گمنام دیاروں میں سفر کیوں نہیں کرتے
اجڑے ہوےّ لوگوں پہ نظر کیوں نہیں کرتے
یہ خواب یہ خوشیوں بھرے ہنستے ہوےّ یہ خواب
یہ خواب مرے دل پہ اثر کیوں نہیں کرتے
خواہش کے ، طمانیتِ احساس کے پنچھی
کچھ روز میرے گھر بسر کیوں نہیں کرتے
صبحوں سے ہیں مغلوب تو پھر زُعم ہے کیسا
راتوں پہ ہیں غالب تو سحر کیوں نہیں کرتے
یہ لوگ مسلسل ہیں جو اک خوف کے قیدی
اس خوف کی دیوار میں در کیوں نہیں کرتے
کیوں آپ اٹھاتے ہو اداسی کے یہ اسباب
شاموں کے غلاموں کو خبر کیوں نہیں کرتے