رہتے تھے پستیوں میں مگر خود پسند تھے
ہم لوگ اِس لحاظ سے کتنے بلند تھے
آخر کو سو گئی کھلی گلیوں میں چاندنی
کل شب تمام شہر کے دروازے بند تھے
گزرے تو ہنستے شہر کو نمناک کر گئے
جھونکے ہوائے شب کے بڑے درد مند تھے
موسم نے بال و پر تو سنوارے بہت مگر
اُڑتے کہاں کہ ہم تو اسیرِ کمند تھے
وہ ایک تو کہ ہم کو مٹا کر تھا مطمئن
وہ ایک ہم کے پھر بھی حریصِ گزند تھے
محسن ریا کے نام پہ ساتھی تھے بے شمار
جن میں تھا کچھ خلوص وہ دشمن بھی چند تھے