والدین کی اطاعت و فرماں برداری، اولاد کی اولین ذمہ داری

ضیاء ملت مولانا مفتی حافظ سید ضیاء الدین نقشبندی دامت برکاتہم العالیہ
نائب شیخ الفقہ جامعہ نظامیہ
بانی ابوالحسنات اسلامک ریسرچ سنٹر


اللہ تعالی نے انسان کو وجود بخشا اور والدین کو اس کے وجود کا ظاہری ذریعہ بنایا اور والدین کو رحمت و شفقت کا مظہر بناکر اولاد کی صحیح تربیت کرنا ان کے ذمہ کردیا- حقوق والدین کی بابت تاکیدی حکم کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ خالق کائنات نے سورۂ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 23 میں اپنی عبادت و بندگی کے حکم کے فورا بعد والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی تاکید کی ہے-
چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے:
وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا
ترجمہ: اور آپ کے رب نے یہ فیصلہ فرمادیا کہ تم اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کیا کرو (سورۂ بنی اسرائیل: 23)
ماں باپ کی خدمت گزاری اور اطاعت و فرماں برداری اولاد کی اولین ذمہ داری ہے-
صحیح بخاری و صحیح مسلم میں حدیث پاک ہے کہ ایک صحابی حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت بابرکت میں حاضر ہوکر عرض گزار ہوئے: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ! میرے حسن سلوک کے سب سے زیادہ حقدار کون ہیں؟ ارشاد فرمایا: تمہاری والدہ زیادہ حقدار ہے- انہوں نے عرض کیا:پھر کون، آپ نے ارشاد فرمایا: تمہاری والدہ زیادہ حقدار ہے، انہوں نے عرض کیا:پھر کون ، آپ نے ارشاد فرمایا: تمہاری والدہ ہی تمہارے حسن سلوک کی زیادہ مستحق ہے، انہوں نے جب چوتھی مرتبہ عرض کیا کہ والدہ کے بعد حسن سلوک کے زیادہ مستحق کون ہیں؟ تب آپ نے ارشاد فرمایا: تمہارے والد-
حیح بخاری،کتاب الأدب، باب من أحق الناس بحسن الصحبة .حدیث نمبر: 5971)

حدیث شریف میں ماں کوخدمت گزاری وحسن سلوک میں تین درجہ زیادہ فضیلت دئے جانے کی حکمت یہ ہے کہ ماں چونکہ تین ایسے مراحل طے کرتی ہے جس میں باپ شریک نہیں ہوتا؛حمل کا مرحلہ ،ولادت کا مرحلہ اور رضاعت کا مرحلہ-اسی وجہ سے ماں کے حق خدمت وسلوک کو باپ سے تین درجہ زائد بتلایا گیا-

اللہ تعالی نے اپنی رضامندی وخوشنودی کو والدین کی رضامندی میں رکھ دیا ہے اور اپنی ناراضگی کو والدین کی ناراضگی میں رکھدیاہے ، امام بیہقی کی شعب الایمان اور زجاجۃ المصابیح میں حدیث مبارک ہے:حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو شخص رضاء الہی کے لئے اپنے والدین کی اطاعت وفرماں برداری میں صبح کرتا ہے تو اس کے لئے جنت کے دو دروازے کھول دیئے جاتے ہیں،اور اگر والدین میں سے کوئی ایک ہوں تو ایک دروازہ کھول دیا جاتا ہے،اور جو شخص حقوق والدین کے سلسلہ میں اللہ تعالی کی نافرمانی میں صبح کرتا ہے تو اس کے لئے جہنم کے دو دروازے کھول دیئے جاتے ہیں،اگر ماں باپ میں سے کوئی ایک ہوں تو ایک دروازہ کھول دیا جاتا ہے-(شعب الایمان،حدیث نمبر: 7679- زجاجۃ المصابیح ، باب البر والصلۃ ، ج:4،ص:88)

نیز رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو کوئی فرماں بردار لڑکا اپنے ماں باپ کو محبت کی نگاہ سے دیکھتا ہے تو اللہ تعالی ہر نظر کے بدلہ اسے حج مقبول کا ثواب عطاکرتا ہے-صحابہ کرام نے عرض کیا:اگر وہ دن میں سو مرتبہ دیکھے تو کیا اسی قدر اجر ملے گا؟آپ نے ارشاد فرمایا:ہاں!اللہ بہت بڑا ہے اور کرم فرمانے والا ہے-(شعب الایمان،حدیث نمبر: 7611- زجاجۃ المصابیح ، باب البر والصلۃ ، ج:4،ص:88)

والدین کی نافرمانی کرنا ناجائز وحرام ہے،حتی کہ اگر کوئی نفل ادا کررہا ہو اور اس کی ماں اسے آواز دے تو حکم شریعت یہ ہےکہ وہ نماز کو موقوف کردے اور ماں کی خدمت میں حاضر ہوجائے-

اگر ماں باپ غیر مسلم ہوں تب بھی اسلام ان کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے،صحیح بخاری و مسلم میں روایت ہے:حضرت اسماء بنت ابو بکر رضي اللہ تعالی عنہما کی والدہ حالت شرک میں ان کے پاس آئیں تو انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا:میری ماں اسلام کی طرف مائل نہيں،کیا میں ان کے ساتھ حسن سلوک کروں؟آپ نے ارشاد فرمایا:ہاں تم ان کے ساتھ حسن سلوک کرو-
صحیح بخاری ،کتاب الأدب ، باب صلة المرأة أمها ولها زوج .حدیث نمبر: 5979-
صحیح مسلم ،کتاب الزكاة ،باب فضل النفقة والصدقة على الأقربين والزوج والأولاد والوالدين ولو كانوا مشركين.حدیث نمبر: 2372