحیح کالم میں موجود تھا۔ برصغیر کے مسلمان عموما اور پاکستان کی مسلمان خصوصا ملا کے اس احسان عظیم سے کسی طرح سبکدوش نہیں ہو سکتے۔ جس نے کسی نہ کسی طرح کسی نہ کسی حد تک ان کے تشخص کی بنیاد کو ہر دور اور ہرزمانے میں قائم رکھا۔
ہ قدرت اللہ شہاب کے شاہکار "شہاب نامہ"