سبز، نیلی، سرخ، پیلی، اُودی اُودی چوڑیاں
چھنچھناتی، جھنجھناتی، کھنکھناتی چوڑیاں
رنگ و قوم و نسل میں کرتی نہیں یہ امتیاز
گوری، کالی، سانولی بانہیں سجاتی چوڑیاں
ٹوٹ جاتی ہیں ذرا سی ٹھیس لگ جائے اگر
چوڑیوں سی لڑکیاں یا لڑکیوں سی چوڑیاں
چوڑیوں کا ٹوٹنا اک حادثہ ہوتا ہے گو
ٹوٹتی تو ناز کرتی ہیں عروسی چوڑیاں
آہ کم سن چوڑیاں جو بھائیوں نے توڑ دیں
خوش ہوں یا ماتم کریں حیراں ہیں ایسی چوڑیاں
اے خدائے لَم یَزَل فریاد ہے فریاد ہے
کہہ رہی ہیں جامعہ حفصہ میں بکھری چوڑیاں
تم تو فوجی بھائی، رکھوالے، ہمارا ناز تھے
بولتی ہیں خوں میں بہنوں کی نہائی چوڑیاں
نرم نازک، چھوئی موئی بانہہ کا زیور تھیں یہ
چورہ چورہ، ریزہ ریزہ، ننھی منی چوڑیاں
عصرِ نو کی روشنی ہے جاہلیت کا بروز
دفن کر دِیں جاگتی بیٹی کی جیتی چوڑیاں
رہروِ روشن خیالی جانبِ منزل چلا
ننھی بانہیں کاٹ کے، پِسوا کے کچی چوڑیاں
حافظہ، اک قاریہ، اک فاضلہ، اک عالمہ
شوق سے پہنی تھیں سب نے ایک جیسی چوڑیاں
کر دیے چنگیز نے مینارِ سر غائب تو کیا
دے رہی ہیں بربریت کی گواہی چوڑیاں
بے حیا بن کر جیے جانے سے بہتر موت ہے
لکھ گئیں دیوار و در پہ خوں میں ڈوبی چوڑیاں
قصّئہ اصحابِ کہف و خندق و کرب و بلا
کر گئیں تازہ اکابر کی کہانی چوڑیاں
کل تلک کہتے تھے اِن کو بزدلی کی اک مثال
بن گئی ہیں اب شجاعت کی نشانی چوڑیاں
کب تلک آسانیٴ تن؟ خوابِ غفلت کب تلک؟
جاگ! مسلم جاگ! دیتی ہیں منادی چوڑیاں