گو حسن دلفریب و دل آرا ء غضب کا تھا
تھپڑ پڑا تو وہ بھی کرارا غضب کا تھا
تھی سر کی چوٹ زیادہ ہی کچھ دل کی چوٹ سے
دونوں طرف سے عشق نے مارا غضب کا تھا
انجام کو نہ پہنچیں تھیں پچیس منگنیاں
وہ جو کبیر سن تھا کنوارہ غضب کا تھا
جمہو ریت کا کیا کرے کوئی جہاں عوام
دیتے ہوں اس پہ ووٹ کہ نعرہ غضب کا تھا
چڑیاں یہ سوچتی تھیں کہ انڈے یہیں پہ دیں
جو ڑا جو اس نے سر پہ سنوارا غضب کا تھا
پھر یوں Ûوا Ú©Û’ درد مجھے راس Ø¢ گیا