چچی جان، یہی کچھ تو میرے ماں باپ نے کیا کہ ایک آسان مسئلے کو دشوار بنا دیا اور ایسا کچھ ہی اب آپ کر رہی ہیں ۔ مریم کو طلاق دینا یا نہ دینا میرا مسئلہ ہے، وہ میں جانوں، اپنے والدین سے میں نمٹ لوں گا لیکن آپ اپنا کام کریں اور میری شادی عائشہ سے کر دیں ۔
یہ ایک بہت بڑی آزامائش تھی ۔ ایک امتحان تھا عائشہ کی امی کا ۔۔۔۔ وہ کیونکر اپنی بہو کے والدین کی مرضی کے خلاف حامد سے عائشہ کی شادی کر دیتیں جبکہ اس کا بیٹا بھی راضی نہ تھا ۔ وہ بیچاری مشکل میں پھنس گئیں ، آنٹی نے تبھی عافیت اسی میں جانی کہ وہ جلد از جلد عائشہ کا رشتہ کہیں اور طے کر دیں ، اور فورا ہی اسے اس کے گھر کا کر دیں ، تا کہ اس کے دیور، دیورانی بھی ناراض نہ ہوں اور مریم کی زندگی بھی اجڑنے سے بچ جائے ۔
آنٹی نے امی سے کہا کہ تم ہی میری مدد کرو اور عائشہ کا رشتہ تلاش کرنے میں میری مدد کرو، میرے لیے بیٹی کی شادی ایک بڑا مسئلہ ہے، اس کی شادی ہو جائے گی تو آپ ہی حامد کا خیال اِدھر سے ہٹ جائے گا ، امی نے نے اپنی ایک جاننے والی سے تذکرہ کیا کہ ہمارے پڑوس میں بہت نیک لوگ رہتے ہیں اور ان کو اپنی بیٹی کے لیے رشتہ چاہیے ان کا بیٹا اختر انجینئرنگ کر چکا تھا اور اب ایک اعلٰی کمپنی میں جاب کر رہا تھا۔ یہ اچھے کھاتے پیتے لوگ تھے، انہوں نے لڑکی دیکھی تو فورا ہاں کر دی کیونکہ ان کو عائشہ پسند آ گئی تھی ۔
یہ بات عائشہ کی امی نے راز میں رکھی، حتٰی کہ اپنی بہو تک بھی نہ بتایا کہ انہوں نے عائشہ کا رشتہ طے کر دیا ہے، سبھی کو اسی دن پتہ چلا جب عائشہ کی شادی ہونے لگی، ان دنوں حامد اپنے دفتر کے کام سے شہر گیا ہوا تھا اور جب واپس آیا تب عائشہ مایوس بیٹھی ہوئی تھی ۔
جب میں عائشہ سے ملی وہ غم سے نڈھال تھی اور رو رہی تھی کیونکہ وہ بھی حامد سے سچے دل سے پیار کرتی تھی اور اسی کی ہونا چاہتی تھی، مگر اب مجبوری تھی، ماں کے سامنے بھی سرِ تسلیمِ خم کرنا پڑا کیونکہ وہ مشرقی لڑکی تھی، بغاوت کرتی بھی تو کیسے ۔
بارات سے ایک دن پہلے حامد گھر آیا تو پتہ چلا کہ عائشہ بیاہی جا رہی ہے، اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا، وہ پستول لے کر عائشہ کے گھر آ گیا اور چچی سے کہا کہ جب میں نے آپ سے کہہ دیا تھا کہ عائشہ میری ہے ، اس کو کسی اور سے نہ بیاہنا پھر آپ نےایسا کیوں کیا، اب میں خود کو اور عائشہ کو ختم کر دوں گا ۔
آنٹی رونے لگیں، زبیدہ بھی اپنے بھائی کی منتیں کرنے لگی کہ ایسا مت کرو ہماری اور چچی جان کی ایک عزت ہے۔ اس کی دھجیاں مت بکھیرو اور عزت کے ساتھ عائشہ کو رخصت ہونے دو ۔
مگر حامد تھا کہ مسلسل کہہ رہا تھا، دیکھتا ہوں کہ کون عائشہ کی ڈولی لے کر جاتا ہے، شاید اس کی موت آئی ہے جو اس کو بیاہنے آ رہا ہے، پہلے تو میں اسی کو گولی سے اڑاؤں گا ۔
ایسا جنونی عاشق میں نے پہلے کبھی نہ دیکھا اور نہ ہی سنا لیکن سچ ہے عاشق واقعی جنونی ہوتے ہیں ۔ حامد نے عائشہ کو تو کچھ نہ کہا اور نہ ہی اس کے ہونے والے شوہر کو مارا مگر اس نے وہاں سب کے سامنے خود کو گولی مار لی ۔
ایسا قدم وہ اٹھائے گا کسی کو توقع بھی نہ تھی۔ شادی کا گھر ماتم کدہ بن گیا۔ سبھی کو معلوم ہو گیا کہ اس نے عائشہ کی خاطر خود کو گولی مار لی ہے ۔ اب تو حامد کے والدین بھی ہاتھ مل رہے تھے کہ اے کاش ہم ایسا نہ کرتے، یہ ہم نے کیا کر دیا، آج ہمارا بیٹا جان سے چلا گیا۔ عائشہ کی امی کی غم سے بری حالت تھی ۔ شادی ملتوی ہو گئی اور ہر ایک سوگ میں ڈوب گیا عائشہ اتنا روئی کہ بے ہوش ہو گئی۔ اب وہ سارے غم و غصے کا نشانہ تھی۔ اس کی بھابھی اسے مار مار کر کہتی تھی کہ تیری وجہ سے میرا بھائی مر گیا۔
مریم بھی اس حادثے کا سن کر آ گئی اور رو رو کر بین کرنے لگی کہ میرا سہاگ اسی عائشہ ڈائن نے لوٹ لیا۔ وہ ساس کا گریبان پکڑ پکڑ کر کہتی تھی کہ تم نے مجھ پر قیامت کیوں ڈھائی، اب میرا سہاگ واپس لاؤ ۔
یہ بات عائشہ کے سسرال والوں کو بد ظن کر گئی اور انہوں نے رشتہ ختم کر دیا کہ ہم اس لڑکی کو اپنی بہو نہیں بنا سکتے۔ یوں میری دوست کی زندگی تباہ ہو گئی اور وہ لوگوں کی نظروں میں گِر گئی۔ مجھ کو تو اس کی بربادی کا بڑا دکھ تھا۔ میں اسے دیکھ دیکھ کر کُڑھتی تھی۔ ایک روز میں نےسوچا کیوں نہ اختر بھائی کے گھر جاؤں اور ان کو سمجھاؤں کہ عائشہ سے شادی کر لیں کیونکہ اس حادثے میں حامد کی اپنی مرضی اور یہ اس کا اپنا فعل تھا کہ اس نے خود کشی کی، وہ تو شادی شدہ تھا ، اس میں عائشہ کا کوئی قصور نہیں تھا ۔
چونکہ یہ ہمارے جاننے والے لوگ تھے لہٰذا میں اختر بھائی کے گھر چلی گئی۔ امی سے بھی نہ پوچھا کہ وہ منع کر دیں گیں۔ جب میں وہاں گئی تو اختر بھائی نہ تھے، ان کے گھر والے بھی کہیں گئے ہوئے تھے البتہ اختر کی بہن ملائکہ سے میری دعا سلام تھی مگر اس روز میں کافی دیر بیٹھی تو میری اس کے ساتھ دوستی ہو گئی جبکہ ندیم بھی ہمارے ساتھ بیٹھا رہا۔ وہ برابر ہماری باتیں دلچسپی سے سنتا رہا اور میری ہاں میں ہاں ملاتا رہا کہ صحیح ہے کہ اس حادثے کا ذمہ دار عائشہ کو نہیں ٹھہرانا چاہیے۔ اس میں اس کا کوئی قصور نہیں ۔
رشتے تو بڑوں کی مرضی سے طے ہوتے ہیں، رابعہ! تم فکر مت کرو میں اختر بھائی کو سمجھا لوں گا تب امی بھی راضی ہو جائیں گیں۔ ندیم کی باتوں سے مجھے یہ اندازہ ہوا کہ وہ اچھے دل کا انسان ہے اور اس میں انسانیت اور شرافت موجود ہے۔ میرے دل میں اس کی جگہ بن گئی ۔ اس روز میں خوشی خوشی گھر آ گئی ۔
ندیم اور اس کے سب گھر والے شریف دکھائی دیتے تھے۔ اس کے بعد میں ملائکہ کے پاس آنے جانے لگی کیونکہ اس سے بہت اچھی دوستی ہو گئی تھی، لیکن مجھ کو جلد اندازہ ہو گیا، کہ ندیم خاصا دل پھینک انسان ہے ۔
جب بھی میں ان کے گھر جاتی وہ میری طرف تکنے لگتا اور موقع ملنے پر باتیں شروع کر دیتا اور کبھی گنگنانے لگتا، اس وجہ سے میں نے ان کے گھر آنا جانا چھوڑ دیا ۔
اب میں ملائکہ کو کیا بتاتی کہ کیوں آنا نہیں چاہتی۔ میں اس کو وجہ بتانے سے کتراتی تھی، ملائکہ کے بلانے پر میں چلی تو گئی تب ندیم وہاں پہنچ گیا اور موقع دیکھ کر اظہار محبت کرنے لگا۔ میں گھبرا گئی، اٹھ کر جانے لگی تو وہ میرا راستہ روک کر کھڑا ہو گیا اور بولا میری بات کا اعتبار کرو اگر تم نے انکار کیا تو میں بھی تمھارا پیچھا نہیں چھوڑوں گا ۔ آخر اس نے مجھ کو قائل کر لیا ۔ میں نے سوچا، واقعی عاشق جنونی ہوتے ہیں، کہیں یہ بھی وہی کچھ نہ کر گزرے جیسا حامد نے عائشہ کیلئے کیا تھا ۔
انہیں دنوں چچا جان ہمارے گھر آئے اور میرے والدین سے کہا فاخر نے تعلیم مکمل کر لی ہے، وہ برسر روزگار بھی ہو گیا ہے۔ لہٰذا اب آپ لوگ شادی کی تیاریاں شروع کریں، جب میں نے یہ سنا تو بہت پریشان ہو گئی، عائشہ کا مسئلہ حل کرتے خود مسئلہ بن گئی۔ میں نے ندیم کو بتایا اور کہا کہ تم اپنے والدین کو فورا ہمارے یہاں رشتے کیلئے بھیجو ورنہ چچا جان امی، ابو پر دباؤ ڈال کر میرا رشتہ اپنے بیٹے سے کر دیں گے ۔
میں ایک مشرقی لڑکی تھی، کبھی والدین کے سامنے سر اٹھا کر بات نہ کی تھی مگر جب لڑکی کسی لڑکے سے عہد و پیماں کر لیتی ہے تو پھر اس کو والدین کے سامنے زبان کھولنی پڑ جاتی ہے ۔
امی نے کہہ دیا ۔ رابعہ! یہ بات اپنے دل سے نکال دو کچھ بھی ہو جائے تمھاری شادی تمھارے کزن سے ہی کی جائے گی، تمھارے والد اس بات کو کسی طرح نہ مانیں گے، جو کچھ تم سوچ رہی ہو، جب میں نے کوئی راہ نہ دیکھی تو خواب آور گولیاں کھا لیں ۔ امی کو پتہ چل گیا کیونکہ میری باجی خود ڈاکٹر تھیں، فورا ان کو بلایا گیا، وہ مجھ کو کیلنک لے گئیں اور میری جان بچ گئی۔ میرے اس اقدام سے امی، ابو نے اپنا فیصلہ بدل لیا ۔ ان کو اپنا فیصلہ بدلنا ہی پڑا ۔
انہیں دنوں ندیم کی آنٹی سعودی عرب سے آ گئیں تو انہوں نے اس کو کہا تم میرے ساتھ چلو، وہاں تم بہت اچھا کما لو گے، جبکہ یہاں تنخواہ کم ملتی ہے، اس نے مجھے بتاتا کہ میں سعودی عرب جا رہا ہوں، وہاں جب سیٹ ہو جاؤں گا تو تم کو بیاہ کر لے جاؤں گا، اس طرح مجھے تسلیاں دے کر چلا گیا، اس کے بعد میں نے بہت انتظار کیا مگر وہ نہ آیا اور نہ ہی اس نے خط لکھا، کچھ دنوں بعد اس کے گھر والے بھی دوسرے شہر منتقل ہو گئے، میں اس کا انتظار ہی کرتی رہ گئی، میں آج بھی اس کا انتظار کر رہی ہوں مگر اس بے وفا کو نہ آنا تھا اور نہ وہ آیا ۔
میرے چچا زاد فاخر کی شادی بھی کہیں اور ہو گئی ہے اور اختر نے بھی شادی کر لی ہے مگر میں اور عائشہ ایک کبھی نہ ختم ہونے والے اتنظار کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں ۔
سچ یہ ہے کہ محبت بُری بلا ہے۔ لڑکیوں کو چاہیے کہ شادی ہونے تک اپنا دل و دماغ صاف ستھرا رکھیں اور کسی سے پیار نہ کریں کہ یہ ایک فریب اور دھوکا ہے، اس میں کچھ نہیں رکھا، سوائے بدنامی اور بربادی کے ۔۔۔۔۔!
درد ہجر جس نے نہ چھوڑا میرا ساتھ
ہر زخم دل زخم جگر بھرتا چلا گیا
صحرائے زندگی کا طویل تر سفر
چلتا رہا چلتا رہا چلتا چلا گیا