شوق کا رنگ بُجھ گیا یاد کے زخم بھر گئے
کیا میری فصل ہو چُکی کیا میرے دن گُزر گئے
راہگُزرِ خیال میں دوش بدوش تھے جو لوگ
وقت کے گردباد میں جانے کہاں بکھر گئے
شام ہے کتنی بےتپاک شہر ہے کتنا سہم ناک
ہم نفسو کہاں ہو تم جانے یہ سب کدھر گئے
آج کی شام ہے عجیب کوئی نہیں میرے قریب
آج سب اپنے گھر رہے آج سب اپنے گھر گئے
رونقِ بزمِ زندگی طُرفہ ہیں تیرے لوگ بھی
اک تو کبھی نہ آئے تھے، گئے تو رُوٹھ کر گئے
خوش نفسانِ بےنوا، بے خبرانِ خوش ادا
تِیرہ نصیب تھے مگر شہر میں نام کر گئے
آپ بھی جون ایلیا سوچئے اب دھرا ہے کیا
آپ بھی اب سدھاریئے آپ کے چارہ گر گئے