ہر لمحہ انتظار کا بڑھتا چلا گیا
یوں دور جدائی کا گزرتا چلا گیا
ان کے پاس آنے جانے کی تمنا میں
ہاتھوں سے میرے وقت پھسلتا چلا گیا
ہمارے گھر کے پیچھے والی گلی میں دو مکان خالی تھے ۔ ان مکانوں میں جو لوگ آئے تھے ، وہ دونوں آپس میں رشتے دار تھے ، اور یہ لوگ ہمیں بھی جانتے تھے ۔
ان کی بیٹی عائشہ سے میری دوستی تھی، حامد اس کا چچا زاد تھا جو بہت خوبصورت تھا، عائشہ اس کو دل ہی دل میں پسند کرتی تھی اور چاہتی تھی کہ اس کی شادی اس کے اسی چچا زاد سے ہو ۔
عائشہ اپنے بھائی فواد سے چھوٹی اور بہن سائرہ سے بڑی تھی یعنی وہ منجھلی تھی ، ان کے والد کو فوت ہوئے کئی سال ہو چکے تھے اور اب ان کی دیکھ بھال اور کفالت ان کے چچا زاد یعنی فواد کے والد کرتے تھے ۔
دراصل وہ اپنی بیٹی زبیدہ کی شادی فواد سے کرنا چاہتے تھے ، جب انہوں نے عائشہ کی امی سے اس کا اظہار خیال کیا تو وہ انکار نہ کر سکیں بلکہ کہا بھائی جان، اس رشتے پر میں بہت خوش ہوں، کیونکہ اس طرح ہمارا رشتہ اور مضبوط ہو جائے گا ۔
یوں فواد کی شادی زبیدہ سے ہو گئی جس کے بعد حامد اور زیادہ آنے جانے لگا کیونکہ اب یہ اس کی بہن کا گھر بھی تھا ، اس بہانے وہ عائشہ سے بھی مل لیا کرتا تھا، اس کو بھی اپنی کزن بہت اچھی لگتی تھی ، اس نے اپنے دل میں پکا ارادہ کیا ہوا تھا کہ شادی اس لڑکی سے کرنی ہے جب حامد کی ملازمت ہو گئی تو گھر میں اس کی شادی کی باتیں ہونے لگیں تب اس نے اپنے والدین کو بتایا کہ میں عائشہ کو پسند کرتا ہوں اور آپ میری شادی اس کے ساتھ کر دیں ۔
اس کو امید تھی کہ یہ کام بڑا آسان ہے جیسے ہی وہ اپنا خیال بتائے گا، والدین کو کوئی اعتراض نہ ہو گا اور وہ فورا حامی بھر لیں گے ، مگر خلافِ توقع انہوں نے بیٹے کی بات سن کر فورا منع کر دیا اور کہا بیٹے یہ رشتہ ہم ہرگز نہ کریں گے کیونکہ ہم، وٹے سٹے کے خلاف ہیں ۔" وٹے سٹے " سے اکثر ہی دو گھر بلکہ دو خاندان تباہ ہو جاتے ہیں اس لیے تم عائشہ سے شادی کا خیال دل سے نکال دو بہتری اسی میں ہے کہ بہن کی خوشیوں کا خیال کرو ۔
یہ جواب ایک گھونسے کی طرح حامد کے دل پر لگا، وہ تو سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس کے لیے عائشہ کو اپنانا اس قدر دشوار ہو جائے گا ۔ اس نے والدین کو جواب دیا کہ اگر میری شادی عائشہ سے نہیں ہو سکتی تو پھر آپ میری شادی کہیں اور کرنے کا خیال دل سے نکال دیں ۔ اس بات کو کئی دن گزر گئے۔
اب یہی ہوتا کہ جب حامد کے والدین شادی کا ذکر چھیڑتے، وہ منع کر دیتا کہ میں نے شادی نہیں کرنی، یہ مسئلہ بڑا ٹیڑھا اور گھمبیر ہو گیا تو والدین نے سوچا کہ اس سے جھوٹا وعدہ کر لیں ، اس کو راہ راست پر تو لانا ہے ، جب شادی ہو جائے گی اور بیوی مل جائے گی تب یہ خودبخود عائشہ کو بھول جائے گا ۔
اب انھوں نے چال چلی اور کہا کہ تم ہماری بات مانو گے تو ہم تمھاری بات بھی مان لیں گے۔ تم پہلے ایک شادی ہماری پسند سے کر لو ، اس کے بعد ہم تمھاری دوسری شادی عائشہ سے کر دیں گے ۔ کچھ دن سوچنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچاکہ والدین کی بات مانے بغیر عائشہ کو حاصل نہیں کیا جا سکتا، تو پھر کیوں نہ ان کی بات مان لی جائے ۔ اس نے ماں سے کہا، ٹھیک ہے ۔ میں آپ کی مرضی کی شادی کر لیتا ہوں مگر اسی شرط پر کہ میں عائشہ سے شادی ضرور کروں گا ۔
ماں بولی ٹھیک ہے ، یہ ہمارا تمھارا وعدہ رہا کہ ہم تم کو دوسری شادی کی اجازت دے دیں گے ۔ یوں والدین نے حامد کا رشتہ فیصل آباد میں طے کر دیا ۔ ایک ماہ کے بعد حامد کی شادی تھی ۔
جب بارات جانی تھی تو حامد نے کہا کہ ہمارے ساتھ بارات میں عائشہ بھی جائے گی ۔ میں اس کو ساتھ لے کر جاؤں گا ۔ اس کی ماں نہیں مان رہی تھی تو حامد نے دولہا بننے سے انکار کر دیا تب ماں نے اس کی بات مان لی۔ اور اپنے ساتھ کار میں عائشہ کو بھی بٹھا کر ساتھ لے گئیں ۔
شادی ہو گئی دلہن کو گھر لے آئے شادی کے ایک ماہ بعد ہی حامد نے والدین کو ان کا کیا وعدہ یاد دلانا شروع کر دیا ، وہ کہنے لگے، ابھی تمھاری شادی کو صرف ایک ماہ ہوا ہے ایک سال تو کسی کی بیٹی کو خوش اور سکون سے رہنے دو ۔ اس پر سوکن لاؤ گے تو کیا وہ تمھیں بد دعا نہیں دے گی ، ہم بھی اس کے میکے کی طرف سے نشانہ بنیں گے ۔ تم اتنی جلدی ہمارے اور ان کے درمیان دشمنی کیوں ڈالنا چاہتے ہو ؟
روز روز جھگڑا ہونے لگا۔ آخر کار یہ جھگڑا اتنا بڑھا کہ مریم نے میکے فون کر دیا ، تب اس کا بھائی آیا اور اس کو ساتھ لے گیا ۔
چھ ماہ مریم میکے میں رہی، پھر ساس، سسر، گئے تاکہ بہو کو منا کے لے آئیں مگر وہ نہیں آئی، کیونکہ اس کو اصل معاملے کا علم ہو گیا تھا ۔ اس نے حامد کے ساتھ ساتھ ساس، سسر کو بھی الزام لگا دیا کہ جب آپ کا بیٹا عائشہ سے شادی کرنا چاہتا تھا تو آپ نے کیوں ایسا قدم اٹھایا، اس سے جھوٹا وعدہ کیا اور مجھے قربانی کا بکرا بنا دیا ۔ یہ لوگ ناکام گھر واپس آ گئے ۔
جب عائشہ کی ماں کو اس سارے قصے سے آگاہی ہوئی تو اس نے عائشہ کی شادی کرنے کی ٹھان لی اور بیٹی کا رشتہ ڈھونڈنے میں لگ گئیں ۔ زبیدہ نے ماں کو بتایا چچی جان، عائشہ کیلئے رشتہ ڈھونڈ رہی ہیں ۔
یہ بات اتفاق سے حامد نے سن لی اور اس نے جاکر چچی کو کہا، اگر آپ نے عائشہ کی شادی کسی اور سے کی تو میں عائشہ اور اس کے دولہا کو گولی مار دوں گا ۔
چچی نے سمجھایا کہ بیٹا جی، اگر آپ لوگوں کا ایسا ارادہ تھا تو مجھے پہلے کہتے۔ میں تو خود یہی چاہتی تھی ۔ میں کبھی انکار مت نا کرتی مگر اب یہ نہیں ہو سکتا، تمھاری بہن ہماری بہو ہے اور میرا بیٹا ، کبھی تم سے عائشہ کی شادی نہیں کرنے دے گا، کیونکہ میں اپنی بیٹی کی خاطر کسی کی بیٹی کو طلاق دلوا کر اس کی زندگی تباہ نہیں کر سکتی ، نہ ہی تمھارے والدین یہ چاہیں گے اور نہ ہی میرا بیٹا مانے گا ۔