بسم اللہ الرحمن الرحیم
حمد و ثناء کے بعد!
اللہ کے بندو ! تم پر وہ ماہ مقدس سایہ فگن ھو چکا ہے جو بڑی عظمتوں اور بڑائیوں والا مہینہ ہے ، جس میں جنت کے دروا*زے کھول دیۓ جاتے ہیں اور نار جہنم کے دروا*زے بند کر دیۓ جاتے ہیں اور اس ماہ میں اللہ تمھارے نیکی کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کو دیکھتا ہے ـ اللہ تعالی کو بھلائ کر کے دکھا دو ـ سعاتمند وہ ہے جسے رحمت الہی نے چھو لیا اور وہ مغفرت و رضاء اور اللہ کی خوشنودی پانے میں کامیاب ھو گیا اور شقاوت و بدبختی اس کا مقدر بن گئ جو اس رحمت و مغفرت اور جہنم سے آزادی کے اس ماہ میں بھی اللہ عزوجل کی رحمتوں سے محروم رہا
مسلمانو ! کوتاہی کرنے والے ، اپنے اوقات کو برباد کرنے والے ، لہو و لعب میں مصروف ، غفلت مجرمانہ میں محو اور لاپرواہ انسانوں کے گروہ کے مقابلے بیدار مغز مؤمن صادق اپنی اس عمر کے اوقات کو غنیمت سمجھتا ہے جو اسے اللہ تعالی نے مرحمت فرماۓ ہیں اور ان اوقات میں سے سیزن برآوردہ ماہ رمضان میں روزوں کی گھڑیاں ہیں جنھیں وہ اپنے رب سے تجارت و استقامت کا خاص سیزن سمجھتا ہے اس امید کے ساتھ کہ اسکی دلی آرزو و تمنا پوری ھو جاۓ اور تاکہ اس کی دنیوی زندگی سنور جاۓ اور انجام بخیر ھو جاۓ اور قیامت کے دن بھی وہ حسن عاقبت سے سرفراز ھو جاۓ ـ
روزے کے فوائد و ثمرات اور آثار جمیلہ حساب و شمار سے باھر ہیں البتہ ایک واضح اثر جو اس مبارک فریضہ میں دیکھا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ سرکش و بے لگام زبانیں بھی اس ماہ میں نرم ، سیدھی اور پاک ھو جاتی ہیں اور ناپسندیدہ کلمات اور بری باتیں چھوڑ دی جاتی ہیں تاکہ اس سے مومن کامل کی وہ صفت وجود میں آ جاۓ ہے جس کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے :
مومن لعن طعن کرنے والا ، فحش گو اور بازاری و سوقیانہ زبان والا نہیں ھوتاـ
مسند احمد و ترمذی باسناد صحیح
اے اللہ کے بندو ! روزے کے اس تربیتی اثر اور پہلو کی طرف خاص طور پر توجہ دینی چاہیۓ اور یہی عقل و دانش کی شان اور اھل بصیرت کا منہج و طرز عمل ہے کیونکہ زبان کی آفتیں اور اسکے اضرار و نقصانات بہت ہی خوف ناک ہیں اور انہی کا انجام خطرناک ہے جس سے ڈرنا چاہیۓ ـ اس کے نتیجہ میں بلائيں آتی ، بیماریاں جڑ پکڑتی اور دواء نایاب ھوتی ہے اور باھم بغض و عداوت پیدا ھوتے ہیں اور کبھی کبھی نوبت بغض و عدوات پر آ جانے کے بعد شفاء کی امید کا چراغ ہی گل ھو جاتا ہے ـ
اے اللہ کے بندو ! اس سلسلہ میں آپ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد کافی ہے جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت معاذ رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا تھا جب انھوں نے بڑے تعجب سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے سوال کیا تھا ـ [ کیا اپنی باتوں پر بھی ھمارا مواخذہ ھو گا ؟ تب نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تھا :
اے معاذ ! تیری ماں تجھے گم پاۓ ـ لوگوں کو انکے جہنم میں منہ کے بل یا فرمایا : ناک کے بل ـــ اگر انکی زبان سے نکلے کلمات کے نتیجہ میں نہ ڈالا گیا تو پھر کس وجہ سے جھونکا جائیگا ـ ؟
مسند احمد ، ابوداؤد ، ترمذی ــ باسناد حسن
لھذا روزے دار مسلمان کو اپنے رب کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان مبارک سے نکلے اس وعدے کو پانے کی کوشش کرنی چاہیۓ جو آپ نے ان الفاظ میں فرمایا ہے :
جس نے رمضان کا روزہ اللہ پر ایمان رکھتے ھوۓ اور اسی سے ثواب پانے کی خالص نیت سے رکھا ، اسکے سابقہ تمام گناہ بخش دیے جاتے ہیں ـ
صحیح بخاری و مسلم
مسلمان کو چاہیۓ کہ ھمیشہ یہ بات ذھن میں رکھے کہ کسی مسلمان کو گالی دینا فسق و گناہ کبیرہ ہے جیسا کہ صادق و مصدوق نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی صحیح حدیث میں آیا ہے اور اس فسق سے مراد یہ ہے کہ اسکا یہ فعل اللہ تعالی کے احکام کی نافرمانی اور ان سے سرکشی اور اسکی قائم کردہ حدود سے تجاوز ہے ـ ایسے فعل سے اسکا ارتکاب کرنے والا خود اپنے آپ پر کھلا ھوا ظلم کرتا ہے اور وہ یوں کہ وہ اپنی زبان کو لعن طعن ، فحش گوئ اور سوقیانہ کلام کرنے پر لگاتا ہے جو کہ اس کے لۓ حلال نہیں ہے اور نہ ہی اخوت اسلامی کے حقوق اس بات کی اجازت دیتے ہیں ـ جن حقوق اخوت میں اللہ تعالی نے برکت فرمائ ہے اور مومنوں کو اسی وصف سے متصف کیا ہے ـ چنانچہ ارشاد الہی ہے :
بیشک مومن باہم بھائی بھائی ہیں
( الحجرات : 10)
اور اللہ تعالی نے اسی اخوت میں نقص پیدا کرنے ، اسکی صفائ و ستھرائ کو گدلا و گندا کرنے اور اسکی توھین و بے حرمتی کرنے والوں پر سخت نکیر کی ہے ـ
اور اسی طرح ہر مسلمان کو یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ روزے کی حالت میں ان غلاظتوں سے اپنی زبان کو گندا کرنا بہت ہی برا فعل ، شدید منکر عمل اور انتہائ حرام حرکت ہے ـ یہی وجہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سلسلہ میں خصوصا ھدایت فرمائ ہے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے :
روزہ ڈھال ہے ـ تم میں سے جب کسی کا روزہ ھو تو اسے چاہیۓ کہ بدزبانی اور شور وغوغا یا غل غپاڑہ نہ کرے ، اگر اسے کوئ دوسرا شخص گالی دے یا گلے پڑے تو اس سے کہہ دے : میں روزے سے ھوں ، میں روزے سے ھوں ـ
صحیح بخاری و مسلم
یہ کہنا کہ میں روزے سے ھوں اس سے مراد یہ ہے کہ بندہ اپنے آپ کو یہ باور کرواۓ کہ میں روزے سے ھوں تاکہ اسکےنفس میں جو شر سر اٹھا رہا ہے اس کا جوش ٹھنڈا پڑ جاۓ اور سامنے والے مسلمان کو بھی یاد دلاۓ کہ میں روزے سے ھوں ، شائد اسے بھی یہ سن کر کچھ رحم آ جاۓ اور جس برے ارادے سے وہ اٹھا ہے اس سے وہ باز آ جاۓ اور جو دشنمی نکالنے کیلۓ وہ سامنے آیا ہے وہ اس سے رک جاۓ ـ
نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی ان اعلی ہدایات و تعلیمات میں اپنے نفس کے گھوڑے کو لگام دینے اور برائ کا جواب برائ سے دینے کا بہترین علاج موجود ہے ، اسی طرح ان ھدایات نبویہ میں زبان کو جہالت ، گالی گلوچ ، اور لڑائ جھگڑوں سے لگام دینے کا طریقہ بھی ہے کیونکہ معمولی لڑائیاں ہی بعد میں عداوت و دشمنی ، بغض و نفرت اور باھمی فساد و بگاڑ کا باعث بنتی ہیں ـ
اسی طرح ان ھدایات نبویہ میں یہ چیز بھی پائ جاتی ہے کہ روزے کا فریضہ ایک بڑا موقع ہے کہ آدمی اس میں مجاھدہء نفس کی عادت ڈال لے اپنے نفس کا تزکیہ کر لے اور ان روزوں کے شب و روز میں روزے دار یہ اچھی عادت ڈال لے اور اپنے مسلمان بھائیوں کو بھی نرم انداز سے ان عادات کو اپنانے کی طرف متوجہ کرے ، نہ کہ ان پر تشدد کر کے انھیں اس طرف مائل کرے ـ اور اس ماہ میں اگر وہ ان امور کی عادت ڈال لیں گے تو آئندہ وقت کیلۓ یہ انکا زاد راہ اور اندوختہ سفر بن جاۓ گی اور ساتھ ہی ساتھ یہ اس بات کی واضح نشانی بن جاۓ گی کہ روزہ اپنی اصل غرض و غایت اور فلسفہ یعنی تقوی تک پہونچا دیتا ہے ـ
جس کا تذکرہ کرتے ھوۓ اللہ تعالی نے فرمایا ہے :
اے ایمان والو ! تم پر روزے فرض کۓ گۓ ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر بھی فرض کۓ گۓ تھے تاکہ تم متقی بن جاؤ ، یہ گنتی کے چند دن ہیں ، تم میں سے جو شخص مریض یا مسافر ھو وہ دوسرے دنوں میں ( چھوٹے ھوۓ روزوں کی ) گنتی پوری کر لے اور جو لوگ طاقت رکھتے ہیں وہ مسکین کو کھانا کھلا کر فدیہ دیں اور اگر کوئ شخص نیکی کرنے میں سبقت کرے تو یہی اس کے لۓ بہتر ہے لیکن تمھارے حق میں بہتر کام روزہ رکھنا ہی ہے اگر تم باعلم ھو تو ـ
اے اللہ کے بندو ! اس ماہ مبارک کے روزے جیساکہ اللہ نے ان کا حکم فرمایا ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے بیان فرمایا ہے یہ دراصل ایک انتہائ مؤثر پیغام ہے جو دلوں اور عقلوں پر اپنے اثرات مرتب کرتا ہے لھذا امت پر واجت ہے کہ وہ اس پیغام کو دنیا کے سامنے اللہ تعالی کی مکمل اطاعت کی واضح دلیل بنا کر پیش کریں اور اللہ کے احکام کی اطاعت اور اسکے نواہی سے اجتناب کی برھان بنائیں اور اس پیغام کو اپنی تمام محبوب ترین چیزوں پر اولیت و ترجیح دیں ـ اسی کے ذریعے اپنے نفوس کا تزکیہ کریں اور درجات کمال میں ترقی پائيں اور تعلقات و روابط کی استواری سے اخوت اسلامی کے رشتے کو مزید مضبوط کریں اور امت اسلامیہ کے افراد میں باھم رحم و کرم اور الفت و محبت کی فضاء قائم کریں ـ
اے اللہ کے بندو ! اللہ کا تقوی اختیار کرو اور اس پیغام کو زندہ و مؤثر انداز سے دنیا تک پہونچانے کیلۓ اس کے تحفظ و سلامتی کیلۓ ہر قسم کی چارہ جوئ کرو ـ
اسی کے ذریعے اپنے بندوں میں سے اللہ تعالی جسے چاہتا ہے ھدایت سے نوازتا ہے اور وہ بڑا حکمت و خبر رکھنے والا ہے ـ
سبحان ربک رب العزة عما یصفون و سلام علی المرسلین والحمد للہ رب العالمین
خطبہ الشیخ / اسامہ الخیاط
امام المسجد الحرام