حضرت امام بخاری رحمة اللہ علیہ اپنی صحیح بخاری میں ایک باب کے تحت تعلیقاً حضرت ابو الزناد رحمة اللہ علیہ کی ایک روایت یوں پیش فرماتے ہیں :
مسنون اور شرعی احکام بسا اوقات رائے کے برعکس ہوتے ہیں لیکن مسلمانوں پر ان احکام کی پیروی کرنا لازم ہے ۔
انہی احکام میں سے ایک یہ بھی کہ حائضہ روزوں کی قضا ادا کرے ، لیکن نماز کی قضا ادا نہ کرے ۔
صحيح بخاری ، كتاب الصوم ، باب : الحائض تترك الصوم والصلاة
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ حکم کہ حائضہ نماز کے بجائے صرف روزوں کی قضا ادا کرے ، صحیح مسلم کی درج ذیل حدیث میں بیان ہوا ہے :
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ :
حضرت معاذہ (رضی اللہ عنہا) نے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ حائضہ روزوں کی قضا کرتی ہے اور نماز کی قضا نہیں کرتی ؟
ام المومنین (رض) نے جواب دیا :
ہم عورتوں کو حیض آتا پھر حکم ہوتا روزوں کی قضا کرنے کا اور نماز کی قضا کا حکم نہ ہوتا ۔
صحیح مسلم ، كتاب الحیض ، باب : وجوب قضاء الصوم على الحائض دون الصلاة ، حدیث : 789
انسانی عقل یا انسانی رائے تو یہ کہتی ہے کہ نماز کی قضا ہونی چاہئے۔ کیونکہ نماز روزانہ کا امر ہے جبکہ روزہ صرف مخصوص دنوں کا۔ اور پھر شریعت میں روزے پر نماز کو فوقیت حاصل ہے۔ اور قرآن میں بیشمار جگہ نماز قائم کرنے کا حکم بیان ہوا ہے۔
مگر دیکھ لیجئے کہ انسانی عقل کے برخلاف شریعت کا حکم ہی الگ ہے۔
درحقیقت سیدھی سی بات یہ ہے کہ انسانی عقل محدود ہے اور مجبور ہے کہ اپنا راستہ وحی (قرآن+سنت) کی روشنی میں طے کرے۔
منکرینِ حدیث کے پروپگنڈے یا ان کے "پروموٹرز" کا سارا زور قرآن کریم کی ان ہی آیات مبارکہ پر ہوتا ہے جن میں عقل و بصیرت سے کام لینے کا ذکر ہے۔
یہ حضرات صرف انہی آیات کا ذکر کرتے اور انہیں بار بار دہرایا کرتے ہیں۔ مگر جن آیات میں عقل کو "وحی" کے تابع رکھنے کی ہدایت ہے ، ان کا کبھی ذکر نہیں کرتے !!
اللہ تعالیٰ تو فرماتے ہیں :
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ
جب اللہ اور اس کا رسول کسی بات کا فیصلہ کر دیں تو اس کے بعد مومن مرد یا عورت کا کچھ اختیار باقی نہیں رہتا۔
( سورة الاحزاب : 33 ، آیت : 36 )
یعنی اس کے بعد عقل کا استعمال حرام ہو جاتا ہے۔
پھر مومنوں کو اللہ تعالیٰ یہ حکم بھی دیتے ہیں :
فَلاَ وَرَبِّكَ لاَ يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لاَ يَجِدُواْ فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُواْ تَسْلِيمًا
اگر وہ اپنے اختلاف میں رسول اللہ کو قاضی نہ بنائیں اور ان کا فیصلہ بلا چوں و چرا اور برضا و رغبت تسلیم نہ کریں تو وہ مومن ہو ہی نہیں سکتے۔
( سورة النسآء : 4 ، آیت : 65 )
اور اس طرح فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم (حدیث) کے سامنے بھی عقل کے استعمال پر اتنی شدید پابندی لگا دی گئی ہے۔
ان سب باتوں کے باوجود داد دیجئے ہمارے صاحبان علم و عقل کو جو "مولویت" کا شور مچاتے تو کبھی نہیں تھکتے مگر قرآن کی ان واضح آیات کے مقابلے میں یوں عقل پرستی کو دین پر ترجیح دلا رہے ہیں۔