محبت ہی محبت ہے کہیں نفرت نہیں مجھ میں
جو عزت اُس کو ہے درکار وہ عزت نہیں مجھ میں
٭
حصارِ جان سے باہر نکل آنے کی خواہش ہے
اٹھانے کی مزید اب طاقتِ ذلت نہیں مجھ میں
٭
ہجومِ شہر سے آتا ہے مجھکو خوف اب اکثر
قسم کھاتا ہوں میں اب خواہشِ شہرت نہیں مجھ میں
٭
مرے ہاتھوں میں اُس کا قتل لکھا ہو نہیں سکتا
خود اپنا قتل کرنے کی بھی توطاقت نہیں مجھ میں
٭
مری ناکامیوں کا مجھ کو یہ باعث نظر آیا
کسی کی بے وجہ تعریف کی عادت نہیں مجھ میں
٭
اسی اِک فیصلے کی ساعتِ بد سے میں ڈرتا تھا
حقیقت تلخ یہ ہے اسکی اب چاہت نہیں مجھ میں
٭
ہیں میرے پاؤں کس زنجیر نے جکڑے ہوئے ساجد
بچھڑ جانے کی اُس سے کس لیئے ہمت نہیں مجھ میں